مہاراشٹر
بھیونڈی راجیو گاندھی فلائی اوور بریج کی گزشتہ سے اب تک کی بدعنوانی کی تاریخ
بھیونڈی: (نامہ نگار )
بھیونڈی کے راجیو گاندھی فلائی اوور کے حوالے سے بدعنوانی کی گزشتہ سے لیکر آج تک کی ایک لمبی داستان ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس پل کی مرمت کو لے کر شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ کیونکہ ایم ایم آر ڈی اے کی جانب سے ایک سال قبل مرمت کے لئے ملے کروڑوں روپے فنڈ کے باوجود فلائی اوور کی تزئین و مرمت کا کام ابھی تک شروع نہیں ہو پایا ہےجو باعث تشویش ہے ۔
واضح ہو کہ بھیونڈی راجیو گاندھی فلائی اوور کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کے پبلک ورکس محکمہ کے ذریعے گزشتہ سن 2 اکتوبر 2002 کو لوک ستہ ، ٹائمز آف انڈیا ، اور انڈین ایکسپریس میں اشتہارات کے ذریعے 25 نومبر 2002 کو ٹینڈر طلب کیا گیا تھا۔ جس میں میسرز وطن سنگھ اینڈ کمپنی ، میسرز جے کمار اینڈ کمپنی ، میسرز والیچا انجینئرنگ لمیٹڈ ، میسرز جے ایم سی پروجیکٹ لمیٹڈ ، میسرز یوپی اسٹیٹ برج کارپوریشن ، میسرز ناگ ارجن کنسٹرکشن کمپنی لمیٹڈ اور میسرز کریسنٹ کنسٹرکشن کمپنی سمیت کل سات ٹھیکیدار کمپنیوں نے ٹینڈر جمع کرایا تھا۔ لیکن اس میں میسرز کریسنٹ کنسٹرکشن کمپنی کے ٹینڈر میں غلطی ہونے کی وجہ سے اس کا ٹینڈر قبول نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد اس کمپنی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس کی وجہ سے 25 نومبر 2002 کو کھلنے والے ٹینڈر کو 3 جنوری 2003 کو کھولنا پڑا۔
اس ٹینڈر میں میونسپل کارپوریشن کے ذریعے مقررہ ایسٹیمیٹ سے پہلا میسرز جے کمار اینڈ کمپنی نے (0.99) فیصد ، دوسرے میسرز جے ایم سی پروجیکٹ لمیٹڈ (1) فیصد اور تیسرا میسرز والیچا انجینئرنگ لمیٹڈ (1.11) فیصد زیادہ تھا۔ جس میں میسرز جے کمار کی 0.99 فیصدی سب سے کم شرح ہونے کی وجہ سے میونسپل کارپوریشن کے ذریعے گزشتہ مقررہ بجٹ 14 کروڑ 79 لاکھ 90 ہزار 25 روپے سے بڑھا کر 14 کروڑ 94 لاکھ 55 ہزار 126 روپے میں ٹھیکہ دینے کی تجویز 29 جنوری 2003 کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری تھے۔ لیکن اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس پر دوبارہ غور و فکر کرنےکے لئے میونسپل انتظامیہ کو واپس بھجوا دیا۔ پھر یہ تجویز 11 فروری 2003 کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس نمبر 23 میں ایک بار پھر لائی گئی۔ اس کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسے منظور کرکے اس تجویز کو جنرل بورڈ کے اجلاس میں لانے کے لئے اس وقت کے میئر سریش ٹاورے کے پاس بھیج دیا گیا تھا ۔ وہاں بھی اس میں ترمیم کے لئے بہت ساری تجاویز آئیں۔ لیکن انہیں قبول نہ کرتے ہوئے تجویز کو جوں کے توں منظور کردیا گیا۔ تب تک آر ڈی شندے کی جگہ بی کے نائیک میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کے عہدے پر آچکے تھے۔ واضح ہو کہ اس وقت کے کئی ممبر آج بھی میونسپل کارپوریشن میں موجود ہیں۔
اس وقت اس فلائی اوور کی تعمیر کا معاہدہ کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے انجینئر مرحوم شان علی کے ذریعے زبردست دھوکہ دہی کی گئی تھی۔ اس سے قبل اس فلائی اوور کی تکنیکی گارنٹی کی مدت 10 سال کے ساتھ ہی اس کی لمبائی باغ فردوس مسجد کے آگے الائٹ پٹرول پمپ تک تھی اور اس کے منٹ کے تمام صفحات پر اس وقت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری کے دستخط بھی تھے۔ لیکن اس پرانے معاہدے کو پھاڑ کر شان علی نے اتنی بڑی رقم والے پروجیکٹ کو محض سو روپے کے اسٹامپ پیپر پر نیا بوگس معاہدہ تیار کرکے اس میں فلائی اوور کی لمبائی کو تقریباً 100 میٹر سے بھی زائد کم کرکے اس کو الائٹ پٹرول پمپ کے بجائے باغ فردوس مسجد کے پہلے ہی اتارنے کے ساتھ ساتھ گارنٹی کی مدت بھی 10 سال سے کم کرکے 5 سال کرنے کے علاوہ معاہدے کی تمام شرائط و ضوابط میں نرمی کردی۔ تاکہ اس میں جم کر بدعنوانی کی جاسکے۔
ذرائع سے موصولہ جانکاری کے مطابق اس فلائی اوور کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر گھوٹالہ ہوا ہے۔ کیونکہ کسی بھی طرح کی مستند اور باقاعدہ منظوری کے بغیر چور دروازے سے اس کا اصل بجٹ 14 کروڑ 94 لاکھ 55 ہزار 126 روپے سے بڑھا کر 21 کروڑ 97 لاکھ 62 ہزار 68 روپے کردیا گیا۔ اس طرح اس فلائی اوور کی تعمیر میں چوطرفہ بدعنوانی کرتے ہوئے جہاں ایک طرف سات کروڑ تین لاکھ چھ ہزار 942 روپے کا اضافی بوجھ میونسپل کارپوریشن پر ڈال دیا گیا۔ وہیں دوسری طرف فلائی اوور کی لمبائی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاہدے میں مذکور رامیشور مندر سے لے کر باغ فردوس مسجد تک فلائی اوور کے نیچے دونوں جانب کی سڑک کی تعمیر بھی ٹھیکیدار کمپنی کے ذریعے نہیں کرائی گئی۔ آخر میں میونسپل کارپوریشن کو اسے اپنے اخراجات پر تعمیر کرنا پڑا۔
اس ضمن میں اس وقت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری کا کہنا ہے کہ فلائی اوور کے تخمینے سے زیادہ بجٹ میں اضافے کی تجویز اسٹینڈنگ کمیٹی میں آنا چاہئے تھی لیکن وہ نہیں آئی۔ نہ ہی اس کے لئے اسٹینڈنگ کمیٹی یا جنرل بورڈ کی کسی بھی طرح کی کوئی منظوری ہی لی گئی۔ لہذا یہ ایک بہت بڑا اقتصادی گھوٹالہ ہے۔ اس کے خلاف معاملہ درج ہونے کے ساتھ ساتھ کسی آزاد ایجنسی کے ذریعہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
اس طرح اس وقت کے انجینئر شان علی کے ذریعے ایجاد کی گئی اس بدعنوانی کی بہتی ہوئی گنگا میں سبھی لوگوں نے ہاتھ دھویا ہے جس سے ا نکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ شہر کے اول شہری میئر سریش ٹاورے کے دفتر سے شروع ہوا فلائی اوور کی تعمیر کا کام دوسرے میئر ولاس پاٹل کے دور تک جاری رہا۔ اس ٹینڈر کے وقت آر ڈی شندے میونسپل کمشنر تھے۔ اس کے بعد میونسپل کمشنر بی کے نائیک کے دور میں اس کی پہلی ادائیگی ہوئی۔ اس کے بعد اگلے میونسپل کمشنر کالے سے لے کر شیومورتی نائیک تک سبھی نے مل کر اقتصادی فائدہ اٹھایا ۔ اس وقت پروین جین نامی ایک چیف اکاؤنٹنٹ ہوا کرتے تھے اس کے کاروبار اور کردار کے بارے میں اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں سے رخصت ہونے کے بعد اینٹی کرپشن بیورو نے جین کو رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
یہاں اس بات کا واضح کرنا ضروری ہے کہ جب 2013 میں ہی مذکورہ فلائی اوور میں خرابی پیدا ہونے لگی تو بنا جنرل بورڈ ، اسٹینڈنگ کمیٹی ، یا میونسپل کمشنر کو اعتماد میں لئے اس وقت کے سٹی انجینئر شان علی نے ایک سازش کے تحت 17 اگست 2013 کو فلائی اوور تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار میسرز جئے کمار اینڈ کمپنی کو مکتوب لکھ کر راجیو گاندھی فلائی اوور کے ہلنے اور اندر سے کچھ آواز آنے کی اطلاع دی تھی۔ جس کے بعد متعلقہ ٹھیکیدار کمپنی نے ایم ایس فسکے اینڈ ایسوسی ایٹس کے انجینئروں کی ایک ٹیم کے ذریعے اس کی جانچ کے لئے کچھ دنوں کے لئے فلائی اوور کے استعمال پر پابندی عائد کرکے اس فلائی اوور کے جائزے کی نوٹنکی کروائی تھی۔
جانچ کے بعد کنسلٹنگ انجینئر کے ذریعے 28 اگست 2013 کو لیٹر نمبر ایم ایس پی / کلیان ناکہ فلائی / 5623 کے ذریعے جانچ رپورٹ دلوا کر ٹھیکیدار کمپنی کو کلین چٹ دیتے ہوئے اسے استعمال کے لئے محفوظ بتاتے ہوئے فلائی اوور پر پانی جمع نہ ہونے کی صلاح دی گئی تھی کہ فلائی اوور کی حفاظت کے لئے بارش سے قبل ہر سال پانی کی نکاسی کی پائپ لائن کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ اس میں بھی 10 سے 12 لاکھ روپے کی پائپ کی مرمت کا کام میونسپل کارپوریشن کے خزانے سے ہی کرانا پڑا تھا۔ صرف یہی نہیں اس دوران شان علی کے ذریعے جو شدید غلطی کی گئی اور جو فلائی اوور کے تباہ ہونے کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ اسکریپر مشین لگا کر فلائی اوور کو کھرچ دیا گیا تھا۔ اسی وقت کھرچنے کے دوران ہی فلائی اوور کی آہنی سلیا باہر نکل آئی تھی۔ اسی وقت سے فلائی اوور کے ناقص ہونے کی شروعات ہوگئی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجاز اتھارٹی میونسپل کمشنر یا ڈپٹی میونسپل کمشنر (ہیڈکوارٹر) کے بجائے شان علی نے ٹھیکیدار کمپنی کو کیوں خط لکھا؟ جب یہ فلائی اوور جانچ میں استعمال کے لئے موزوں پایا گیا تو پھر اس کی اسکریپنگ کیوں کی گئی؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانچ محض ایک فریب اور ٹھیکیدار کمپنی کو بچانے کی سازش تھی۔ تاکہ مستقبل میں گڑبڑی کا سارا ٹھیکرا پانی جمع ہونے کے نام پر پھوڑا جاسکے۔ واضح ہو کہ اس پل کی مرمت پر میونسپل کارپوریشن اب تک 60 لاکھ روپے سے زائد خرچ کر چکی ہے لیکن نتیجہ صفر ۔
(جنرل (عام
ممبئی میں 14 اور 15 نومبر کو پانی کی پائپ لائن کی بحالی کا کام کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں کئی علاقوں میں 22 گھنٹے پانی کی کٹوتی کی جائے گی۔

ممبئی : برہان ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) ممبئی نے اعلان کیا ہے کہ 14-15 نومبر کو پانی کی سپلائی نہیں ہوگی۔ بی ایم سی کے اس فیصلے کی وجہ سے ممبئی کے کئی علاقوں میں تقریباً دو دن تک پانی کی قلت ہو سکتی ہے۔ بی ایم سی نے اعلان کیا ہے کہ کل 22 گھنٹے تک سپلائی نہیں ہوگی۔ اس دوران بی ایم سی پائپ لائن کی مرمت کرے گی اور والوز کو تبدیل کرے گی۔ بی ایم سی نے ممبئی والوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پانی کو سمجھداری سے استعمال کریں تاکہ سپلائی کی کمی کی وجہ سے انہیں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بی ایم سی کے اعلان کے مطابق ہفتے کے آخر میں یہ سپلائی منقطع ہو جائے گی۔ جمعہ اور ہفتہ کو بعض علاقوں میں پانی کا مسئلہ رہے گا۔
بی ایم سی کے مطابق، شہر کے چار ڈویژنوں : این، ایل، ایم ویسٹ اور ایف نارتھ کے کچھ علاقوں میں جمعہ، 14 نومبر کی صبح 10 بجے سے، 15 نومبر بروز ہفتہ صبح 8 بجے تک پانی کی فراہمی مکمل طور پر معطل رہے گی۔ کارپوریشن کا واٹر سپلائی ڈپارٹمنٹ پرانی اور نئی تانسا پائپ لائنوں اور وہار ٹرنک مین ایکویڈکٹ پر کل پانچ والوز بدل رہا ہے۔ بی ایم سی کے مطابق یہ کام تقریباً 22 گھنٹے جاری رہے گا۔ بی ایم سی نے کہا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں کئی رہائشی علاقے شامل ہیں، جن میں راجواڑی، ودیا وہار، کرلا ایسٹ، چونا بھٹی، تلک نگر، وڈالا، دادر ایسٹ، سیون، ماٹونگا ایسٹ، پرتیکشا نگر، اور ایم ایم آر ڈی اے ایس آر اے کالونیاں شامل ہیں۔ اس دوران پانی کا استعمال احتیاط سے کریں۔ انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ کام پانی کی فراہمی کے نظام کی دیکھ بھال اور طویل مدتی بہتری کے لیے ضروری ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پائپ لائن کی مرمت اور والو کی تبدیلی کا کام کافی عرصے سے زیر التوا تھا اور اسے مکمل کرنے کی ضرورت تھی۔ اس لیے وقفہ لیا گیا ہے۔
(جنرل (عام
مالی سال 26 میں ہندوستان کی افراط زر 2.1 فیصد متوقع ہے، آر بی آئی کی شرح میں کمی کا امکان ہے۔

نئی دہلی، 12 نومبر رواں مالی سال (مالی سال26) کے لیے اوسط مہنگائی 2.1 فیصد رہنے کی توقع ہے، جس کی وجہ خوراک کی گرانی میں کمی اور مانگ کے دباؤ پر مشتمل ہے، یہ بدھ کو ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔ کیئر ایجریٹنگز نے اپنی رپورٹ میں کہا، "مانیٹری پالیسی کے نقطہ نظر سے، اگر ایچ2 مالی سال26 میں نمو کمزور ہوتی ہے، تو افراط زر کی تازہ ترین ریڈنگز شرح میں کمی کی گنجائش پیدا کر سکتی ہیں۔” ریٹنگ ایجنسی نے اپنی مالی سال26 کے آخر میں امریکی ڈالر/روپےکی پیشن گوئی کو 85–87 پر برقرار رکھا، جس کی وجہ ایک نرم ڈالر، ایک مضبوط یوآن، قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ (سی اے ڈی) اور یو ایس-انڈیا تجارتی معاہدے کے آس پاس کی توقعات ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ عالمی تجارتی حجم 2025-26 میں اوسطاً 2.9 فیصد بڑھے گا۔ اس نے آئی ایم ایف کے اندازوں کا بھی حوالہ دیا کہ ہندوستان کی اشیا اور خدمات کی برآمدات 2030 تک جی ڈی پی کے تقریباً 16 فیصد تک رہ سکتی ہیں، جو کہ فی الحال 21 فیصد ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2025 کی عالمی نمو کی پیشن گوئی میں 20 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا، تجارتی فرنٹ لوڈنگ اور تجارتی تناؤ میں بتدریج موافقت کے درمیان۔ مجموعی طور پر، مسلسل غیر یقینی صورتحال اور بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی کے درمیان ترقی کے خطرات منفی پہلو کی طرف جھکے ہوئے ہیں۔ ایچ1مالی سال26 میں ہندوستان کی غیر پیٹرولیم برآمدات میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا، حالانکہ پیٹرولیم کی برآمدات مجموعی برآمدات کی نمو پر وزن رکھتی ہیں۔ ایچ1مالی سال26 میں درآمدات میں 4.5 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا، جس کی قیادت غیر پیٹرولیم اشیا نے کی۔ ایچ1 مالی سال26 میں امریکہ کو ہندوستان کی برآمدات میں 13 فیصد کا اضافہ ہوا، اس نے مزید کہا کہ امریکہ تجارتی سامان کے لئے سب سے بڑا برآمدی مقام بنا ہوا ہے، جو ہندوستان کی کل برآمدات میں تقریباً 20 فیصد کا حصہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکہ کو ہندوستان کی بڑی برآمدات میں، الیکٹرانک سامان اور پیٹرولیم مصنوعات کے علاوہ تمام اشیاء کی برآمدات میں ستمبر میں کمی دیکھی گئی۔
(Tech) ٹیک
سینسیکس، نفٹی امریکہ-بھارت تجارتی مذاکرات، بہار کے ایگزٹ پولز پر سبز رنگ میں کھلا۔

ممبئی، 12 نومبر، ہندوستانی بینچ مارک انڈیکس بدھ کو گرین زون میں کھلے، ایک آسنن ہند-امریکہ تجارتی معاہدے اور بہار میں ایگزٹ پولز کی رپورٹوں کے درمیان این ڈی اے کو فیصلہ کن اکثریت ملنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ صبح 9.25 بجے تک، سینسیکس 496 پوائنٹس، یا 0.59 فیصد بڑھ کر 84،367 پر اور نفٹی 147 پوائنٹس، یا 0.58 فیصد بڑھ کر 25،842 پر پہنچ گیا۔ براڈ کیپ انڈیکس نے بینچ مارکس کے مطابق کارکردگی کا مظاہرہ کیا، نفٹی مڈ کیپ 100 میں 0.55 فیصد اور نفٹی سمال کیپ 100 میں 0.61 فیصد اضافہ ہوا۔ میکس ہیلتھ کیئر اور ٹیک مہندرا نفٹی پیک میں بڑے فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے، جبکہ ہارنے والوں میں ماروتی سوزوکی اور ٹرینٹ شامل تھے۔ تمام سیکٹرل انڈیکس سبز رنگ میں ٹریڈ کر رہے تھے سوائے نفٹی ایف ایم سی جی کے۔ ان میں سے زیادہ تر کے ساتھ ملایا گیا جو ہلکے منفی تعصب کے ساتھ تجارت کرتے ہیں۔ نفٹی آئی ٹی اور نفٹی آئل اینڈ گیس اسٹینڈ آؤٹ حاصل کرنے والے تھے — 1.26 فیصد اور 0.95 فیصد۔ "بھارت-امریکہ کے قریب ہونے والے تجارتی معاہدے اور ایگزٹ پولز کی رپورٹس کے ساتھ کہ بہار میں این ڈی اے کی جیت ہوئی ہے، جذبات میں بہتری آئی ہے۔ اس سے بیل مضبوط ہوں گے لیکن مارکیٹوں کو فیصلہ کن بریک آؤٹ اور پائیدار ریلی دینے کے لیے کافی نہیں ہے،” مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں نے کہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ رجحانات کی بنیاد پر، ایف آئی آئی دوبارہ اعلی سطح پر فروخت کر سکتے ہیں جب تک کہ اے آئی تجارت جاری رہتی ہے۔ بنیادی نقطہ نظر سے، امید کی گنجائش ہے کیونکہ جی ڈی پی کی نمو مضبوط ہے اور مالی سال 27 کے لیے آمدنی میں اضافہ روشن دکھائی دے رہا ہے۔ مالیاتی، کھپت اور دفاعی اسٹاک میں ریلی کے اگلے مرحلے کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہے۔ ابتدائی تجارتی سیشنز میں ایشیا پیسیفک کی زیادہ تر مارکیٹوں میں اضافہ ہوا جب وال سٹریٹ میں اس امید پر ملا جلا تجارت ہوئی کہ امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن ختم ہونے کے قریب ہو سکتا ہے، یہاں تک کہ اے آئی اسٹاکس کی جدوجہد کے باوجود۔ امریکی مارکیٹیں راتوں رات ملے جلے طور پر ختم ہوئیں، جیسا کہ نیس ڈیک 0.3 فیصد، ایس اینڈ پی 500 میں 0.18 فیصد کا اضافہ ہوا، اور ڈاؤ میں 1.2 فیصد اضافہ ہوا۔ ایشیائی منڈیوں میں، چین کے شنگھائی انڈیکس میں 0.23 فیصد، اور شینزین میں 1 فیصد، جاپان کے نکیئی میں 0.21 فیصد، جبکہ ہانگ کانگ کے ہینگ سینگ انڈیکس میں 0.56 فیصد کی کمی ہوئی۔ جنوبی کوریا کا کوسپی 0.84 فیصد بڑھ گیا۔ پیر کو، غیر ملکی ادارہ جاتی سرمایہ کاروں (ایف آئی آئیs) نے 803 کروڑ روپے کی ایکوئٹی فروخت کی، جبکہ گھریلو ادارہ جاتی سرمایہ کار (ڈی آئی آئیز) 2,188 کروڑ روپے کی ایکوئٹی کے خالص خریدار تھے۔
-
سیاست1 سال agoاجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
سیاست6 سال agoابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 سال agoمحمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
جرم5 سال agoمالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 سال agoشرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 سال agoریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 سال agoبھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 سال agoعبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا
