Connect with us
Monday,07-April-2025
تازہ خبریں

سیاست

دین کی خاموش خدمت انجام دینے والا ایک چھوٹا سا مدرسہ ایسا بھی جہاں بڑی عمر کی خواتین بھی ختم قرآن کی سعادت حاصل کر رہی ہیں

Published

on

madrasa

مالیگاؤں (نامہ نگار) مالیگاؤں کے عائشہ نگر نامی علاقے میں واقع سونیا گاندھی کالونی کے ایک فلیٹ میں خواتین اور بچیوں کے لیے ایک مدرسہ گزشتہ پندرہ برسوں سے جاری ہے، جو ہزار کھولی کے مدرسہ اہل سنت عربیہ نورالعلوم کی ایک شاخ ہے ، شیخ غلام رسول آپریٹر، ڈاکٹر رئیس احمد رضوی اور عقیل بھائی رکشہ والے کی زیر نگرانی یہ مدرسہ ایسی خاموش خدمات انجام دے رہا ہے جو بہت متاثر کن ہے ، رضا اکیڈمی اور مدرسہ تہذیب البنات کی سرپرستی بھی اس مدرسے کو حاصل ہے .رضا اکیڈمی کے شکیل احمد سبحانی نے بتایا کہ گزشتہ دنوں نور باغ جانا ہوا، سونیا گاندھی کالونی کا وہ مدرسہ یاد آیا اور ہم لوگ وہاں پہنچ گئے ، جہاں مدرسہ اہل سنت تہذیب البنات سے شعبہ ء عالمیت میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد سے صبیحہ کوثر خدمت دین انجام دے رہی ہیں ، اپنی معلمہ صاحبہ کو دیکھ کر آس پاس کی بچیاں بھی مدرسے میں جمع ہوگئیں ، میں نے ان بچیوں سے پوچھا کہ تمہارے اس مدرسے سے اس بستی میں دین کی کیسی خدمت ہورہی ہے؟ سب نے بتایا کہ آس پاس کی چند گلیوں کے لیے یہ مدرسہ دینی تعلیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے ، صرف ہم ہی نہیں بلکہ ہمارے محلے کی جو بچیاں شادی ہوجانے کے سبب اس محلے کو چھوڑ چکی ہیں ان سبھوں نے بھی اسی مدرسہ میں قرآن شریف پڑھنے کی سعادت پائی اور دین کی تعلیم حاصل کی ، اسی دوران ان بچیوں نے بتایا کہ ہمارے اس مدرسے کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ اس میں جہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں علم دین حاصل کرتی ہیں ، وہیں بڑی عمر کی خواتین بھی مدرسہ پڑھتی ہی. میں نے دریافت کیا کہ کیا مطلب ؟ کیا وہ روزانہ مدرسہ آتی ہیں یا ہفتہ واری درس میں شریک ہوتی ہیں ، بچیوں نے بتایا کہ روزانہ مدرسہ بھی آتی ہیں اور درس میں بھی شریک ہوتی ہیں می‍ں نے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے لیکن وہ مدرسہ آتی ہیں تو کچھ پڑھتی بھی ہیں یا یوں ہی کچھ وعظ و نصیحت سن کر چلی جاتی ہیں. اس سوال پر مدرسے کی معلمہ صبیحہ کوثر نے بتایا کہ اس ماہ کے آخری عشرے میں جب ہمارے اس مدرسے کا سالانہ جلسہ ہوگا تو کمسن بچیوں کے ساتھ ساتھ پانچ بڑی عمر کی خواتین کو بھی ناظرہ ختم قرآن کی سند دی جائے گی …….
میں نے دریافت کیا کہ بڑی عمر کا مطلب کیا؟
تیس چالیس برس ….. ؟
تو صبیحہ آپا نے بتایا کہ دو خواتین پچاس برس کے قریب اور دو خواتین پچپن برس کے آس پاس ہیں ، جنہوں نے اسی مدرسے میں حروف کی پہچان کی اور اب ختم قرآن کر رہی ہیں، یہ سن کر عجیب سی خوشی محسوس ہوئی اور میں نے فوراً کہا کہ کیا انہیں ابھی مدرسے میں بلایا جا سکتا ہے؟ تاکہ ہم بھی دیکھیں کہ کس طرح وہ قرآن پڑھتی ہیں اور جان سکیں کہ اس عمر میں انہیں کس طرح علم دین حاصل کرنے کی ترغیب ملی ؟ صبیحہ آپا نے کہا کیوں نہیں ؟ بچے ابھی انہیں بلا لائیں گے ، پانچ دس منٹوں میں ہی اپنی زندگی کی چار پانچ دہائیوں کو عبور کر لینے والی اس مدرسے کی وہ تمام طالبات اپنے مادر علمی میں موجود تھیں ، جو اپنی مثال آپ ہیں.
ان کے آتے ہی میں نے جو چند سوالات کیے وہ یہ تھے
سوال : کیا آپ سب بھی اس مدرسہ میں پڑھتی ہیں
جواب : جی ہاں، ہم اسی مدرسے میں پڑھتی ہیں
سوال : اپنا نام اور عمر بتائیں
جواب : ذکیہ شیخ خلیل ( 32 سال ) نسیم بانو سراج علی( 42 سال) رئیسہ شیخ سلیم ( 47 سال) رحیمہ بی شیخ سلیم ( 52 سال) قمرالنساء عبدالسلام ( 55 سال)
سوال : کیا آپ سب ہمارے سامنے قرآن کریم پڑھ سکتی ہیں ؟
جواب : بالکل پڑھ سکتی ہیں .
سوال : قرآن پاک کا کون سا پارہ آپ سب بہ آسانی پڑھ سکتی ہیں ؟جواب : آپ جو بھی پارہ کہو، ہم سنانے کی کوشش کریں گے.
انتہائی پر اعتماد انداز میں جس طرح ان پانچوں خواتین نے جواب دیا ، اس کے بعد اس بات کی قطعی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی تھی کہ ان سے قرآن کریم سنا جائے ، لیکن چونکہ اس عنوان پر ایک مضمون قلمبند کرنے کا ذہن میں نے بنا لیا تھا اس لیے بہتر یہی تھا کہ قرآن کی کچھ آیتیں ان سے سن لی جائیں تاکہ جو کچھ لکھا جائے وہ مشاہدات پر مبنی ہو. اس لیے ہم نے یکے بعد دیگرے ان پانچوں خواتین سے قرآن کریم کو متعدد مقامات سے سنا اور دیکھا کہ واقعی جو کچھ انہوں نے کہا تھا اسی کے مطابق وہ قرآن کریم کی تلاوت بھی کر رہی تھیں .
جب قرآن پاک پڑھنے کا سلسلہ ختم ہوا تو پھر کچھ سوالات ہم نے ان سے کیے . پہلا سوال تھا .کتنے دنوں سے آپ سب مدرسہ آرہی ہیں .کسی نے کہا دیڑھ سال کسی نے دو سال، جب پوچھا گیا کہ اتنی عمر گزر جانے کے بعد مدرسہ آنے کا خیال کیسے پیدا ہوا، تو انہوں نے بتایا کہ اس مدرسے کی معلمہ صبیحہ کوثر نے ہماری ذہن سازی کی، ہمیں ہمت و حوصلہ دیا اور بتایا کہ علم حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے، صبیحہ کوثر کی ان باتوں نے ہمیں قرآن کریم پڑھنے اور دین کو سمجھنے کا ایسا موقع دیا جسے ہم کبھی بھول نہیں سکتے .انہوں نے بتایا کہ ہم سے قبل بھی محلے کی کچھ بزرگ خواتین نے صبیحہ کوثر کے پاس اس مدرسے میں قرآن کریم پڑھا تھا ، وہ خواتین ہمارے لیے رہنما ثابت ہوئیں .
سوال : اب جب کہ آپ سب قرآن کریم پڑھنا سیکھ چکی ہیں تو کیسا محسوس ہو رہا ہے ؟
جواب : ہم سب بہت خوش ہیں کہ ہم نے قرآن کریم پڑھ کر اپنے لیے توشہ ء آخرت جمع کر لیا ہے ،
سوال : یہ تو ایک چھوٹا سا مدرسہ ہے لیکن دین کی بڑی خدمت یہاں سے ہو رہی ہے ، اس کے متعلق کیا کچھ کہنا چاہیں گے آپ.
جواب : ہم چاہیں گے کہ یہ مدرسہ بڑا ہوجائے اور دین کی مزید خدمت یہاں سے ہو ، لیکن ہماری نظر میں یہ چھوٹا سا مدرسہ ہی بہت بڑا ہے اس لیے کہ یہیں سے ہم لوگوں نے قرآن کریم کو پڑھنا سیکھا ، اگر یہ مدرسہ اور یہ معلمہ نہیں ہوتی تو شاید ہم قرآن کریم پڑھنے کی اس نعمت سے محروم ہو جاتے جو ہمیں حاصل ہوئی.
سوال : اپنے محلے کی ان ماؤں بہنوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گی ، جو کسی وجہ سے علم دین حاصل کرنے سے محروم رہے .
جواب : ہم ان سے یہی کہیں گے کہ مایوس نہ ہوں بلکہ ڈر، خوف اور جھجھک کو چھوڑ کر ہماری طرح وہ بھی اس یقین کے ساتھ مدرسہ آئیں کہ ہمیں بھی قرآن کریم پڑھنا ہے اور علم دین حاصل کرنا ہے . یہ تھے ایسی ماؤں بہنوں کے احساسات اور جذبات جو اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ گزار لینے کے بعد علم دین حاصل کرنے کی جانب متوجہ ہوئی تھیں اور اس راہ میں کامیابی کے بعد وہ اس قدر خوش ہیں کہ اپنے مدرسے کے لیے اور دین کی خدمت کا بہترین جذبہ رکھنے والی اپنی فرض شناس معلمہ کا شکر ادا کرنے کے لیے جن کے پاس الفاظ نہیں ہیں. یقینی طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں اس مدرسہ کے سرپرست اور ذمہ داران جنہوں نے زندگی کی بہت ساری مصروفیات کے باوجود اس مدرسے کو فراموش نہیں کیا ، اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے وطفیل اس کی بہترین جزا انہیں عطا فرمائے . آمین. اس مدرسے میں بیٹھے بیٹھے جو بات میرے ذہن میں گردش کر رہی تھی وہ یہی تھی کہ کیا ہی بہتر ہوتا اگر مدرسے سے متصل کوئی اور فلیٹ بھی حاصل کرکے اس مدرسے کو وسیع کردیا جاتا .میں سمجھتا ہوں مدرسہ عربیہ نورالعلوم کے منتظمین و ذمہ داران اگر غلام رسول بھائی آپریٹر، ڈاکٹر رئیس احمد رضوی اور عابد بھائی رکشہ والے کی سرپرستی میں اس جانب متوجہ ہوتے ہیں تو یہ کام کچھ مشکل نہیں ، برسہا برس سے جو مدرسہ دین کی خاموش خدمت انجام دے رہا ہے ، اس کی ترقی کے لیے قوم کے مخیر حضرات بھی ان شاء اللہ تعالٰی اپنا دست تعاؤن دراز کریں گے .

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

سیاست

شیو سینا یو بی ٹی غیر مراٹھی لوگوں کو مراٹھی سکھانے کی مہم شروع کرے گی، زبان کے نام پر ایم این ایس پر تشدد کی مذمت، بی جے پی پر ملی بھگت کا الزام۔

Published

on

UBT-Anand-Dubey

ممبئی : مہاراشٹر میں ‘زبان’ کا تنازع ایک بار پھر بڑھ گیا ہے۔ شیوسینا (یو بی ٹی) کے ترجمان آنند دوبے نے مہاراشٹر نو نرمان سینا (ایم این ایس) کے کارکنوں کے ذریعہ غیر مراٹھی لوگوں کی مسلسل پٹائی کے معاملے پر بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم این ایس کارکنوں سے کسی بھی قسم کی توقع رکھنا بے کار ہے۔ اس لیے اب شیو سینا (یو بی ٹی) لوگوں کو مراٹھی سکھائے گی۔ شیوسینا (یو بی ٹی) کے ترجمان آنند دوبے نے کہا کہ حالیہ دنوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ خبریں آرہی ہیں کہ مہاراشٹر نو نرمان سینا کے کارکن غیر مراٹھی بولنے والوں پر حملہ کررہے ہیں۔ وہ اس کی توہین کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسے مراٹھی نہیں آتی۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگ ایسے ہوں جو یہاں روزگار کی تلاش میں آئے ہوں اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مراٹھی کا احترام نہیں کر رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وہ کیسے سیکھیں گے؟ انہیں کون سکھائے گا؟ پھر ہمارے ذہن میں خیال آیا کہ ہم انہیں پڑھائیں گے۔ اس کے لیے ایک ٹیوٹر کی خدمات حاصل کی جائیں گی جو لوگوں کو مراٹھی زبان سکھائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری طرف سے مہاراشٹر میں لوگوں کو مراٹھی سکھانے کا نعرہ بھی دیا گیا ہے۔ ایم این ایس والے لوگوں کی توہین کریں گے اور مار پیٹ کریں گے۔ لیکن ہم انہیں پیار سے مراٹھی زبان سکھائیں گے۔ یہی فرق ہے ان کی اور ہماری ثقافت میں۔ اس مہم کے تحت ہم لوگوں کے درمیان جائیں گے اور انہیں مراٹھی سیکھنے کی ترغیب دیں گے۔ آنند دوبے نے مراٹھی پڑھانے کے فیصلے کا دفاع کیا۔ انہوں نے کہا کہ غیر مراٹھی بولنے والوں کو مراٹھی سکھانے کے فیصلے کو ووٹ بینک کی سیاست کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے جب کسی غریب کو زبان کے نام پر قتل کیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم نے انہیں مراٹھی سکھانے کا فیصلہ کیا۔ میں مہاراشٹر نو نرمان سینا سے بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ لوگوں کو مارنے کے بجائے مراٹھی سکھانے پر توجہ دیں۔

انہوں نے بی جے پی اور مہاراشٹر نو نرمان سینا پر ملی بھگت کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی پہلے لوگوں کو مارتی ہے اور پھر ان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے اور ان کے ووٹ لیتی ہے۔ یوپی، بہار اور مہاراشٹر میں بی جے پی کی حکومتیں ہیں اور یہاں اگر کوئی غیر مراٹھی مارا پیٹا جائے تو یہ بی جے پی کی بدقسمتی ہے۔

Continue Reading

سیاست

وقف ترمیمی بل پر بہار میں ہنگامہ۔ اورنگ آباد میں جے ڈی یو سے سات مسلم لیڈروں نے استعفیٰ دے دیا۔

Published

on

JDU-leaders

اورنگ آباد : وقف بل کی منظوری کے بعد جے ڈی یو کو بہار میں مسلسل دھچکے لگ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جے ڈی یو کو اورنگ آباد میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے۔ بل سے ناراض ہو کر اورنگ آباد جے ڈی یو کے سات مسلم لیڈروں نے اپنے حامیوں کے ساتھ ہفتہ کو پارٹی کی بنیادی رکنیت اور عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینے والوں میں جے ڈی (یو) کے ضلع نائب صدر ظہیر احسن آزاد، قانون جنرل سکریٹری اور ایڈوکیٹ اطہر حسین اور منٹو شامل ہیں، جو سمتا پارٹی کے قیام کے بعد سے 27 سالوں سے پارٹی سے وابستہ ہیں۔

اس کے علاوہ پارٹی کے بیس نکاتی رکن محمد۔ الیاس خان، محمد فاروق انصاری، سابق وارڈ کونسلر سید انور حسین، وارڈ کونسلر خورشید احمد، پارٹی لیڈر فخر عالم، جے ڈی یو اقلیتی سیل کے ضلع نائب صدر مظفر امام قریشی سمیت درجنوں حامیوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ ان لیڈروں نے ہفتہ کو پریس کانفرنس کی اور جے ڈی یو کی بنیادی رکنیت اور پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 کی حمایت کرنے والے نتیش کمار اب سیکولر نہیں رہے۔ اس کے چہرے سے سیکولر ہونے کا نقاب ہٹا دیا گیا ہے۔ نتیش کمار اپاہج ہو گئے ہیں۔

ان لیڈروں نے کہا کہ جس طرح جے ڈی یو کے مرکزی وزیر للن سنگھ لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 پر اپنا رخ پیش کر رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے بی جے پی کا کوئی وزیر بول رہا ہو۔ وقف ترمیمی بل کو لے کر جمعیۃ العلماء ہند، مسلم پرسنل لا، امارت شرعیہ جیسی مسلم تنظیموں کے لیڈروں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وزیر اعلیٰ نے کسی سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی وقف ترمیمی بل پر کچھ کہا۔ انہوں نے وہپ جاری کیا اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بل کی حمایت حاصل کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب جے ڈی یو کو مسلم لیڈروں، کارکنوں اور مسلم ووٹروں کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ نتیش کمار کو بھیجے گئے استعفیٰ خط میں ضلع جنرل سکریٹری ظہیر احسن آزاد نے کہا ہے کہ انتہائی افسوس کے ساتھ جنتا دل یونائیٹڈ کی بنیادی رکنیت اور عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میں سمتا پارٹی کے آغاز سے ہی پارٹی کے سپاہی کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ جب جنتا دل سے الگ ہونے کے بعد دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں 12 ایم پیز کے ساتھ جنتا دل جارج کی تشکیل ہوئی تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے بعد جب سمتا پارٹی بنی تو مجھے ضلع کا خزانچی بنایا گیا۔ اس کے بعد جب جنتا دل یونائیٹڈ کا قیام عمل میں آیا تو میں ضلع خزانچی تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہار اسٹیٹ جے ڈی یو اقلیتی سیل کے جنرل سکریٹری بھی تھے۔ ابھی مجھے ضلعی نائب صدر کی ذمہ داری دی گئی تھی جسے میں بہت اچھے طریقے سے نبھا رہا تھا لیکن بہت بھاری دل کے ساتھ پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ جے ڈی یو اب سیکولر نہیں ہے۔ للن سنگھ اور سنجے جھا نے بی جے پی میں شامل ہو کر پارٹی کو برباد کر دیا۔ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو پورا بھروسہ تھا کہ جے ڈی یو وقف بل کے خلاف جائے گی لیکن جے ڈی یو نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے اعتماد کو توڑا اور خیانت کی اور وقف بل کی حمایت کی۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرا استعفیٰ منظور کر لیں۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل 2025, دستور کی واضح خلاف ورزی ہے، اس پر دستخط کرنے سے صدر جمہوریہ اجتناب کریں۔

Published

on

Ziauddin-Siddiqui

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

ممبئی وحدت اسلامی ہند کے امیر ضیاء الدین صدیقی نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ وقف ترمیمی بل کی شدید الفاظ میں مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسے منظور کرنے والے ارکان پارلیمنٹ نے اس بات کو نظر انداز کر دیا کہ یہ بل دستور ہند کی بنیادی حقوق کی دفعہ 26 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ دستور ہند میں درج بنیادی حقوق کی دفعات 14, 15, 29 اور 30 بھی متاثر ہوتی ہیں۔ جب تک یہ دفعات دستور ہند میں درج ہیں اس کے علی الرغم کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا۔ لہذا صدر جمہوریہ کو اس پر دستخط کرنے سے اجتناب کرتے ہوئے اسے واپس کرنا چاہیے۔ وحدت اسلامی ہند کے امیر نے کہا کہ اوقاف کے تعلق سے نفرت آمیز و اشتعال انگیز اور غلط بیانیوں پر مشتمل پروپیگنڈا بند ہونا چاہیے۔ اوقاف وہ جائدادیں ہیں جنہیں خود مسلمانوں نے اپنی ملکیت سے نیکی کے جذبے کے تحت مخصوص مذہبی و سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وقف کیا ہے۔

اس قانون کے مندرجات سے بالکل واضح ہے کہ اوقاف کو بڑے پیمانے پر متنازع بناکر اس کی بندر بانٹ کر دی جائے اور ان پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے۔ بلکہ صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر اوقاف پر ناجائز قبضے ہیں جن کو ہٹانے کے ضمن میں اس بل میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے۔ بلکہ قانون حدبندی (حد بندی ایکٹ) کے ذریعے اوقاف پر ناجائز طور پر قابض لوگوں کو اس کا مالک بنایا جائے گا, اور سرمایہ داروں کو اوقاف کی جائیدادوں کو سستے داموں فروخت کرنا آسان ہو جائے گا۔

اس بل میں میں زیادہ تر مجہول زبان استعمال کی گئی ہے جس کے کئی معنی نکالے جا سکتے ہیں، اس طرح یہ بل مزید خطرناک ہو جاتا ہے۔ موجودہ وقف ترمیمی بل کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے عوامی احتجاج و مخالفت کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے فیصلوں کو وحدت اسلامی ہند کا تعاون حاصل ہوگا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com