Connect with us
Saturday,19-April-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

امریکا میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر میں تصادم، ٹکراؤ سے ملبہ دریا میں گر گیا، متعدد افراد ہلاک، امدادی کارکنوں کی بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا۔

Published

on

Plan-Crash

واشنگٹن : امریکا کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں بدھ کی رات ایک بڑا طیارہ حادثہ پیش آیا۔ رونالڈ ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ کے قریب ایک مسافر طیارہ اور ایک فوجی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر آپس میں ٹکرا گیا، جس سے ملبہ دریائے پوٹومیک میں جا گرا۔ ارتھ کیم ویڈیو میں طیارے اور ہیلی کاپٹر کے ٹکرانے کے لمحے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ تصادم کے بعد آسمان پر چمکدار روشنی بھی ہے۔ سی بی ایس نیوز نے اس ویڈیو کو اپنے ایکس ہینڈل پر شیئر کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طیارے میں 64 افراد سوار تھے۔ جائے وقوعہ پر تلاش اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ہنگامی ٹیموں، جن میں 300 کے قریب امدادی کارکن شامل ہیں، نے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کے لیے ایک پیچیدہ آپریشن شروع کیا۔ غوطہ خوروں نے مشکل حالات میں دریائے پوٹومیک میں ہلاکتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ دریا کا پانی بہت ٹھنڈا بتایا جاتا ہے جس کی وجہ سے امدادی کارروائیاں مشکل ہو رہی ہیں۔

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) نے کہا کہ تصادم رات 9 بجے (مقامی وقت کے مطابق) اس وقت ہوا جب امریکن ایئر لائنز کا علاقائی جیٹ، ایک بمبارڈیئر سی آر جے-701، رن وے کے قریب آ رہا تھا۔ سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق رات 11:30 بجے تک پولیس نے 18 لاشیں برآمد کی تھیں اور اس وقت تک ایک بھی شخص زندہ نہیں ملا تھا۔ اطلاعات کے مطابق حکام اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ یہ حادثہ انتہائی نگرانی کی جانے والی فضائی حدود میں کیوں ہوا اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ تصادم سے بچنے کی جدید ٹیکنالوجی اور ہوائی ٹریفک کنٹرولرز کے درمیان مواصلات کے باوجود ایک مسافر طیارہ اور ایک فوجی ہیلی کاپٹر کیسے ٹکرا گیا۔ اس واقعے نے دارالحکومت کے قریب گنجان فضائی حدود میں طیاروں کے درمیان ہم آہنگی کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔

(جنرل (عام

نفرت انگیز جرائم اور ہجومی تشدد کے متاثرین کے لیے مساوی معاوضے کی عرضی پر سپریم کورٹ 23 اپریل کو سماعت کرے گا

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : سپریم کورٹ 23 اپریل کو ایک عرضی پر سماعت کرے گی جس میں نفرت پر مبنی جرائم کے متاثرین کے لیے یکساں معاوضہ کی مانگ کی گئی ہے۔ یہ سماعت ان متاثرین کے لیے ہوگی جو نفرت پر مبنی جرائم کا شکار ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپریل 2023 میں اس معاملے پر مرکزی حکومت، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں (یوٹیز) سے جواب طلب کیا تھا۔ یہ جواب ‘انڈین مسلمز فار پروگریس اینڈ ریفارمز’ (آئی ایم پی آر) نامی ایک تنظیم کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔ حالیہ کچھ عرصے میں ملک میں نفرت انگیز جرائم کے واقعات میں اضافے کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور اس تناظر میں سپریم کورٹ میں ہونے والی اس سماعت کو بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے مرکز، ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے بھی کہا تھا کہ وہ یہ بتائیں کہ انہوں نے نفرت پر مبنی جرائم کے متاثرین کے خاندانوں کی مدد کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں۔ یہ ہدایت سپریم کورٹ نے 2018 میں تحسین پونا والا کیس میں دی تھی۔ موب لنچنگ کا مطلب ہے کسی واقعے پر ہجوم کے ذریعہ کسی کو پیٹ کر مار ڈالنا۔

سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر 23 اپریل کو جاری کی گئی فہرست کے مطابق جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گی۔ اپریل 2023 میں پچھلی سماعت کے دوران، درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ کچھ ریاستوں نے 2018 کے فیصلے کے بعد منصوبے بنائے ہیں، لیکن ان میں یکسانیت نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر ریاست میں معاوضہ فراہم کرنے کے قوانین مختلف ہیں۔ وکیل نے یہ بھی کہا کہ کئی ریاستوں نے ابھی تک ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نفرت انگیز جرائم اور ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ فراہم کرنے میں یکسانیت چاہتا ہے۔ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ مختلف ریاستوں کی طرف سے جو معاوضہ دیا جا رہا ہے وہ امتیازی ہے۔ یہ آئین کے آرٹیکل 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی ہے۔ آرٹیکل 14 قانون کے سامنے برابری کی بات کرتا ہے، آرٹیکل 15 مذہب، ذات پات، جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت کرتا ہے، اور آرٹیکل 21 زندگی کے تحفظ اور ذاتی آزادی کی بات کرتا ہے۔

درخواست میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ نفرت انگیز جرائم اور ہجومی تشدد کے متاثرین کو منصفانہ، منصفانہ اور معقول معاوضہ فراہم کریں۔ یہ معاوضہ سپریم کورٹ کی 2018 کی ہدایت کے مطابق بنائی گئی اسکیم کے تحت دیا جانا چاہیے۔ درخواست میں نفرت انگیز جرائم اور ہجومی تشدد کے متاثرین کو معاوضہ دینے میں ریاستوں کی طرف سے اپنائے گئے “منمانی، امتیازی اور غیر منصفانہ انداز” پر سوال اٹھایا گیا ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ متاثرین کو “معمولی” معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ریاستوں کی طرف سے دیا جانے والا معاوضہ اکثر بیرونی عوامل سے متاثر ہوتا ہے جیسے کہ “میڈیا کوریج، سیاسی مجبوریاں اور متاثرہ کی مذہبی شناخت”۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاوضے کا انحصار اس بات پر ہے کہ میڈیا میں اس معاملے کو کتنا اجاگر کیا جاتا ہے، حکومت پر کتنا دباؤ ڈالا جاتا ہے، اور متاثرہ کے مذہب پر۔

پٹیشن میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ‘نفرت پر مبنی جرم/ہجوم کے قتل کے متاثرین کو معاوضہ دینے کے عمل کا فیصلہ متاثرین کی مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کچھ معاملات میں، جہاں متاثرین دوسرے مذہبی فرقوں سے ہیں، ان کے نقصانات کے لیے بھاری معاوضہ دیا جاتا ہے، جب کہ دیگر معاملات میں جہاں متاثرین اقلیتی برادریوں سے ہیں، معاوضہ بہت کم ہے۔’ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر متاثرہ شخص زیادہ آبادی والے مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو اسے زیادہ معاوضہ ملتا ہے، اور اگر اس کا تعلق کم آبادی والے مذہب سے ہے تو اسے کم معاوضہ ملتا ہے۔ یہ امتیازی سلوک غلط ہے اور اسے ختم کیا جانا چاہیے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف ایکٹ متعصبانہ قانون، جمہوریت پر حملہ… کورٹ میں لڑائی کے ساتھ جمہوری طریقے سے احتجاج بھی قانون واپسی تک جاری رہے گا : آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

Published

on

All-India-Muslim-P.-L.-Board

ممبئی : ممبئی وقف ایکٹ اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہے اور اس میں کئی خامیاں ہیں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے تعصب کی بنیاد پر وقف ایکٹ متعارف کروایا گیا ہے, اور یہ جمہوریت کو ختم کرنے والا قانون ہے۔ اس قانون کے خلاف اس وقت احتجاج جاری رہے گا, جب تک یہ واپس نہیں لیا جاتا اس قانون کے مفاذ سے نظم و نسق کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے, اس قانون کے تحت ریاستی سرکاروں کے اختیارات بھی چھین لئے گئے ہیں, اس قسم کا اظہار خیالات آج یہاں جماعت اسلامی کے سربراہ سعادت اللہ حسینی نے کیا ہے, انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے کہا کہ وقف ایکٹ میں جو قانون نافذ کیا گیا ہے, اس پر جے پی سی میں اعتراض کیا گیا تھا اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس پر عدالت نے عارضی راحت ضرور دی ہے, لیکن اس کی واپسی تک ہم اس پر اپنی قانونی اور جمہوری لڑائی جاری رکھیں گے, یہ ایک متعصبانہ قانون ہے, دیگر مذاہب کے لیے علیحدہ قانون موجود ہے۔ اور دستور ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے رسم و رواج کے معرفت مذہبی ادارے اور عبادتیں کر سکتے ہیں, یہ حق سے محروم کرنے کی کوشش اس ایکٹ میں کی گئی ہے۔ غریبوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی آڑ میں وقف ایکٹ کا اطلاق ایک دھوکہ اور فریب ہے سرکار نے وقف سے متعلق جو بدگمانیاں پیدا کی ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر سرکار وقف ایکٹ کے معرفت غریبوں اور دیگر طبقات کا حق فراہمی کا کام کرنا چاہتی ہے, وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کیوں چھین لیا گیا۔

وقف ایکٹ کی آڑ میں ہندوستانی جمہوریت اور ڈاکٹر باباصاحب امینڈکر کے دستور پرسرکار نے حملہ کیا ہے اور غنڈہ گردی کی جارہی ہے, یہ کہا جارہا ہے کہ یہ قانون تسلیم کرنا ہی ہوگا, یہ قانون صرف مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا, بلکہ دستور کی روح پر حملہ ہے۔ غریبوں بیواؤں کے اگر وزیر اعظم اتنے ہی ہمدورد ہے تو بلقیس بانو کو انصاف کیوں نہیں دیا۔ گجرات فساد میں احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری مظلومہ انصاف کی متلاشی مظلومہ قبر میں پہنچ گئی, گجرات میں ۱۱ سال میں مسلمانوں پر کیا مظالم کئے گئے, یہ سب جانتے ہیں یہ سرکار مسلمانوں کی آبیاری نہیں بلکہ تباہی چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے لیکن اس کے باوجود اس منظور کیا گیا, ۲۰۱۳ میں وقف قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا, اس قانون کو اس وقت لانے کی کیا ضرورت تھی, جب یہ قانون منظور کیا گیا تو بی جے پی بھی اس کی حامی تھی اس کی مخالفت نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون آرٹیکل ۲۴،۲۵،۱۱ کی صریحا خلاف ورزی ہے جو ہمارے حقوق کی تحفظ کرتا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری فضل الرحمن مجددی نے کہا کہ اب وقف ایکٹ کے معرفت واقف کو یہ ثابت کرنا ہوگا یہ وہ مسلمان ہے اس میں جے پی سی میں باعمل مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ قانون کی خلاف وزری ہے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ پانچ سال مسلمان ہونا شرط ہے, لیکن اب اس میں باعمل اور ثابت کرنا ہوگا کہ آپ مسلمان ہیں اور اسلام پر عمل پیرا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تنازع کی صورت میں اس زمین کو سرکاری زمین قرار دیا جائے گا۔ وقف ایکٹ اور وقف سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اور سوشل میڈیا میں ان غلط فہمیوں کو ہوا دیا گیا۔ میڈیا میں بھی یہ پھیلایا گیا کہ وقف کی ملکیت اتنی زیادہ ہے اور الہ آباد ہائیکورٹ کے کیس میں تو یہ کہا گیا کہ اب وقف کے معاملہ ہائیکورٹ کو ہی سپریم کورٹ انصاف کیلئے جانا پڑا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے یہ ہائیکورٹ کے باہر لب سڑک ایک مسجد کا تنازع تھا, جس کو کاظمی صاحب نے نمازیوں کے لئے تعمیر کروائی تھی اس طرح سے بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہے۔

مونسہ بشری عابدی نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے اس میں مسلم خواتین پیش پیش رہے گی۔ مسلم خواتین کو سرکار لالی پاپ نہیں دے سکتی, کیونکہ وہ سرکار کی نیت اور منشیات کو جانتی ہے۔ انہوں کہا کہ بتی گل سے لے کر ہر طرح کے احتجاج میں خواتین شامل ہے اور ہم اس قانون کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا محمود دریا بادی، امن کمیٹی سربراہ فرید شیخ، سمیت دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شریک تھے۔ :

Continue Reading

جرم

ممبئی انسانی اسمگلنگ ریکیٹ کا پردہ فاش مغربی بنگال اور حیدرآباد گرفتاری

Published

on

Crime

ممبئی : ممبئی وڈالاٹی ٹی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کے کیس میں حیدر آباد، مغربی بنگال سے بچہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وڈالا ٹی ٹی پولیس اسٹیشن میں شکایت کنندہ امر دھیرنے 65 سالہ نے خاکروب نے 5 اگست 2024 ء کو اپنے نواسہ کی گمشدہ کی شکایت درج کروائی تھی, اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انیل پورنیہ اسما شیخ، شریف شیخ، آشا پوار نے ایک لاکھ 60 ہزار روپے میں بچہ کو فروخت کیا ہے۔ اس کے بعد ملزم انیل پورنیہ،اسما شیخ، شریف شیخ کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا کیس درج کر لیا گیا تھا ملزم انیل پورتیہ، اسما شیخ کو ممبئی سے گرفتار کیا گیا, اس میں ملوث ملزمہ آشا پوار بھی ملوث تھی۔ اس کے بعد پولیس نے آشا پوار کی تلاش شروع کر دی اور حیدر آباد سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس تفتیش میں ملزمین نے بتایا کہ متاثرہ بچہ کو بھونیشور اسٹیشن اڑیسہ میں ریشماں نامی خاتون نے فروخت کیا, اس کی ٹیکنیکل تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ملزمہ یہاں بھونیشور میں دانت کے اسپتال میں زیر ملازمت ہے, اور یہاں ہائی ٹیک اسپتال میں کام کرتی ہے, لیکن بھونیشور میں جب پولیس ٹیم پہنچی تو اس نے یہاں سے ترک ملازمت کر لی تھی, اور پھر معلوم ہوا کہ مطلوب ملزمہ مغربی بنگال میں ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش شروع کر دی اور پولیس نے مغوی بچہ اور دیگر تین بچوں کو برآمد کر لیا۔ اس ایک ساتھ ہی ریشماں سنتوش کمار بنرجی 43 سالہ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا, اس کے ساتھ ہی تین سال کے بچہ کو عدالت میں حاضر کیا گیا تو بچہ کی تحویل پولیس کو دیدی گئی تمام مرحلہ مکمل کرنے کے بعد پولیس نے بچہ کا میڈیکل کروایا تو اس کے جسم پر زخموں کے نشان پائے گئے۔ ملزمین نے بچہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس لئے بچہ پر ظلم و ستم کا کیس بھی درج کیا گیا, یہ کارروائی ممبئی پولیس کمشنر وویک پھنسلکر اور اسپیشل کمشنر دیوین بھارتی ایڈیشنل کمشنر انیل پارسکر اور ڈی سی پی راگسودھا کی ایما پر کی گئی۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com