Connect with us
Wednesday,16-April-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

’بزمِ صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن‘ کا قیام دیرینہ خواب کی تکمیل۔ شاہدہ حسن

Published

on

عالمی خواتین انجمن’بزمِ صدف انٹرنیشنل لٹریری فورم آف ویمن‘ کے قیام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کی صدر محترمہ شاہدہ حسن نے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے دیرینہ اس خواب کی تکمیل گذشتہ دنوں ہوئی ہے جب اس کا باضابطہ قیام کا اعلان کیا گیا۔ یہ بات انہوں نے خواتین انجمن کی تاسیسی پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں اختصار کے ساتھ بزمِ خواتین کو زیادہ موثر اور سرگرم بنانے کے لیے بعض کارآمد مشورے پیش کیے۔
تنظیمِ خواتین کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر افشاں بانو نے آغاز میں اس تنظیم کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی عالمی حیثیت کے پیش نظر کسی بین الاقوامی خواتین ادبی انجمن کی واقعتا ضرورت تھی۔ دنیا میں ادبی رویوں کی تبدیلی اور عالمی سطح پر زبان و ادب کے نئے مسائل کے پیش نظر یہ لازم ہے کہ ایسے ادارے وجود میں آئیں۔انھوں نے دنیا بھر کی خواتین فن کاروں کے اُن مسائل کا ذکر کیا جن کے سبب ان کی تحریروں کی توسیع و اشاعت میں بہت طرح کی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔
بزمِ صدف کے چیرمین شہاب الدین احمد نے ’بزمِ صدف:ایک مشن‘موضوع کے پیش نظر خواتین کی اس انجمن کے اہداف طے کرنے کے لیے مشورہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت اور اپنی تخلیقات کی عالمی تشہیر کو پیش نظر رکھتے ہوئے بزمِ صدف کی اشاعتی سرگرمیوں سے آپ تمام لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے تنظیمِ خواتین کی ضرورت کے موضوع پر اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا۔ انھوں نے اردو کی ادبی تاریخ میں خواتین کی گوناگو ں خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس تنظیم کے مستقبل شناس ہونے اور مختلف انداز کے کاموں کو انجام دینے کے لیے آگے آنے کی ذمہ داری اٹھانے کی گزارش کی۔
پروگرام کا افتتاح بزمِ صدف کے سرپرستِ اعلی محمد صبیح بخاری نے کیااور مہمانِ ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسر ارتضیٰ کریم(دہلی)، باصر سلطان کاظمی(برطانیہ) اور ضامن جعفری (کینیڈا) نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ افتتاحی اجلاس کی نظامت ڈاکٹر افشاں بانو نے کامیابی کے ساتھ کی۔ اس پندرہ ممالک کی خواتین جن میں شاعر، نقاد،افسانہ نگار، محقق اور ادب کی مختلف اصناف میں خدمات انجام دینے والی اہلِ قلم اس میں شامل تھیں۔
دوبئی میں مقیم بزمِ خواتین کی پروگرام کوآرڈینیٹر محترمہ عائشہ شیخ آشی کی نظامت میں خواتین کا یہ عالمی مشاعرہ شروع ہوا۔
محترمہ تہمینہ راو
دل ٹوٹا ایسے، کرچیاں ہاتھوں میں رہ گئیں
گھر اس کے بعد مجھ سے سنبھالا نہیں گیا
رفعت جہاں
دل کوئی آیا لے کے رفعتِ جاں
کوئی بیٹھا رہا غبار لیے
ڈاکٹر ثروت زہرا
ثواب کی دعاؤں نے گناہ کردیا مجھے
بڑی ادا سے وقت نے تباہ کردیا مجھے
ڈاکٹر وفا یزدان منش
ایک ہی لمحے میں مجھ کو سوچ نے بھٹکا دیا
یعنی میری زندگی کا ایک ہی لمحہ غلط تھا
امرینہ قیصر
یہ فیصلے بھی بہت کٹھن ہیں تمھی بتاؤ کہ کیا کروں میں
تمھاری عادت ہے کڑھتے رہنا تو میری عادت ہے مسکرانا
تمھیں خوشی تو کبھی نہ ہوگی،جفا کروں یا وفا کروں میں
فریدہ نثار انصاری
سجا کر آنکھ میں آنسو، گلِ ایثار لائی ہوں
میں اب برقِ تپاں سے مانگ کر رفتار لائی ہوں
عنبرین صلاح الدین
اس کا موڈ بھی ایک پہاڑی رستہ ہے
اگلے موڑ پہ جانے کیسا منظر ہو
سمیعہ ناز ملک
خدا نے میری بینائی کو کچھ ایسا ہنر بخشا
میں آنکھیں بند کر کے بھی نظارہ دیکھ سکتی ہوں
ڈاکٹر افشاں بانو
ایسا کوئی کہاں جسے تم سا بتائیں ہم
دل میں بسا کے جس کو غزل گنگنائیں ہم
ڈاکٹر عشرت معین سیما
فصیل رنجش کی آسماں تک کھڑی ہوئی ہے
سو اس کے سینے میں خشتِ گریہ گڑی ہوئی ہے
تسنیم حسن
جو نام لکھ کے درختوں پہ بھول جاتے ہیں
وہاں پہ شاخوں کے سائے اداس ہوتے ہیں
ہ جہاں جعفری حجاب
گئے پردیس تھے تم دھن کمانے
حویلی اپنی کُٹیا کو بنانے
مگر اب خود سنہری قید میں ہو
کہ تم نے کھو دیے اپنے ٹھکانے
حمیرا رحمان
ادھار مانگی ہے کچھ سال زندگی ہم نے
زمیں پہ رہتے ہوئے آسماں کا حصہ ہیں
شاہدہ حسن
میں ٹوٹتے اور بکھرتے رشتوں کو جوڑنے میں مگن ہوں لیکن
ہے یہ بھی سچ کہ مجھی کو مجھ سے ملانے والا کوئی نہیں ہے
اس پروگرام میں اردو ادب و تنقید کی معتبر آواز پروفیسر مظفر حنفی کوخراج عقیدت پیش کیا گیا۔
محترمہ شاہدہ حسن نے مظفر حنفی کو یاد کرتے ہوئے اپنی غزل کا ایک شعر انھیں نذر کیا:
دیے لگاتار بجھ رہے ہیں تو بڑھ گیا ہے بہت اندھیرا
چراغ سے اب چراغ شاید جلانے والا کوئی نہیں ہے
اس کے علاوہ کلکتہ سے محترمہ شبانہ آفرین جاوید، موریشس سے ڈاکٹر نازیہ بیگم جافو، بنگلہ دیش سے محترمہ حفصہ اختر اور لکھنؤ سے محترمہ غزال ضیغم نے اختصار کے ساتھ اپنے خیالات اور ادارے کے تئیں نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

ممبئی پریس خصوصی خبر

لاڈلی بہنوں کے ساتھ مہایوتی سرکار کا فریب… قسط میں کمی اور لاڈلی بہنوں کی قسطوں میں تخفیف دغابازی : ابو عاصم اعظمی

Published

on

Abu Asim Azmi

ممبئی : ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی رہنما ابوعاصم اعظمی نے لاڈلی بہن کی قسط میں تخفیف کو ان سے دھوکہ قرار دیا ہے, انہوں نے کہا کہ الیکشن کی شب میں جس طرح سے ووٹوں کے لئے غیر قانونی طریقے سے نقدی تقسیم کی جاتی ہے۔ ایک ہزار اور دو ہزار روپے ووٹ کے لئے علاقوں میں تقسیم فی کس ووٹ کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن سے قبل لاڈلی بہن اسکیم کے تحت خواتین کو لالچ دیا گیا, یہ ایک طرح کی مہایوتی سرکار کی فریب دہی ہے, اور اب مطلب نکال گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔۔ انہوں نے کہا کہ کیا مہایوتی سرکار ان لاڈلی بہنوں کا ووٹ بھی واپس کرے گی, جو ان بہنوں نے انہیں الیکشن میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاڈلی بہن اسکیم کے سبب سرکاری خزانہ پر بوجھ پڑا, سرکاری ملازمین ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کی تنخواہیں بھی تاخیر سے دی گئی ہے۔ ایسے میں سرکار نے لاڈلی بہنوں کے ساتھ فریب کیا ہے۔ الیکشن کے بعد قسط میں اضافہ کا اعلان کیا تھا اور ۲۱ سو روپیہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن اب ۱۵ سو روپیہ سے بھی اس میں تخفیف کر کے ۵ سو روپیہ کر دیا گیا ہے۔ سرکار نے دو کروڑ سے زائد خواتین کو لاڈلی بہن اسکیم میں شامل کیا تھا, اب بہانے اور حیلہ سے انہیں نااہل بھی قرار دیا جارہا ہے یہ دھوکہ ہے ان بہنوں کے ساتھ جنہوں نے ووٹ دیا ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

‎نیشنل ہیرالڈ اراضی کے غلط استعمال کے معاملے میں کارروائی کی جانی چاہئے – انیل گلگلی نے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس سے مطالبہ کیا

Published

on

fadnavis & anil

ممبئی : ممبئی – “نیشنل ہیرالڈ” کے دفتر، نہرو لائبریری اور ریسرچ سینٹر کے لیے 1983 میں ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کو باندرہ (ایسٹ) کے علاقے میں سروے نمبر 341 میں دی گئی سرکاری زمین کا غلط استعمال کیا گیا ہے، گوتم چٹرجی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے۔ اس پس منظر میں آر ٹی آئی کارکن انل گلگلی نے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو خط لکھ کر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ‎تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمین پر 83 ہزار مربع فٹ تعمیر کی گئی ہے, جس میں 11 ہزار مربع فٹ تہہ خانے اور 9 ہزار مربع فٹ بالائی منزل کا اضافی استعمال بھی شامل ہے, جو کہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ قواعد کے مطابق صرف 15 فیصد کمرشل استعمال کی اجازت تھی, لیکن اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہاسٹل کے لیے مختص اضافی اراضی بھی قواعد کو نظر انداز کر کے ادارے کو دی گئی۔

‎2001 میں ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ایک متنازعہ حکم کے تحت، لیز پر دی گئی زمین کو براہ راست ملکیت میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور 2.78 کروڑ کا سود معاف کر دیا گیا تھا، جسے کمیٹی نے قواعد کے خلاف قرار دیا ہے اور اس پر نظر ثانی کی سفارش کی ہے۔ ‎انیل گلگلی نے خط کے ذریعے وزیر اعلیٰ سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں۔ مذکورہ زمین کو حکومت کو واپس لینے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے۔ ‎معاف شدہ سود کی رقم اور اضافی جرمانہ وصول کیا جائے۔ عمارت کی ایک منزل پر پسماندہ طبقے کے طلباء کے لیے ہاسٹل شروع کیا جائے۔ باقی ماندہ زمین پر لائبریری اور ریسرچ سنٹر شروع کرنے کی ہدایات دی جائیں۔ گوتم چٹرجی کی تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا جائے۔ ‎انیل گلگلی نے کہا، ’’اس معاملے میں منصفانہ انصاف کو یقینی بنانا اور سرکاری زمین کا عوامی مفاد میں استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف قانون میں تبدیلی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، کپل سبل نے قانون کو مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

Published

on

Court-&-Waqf

نئی دہلی : وقف ایکٹ میں تبدیلیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل تمام عرضیوں کی سماعت 2 بجے ہوئی۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی۔ وشواناتھن کی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران وقف سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت نہیں ہوئی۔ کیس کی سماعت کے دوران کپل سبل نے کہا کہ یہ قانون مذہبی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ بنیادی ضروریات پر بھی تجاوز کرتا ہے۔ سبل نے اس معاملے میں آرٹیکل 26 کا حوالہ دیا۔ اس سے قبل عدالت نے درخواست گزار سے پوچھا تھا کہ آپ کے دلائل کیا ہیں؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کپل سبل سے کہا کہ وقت کم ہے۔ اس لیے درخواست کے اہم اور اہم نکات بتائیں۔ سبل نے کہا کہ سنٹرل وقف کونسل 1995 کے مطابق تمام ممبران مسلمان تھے۔ میرے پاس چارٹ ہے۔ چارٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو یا سکھ خیراتی اداروں میں ممبران یا تو ہندو ہیں یا سکھ۔ یہ براہ راست قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق یہ 20 کروڑ عوام کے حقوق پر پارلیمانی تجاوز ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا نے دوسری شق کو دیکھنے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق افسر کے علاوہ صرف دو ارکان مسلمان ہوں گے؟ سبل نے قاعدہ S.9 کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل 22 ارکان ہوں گے، جن میں سے 10 مسلمان ہوں گے۔ جبکہ جسٹس وشواناتھن کا کہنا ہے کہ جائیداد کو مذہب کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے۔ جائیداد کا معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔ صرف جائیداد کا انتظام مذہبی معاملات میں آ سکتا ہے۔ بار بار یہ کہنا درست نہیں کہ یہ ایک ضروری مذہبی عمل ہے۔

سبل نے کہا کہ پہلے کوئی پابندی نہیں تھی۔ کئی وقف املاک پر لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ سی جے آئی نے کہا کہ حد بندی ایکٹ کے اپنے فوائد ہیں۔ سبل نے کچھ اور کہا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ مجھے 2 سال کے اندر دعویٰ کرنا ہے۔ بہت سی جائیدادیں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں تو میں ان کا دعویٰ کیسے کروں؟ سی جے آئی کھنہ نے کہا، “آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر آپ حد بندی کی مدت لگاتے ہیں، تو یہ غیر آئینی ہوگا۔” اس کا مطلب ہے، وقت کی حد لگانا غلط نہیں ہے۔ سبل کا کہنا ہے کہ اس قاعدے سے وقف املاک پر قبضہ کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ وہ اب منفی قبضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ کہہ سکتے ہیں کہ جائیداد پر عرصہ دراز سے ان کے قبضے میں ہے، لہٰذا اب ان کی ملکیت ہونی چاہیے۔ جسٹس ایم ایم سندریش عدالت میں نہیں تھا۔ لہٰذا عدالت نمبر 8 میں جسٹس ایم۔ جسٹس سندریش اور جسٹس راجیش بندل کی بنچ کے لیے درج مقدمات اب جسٹس راجیش بندل اور جسٹس کے وی کی بنچ کے لیے درج ہوں گے۔ وشواناتھن کی بنچ نے اس کی سماعت کی۔ وقف ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 73 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔

اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی، کانگریس ایم پی محمد جاوید، آر جے ڈی ایم پی منوج کمار جھا اور ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا جیسے کئی لوگوں نے عرضی داخل کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی، انڈین یونین مسلم لیگ، وائی ایس آر سی پارٹی اور سمستھا کیرالہ جمعیت العلماء نے بھی درخواست دائر کی ہے۔ دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان، ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان اور بنگلور کی جامع مسجد کے امام بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، TVK کے صدر اور تمل اداکار وجے اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ جبکہ راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر، آسام، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں نے اس ایکٹ کی حمایت میں مداخلت کی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ایک کیویٹ داخل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔

اس معاملے میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کیویٹ پٹیشن بھی داخل کی ہے۔ عرضی میں مرکز نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی حکم دینے سے پہلے مرکزی حکومت کے دلائل بھی سنے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت کو بغیر سنے کوئی یکطرفہ حکم جاری نہیں کرنا چاہیے۔ مرکزی حکومت نے کیویٹ پٹیشن میں واضح کیا ہے کہ اسے اس اہم معاملے میں اپنا رخ پیش کرنے کا پورا موقع دیا جانا چاہئے، تاکہ عدالت کے ذریعہ کوئی بھی فیصلہ سناتے وقت مرکز کے دلائل کو بھی شامل کیا جاسکے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ وقف (ترمیمی) بل 2025، جسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بجٹ اجلاس میں منظور کیا تھا، صدر دروپدی مرمو کی منظوری مل گئی ہے۔ اس سلسلے میں گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کے ساتھ ہی وقف ایکٹ 1995 کا نام بھی تبدیل کر کے یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ (امید) ایکٹ 1995 کر دیا گیا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com