(جنرل (عام
حیدرآباد:تبلیغی جماعت سے واپس کورونا سے روبہ صحت شخص کا تالیوں کی گونج میں ہیرو کی طرح بین مذہبی شاندار استقبال

حیدرآباد کے علاقہ بورابنڈہ کے این آر آر پورم سائٹ تری کا ایک پرانا مکان معمولی نظر آتا ہے تاہم اس کی امید،بین طبقہ ہم آہنگی کی کہانی غیر معمولی ہے۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران جب کبھی تبلیغی جماعت کا لفظ سننے میں آیا،اس لفظ کو صرف تنازعہ کی حد یا لوگوں کو ہندو اور مسلم کے خطوط پر تقسیم کرنے کے پس منظرمیں سناگیا،اس کے ذریعہ منافرت پھیلانے والوں کو ایک موقع ملا۔ اس دوران کورونا جہاد جیسا ناگوار لفظ بھی بعض متعصب افراد سے سناگیا لیکن حیدرآباد کے اس چھوٹے سے محلہ میں لوگ،دہلی کے تبلیغی جماعت کے مرکز میں کورونا سے متاثرہونے کے بعد اس سے روبہ صحت شخص کوہمدری اور شفقت کے ساتھ ہیرو کی طرح شاندار استقبال کرتے ہوئے منافرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرنے اوران کے دعوے کو غلط ثابت کرتے ہوئے اپنے جذبہ کو تحریک میں تبدیل کرنے کے لئے آگے آئے۔اس طرح کے استقبال کے ذریعہ ان افراد نے یہ ثابت کردیا کہ شہر حیدرآباد میں گنگاجمنی تہذیب ابھی باقی ہے اوریہ واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔روبہ صحت شخص کا تالیوں کی گونج میں پھول نچھاور کرتے ہوئے بلالحاظ مذہب وملت استقبال کیاگیا۔اس موقع پر بابا فصیح الدین ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی) نے گلدستہ پیش کرتے ہوئے ان کا شاندار استقبال کیا۔محمد رفیع اللہ خان جو روبہ صحت ہوکر اپنے گھر پہنچے، اس تعلق سے بتاتے ہیں کہ 5 اپریل کو وہ شہر حیدرآباد کے گاندھی اسپتال میں داخل کئے گئے جو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج کے لئے ایک بڑے مرکز کے طورپر ابھرا ہے۔تقریبا 43دن اسپتال میں وہ زیرعلاج رہے۔اسپتال سے روبہ صحت ہونے کے بعد گھر واپسی پر ان کا ہیرو کا طرح استقبال کیاگیا۔سڑک کی دونوں جانب لوگوں نے تالیاں بجاکران کا استقبال کیا۔ساتھ ہی ایک عالم دین، ایک پادری اور ایک ہندو خاتون جو موظف گزیٹیڈ آفیسر نے ان کا شاندار خیرمقدم کیا۔ہندو خاتون نے جہاں ان کی آرتی اتاری تو پادری نے ان کے لئے دعائیہ کلمات اداکئے اور عالم دین نے ان کو دعا دی۔رفیع صاحب نے کہا”میری یہ ابتدا میں سونچ تھی کہ چونکہ میں بیماری سے روبہ صحت ہورہا ہوں تو پتہ نہیں میرے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کیاجائے گاتاہم محلہ پہنچنے پر میرے کے لئے حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ میرابین طبقاتی استقبال کیاگیا۔میرا یہ احساس تھا کہ روبہ صحت ہونے کے بعد اس بیماری کے تعلق سے پیداخدشات کے درمیان میری طرف کوئی بھی پلٹ کر نہیں دیکھاگاکیونکہ عالمی سطح پر اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیاجارہا ہے اور سماجی فاصلہ کے نام پر دوررہنے کی بات کہی جارہی ہے لیکن جب میں اپنے محلہ پہنچا تو تالیوں کے ساتھ میرا ستقبال کیاگیا جس پر مجھے کافی مسرت ہوئی۔تمام افراد بالخصوص ہندو،مسلم،عیسائی طبقات کے لوگ بھی میرااستقبال کرنے والوں میں تھے“۔ان کاکہنا ہے”ابتدا ہی سے اس علاقہ میں ہندو،مسلم لوگ ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے ہیں۔میں میرا استقبال کرنے والوں کا شکرگذار ہوں،میری وجہ سے اس علاقہ کے 70تا80گھروں میں رہنے والوں کو تکلیف ہوئی کیونکہ میرے مثبت پائے جانے کے بعد اس علاقہ کوکنٹینمنٹ زون میں تبدیل کردیاگیاتھا۔میری وجہ سے ان مکانات کے افراد گھروں سے باہر نہیں نکل پارہے تھے۔اس کے لئے میں ان تمام افراد سے معذرت خواہی کرتا ہوں۔یہ افراد میرے لئے قابل احترام ہیں۔جس طرح میرا استقبال کیاگیا اورمذہبی رواداری کا مظاہرہ کیاگیا اس سے اپنے آپ کوجدا رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ہمیں تمام کے ساتھ رہنا ہے“۔
خاندان کے ایک فرد کی طرح رفیع صاحب کا استقبال کیاگیا۔دراصل رفیع اللہ خان اُس ہندوستان کی یاد دلارہے ہیں جو ہنوز زندہ ہے۔اس میں مذہب کے نام پر بیر نہیں ہے۔محمد رفیع اللہ خان اس طرح کے شاندار استقبال پر روپڑے اور کہاکہ اسپتال میں ان کو تمام طرح کی سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔انہوں نے وزیراعلی کے چندرشیکھرراو کے ساتھ ساتھ ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن (جی ایچ ایم سی)بابا فصیح الدین کا شکریہ اداکیا۔انہوں نے کہاکہ اسپتال میں کھانا وقت پر دیاگیا اور ہر چیز وقت پر ان کو فراہم کی گئی۔اسپتال میں بہترین سہولیات فراہم کی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ بابافصیح الدین اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ اور انسانی بھائی چارہ کے لئے کافی بڑھ چڑھ کرکام کررہے ہیں۔ان کی مساعی کافی قابل ستائش ہے۔ان کے کارناموں کو یاد رکھاجائے گا۔تین افراد جو تین مختلف مذاہب کے نمائندے ہیں نے انسانیت اور ہمدردی کا اظہار رفیع اللہ خان کے لئے کیا ہے۔ نارالکشمی موظف گزیٹیڈ آفیسرجنہوں نے رفیع اللہ خان کی آمد پر ان کا استقبال کرتے ہوئے ان کی آرتی اتاری کا کہنا ہے ”انسانی بنیادوں پر ان کا استقبال کیاگیا اور ہندو طریقہ کے مطابق یہ آرتی اتاری گئی جس کے بعد میں نے رفیع اللہ خان کو آیوشمان سُکھی بھوا بھی کہا۔ مذہب،طبقہ،ذات میں کوئی فرق نہیں ہے۔تمام کو ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہئے۔ میں نے رفیع اللہ خان کی حوصلہ افزائی کیلئے ان کی آرتی اتاری“۔پادری پرکاش جنہوں نے رفیع اللہ خان کے استقبال کے موقع پر دعائیہ کلمات کہے نے کہا”اس مرض کے تعلق سے رفیع صاحب،ان کے خاندان کے دل میں کسی بھی قسم کا کوئی شک وشبہ نہ رہے، اس کے لئے میں نے دعائیہ کلمات اداکئے“۔اس سوال پر کہ اس طرح کے انسانی رشتہ سے لوگوں کو کیابتانامقصد ہے؟توپادری پرکاش نے کہا”کورونا کے اس ملک میں آنے کے بعد مذہب کی بنیاد پر اس کی تقسیم کی گئی،لوگوں کا پیار محبت تقسیم ہوگیا،اس کورونا معاملہ نے تمام مذاہب کو تقسیم کردیا تھاتاہم تین مذاہب کی جانب سے روبہ صحت شخص کے استقبال سے ملک کے لئے بہتر پیام دینے کا کام کیاگیا ہے“۔
مولانااحمد جنہوں نے رفیع اللہ خان کی آمد کے موقع پر ان کو دعادی کا کہنا ہے”میں نے اللہ تعالی سے دعا کی کہ کوروناوائرس کا جلد از جلد خاتمہ کیاجائے کیونکہ اس وبا کی وجہ سے ساری انسانیت پریشان ہے،پوری دنیا میں لوگ پریشان ہیں، رفیع اللہ صاحب کی صحت کے لئے بھی دعا کی گئی۔کورونا وائرس کی وجہ سے وہ ذہنی تناو کا شکار ہوگئے تھے،تمام افراد کے ٹہر کر ان کا استقبال کرنے سے تمام کو نئی خوشی ملی اور خود ان کو بھی خوشی ہوئی۔تمام نے ٹہر کر ان کو دعا دی“۔اس خصوص میں مقامی نوجوان صحافی ابرار نے کہا کہ جس طرح رفیع اللہ خان کا استقبال کیاگیا اس سے وہ کافی متاثر ہوئے۔ملک میں نفرت کے اس ماحول میں ہمیں اتحاد کے ساتھ رہنا ہوگا۔آج بھوک مری،مزدوروں کے مسائل ہیں،ہمیں ہندو،مسلم،سکھ،عیسائی بھول کرانسانیت کے پیچھے جانا چاہئے۔رفیع اللہ کی کم عمر بیٹی نے کہا کہ ان کو ان کے والد کے بیمار ہونے کے وقت تھوڑا خوف انہیں تھا۔ بابافصیح الدین ڈپٹی مئیر گریٹرحیدرآباد میونسپل کارپوریشن(جی ایچ ایم سی) نے لوگوں کی اس مساعی میں اہم رول ادا کیا۔انہوں نے لوگوں کے اس اقدام کی کافی ستائش کی اوراسے گنگاجمنی تہذیب کی علامت سے تعبیر کیا۔بابافصیح الدین اس علاقہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی،مذہبی رواداری کو فروغ دینے میں کافی سرگرم عمل ہیں۔انہوں نے گاندھی اسپتال سے رفیع اللہ خان کو خود ان کی گاڑی میں گھر پہنچایا۔ان کا کہنا ہے کہ مرکز کے معاملہ کو تبلیغی جماعت سے جوڑ کر بعض افراد کی جانب سے سما ج میں تفرقہ ڈالنے کا کام کیاجارہا ہے اورمسلم طبقہ کو نشانہ بنایاجارہا ہے،اس کو دور کرنے کے لئے مقامی افراد نے رفیع اللہ کے استقبال کے لئے جو اقدامات کئے وہ لائق ستائش ہیں۔
بابا فصیح الدین جنہوں نے رفیع اللہ کے مناسب علاج کے سلسلہ میں نمایاں رول اداکیا نے کہاکہ وزیراعلی کے چندرشیکھرراو کی قیادت میں تلنگانہ میں سیکولر حکومت برسراقتدار ہے۔یہاں پر ہمیشہ گنگاجمنی تہذیب کو فروغ دیاجائے گا۔انہوں نے کہاکہ رفیع اللہ خان کے کورونا سے مثبت پائے جانے کے بعد ان کی بیوی اور بچوں کے بھی طبی معائنے کروائے گئے تاہم ان کی رپورٹس منفی آئیں جس کے بعد ان کو اسپتال سے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔انہوں نے کہاکہ ان کے ڈسچارج ہونے کے بعد سائٹ تری کالونی کے تمام افراد نے گنگاجمنی تہذیب کے مطابق رفیع اللہ خان کا استقبال کیا۔ڈپٹی مئیر نے اس علاقہ کے کنٹیمنٹ زون میں رہنے والوں کے لئے رمضان کی ابتداسے ہی روزانہ سحری کا معقول انتظام کیا اور دیگر خدمات انجام دیں کی کافی ستائش کی جارہی ہے۔ رفیع اللہ خان، پادری پرکاش،نارالکشمی اور مولانا احمد نے ان کے اس قدم کی کافی ہمت افزائی کی۔اس کالونی کے دیگر افراد نے بھی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ وائرس کے متاثرین کے بہتر علاج کو یقینی بنانے پر حکومت تلنگانہ سے وہ اظہار تشکرکرتے ہیں۔اس موقع پر رفیع اللہ کے بھائی نے بھی تمام سے اس سلسلہ میں اظہار تشکر کیااور کہا کہ محلہ کے تمام افراد بالخصوص بابا فصیح الدین کا تعاون کافی زیادہ رہا۔
(جنرل (عام
وقف ایکٹ متعصبانہ قانون، جمہوریت پر حملہ… کورٹ میں لڑائی کے ساتھ جمہوری طریقے سے احتجاج بھی قانون واپسی تک جاری رہے گا : آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

ممبئی : ممبئی وقف ایکٹ اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہے اور اس میں کئی خامیاں ہیں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے تعصب کی بنیاد پر وقف ایکٹ متعارف کروایا گیا ہے, اور یہ جمہوریت کو ختم کرنے والا قانون ہے۔ اس قانون کے خلاف اس وقت احتجاج جاری رہے گا, جب تک یہ واپس نہیں لیا جاتا اس قانون کے مفاذ سے نظم و نسق کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے, اس قانون کے تحت ریاستی سرکاروں کے اختیارات بھی چھین لئے گئے ہیں, اس قسم کا اظہار خیالات آج یہاں جماعت اسلامی کے سربراہ سعادت اللہ حسینی نے کیا ہے, انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے کہا کہ وقف ایکٹ میں جو قانون نافذ کیا گیا ہے, اس پر جے پی سی میں اعتراض کیا گیا تھا اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس پر عدالت نے عارضی راحت ضرور دی ہے, لیکن اس کی واپسی تک ہم اس پر اپنی قانونی اور جمہوری لڑائی جاری رکھیں گے, یہ ایک متعصبانہ قانون ہے, دیگر مذاہب کے لیے علیحدہ قانون موجود ہے۔ اور دستور ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے رسم و رواج کے معرفت مذہبی ادارے اور عبادتیں کر سکتے ہیں, یہ حق سے محروم کرنے کی کوشش اس ایکٹ میں کی گئی ہے۔ غریبوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی آڑ میں وقف ایکٹ کا اطلاق ایک دھوکہ اور فریب ہے سرکار نے وقف سے متعلق جو بدگمانیاں پیدا کی ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر سرکار وقف ایکٹ کے معرفت غریبوں اور دیگر طبقات کا حق فراہمی کا کام کرنا چاہتی ہے, وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کیوں چھین لیا گیا۔
وقف ایکٹ کی آڑ میں ہندوستانی جمہوریت اور ڈاکٹر باباصاحب امینڈکر کے دستور پرسرکار نے حملہ کیا ہے اور غنڈہ گردی کی جارہی ہے, یہ کہا جارہا ہے کہ یہ قانون تسلیم کرنا ہی ہوگا, یہ قانون صرف مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا, بلکہ دستور کی روح پر حملہ ہے۔ غریبوں بیواؤں کے اگر وزیر اعظم اتنے ہی ہمدورد ہے تو بلقیس بانو کو انصاف کیوں نہیں دیا۔ گجرات فساد میں احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری مظلومہ انصاف کی متلاشی مظلومہ قبر میں پہنچ گئی, گجرات میں ۱۱ سال میں مسلمانوں پر کیا مظالم کئے گئے, یہ سب جانتے ہیں یہ سرکار مسلمانوں کی آبیاری نہیں بلکہ تباہی چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے لیکن اس کے باوجود اس منظور کیا گیا, ۲۰۱۳ میں وقف قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا, اس قانون کو اس وقت لانے کی کیا ضرورت تھی, جب یہ قانون منظور کیا گیا تو بی جے پی بھی اس کی حامی تھی اس کی مخالفت نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون آرٹیکل ۲۴،۲۵،۱۱ کی صریحا خلاف ورزی ہے جو ہمارے حقوق کی تحفظ کرتا ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری فضل الرحمن مجددی نے کہا کہ اب وقف ایکٹ کے معرفت واقف کو یہ ثابت کرنا ہوگا یہ وہ مسلمان ہے اس میں جے پی سی میں باعمل مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ قانون کی خلاف وزری ہے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ پانچ سال مسلمان ہونا شرط ہے, لیکن اب اس میں باعمل اور ثابت کرنا ہوگا کہ آپ مسلمان ہیں اور اسلام پر عمل پیرا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تنازع کی صورت میں اس زمین کو سرکاری زمین قرار دیا جائے گا۔ وقف ایکٹ اور وقف سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اور سوشل میڈیا میں ان غلط فہمیوں کو ہوا دیا گیا۔ میڈیا میں بھی یہ پھیلایا گیا کہ وقف کی ملکیت اتنی زیادہ ہے اور الہ آباد ہائیکورٹ کے کیس میں تو یہ کہا گیا کہ اب وقف کے معاملہ ہائیکورٹ کو ہی سپریم کورٹ انصاف کیلئے جانا پڑا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے یہ ہائیکورٹ کے باہر لب سڑک ایک مسجد کا تنازع تھا, جس کو کاظمی صاحب نے نمازیوں کے لئے تعمیر کروائی تھی اس طرح سے بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہے۔
مونسہ بشری عابدی نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے اس میں مسلم خواتین پیش پیش رہے گی۔ مسلم خواتین کو سرکار لالی پاپ نہیں دے سکتی, کیونکہ وہ سرکار کی نیت اور منشیات کو جانتی ہے۔ انہوں کہا کہ بتی گل سے لے کر ہر طرح کے احتجاج میں خواتین شامل ہے اور ہم اس قانون کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا محمود دریا بادی، امن کمیٹی سربراہ فرید شیخ، سمیت دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شریک تھے۔ :
جرم
ممبئی انسانی اسمگلنگ ریکیٹ کا پردہ فاش مغربی بنگال اور حیدرآباد گرفتاری

ممبئی : ممبئی وڈالاٹی ٹی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کے کیس میں حیدر آباد، مغربی بنگال سے بچہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وڈالا ٹی ٹی پولیس اسٹیشن میں شکایت کنندہ امر دھیرنے 65 سالہ نے خاکروب نے 5 اگست 2024 ء کو اپنے نواسہ کی گمشدہ کی شکایت درج کروائی تھی, اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انیل پورنیہ اسما شیخ، شریف شیخ، آشا پوار نے ایک لاکھ 60 ہزار روپے میں بچہ کو فروخت کیا ہے۔ اس کے بعد ملزم انیل پورنیہ،اسما شیخ، شریف شیخ کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا کیس درج کر لیا گیا تھا ملزم انیل پورتیہ، اسما شیخ کو ممبئی سے گرفتار کیا گیا, اس میں ملوث ملزمہ آشا پوار بھی ملوث تھی۔ اس کے بعد پولیس نے آشا پوار کی تلاش شروع کر دی اور حیدر آباد سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس تفتیش میں ملزمین نے بتایا کہ متاثرہ بچہ کو بھونیشور اسٹیشن اڑیسہ میں ریشماں نامی خاتون نے فروخت کیا, اس کی ٹیکنیکل تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ملزمہ یہاں بھونیشور میں دانت کے اسپتال میں زیر ملازمت ہے, اور یہاں ہائی ٹیک اسپتال میں کام کرتی ہے, لیکن بھونیشور میں جب پولیس ٹیم پہنچی تو اس نے یہاں سے ترک ملازمت کر لی تھی, اور پھر معلوم ہوا کہ مطلوب ملزمہ مغربی بنگال میں ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش شروع کر دی اور پولیس نے مغوی بچہ اور دیگر تین بچوں کو برآمد کر لیا۔ اس ایک ساتھ ہی ریشماں سنتوش کمار بنرجی 43 سالہ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا, اس کے ساتھ ہی تین سال کے بچہ کو عدالت میں حاضر کیا گیا تو بچہ کی تحویل پولیس کو دیدی گئی تمام مرحلہ مکمل کرنے کے بعد پولیس نے بچہ کا میڈیکل کروایا تو اس کے جسم پر زخموں کے نشان پائے گئے۔ ملزمین نے بچہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس لئے بچہ پر ظلم و ستم کا کیس بھی درج کیا گیا, یہ کارروائی ممبئی پولیس کمشنر وویک پھنسلکر اور اسپیشل کمشنر دیوین بھارتی ایڈیشنل کمشنر انیل پارسکر اور ڈی سی پی راگسودھا کی ایما پر کی گئی۔
جرم
میرابھائندرتقریبا 32 کروڑ کی منشیات ضبطی، ایک ہندوستانی خاتون سمیت دو نائیجرائی گرفتار، سوشل میڈیا پر گروپ تیار کر کے ڈرگس فروخت کیا کرتے تھے

ممبئی : میرا بھائیندر پولیس نے ایک ہندوستان خاتون سمیت دو غیر ملکی ڈرگس منشیات فروشوں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ میرا بھائیندر کرائم برانچ کو اطلاع ملی تھی کہ کاشی میرا میں شبینہ شیخ کے مکان پر منشیات کا ذخیرہ ہے اور وہ منشیات فروشی میں بھی ملوث ہے، اس پر پولیس نے چھاپہ مار کر 11 کلو 830 گرام وزن کی کوکین برآمد کی ہے۔ اس کے خلاف نوگھر پولیس میں این ڈی پی ایس کے تحت معاملہ درج کر لیا گیا، گرفتار ملزمہ نے پولیس کو تفتیش میں بتایا کہ وہ یہ منشیات غیر ملکی شہری انڈے نامی شخص سے خریدا کرتی تھی اور انڈری میرا روڈ میں ہی مقیم ہے اسے بھی گرفتار کیا گیا اور اس کے قبضے سے بھی منشیات ضبط کی گئی اور نائیجرائی نوٹ 1000 برآمد کی گئی اور 100 امریکن ڈالر کی 14 نوٹ بھی ملی ہے۔ اس معاملہ میں تفتیش کے بعد دو نائیجرنائی اور ایک ہندوستانی خاتون کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے قبضے سے دو کروڑ تیس لاکھ روپے کی منشیات ضبط کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 100 امریکن ڈالر کی 14 نوٹ چار موبائل فون اس کے علاوہ 22 کروڑ تیس لاکھ روپے کی منشیات ضبطی کا بھی دعوی کیا ہے, یہ کارروائی میرا بھائیندر پولیس کمشنر مدھو کر پانڈے ایڈیشنل کمشنر دتاترے شندے، اویناش امبورے سمیت کرائم برانچ کی ٹیم نے انجام دی ہے۔ کرائم برانچ نے بتایا کہ یہ کوکین یہ نائیجرائی پیٹ میں چھپا کر یہاں لایا کرتے تھے۔ یہ کوکین ساؤتھ امریکہ میں تیار کیا جاتا ہے، یہ کوکین ہوائی جہازکے معرفت انسانی جسم میں چھپا کر لایا جاتا ہے۔ پہلے یہ ممبئی ائیر پورٹ پر پہنچایا جاتا ہے اور پھر ممبئی میں سڑکوں کے راستے سے متعدد علاقوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر متعدد گروپ تیار کرکے ملزمین ڈرگس فروخت کیا کرتے ہیں۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا