Connect with us
Friday,22-November-2024
تازہ خبریں

مہاراشٹر

بھیونڈی راجیو گاندھی فلائی اوور بریج کی گزشتہ سے اب تک کی بدعنوانی کی تاریخ

Published

on

bikejjh

بھیونڈی: (نامہ نگار )
بھیونڈی کے راجیو گاندھی فلائی اوور کے حوالے سے بدعنوانی کی گزشتہ سے لیکر آج تک کی ایک لمبی داستان ہے۔ ایک مرتبہ پھر اس پل کی مرمت کو لے کر شہر میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ کیونکہ ایم ایم آر ڈی اے کی جانب سے ایک سال قبل مرمت کے لئے ملے کروڑوں روپے فنڈ کے باوجود فلائی اوور کی تزئین و مرمت کا کام ابھی تک شروع نہیں ہو پایا ہےجو باعث تشویش ہے ۔

واضح ہو کہ بھیونڈی راجیو گاندھی فلائی اوور کی تعمیر کے لئے میونسپل کارپوریشن کے پبلک ورکس محکمہ کے ذریعے گزشتہ سن 2 اکتوبر 2002 کو لوک ستہ ، ٹائمز آف انڈیا ، اور انڈین ایکسپریس میں اشتہارات کے ذریعے 25 نومبر 2002 کو ٹینڈر طلب کیا گیا تھا۔ جس میں میسرز وطن سنگھ اینڈ کمپنی ، میسرز جے کمار اینڈ کمپنی ، میسرز والیچا انجینئرنگ لمیٹڈ ، میسرز جے ایم سی پروجیکٹ لمیٹڈ ، میسرز یوپی اسٹیٹ برج کارپوریشن ، میسرز ناگ ارجن کنسٹرکشن کمپنی لمیٹڈ اور میسرز کریسنٹ کنسٹرکشن کمپنی سمیت کل سات ٹھیکیدار کمپنیوں نے ٹینڈر جمع کرایا تھا۔ لیکن اس میں میسرز کریسنٹ کنسٹرکشن کمپنی کے ٹینڈر میں غلطی ہونے کی وجہ سے اس کا ٹینڈر قبول نہیں کیا گیا۔ جس کے بعد اس کمپنی نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس کی وجہ سے 25 نومبر 2002 کو کھلنے والے ٹینڈر کو 3 جنوری 2003 کو کھولنا پڑا۔

اس ٹینڈر میں میونسپل کارپوریشن کے ذریعے مقررہ ایسٹیمیٹ سے پہلا میسرز جے کمار اینڈ کمپنی نے (0.99) فیصد ، دوسرے میسرز جے ایم سی پروجیکٹ لمیٹڈ (1) فیصد اور تیسرا میسرز والیچا انجینئرنگ لمیٹڈ (1.11) فیصد زیادہ تھا۔ جس میں میسرز جے کمار کی 0.99 فیصدی سب سے کم شرح ہونے کی وجہ سے میونسپل کارپوریشن کے ذریعے گزشتہ مقررہ بجٹ 14 کروڑ 79 لاکھ 90 ہزار 25 روپے سے بڑھا کر 14 کروڑ 94 لاکھ 55 ہزار 126 روپے میں ٹھیکہ دینے کی تجویز 29 جنوری 2003 کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری تھے۔ لیکن اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس پر دوبارہ غور و فکر کرنےکے لئے میونسپل انتظامیہ کو واپس بھجوا دیا۔ پھر یہ تجویز 11 فروری 2003 کو اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس نمبر 23 میں ایک بار پھر لائی گئی۔ اس کے بعد اسٹینڈنگ کمیٹی نے اسے منظور کرکے اس تجویز کو جنرل بورڈ کے اجلاس میں لانے کے لئے اس وقت کے میئر سریش ٹاورے کے پاس بھیج دیا گیا تھا ۔ وہاں بھی اس میں ترمیم کے لئے بہت ساری تجاویز آئیں۔ لیکن انہیں قبول نہ کرتے ہوئے تجویز کو جوں کے توں منظور کردیا گیا۔ تب تک آر ڈی شندے کی جگہ بی کے نائیک میونسپل کارپوریشن کے کمشنر کے عہدے پر آچکے تھے۔ واضح ہو کہ اس وقت کے کئی ممبر آج بھی میونسپل کارپوریشن میں موجود ہیں۔

اس وقت اس فلائی اوور کی تعمیر کا معاہدہ کیا گیا تھا جس میں اس وقت کے انجینئر مرحوم شان علی کے ذریعے زبردست دھوکہ دہی کی گئی تھی۔ اس سے قبل اس فلائی اوور کی تکنیکی گارنٹی کی مدت 10 سال کے ساتھ ہی اس کی لمبائی باغ فردوس مسجد کے آگے الائٹ پٹرول پمپ تک تھی اور اس کے منٹ کے تمام صفحات پر اس وقت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری کے دستخط بھی تھے۔ لیکن اس پرانے معاہدے کو پھاڑ کر شان علی نے اتنی بڑی رقم والے پروجیکٹ کو محض سو روپے کے اسٹامپ پیپر پر نیا بوگس معاہدہ تیار کرکے اس میں فلائی اوور کی لمبائی کو تقریباً 100 میٹر سے بھی زائد کم کرکے اس کو الائٹ پٹرول پمپ کے بجائے باغ فردوس مسجد کے پہلے ہی اتارنے کے ساتھ ساتھ گارنٹی کی مدت بھی 10 سال سے کم کرکے 5 سال کرنے کے علاوہ معاہدے کی تمام شرائط و ضوابط میں نرمی کردی۔ تاکہ اس میں جم کر بدعنوانی کی جاسکے۔

ذرائع سے موصولہ جانکاری کے مطابق اس فلائی اوور کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر گھوٹالہ ہوا ہے۔ کیونکہ کسی بھی طرح کی مستند اور باقاعدہ منظوری کے بغیر چور دروازے سے اس کا اصل بجٹ 14 کروڑ 94 لاکھ 55 ہزار 126 روپے سے بڑھا کر 21 کروڑ 97 لاکھ 62 ہزار 68 روپے کردیا گیا۔ اس طرح اس فلائی اوور کی تعمیر میں چوطرفہ بدعنوانی کرتے ہوئے جہاں ایک طرف سات کروڑ تین لاکھ چھ ہزار 942 روپے کا اضافی بوجھ میونسپل کارپوریشن پر ڈال دیا گیا۔ وہیں دوسری طرف فلائی اوور کی لمبائی کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاہدے میں مذکور رامیشور مندر سے لے کر باغ فردوس مسجد تک فلائی اوور کے نیچے دونوں جانب کی سڑک کی تعمیر بھی ٹھیکیدار کمپنی کے ذریعے نہیں کرائی گئی۔ آخر میں میونسپل کارپوریشن کو اسے اپنے اخراجات پر تعمیر کرنا پڑا۔

اس ضمن میں اس وقت کے اسٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین صلاح الدین انصاری کا کہنا ہے کہ فلائی اوور کے تخمینے سے زیادہ بجٹ میں اضافے کی تجویز اسٹینڈنگ کمیٹی میں آنا چاہئے تھی لیکن وہ نہیں آئی۔ نہ ہی اس کے لئے اسٹینڈنگ کمیٹی یا جنرل بورڈ کی کسی بھی طرح کی کوئی منظوری ہی لی گئی۔ لہذا یہ ایک بہت بڑا اقتصادی گھوٹالہ ہے۔ اس کے خلاف معاملہ درج ہونے کے ساتھ ساتھ کسی آزاد ایجنسی کے ذریعہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
اس طرح اس وقت کے انجینئر شان علی کے ذریعے ایجاد کی گئی اس بدعنوانی کی بہتی ہوئی گنگا میں سبھی لوگوں نے ہاتھ دھویا ہے جس سے ا نکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ شہر کے اول شہری میئر سریش ٹاورے کے دفتر سے شروع ہوا فلائی اوور کی تعمیر کا کام دوسرے میئر ولاس پاٹل کے دور تک جاری رہا۔ اس ٹینڈر کے وقت آر ڈی شندے میونسپل کمشنر تھے۔ اس کے بعد میونسپل کمشنر بی کے نائیک کے دور میں اس کی پہلی ادائیگی ہوئی۔ اس کے بعد اگلے میونسپل کمشنر کالے سے لے کر شیومورتی نائیک تک سبھی نے مل کر اقتصادی فائدہ اٹھایا ۔ اس وقت پروین جین نامی ایک چیف اکاؤنٹنٹ ہوا کرتے تھے اس کے کاروبار اور کردار کے بارے میں اسی بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں سے رخصت ہونے کے بعد اینٹی کرپشن بیورو نے جین کو رنگے ہاتھوں رشوت لیتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

یہاں اس بات کا واضح کرنا ضروری ہے کہ جب 2013 میں ہی مذکورہ فلائی اوور میں خرابی پیدا ہونے لگی تو بنا جنرل بورڈ ، اسٹینڈنگ کمیٹی ، یا میونسپل کمشنر کو اعتماد میں لئے اس وقت کے سٹی انجینئر شان علی نے ایک سازش کے تحت 17 اگست 2013 کو فلائی اوور تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار میسرز جئے کمار اینڈ کمپنی کو مکتوب لکھ کر راجیو گاندھی فلائی اوور کے ہلنے اور اندر سے کچھ آواز آنے کی اطلاع دی تھی۔ جس کے بعد متعلقہ ٹھیکیدار کمپنی نے ایم ایس فسکے اینڈ ایسوسی ایٹس کے انجینئروں کی ایک ٹیم کے ذریعے اس کی جانچ کے لئے کچھ دنوں کے لئے فلائی اوور کے استعمال پر پابندی عائد کرکے اس فلائی اوور کے جائزے کی نوٹنکی کروائی تھی۔

جانچ کے بعد کنسلٹنگ انجینئر کے ذریعے 28 اگست 2013 کو لیٹر نمبر ایم ایس پی / کلیان ناکہ فلائی / 5623 کے ذریعے جانچ رپورٹ دلوا کر ٹھیکیدار کمپنی کو کلین چٹ دیتے ہوئے اسے استعمال کے لئے محفوظ بتاتے ہوئے فلائی اوور پر پانی جمع نہ ہونے کی صلاح دی گئی تھی کہ فلائی اوور کی حفاظت کے لئے بارش سے قبل ہر سال پانی کی نکاسی کی پائپ لائن کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ اس میں بھی 10 سے 12 لاکھ روپے کی پائپ کی مرمت کا کام میونسپل کارپوریشن کے خزانے سے ہی کرانا پڑا تھا۔ صرف یہی نہیں اس دوران شان علی کے ذریعے جو شدید غلطی کی گئی اور جو فلائی اوور کے تباہ ہونے کا سبب بنی وہ یہ تھی کہ اسکریپر مشین لگا کر فلائی اوور کو کھرچ دیا گیا تھا۔ اسی وقت کھرچنے کے دوران ہی فلائی اوور کی آہنی سلیا باہر نکل آئی تھی۔ اسی وقت سے فلائی اوور کے ناقص ہونے کی شروعات ہوگئی تھی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مجاز اتھارٹی میونسپل کمشنر یا ڈپٹی میونسپل کمشنر (ہیڈکوارٹر) کے بجائے شان علی نے ٹھیکیدار کمپنی کو کیوں خط لکھا؟ جب یہ فلائی اوور جانچ میں استعمال کے لئے موزوں پایا گیا تو پھر اس کی اسکریپنگ کیوں کی گئی؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جانچ محض ایک فریب اور ٹھیکیدار کمپنی کو بچانے کی سازش تھی۔ تاکہ مستقبل میں گڑبڑی کا سارا ٹھیکرا پانی جمع ہونے کے نام پر پھوڑا جاسکے۔ واضح ہو کہ اس پل کی مرمت پر میونسپل کارپوریشن اب تک 60 لاکھ روپے سے زائد خرچ کر چکی ہے لیکن نتیجہ صفر ۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

سیاست

مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار… شیوسینا (ادھو گروپ)، کانگریس اور این سی پی اتحاد اقتدار کی تبدیلی پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

Published

on

Uddhav,-Ajit-&-Shinde

ممبئی : عوامی عدالت نے اپنا فیصلہ ای وی ایم مشینوں میں لکھ دیا ہے۔ ہفتہ کو الیکشن کمیشن کے ملازمین عوام کے سامنے فیصلے کا اعلان کریں گے لیکن اس دوران گھڑی کے ہاتھ اپنے محور پر مکمل طور پر دو بار گھوم چکے ہوں گے۔ 24 گھنٹے کے اس وقفے کے بعد آنے والا مینڈیٹ کیسا ہوگا، کن حالات میں کون سا کردار کتنا مضبوط ہوگا؟ آؤ! آئیے ایک اندازہ لگاتے ہیں: اس کھیل میں سب سے بڑا کردار بی جے پی ہے۔ اسمبلی میں سب سے زیادہ ایم ایل اے ہونے کے باوجود یہ ڈھائی سال سے اقتدار کے بغیر اور 5 سال سے وزیر اعلیٰ کے بغیر ہے۔ اس بار بھی اس نے سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ زیادہ تر سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بی جے پی واحد پارٹی ہوگی جس کے ایم ایل اے سب سے زیادہ ہوں گے، لیکن کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہا ہے کہ بی جے پی صرف اپنے ایم ایل اے کی بنیاد پر حکومت بنائے گی۔

2019 میں بی جے پی کے 105 ایم ایل اے تھے۔ اس بار اس سے زیادہ یا زیادہ جیتنے کا امکان کم ہے۔ اگر بی جے پی کے 100 سے کم ایم ایل اے جیت جاتے ہیں تو کھیل دلچسپ ہوگا۔ بی جے پی دوبارہ اقتدار کے لیے شندے اور اجیت پر انحصار کرے گی۔ اس انحصار کی قیمت انہیں وزیر اعلیٰ کا عہدہ دے کر چکانا پڑے تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ ایکناتھ شندے اور اجیت پوار دونوں مراٹھا وزیر اعلی کے طور پر تیار ہیں۔ سارا کھیل اس بات پر منحصر ہے کہ عوام نے انہیں کتنے نمبر دیئے ہیں۔ اس بار بڑی تعداد میں باغی اور آزاد امیدواروں نے الیکشن لڑا ہے، اگر وہ خاصی تعداد میں جیت جاتے ہیں تو بی جے پی انہیں شنڈے اور اجیت سے پہلے ترجیح دے گی۔ بی جے پی انہیں ساتھ لے کر اپنا سی ایم بنانے کی کوشش کرے گی۔ 1995 میں 45 آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی اور ان کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی۔

اب بڑا سوال یہ ہے کہ بی جے پی کی طرف سے وزیراعلیٰ کا چہرہ کون ہوگا؟ اگر آزادوں کی بنیاد پر حکومت بنتی ہے تو دیویندر فڑنویس بلاشبہ وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے پہلی پسند ہوں گے، کیونکہ آزادوں کے ساتھ حکومت چلانا ‘مینڈک تولنے’ سے کم مشکل نہیں ہے۔ اگر فڑنویس نہیں، تو یہ شندے ہی ہیں جنہوں نے پچھلے ڈھائی سالوں میں ہر ایک کی مدد کرنے کی اپنی وسائلی صلاحیت کا ثبوت دیا ہے۔ اگر بی جے پی کو سی ایم بنانے پر اصرار ہے تو فڑنویس سے آگے کوئی نہیں ہے۔ آزاد امیدواروں کی طاقت سے حکومت بنانے کی صورتحال میں دوسرا مساوات او بی سی کا ہے۔ مہاراشٹر میں مراٹھوں کے علاوہ او بی سی کی بڑی طاقت ہے۔ مراٹھا بی جے پی سے ناراض ہیں۔ او بی سی بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ اسے سادہ رکھنا بی جے پی کی مجبوری ہے۔ بی جے پی نے مہاراشٹر میں 5 سال کے لیے فڑنویس کی شکل میں برہمن سی ایم اور شندے کی شکل میں ڈھائی سال کے لیے مراٹھا سی ایم دیا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس بار مدھیہ پردیش کی طرح مہاراشٹر میں بھی او بی سی سی ایم ہو۔

ایکناتھ شندے کے پاس دوبارہ وزیر اعلی بننے کا امکان صرف اسی صورت میں ہے جب ان کے 40 ایم ایل ایز دوبارہ انتخابات جیت جاتے ہیں، ممکنہ طور پر 40 سے زیادہ۔ دوسری بات یہ کہ اجیت اور آزادوں کے کیمپ میں ایم ایل اے کم تھے اور تیسرا یہ کہ بی جے پی ایم ایل اے کی تعداد 100 سے بھی کم تھی۔ پوسٹ پول کے رجحانات بتاتے ہیں کہ نتائج کے بعد کانگریس دوسری سب سے بڑی پارٹی بن سکتی ہے۔ ان کے پاس شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے کی طاقت بھی ہے۔ اگر عوام کا فیصلہ ان تینوں کے حق میں ہوتا ہے تو مہاراشٹر میں اقتدار کی تبدیلی یقینی ہے۔ اگر یہ تینوں مل کر 145 یا اس سے زیادہ ایم ایل ایز کی واضح اور قطعی اکثریت حاصل نہیں کرتے ہیں اور کھیل آزاد امیدواروں کی حمایت میں بدل جاتا ہے تو مشکل ہوجائے گی۔ بی جے پی کے پاس عقل، وسائل جمع کرنے اور اقتدار کی سیڑھی بنانے کے معاملے میں ان تینوں سے زیادہ طاقت ہے۔ آزاد اسی طرف پھسل رہے ہیں جس طرف حکومت ہے۔

اگر مہواکاس اگھاڑی کی حکومت بنتی ہے تو حکومت کا سربراہ کون ہوگا؟ یہ سوال پوری انتخابی مہم میں پوچھا جاتا رہا ہے۔ ادھو چاہتے تھے کہ ان کی حکومت گرانے کے بعد ہی مہاوتی حکومت بنی، اس لیے انہیں وزیر اعلیٰ کا چہرہ قرار دے کر الیکشن لڑنا چاہیے۔ لیکن، شرد اور کانگریس نے کہا کہ جس کے پاس زیادہ ایم ایل اے ہوں گے وہی وزیراعلیٰ ہوگا۔ حالانکہ یہ ایک مثالی صورتحال ہے، لیکن کیا شندے کے وزیر اعلی بن کر زخمی ادھو اور ان کے حمایتی ایم ایل اے کے دلوں کو ٹھنڈا کر پائیں گے؟ دوسری بات یہ کہ جس طرح بی جے پی نے سب سے زیادہ ایم ایل اے ہونے کے باوجود شنڈے کو وزیراعلیٰ بنا کر اگھاڑی سے اقتدار چھین لیا، کیا کانگریس بھی وہی سیاسی دانشمندی دکھا پائے گی؟ شرد، جو 2004 میں کانگریس کے زیادہ ایم ایل اے ہونے کے باوجود اجیت کو وزیر اعلیٰ بننے کی اجازت نہ دینے کے لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے دستبردار ہونے کا سامنا کر رہے تھے، کیا وہ اس بار بھی ایسا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ یا بیٹی سپریا سولے کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے کوئی بڑا جوا کھیلے گا؟ ان سوالوں کے جواب نتائج کے ساتھ ہی ملیں گے۔

ہماری اپنی ریاضی
ادھو ٹھاکرے۔

  1. اپنی اور اپنی پارٹی کی بقا کے لیے ادھو ٹھاکرے بھی کسی بھی حالت میں اقتدار سے باہر ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کے بہت سے ایم ایل اے اقتدار سے باہر ہونے کی صورت میں رخ بدل سکتے ہیں۔ ادھو کے لیے اقتدار اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہ آنے والے وقت میں ممبئی میونسپل کارپوریشن اور دیگر میونسپل کارپوریشنوں کی طاقت چاہتے ہیں۔
  2. ایسی صورت حال میں، اگر کانگریس اتحاد میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے اور وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے آگے بڑھتی ہے، تو ادھو کسی اور آپشن پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ دوسرا آپشن ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بی جے پی میں نریندر مودی اب بھی ادھو ٹھاکرے سے کوئی دشمنی نہیں رکھتے۔

اجیت پوار

  1. اجیت کے لیے یہ اسمبلی الیکشن اپنا وجود بچانے کا انتخاب ہے، لیکن ان کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات صفر ہیں، اس لیے وہ بی جے پی کے ساتھ رہنے میں خود کو محفوظ سمجھیں گے کیونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
  2. ویسے بھی، اجیت کی این سی پی صرف 59 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ ان میں سے 37 سیٹوں پر ان کا براہ راست مقابلہ شرد پوار سے ہے۔ اگر اجیت ان سیٹوں پر اچھی کارکردگی نہیں دکھا پاتے ہیں تو ان کے لیے بی جے پی پر انحصار کرنا زیادہ ضروری ہو جائے گا۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں اجیت اپنی بیوی یا بیٹے کے لیے کچھ حاصل کر کے مہاراشٹر میں بی جے پی کا جھنڈا بلند رکھیں گے۔

ایکناتھ شندے

  1. اگر نتائج کے بعد بھی بی جے پی شندے کو سی ایم نہیں بناتی ہے تو وہ خود بی جے پی کے ساتھ رہیں گے، لیکن ان کے ایم ایل اے کیا کریں گے، بی جے پی میں ہر ایم ایل اے کے بارے میں انفرادی اسٹڈی چل رہی ہے۔
  2. اگر بی جے پی کی قیادت میں اتحاد حکومت نہیں بنا پاتا ہے اور ادھو کو مہاوکاس اگھاڑی میں موقع ملتا ہے، تو بی جے پی یہ مان رہی ہے کہ شندے گروپ کے جیتنے والے ایم ایل اے کو ادھو کے ساتھ جانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی۔
Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com