Connect with us
Friday,20-September-2024
تازہ خبریں

سیاست

گرم،دولیڈران کرسی کی خاطر عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف

Published

on

mufti

مالیگاؤں:سابق رکن اسمبلی مفتی محمد اسماعیل قاسمی قرآن و حدیث کی روشنی میں بات کرنے والے خود اپنی ہی باتوں پر کیوں نہیں جمے رہتے ہیں؟یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جلسے گاہ میں آج جو بیان بازی اور تقریر کریں گے آئندہ پانچ سال بعد سوشل میڈیا پر وائر ل ہونے میں وقت نہیں لگے لگا۔ اپوزیشن جماعت اس کام کو بہت ہی خوبصورت انداز میں شارٹ کلپ کے ذریعے وائرل کرتی ہے۔ جس طرح تیسرا محاذ سے عوام نے بھرپور تائید مفتی اسماعیل کو دی تھی کیونکہ کوئی سیاسی بدنما داغ دامن میں نہیں تھا۔تیسرا محاذ سے جیت درج کرانے کے بعد سیاسی پلیٹ فارم سے خود کی حمایت حاصل کرنےکے لیے فتویٰ جاری کیاتھا کہ این سی پی کو ووٹ دینا حرام ہے۔ ہر بات کی طرح عوام نے اس بات کو بھی تسلیم کرلیا تھا کہ این سی پی کو ووٹ دے کر حرام کام میں ملوث نہیں ہوں گے۔ لیکن اپنی چھتری میں کوّا بھی حلال والی پالیسی اپنا کر این سی پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ کیونکہ سابق ایم ایل اے کو پتہ تھا کہ میری اندھی عقیدت میں مبتلا شہر کی اکثریت میرا ہی ساتھ دیں گی۔لیکن سیاسی حربہ استعمال کرنے میں ناکام ہوگئے ، سیاسی تڑ جوڑ کا تجربہ نہ ہونے کی بناء پر کانگریس و این سی پی کا اتحاد ہونے پر رولنگ ایم ایل اے شیخ آصف کو ٹکٹ ملنا طے تھا۔ اتحاد کی بناء پر این سی پی کو بھی کانگریس کا سپورٹ کرنا پڑتا تھا ،بات کرسی کی تھی، لڑائی کرسی کی تھی اس لیے بہانہ بازی کا صحیح موقع تین طلاق کا مل گیا اور پارٹی کو نازک وقت میں چھوڑ کر علٰحیدہ ہوگئے۔ جب این سی پی میں تھے تب مجلس اتحادالمسلمین کو فرقہ پرست پارٹی کا لقب بھی دے دیا تھا، ان کے باپ دادا کی تاریخ بھی مختصر میں بیان کردی تھی ۔ مزید کہا تھا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے ورنہ بہت لمبی کہانی ہے۔
جو اکبرالدین اویسی کو ،اسدالدین اویسی کو ،صلاح الدین اویسی کو اور عبدالواحد اویسی تک کو فرقہ پرست بول دے پھر بھی انہیں ٹکٹ دے دیا جائے، تو مجلس کوایم ایل اے بڑھانے کی خاطر باپ داداؤں کو برا بولنے والے شخص کو بھی ٹکٹ دینا درست ہے؟ایک طرف اعجاز خان نے ایک چھوٹی سی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی تو اسے ٹکٹ نہیں دیا گیالیکن ہزاروںکے مجمع میں مفتی محمد اسماعیل قاسمی اویسی برادران او ر ان کے باپ داداؤں کی کہانیاں منظر عام پر لانے کی کوشش بھی کریں تو انہیں ٹکٹ دے دیا جاتا ہے ۔ مجلس اتحادالمسلمین نے ٹکٹ کے معاملہ میں انصاف کیا؟کیا یہ سب حرکتیں عوام کو گمراہ کرنے کی نہیں ہیں؟عوام اس چیز کو بھی مان لیتی ہے کہ مفتی محمد اسماعیل قاسمی پہلے جمعیۃ علماء مالیگاؤں کے صدر ہیں بڑے عہدے پر فائزہیں بعد میں سیاسی شخصیت ہیں ،مجلس کو فرقہ پرستی کا خطاب دینا جمعیۃ علماء کا موقف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ وہ کوئی بھی فرقہ پرست پارٹی کو حمایت نہیں دیتی ہےچاہیے وہ مسلم فرقہ پرست پارٹی ہی کیوں نہ ہو اسی بنیاد پر مجلس اتحادالمسلمین کی حمایت جمعیۃ علماء نہیں کرتی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے صدر گلزار اعظمی نے چند روز قبل شیخ آصف کی حمایت میں بات کی گلزار اعظمی چاہتےہیں کہ شیخ آصف ایم ایل اے بنے،لیکن کیوں؟ مفتی محمد اسماعیل قاسمی میں سیاسی سمجھ بوجھ کم ہے؟وہ صحیح کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں؟سیاسی صلاحیت شیخ آصف میں زیادہ ہے؟ مفتی محمد اسماعیل قاسمی فرقہ پرست پارٹی سے جڑے ہیں؟پانچ سال عوام نے دیاتھا تو کیا کام کرے تھے؟عوام کو بیوقوف بنانے میں یا ٹھیکیداروں کو خوش کرنے میں مصروف تھے؟یا سیاسی دلالوں کا دائرہ وسیع کرنے کی محنت میں وقت ضائع کرتے رہے تھے؟ عوام سے کام کی بنیاد پر ووٹ مانگیں ،بیوقوف بناکر نہیں ۔حالیہ ایم ایل اے شیخ آصف اورسابق ایم ایل اے شیخ رشید کانگریس کے دور میں ۲۰؍ سال تک شہر کے خزانے پر امت کی امانت کا کتنا خیال رکھا؟ ۲۰؍ سالوں میں کتنا کام کیاجاسکتا تھا؟ کارپوریشن میں سب بڑے بڑے عہدوں پر گھر کے لوگوں کو بٹھایا گیا۔ شہر میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ کام کے معاملہ میں بات ہی نہ کروپھر سالانہ پانچ سو کروڑ روپئےمیں سے اخراجات کہاں کہاں کئےجارہے ہیں؟کانگریس نے ریزرویشن نہیں دیا تو بھی کانگریس کا ساتھ کیوں نہیں چھوڑا؟ کانگریس سے فائد ہ ملے تو امت کو پستی میں ڈھکیل دیا جاتا ہے کیا؟کانگریس کے دور میں شہرمالیگاؤں کے بے گناہوں کو جیلوں میں ٹھونسا گیا تھا تو شیخ آصف نے بے گناہ ثابت ہونے والےمظلومین کے حق میں کانگریسیوں سے معافی کیوں نہیں منگوائی ؟جن فرقہ پرست ذہنیت کے پولس افسران نے مل کر بے گناہوں کو بلاسٹ کے معاملہ میں پھنسایا ان کو کانگریس نے ملازمت سے معطل کیوں نہیں کروایا؟ بلکہ ان کا پرومشن ہوگیا تو کیاکانگریس مسلم دشمنی میں ملوث تھی؟مسلم کانگریسی ایم ایل ایز و کارپوریٹرس کانگریسی قدآور لیڈران کی ایسی قدر کرتے ہیں جیسی قطب ،ابدال کی قدر کی جاتی ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں مرکزی حکومت میں سابق وزیر رہ چکے سلمان خرشید نے کہا کہ کانگریس کے ہاتھوں پر مسلمانوں کے خون کے دھبے ہیں۔ مختار عباس نقوی نے کہا کہ سلمان خرشید نے اعتراف کیا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ براسلوک کیا۔
مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے والی پارٹی سے شیخ آصف نے کیوں ٹکٹ لیا؟ کانگریس سے استعفیٰ کیوں نہیں دیا؟ مالیگاؤں کے بے قصور قیدیوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہے کہ جس پارٹی نے انہیں دس سال بغیر کسی ظلم کے سلاخوں کے پیچھے سڑایا ہےاور ان کی جوانی کے ایام برباد کریں ہیں پھر بھی ان ظالم پارٹی سے استعفیٰ نہیں دیا؟ ملک میں بہت سی پارٹیاں ہیں لیکن کانگریس ہی کیوں؟ زیادہ بدعنوانی کرنے کا موقع دیتی ہے؟بڑے گھوٹالے کی اجازت آسانی سے ملتی ہے؟ کوئی حساب کتاب لینے والاموجود نہیں ہے؟شیخ آصف کے حامیوں کی تعداد بہت ہی کم ہے؟آزادامیدوار انتخابات کے میدان میں جیتا نہیں جاسکتا؟آپ کے حلقہ کی بغل میں دھولیہ شہر اسمبلی حلقہ ہے ،وہاں انیل اننا گوٹے، راج وردھن کدم بانڈے، ڈاکٹر مادھوری بافنا، رنجیت راجے جیسے قدآور لیڈران آزاد امیدواری کررہے ہیں اور ان چار میں سے ہی ایک ایم ایل اے بننے والاہے۔دھولیہ کی طرز پر مالیگاؤں میں انتخابات نہیں ہوسکتے ؟ ایک امیدوار نے منافرت پھیلانے والی مذہبی نعرہ بازی کی پارٹی کا دامن پکڑ لیا تو دوسرا امیدوارکو مسلمانوں کو دیمک کی طرح کھانے والی پارٹی کا سہارا لینا پڑا۔ آخر کیوں دونوں امیدوار آزاد انتخاب میں حصہ لینے پر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ نہیں کررہے ہیں؟ پارٹی فنڈکے چکر میں؟ منتخب ہونے کے بعد پانچ سال تک مزہ لینے کے لیے ؟ عوام کو کیوں نہیں بتایا جاتا ہے کہ مالیگاؤں شہر میں روزانہ پینے کا پانی مہیا کرایا جائے گا؟اقلیتی کالجس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔شہر میں روزگار دستیاب کرایا جائے گا۔راستوں کی مرمت کی جائے گی، آمدورفت کی سہولیات کے لیے سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ کا طریقہ اپنایا جائے گا۔ کیا یہ دونوں سیاسی لیڈران کے مشیر چاہتے ہیں کہ پڑھی لکھی عوام انہیں سیاسی دلال کا لیبل نہ لگا دیں؟روزگار میسر ہونے کے بعد ان کی ورکری کون کرے گا؟ ان کی آفس کون ڈالے گا؟ ایک چائے کے لیے ان کی خوشامد کون کریں گا؟ ورکری کے نام پر چلر کون دے گا؟ اپنی جھوٹی شہر ت اور انا کے خاطر لاکھوں افراد کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ جہاں ایم ایل اے مسلم ، میئر مسلم، اسٹینڈنگ کمیٹی کا صدر مسلم ،نائب مئیر مسلم ،ہاؤس لیڈر مسلم وہ شہر کیسا ہونا چاہیے؟ اگر عوام ان کی پراپرٹی پر نظر دالیں تو حقیقت سامنے آجائے گی عوام کی محنت کے روپئے کیسے ان کی تجوری میں جاتے ہیں اور لیڈران کیسی مستی میں ملوث ہوتے ہیں۔ مالیگاؤں شہر ملک کے مسلمانوں کے لیے باعث فخر ہیں کہ میناروں کے اس شہر میں تعلیم یافتہ افراد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ملکی سطح پر اعلیٰ مقام تک پہنچے والے افراد کی اہم ذمہ داری ہے کہ ایم ایل اے و سابق ایم ایل اے کے نئے پرانے فتنوں سے اہلیان شہر کو نجات دلانے میں اہم رول ادا کریں۔خود شہر کی ترقی کے لیے قربانی پیش کرکے سیاست میں قدم رکھیں انہیں آخری موقع دیں بعد میں دونوں سیاستداں کے لیے مثال بنے کہ مالیگاؤں شہر بھی سنگاپور بن سکتا ہے اگر شہر کاخزانہ دیانتدار اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد کے ہاتھوں میں آجائے۔ ٹھیکہ پر کام دے کر کمیشن کھانے والوں کا کاروبار ختم ہونا چاہیے ۔ پہلے تو کام نہیں کرتے ہیں دوسری بات اگر کام کریں گے بھی تو بہت زیادہ کمیشن پر کام کرنے سے کام کی کوالیٹی اثرانداز ہوجاتی ہے۔ اس انتخاب میں عوام ان سے کہہ کہ کون سال بھر کا گوشوارہ عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ دونوں میں سے جو بھی فرد تیار ہو اسے ووٹ دیں یا کام کی بنیاد پر ووٹ دینے کو اولیت دی جائے۔ دونوں ایک دوسرے کی مخالفت میں اسٹیج لگاکر تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں ان سے کہو اسٹیج پر کام کی بات کریں اگر آپ کو علم ہے کہ وہ بدعنوانی میں ملوث ہے تو پولس اسٹیشن میں جاکر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کراؤ اور ایف آئی آر کی کاپی جلسہ میں تقسیم کرو۔ اگر ایسا نہیں کرسکے تو سمجھ لو یہ دونوں مل کر عوام کو الو بنارہے ہیںاور گنگا دھر ہی شکتی مان ہے ۔اگر ان دھوکے باز کے دھوکے سے باہر نہیں نکلے گے تو پورا ملک سدھر جائے گا لیکن مالیگاؤں سدھر نہیں سکتا ہے۔

سیاست

مہاوکاس اگھاڑی (ایم وی اے) میں سیٹوں کی تقسیم پر جھگڑا جاری، ادھو پارٹی نے اسمبلی انتخابات میں بہار ماڈل کا مطالبہ کیا ہے۔

Published

on

rahul,-sharad-&-uddhav

ممبئی : مہا وکاس اگھاڑی (ایم وی اے)، جس نے لوک سبھا انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اب سیٹوں کی تقسیم پر جھگڑا ہے۔ لوک سبھا سیٹوں کی تقسیم میں کانگریس اور شرد پوار کی پارٹی نے ادھو ٹھاکرے سینا کو بڑا بھائی مانا۔ لیکن ٹھاکرے لوک سبھا میں توقع کے مطابق کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ اس کے برعکس کانگریس اور شرد پوار گروپ کی کارکردگی اچھی رہی۔ ایسے میں اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم میں کانگریس فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہے۔

مہاراشٹر میں قانون ساز اسمبلی کی 288 نشستیں ہیں۔ کانگریس نے 125 سیٹوں کا دعویٰ کیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں 17 سیٹوں پر مقابلہ کرنے اور 13 سیٹیں جیتنے کے بعد کانگریس لیڈروں کا اعتماد بڑھ گیا ہے۔ کانگریس نے ودربھ میں مزید سیٹوں کا مطالبہ کیا ہے۔ لوک سبھا میں ودربھ میں کانگریس کی کارکردگی شاندار رہی ہے۔ چونکہ کانگریس نے ودربھ میں 10 میں سے 5 سیٹیں جیتی ہیں، اس لیے کانگریس ودربھ میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے پر زور دے رہی ہے۔

شیو سینا، جس نے لوک سبھا میں زیادہ سیٹوں پر مقابلہ کیا، نے بھی اسمبلی میں سیٹوں کی تقسیم پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ٹھاکرے کا دھڑا 95 سیٹوں پر سمجھوتہ کر لے گا۔ ٹھاکرے دھڑے نے تجویز پیش کی ہے کہ کانگریس کو 105 سیٹوں پر اور شرد پوار گروپ کو 88 سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہیے۔ فی الحال مہاویکاس اگھاڑی میں 15 سے 20 سیٹوں کا فرق ہے۔ ان میں سے چھ سیٹیں ممبئی میں ہیں۔ اس اختلاف کو دور کرنے کے لیے شرد پوار گروپ لیڈر ماتوشری گئے ہیں۔

ادھو ٹھاکرے کے دھڑے نے مہاراشٹر میں بہار ماڈل کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ 2015 میں بہار میں گرینڈ الائنس اور بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے کے درمیان سیدھا مقابلہ تھا۔ اسمبلی انتخابات میں عظیم اتحاد میں شامل راشٹریہ جنتا دل کو 80 سیٹیں ملی ہیں، جب کہ نتیش کمار کی جے ڈی یو کو 71 سیٹیں ملی ہیں۔ انتخابات سے پہلے ہی عظیم اتحاد نے نتیش کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار قرار دیا تھا۔ اس لیے کم سیٹیں ملنے کے باوجود نتیش وزیر اعلیٰ بن گئے۔

دراصل بہار میں 2020 میں اسمبلی انتخابات ہوئے تھے۔ اس وقت نتیش کمار کی جے ڈی یو بی جے پی کے ساتھ این ڈی اے میں تھی۔ اسمبلی انتخابات میں جے ڈی یو کو 43 اور بی جے پی کو 74 سیٹیں ملی ہیں۔ بی جے پی این ڈی اے میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔ لیکن این ڈی اے نے وزیر اعلیٰ کے لیے نتیش کے نام کا اعلان کیا تھا۔ اس لیے 43 سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود وہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یہ بہار پیٹرن ہے جسے ٹھاکرے مہاراشٹر میں بھی نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی، ادھو دھڑے نے کہا ہے کہ کانگریس کو زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑنا چاہیے۔ لیکن ٹھاکرے کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ ادھو سینا کو دیا جانا چاہیے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

کانگریس نے ایم پی راہول گاندھی کو دھمکی دینے والی طالبان جیسی ذہنیت کے خلاف ریاست بھر میں احتجاجی مظاہرے کئے۔

Published

on

ممبئی : کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور شیو سینا کے لاپرواہ رہنماؤں کے خلاف سڑکوں پر نکلتے ہوئے ریاست بھر میں احتجاج کیا، جنہوں نے اپوزیشن لیڈر ایم پی راہول گاندھی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ اس احتجاج کے دوران بی جے پی شیوسینا سے مطالبہ کیا گیا کہ راہول گاندھی کو دھمکیاں دینے والوں پر لگام لگائی جائے اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

میرا بھیندر میں انچارج رمیش چنیتھلا اور ریاستی صدر نانا پٹولے، قانون ساز پارٹی کے لیڈر بالاصاحب تھوراٹ، اپوزیشن لیڈر وجے وڈیٹیوار، سابق وزیر ستیج بنٹی پاٹل، حسین دلوائی، ایم ایل اے بھائی جگتاپ کے علاوہ دیگر لیڈروں کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ عہدیداروں اور سینکڑوں کارکنوں نے بی جے پی کے طالبان جیسے رویے کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ ممبئی میں کولابہ میں اسمبلی اسپیکر راہل نارویکر کی رہائش گاہ کے باہر ممبئی کانگریس صدر ایم پی ورشا گایکواڈ کی قیادت میں زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ شیوسینا کے ایم ایل اے سنجے گایکواڑ کی معطلی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔

پونے میں، پونے سٹی ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی کی طرف سے ضلع کلکٹر کے دفتر کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس موقع پر سٹی صدر اروند شندے، ایم ایل اے رویندر ڈھنگیکر، سابق وزیر بالا صاحب شیورکر، ریاستی نائب صدر اور سابق ایم ایل اے موہن جوشی، ریاستی جنرل سکریٹری ابھے چھاجڈ، سابق میئر کمل ویاوارے سمیت دیگر عہدیداران اور کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

ناسک میں، ضلع کانگریس کے صدر شریش کوتوال کی قیادت میں، مارکیٹ کمیٹی کے گیٹ پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جہاں شیوسینا کے ایم ایل اے سنجے گائیکواڑ، بی جے پی لیڈر انیل بونڈے، اور ترویندر سنگھ مارواہ کے پتلے کو جوتوں سے مار کر شدید مذمت کا اظہار کیا گیا۔ . اس موقع پر مارکیٹ کمیٹی کے چیئرمین سنجے جادھو، سٹی صدر نند کمار کوتوال اور کئی عہدیدار موجود تھے۔

جلگاؤں میں، ضلع کانگریس کمیٹی نے سٹی ڈسٹرکٹ صدر شیام تایدے کی قیادت میں آکاشوانی چوک پر ایک راستہ روکو احتجاج کیا۔ شیوسینا (یو بی ٹی) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (ایس پی) کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔ احتجاج کے دوران بی جے پی لیڈر ترویندر مارواہ، رونیت بٹو، انیل بونڈے اور شنڈے گروپ کے لیڈر سنجے گایکواڑ کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ ریاستی نائب صدر پرتیبھا شندے، جلگاؤں کی سابق میئر جے شری مہاجن اور دیگر کارکنان موجود تھے۔

چھترپتی سمبھاجی نگر میں ضلع کلکٹر کے دفتر کے سامنے روڈ بلاک کر کے احتجاج کیا گیا۔ سٹی ڈسٹرکٹ کانگریس کے صدر شیخ یوسف، سیوا دل کے ریاستی صدر ولاس اوتاڈے، ریاستی جنرل سکریٹری جتیندر دیہاڑے، جگناتھ کالے، یوگیش مسالگے، ابراہیم پٹھان، کرن پاٹل ڈونگاوکر، اور بھاؤ صاحب جگتاپ سمیت کئی عہدیداروں نے شرکت کی۔

ناگپور میں سابق مرکزی وزیر ولاس متیموار، سٹی صدر ایم ایل اے وکاس ٹھاکرے، ایم ایل اے ابھیجیت ونجاری نے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ احتجاج کیا اور دھمکی دینے والے لیڈروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ناسک سٹی ضلع کانگریس کمیٹی کے صدر ایڈو کی قیادت میں۔ آکاش چھاجڈ، ناسک سٹی ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی نے بھی لاپرواہ لیڈروں کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ کولہاپور کانگریس کمیٹی نے بھی دھمکیاں دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے احتجاج کیا۔

Continue Reading

سیاست

وقف بل 2024 : مسلم پرسنل لاء بورڈ نے وقف بل کی مخالفت کی ہے، بل کو لے کر بی جے پی اور اے آئی ایم پی ایل بی کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔

Published

on

Waqf-Bill-2024

نئی دہلی : آج کل وقف (ترمیمی) بل 2024 کو لے کر ملک میں سیاسی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ اس بل کی مخالفت کرنے والوں میں کچھ قانونی ماہرین اور اپوزیشن جماعتوں کے رہنما بھی شامل ہیں۔ اس معاملے پر اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کو گھیرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ دوسری طرف، قانونی ماہرین اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے جمعرات کو وقف (ترمیمی) بل 2024 کی کھل کر مخالفت کی۔

پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر انہوں نے بل پر اپنے اعتراضات درج کرائے ۔ اس دوران کمیٹی ممبران میں گرما گرم بحث بھی دیکھنے میں آئی۔ دراصل، بی جے پی رکن میدھا کلکرنی نے وقف گورننگ کونسل کی تشکیل پر سوال اٹھایا تھا۔ اس معاملے کو لے کر ہنگامہ ہوا اور گرما گرم بحث شروع ہو گئی۔

معاملہ اس وقت گرم ہوا جب کلکرنی نے قانونی ماہر فیضان مصطفی سے وقف گورننگ کونسل کی تشکیل پر سوالات پوچھے۔ مصطفیٰ چانکیا نیشنل لاء یونیورسٹی، پٹنہ کے وائس چانسلر بھی ہیں۔ کلکرنی نے اس پر اپوزیشن رکن سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جسے انہوں نے پہلے ہی مسترد کر دیا۔ تاہم بعد میں کمیٹی کی چیئرپرسن جگدمبیکا پال اور بی جے پی رکن اپراجیتا سارنگی کی موجودگی میں انہوں نے کلکرنی سے افسوس کا اظہار کیا۔

مصطفیٰ کے علاوہ پسماندہ مسلم مہاج اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نمائندوں نے بھی کمیٹی کے سامنے اپنے خیالات پیش کئے۔ پروفیسر مصطفیٰ اور اے آئی ایم پی ایل بی دونوں نے اس قانون کی مخالفت کی ہے۔ پسماندہ تنظیم کے نمائندوں نے بل میں کئی ترامیم کی تجویز دی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com