Connect with us
Wednesday,21-May-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

اُردو کو عوامی زبان بنانے میں اس کے تہذیبی اداروں کا اہم کردار

Published

on

Online-Seminars

اردو کی حکائی روایتوں نے سماجی وتہذیبی اداروں یا اصناف کو جنم دیا جن میں مشاعرہ، قوالی، چہاربیت، مرثیہ خوانی، غزل گائیکی، داستان گوئی وغیرہ قابل ذکر ہیں جن کے سبب اردو نے خاص و عام میں مقبولیت حاصل کی۔ سنٹرفار اردو کلچراسٹڈیز (سی یو سی ایس)، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی جانب سے ”اردو زبان کے تہذیبی و ثقافتی ادارے“ کے موضوع پر منعقدہ دو روزہ آن لائن سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں کل شام کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ممتاز افسانہ نگار اور ناقد پروفیسر بیگ احساس، سابق صدر شعبہ اردو، حیدر آباد یونیورسٹی نے ان خیالات کا اظہار کیا، اور تہذیبی اداروں کی روایت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، نئی دہلی سمینار کے انعقاد میں تعاون کر رہی ہے۔

اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وائس چانسلر مانو، پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے کہا کہ اردو آج بھی ترسیل، علم، تفریح اور روز گار کا ذریعہ اورہندوستان کی ایک باوقار ترقی یافتہ زبان ہے۔ اسی بناپر یہ زبان نہ صرف بطور زبان بلکہ تہذیب و ثقافت کے میدان میں بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔انہوں نے اردوادب کے فروغ میں سی یو سی ایس کی کاوشوں کی ستائش کی۔

ممتاز ادبی شخصیت مہمان خصوصی پروفیسر شہپر رسول، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے سیمینار کی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اردوکے ایسے اداروں کا احاطہ کیا ہے جنہوں نے اردو زبان کو خواص کے دائرے سے نکال کر بیکراں عوامی وسعتوں سے اس طرح ہم کنار کیا کہ یہ زبان ہندوستان کی لینگوافرینکا کے منصب پر فائز ہوگئی۔انہوں نے مزید کہا کہ اردو زبان کے ادب اور اس کی تہذیب و ثقافت کو دنیا کے دوردراز علاقوں تک پہنچانے میں ویبینار، ویب کانفرنس اور ویب مشاعروں کا غیر معمولی حصہ ہے، چنانچہ ویب دنیا کو اردو کے تہذیبی و ثقافتی عناصر میں شمار کیا جانا چاہیے۔

مہمان اعزازی پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین، السنہ، لسانیات و ہندوستانیات، مانو نے کہا کہ اردو زبان و تہذیب کا تعلق سماج سے انتہائی گہرا ہے، یہ ایک ایسا جامع عنوان ہے جس نے اردو، تہذیب، ثقافت اور ادارہ، ان تمام عناصر کا احاطہ کیا ہے۔ یہ ایک مثلث ہے جس کے ایک سرے پر اردو، دوسرے سرے پر تہذیب و ثقافت اور تیسرے سرے پر سماج واقع ہے۔ان اداروں کے سبب اردو کی ایک خوبصورت تہذیب نے جنم لیا ہے۔

سیمینار کے محرک پروفیسر محمد ظفرالدین، ڈائرکٹر، سی یو سی ایس نے اپنے استقبالیہ کلمات میں سیمینار کی غرض و غایت کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سیمینار میں اردو کے ان تہذیبی عناصر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جائے گی، جن کے مرکب سے اردو تہذیب و ثقافت کا وجود قائم ہوتا ہے۔

انہوں نے اردو کلچر سنٹر کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے حوالے سے ڈرامہ، بیت بازی،غزل گوئی، مشاعرہ وغیرہ کی زائداز نصابی سرگرمیوں کا انعقاد، کتابوں کو آن لائن مرتب کرنا، یونیورسٹی اور سنٹر میں موجود کتابوں کو عوام کی دہلیز تک پہنچانے کا انتظام کرنا سنٹر کے اہم مقاصد ہیں۔

سیمینار کو یوٹیوب پر نشر کرنے اور مہمانان کو آن لائن جوڑنے میں انسٹرکشنل میڈیا سنٹرنے اپنا بھر پور تعاون فراہم کیا۔ کنوینر، ڈاکٹر احمد خان نے ہدیہئ تشکر پیش کیا اور نظامت کے فرائض انجام دیے۔ اجلاس کا آغاز جناب ابرار افضل، کارکن ڈی ٹی پی کی تلاوت قرآن سے ہوا۔

(جنرل (عام

عمارت کا گرنا : مہاراشٹر کے کلیان میں بڑا حادثہ، شری سپتشرنگی بلڈنگ کی دوسری منزل کا سلیب گر گیا، 6 افراد کی موت

Published

on

Building-Collapse

ممبئی : مہاراشٹر کے تھانے کے قریب کلیان شہر میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے۔ چار منزلہ عمارت کی دوسری منزل کا سلیب گر گیا ہے۔ اس عمارت کا نام سپت شرنگی ہے اور اس کے ملبے میں کچھ لوگ پھنسے ہوئے ہیں۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موقع پر پہنچ گئی ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ عمارت سے آٹھ افراد کو بچا لیا گیا ہے تاہم اطلاعات ہیں کہ کچھ لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ فائر بریگیڈ، میونسپل حکام اور پولیس کی جانب سے تقریباً دو گھنٹے سے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس واقعہ میں چھ لوگوں کی موت ہو گئی ہے۔ معلومات کے مطابق کلیان ایسٹ میں سپتشرنگی عمارت کی دوسری منزل کا سلیب گر گیا جس سے کئی لوگ پھنس گئے۔ اب تک چھ افراد ملبے تلے دب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ امدادی کارروائیاں جاری ہیں کیونکہ کچھ لوگ اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ اس واقعہ نے کافی ہلچل مچا دی ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ عمارت بہت پرانی ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی میونسپل کارپوریشن کے افسران موقع پر پہنچ گئے۔

امدادی کارروائیاں تاحال جاری ہیں اور زخمیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ عمارت کا سلیب گرا تو بہت زوردار آواز آئی۔ اب زخمیوں کے نام سامنے آ رہے ہیں۔ وہ ہیں ارونا روہیداس گرنارائن (عمر 48)، شرویل شریکانت شیلار (عمر 4)، ونائک منوج پادھی، یش کشیر ساگر (عمر 13)، نکھل کھرات (عمر 27)، شردھا ساہو (عمر 14)۔ مرنے والوں کے نام ہیں – پرمیلا ساہو (عمر 58)، نامسوی شیلر، سنیتا ساہو (عمر 37)، سجتا پاڈی (عمر 32)، سشیلا گجر (عمر 78)، وینکٹ چوان (عمر 42)۔ میونسپل اہلکار موقع پر موجود ہیں اور امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ اس واقعے کی اصل وجہ تاحال معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ اس واقعے کی کئی تصاویر اور ویڈیوز بھی اب سامنے آرہی ہیں۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی لوکل چلتی ٹرین معذور ڈبے میں نابینا خاتون کی پٹائی ملزم گرفتار

Published

on

download (1)

ممبئی : ممبئی کی لوکل ٹرین میں معذور کے ڈبے میں ایک نابینا خاتون کی پٹائی کرنے کے الزام میں محمد اسماعیل حسن علی کو گرفتار کرنے کا دعوی ریلوے پی آر پی نے کیا ہے۔ ممبئی کے سی ایس ٹی ریلوے اسٹیشن سے ٹٹوالا جانے والی ٹرین میں محمد اسماعیل حسن علی اپنی حاملہ اہلیہ 10 سالہ بیٹی کے ساتھ معذور کے ڈبے میں سفر کر رہا تھا, اس دوران نابینا خاتون 33 سالہ ڈبہ میں داخل ہوئی تو دیگر مسافروں نے معذور خاتون کیلئے سیٹ چھوڑنے کی حسن علی سے درخواست کی تو اس نے انکار کر دیا, اس دوران متاثرہ نے اسے گالی دی تو 40 سالہ حسن علی طیش میں آگیا اور اس نے خاتون کی پٹائی شروع کردی۔ ڈبے میں موجود مسافروں نے کسی طرح نابینا کو بچایا اور یہ مارپیٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی, جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس پر تبصرہ بھی شروع ہوگیا تھا۔ اس کو نوٹس لیتے ہوئے کلیان جی آر پی نے کارروائی کرتے ہوئے ممبرا کے ساکن محمد اسماعیل حسن کو گرفتار کر لیا اور اس معاملے کی مزید تفتیش کرلا پولیس کے سپرد کر دی گئی ہے۔ حسن علی کے خلاف بلا کسی عذر کے معذوروں کے ڈبے میں سفر کرنے، مارپیٹ، نابینا مسافر کی حق تلفی کرنے کا بھی معاملہ درج کیا گیا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ وقف اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے… حکومت نے سپریم کورٹ سے ایسا کیوں کہا؟ جانئے اور کیا دلائل دیے گئے۔

Published

on

Court-&-Waqf

نئی دہلی : مرکزی حکومت نے بدھ کو سپریم کورٹ میں وقف پر بحث کے دوران ایک اہم بات کہی۔ حکومت نے کہا کہ وقف، جو ایک اسلامی تصور ہے، اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے اسے آئین کے تحت بنیادی حق نہیں سمجھا جا سکتا۔ حکومت یہ بات وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے جواب میں کہہ رہی ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ وقف اسلام کا لازمی حصہ ہے، باقی تمام دلیلیں بے کار ہیں۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا، جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وقف کو بنیادی حق نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ وقف اسلام کا لازمی حصہ ہے، اس پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ “اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وقف ایک اسلامی تصور ہے، لیکن جب تک یہ نہ دکھایا جائے کہ وقف اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے، باقی تمام دلیلیں بے کار ہیں،” مہتا نے کہا، لائیو لا کے مطابق۔

مہتا نے اپنی تقریر کا آغاز ایکٹ کا دفاع کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی شخص کو سرکاری اراضی پر دعویٰ کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر اسے ‘وقف از صارف’ اصول کے تحت وقف کے طور پر درجہ بندی کیا گیا ہو۔ ‘یوزر کے ذریعہ وقف’ کا مطلب ہے کہ اگر کوئی زمین طویل عرصے سے مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہو تو اسے وقف قرار دیا جاتا ہے۔ مہتا نے صاف کہا، ‘سرکاری زمین پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔’ ایک پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی جائیداد حکومت کی ہے اور اسے وقف قرار دیا گیا ہے تو حکومت اسے بچا سکتی ہے۔ سالیسٹر جنرل نے مزید کہا، ‘صارفین کے ذریعہ وقف کوئی بنیادی حق نہیں ہے، اسے قانون نے تسلیم کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی حق قانون سازی کی پالیسی کے طور پر دیا جائے تو وہ حق ہمیشہ واپس لیا جا سکتا ہے۔’

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com