Connect with us
Friday,26-December-2025

ممبئی پریس خصوصی خبر

نچلی عدالتوں کو مساجداور عید گاہوں کے خلاف داخل مقدمات پر سماعت کرنے سے سپریم کورٹ روکے، جمعیۃ علماء ہند

Published

on

supreme-court

نئی دہلی 11/ جولائی 2023: پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پرآج سپریم کورٹ آف انڈیا میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے عدالت سے گذارش کہ وہ ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر اسٹے لگائے کیونکہ پلیس آف ورشپ قانون پر اسٹے نا ہونے کی وجہ سے اس قانون کو نظر انداز کرتے ہوئے نچلی عدالتیں ہندو فریقین کی جانب سے مساجداور عید گاہوں کے خلاف داخل عرضداشتوں پر سماعتیں کررہی ہیں جو سراسر غیر آئینی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے ایڈوکیٹ ورندہ گروور کو کہا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ پر کسی بھی طرح کا اسٹے نہیں ہے لہذا نچلی عدالتوں کو اس تعلق سے مطلع کرنا چاہئے اور ان سے اسٹے کی گذارش کرنا چاہئے جس پر ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے کہا کہ نچلی عدالتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس خصوصی قانون پر اسٹے نہیں ہے مقدمہ کی سماعت کررہی ہیں لہذا سپریم کورٹ کو عبوری حکم نامہ جاری کرنا چاہئے تاکہ نچلی عدالتیں ایسے مقدمات کی سماعت کرنے سے گریز کریں جو پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت ممنوع ہے، ورند گروور نے چیف جسٹس آف انڈیا سے گذارش کی کہ وہ کم از کم آج کی عدالتی کارروائی میں یہ تبصرہ ہی کردیں کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ پر اسٹے نہیں ہے جس پر چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ انہیں یہ نہیں پتہ نچلی عدالتوں میں کس نوعیت کے مقدمات زیر سماعت ہیں لہذا عدالت ان مقدمات کی نوعیت جانے بغیر اسٹے کا حکم یا اسٹے کے متعلق تبصرہ نہیں کر سکتی۔

ایڈوکیٹ ورندہ گروور نے عدالت کو مزید بتایا کہ پلیس آف ورشپ ایکٹ کے حقیقی نفاذ کے لیئے جمعیۃ علماء ہند نے ایک خصوصی پٹیشن بھی داخل کی اس کے باوجود نچلی عدالتوں میں مقدمات سماعت کے لیئے قبول کیئے جارہے جس سے مسلمانو ں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔ آج اس اہم معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس پی نرسہما اور جسٹس منوج مشراء پر مبنی تین رکنی بینچ کے روبرو ہوئی ہوئی۔مرکزی حکومت نے آج بھی عدالت میں حلف نامہ داخل نہیں کیا، سالیسٹر جنرل آف انڈیاتشار مہتا نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ کئی سماعتوں سے مرکزی حکومت نے حلف نامہ داخل نہیں کیا ہے لیکن حلف نامہ کو تیار کیا جارہا ہے جس کے لیئے انہیں مزید وقت درکار ہے۔تشار مہتا نے بینچ کو یقین دلایا کہ مرکزی حکومت جمعیۃ علماء ہند سمیت تمام عرضداشتوں پر حلف نامہ داخل کریگی۔ چیف جسٹس آف انڈیا نے تشار مہتا کو حکم دیا کہ وہ مقدمہ کی اگلی سماعت 31/ اکتوبر سے قبل عدالت میں حلف نامہ داخل کریں تاکہ حتمی سماعت کا آغاز کیا جاسکے۔اسی درمیان ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے عدالت سے گذارش کی کہ وہ اس مقدمہ کی حتمی سماعت کے لیئے تاریخ متعین کرے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ مرکزی حکومت اس معاملے میں اگلی سماعت پر بھی حلف نامہ داخل نہیں کریگی کیونکہ ہر تاریخ پر وہ سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کرتی ہیں۔چیف جسٹس آف انڈیا نے ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کو کہا کہ اس مرتبہ مرکزی حکومت کو حلف نامہ داخل کرنے کے لیئے عدالت نے مناسب وقت دیا ہے لہذا مرکزی حکومت کے حلف نامہ آنے کے بعد عدالت حتمی سماعت کے لیئے شیڈول طئے کریگی۔

اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند نے ایک جانب جہاں پلیس آف ورشپ قانو ن کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی عرضداشت کی مخالفت کرنے کے لیئے مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے وہیں سول پٹیشن داخل کرکے عدالت سے پلیس آف ورشپ قانو ن کے تحفظ اور اس کے حقیقی نفاذ کی عدالت سے درخواست کی ہے ۔ سپریم کورٹ میں ہونے والی آج کی سماعت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر موجود تھے۔ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے۔جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی دونوں درخواستوں میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی، اشونی کمار اپادھیائے اور دیگر لوگوں نے پلیس آف ورشپ ایکٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیاہے اور عدالت سے ان کا مطالبہ ہیکہ اس قانون کی وجہ سے وہ کاشی متھرا، گیان واپی اور دیگر دوہزار ایسی مسلم عبادت گاہوں کو ہندو عباد ت گاہوں میں تبدیل نہیں کرا پارہے ہیں کیونکہ یہ قانونی عبادت گاہوں کی تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل سول رٹ پٹیشن میں یہ تحریر ہیکہ پلیس آف ورشپ قانون 1991 نافذکرنے کا دو مقصد تھا، پہلا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی مذہبی مقام کی تبدیلی کو روکنا اور دوسرا مقصد یہ تھا 1947 کے وقت عبادت گاہیں جس حال میں تھی اسی حال میں اسے رہنے دینا اور ان دونوں مقاصد کو بابری مسجد رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ کے فیصلہ میں عدالت نے مانا ہے۔ پلیس آف ورشپ قانون آئین ہند کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرتا ہے اس بات کا ذکر بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں کیا گیا ہے(پیرگراف 99، صفحہ 250)نیز اس قانون کی حفاظت کرنا سیکولرملک کی ذمہ داری ہے اور سیکولر ملک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرے۔عرضداشت میں مزیدکہاگیا ہے کہ بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں پانچ ججوں کی آئینی بینچ نے پلیس آف ورشپ قانون کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے جس کے مطابق یہ قانون آئین ہند کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی کرتا ہے نیز اس قانون کی دفعہ 4 عبادت گاہوں کی تبدیلی کو روکتا ہے اور یہ قانون بنا کر حکومت نے آئینی ذمہ داری لی ہے کہ وہ تمام مذاہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرے گی اور یہ قانون بنانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ سیکولر ازم کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے لہذا سپریم کورٹ آف انڈیا پل یس آف ورشپ ایکٹ کی حقیقی حفاظت کرے اور اس کے موثر نفاذ کے لیئے فوری اقدامات کرے تاکہ ایک مخصوص طبقے کی جانب سے کی جانے والی بے لگام قانونی چارہ جوئی پر لگام لک سکے۔ عرض داشت میں مزید تحریر ہے کہ پلیس آف ورشپ قانون کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مسلم عبادت گاہوں بشمول گیان واپی مسجد، قطب مینار، متھرا کی عیدگاہ کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے نیزملک کی مختلف عدالتوں میں مقدمات قائم کرکے مسلمانوں کوپریشان کیا جارہا ہے جبکہ عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون اس کی قطعی اجازت نہیں دیتا لہذا پلیس آف ورشپ قانون کو چیلنج کرنے والی تمام عرضداشتوں کو خارج کیا جائے اور اس خصوصی قانون کے حقیقی نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ مسلم عبادت گاہوں کے خلاف قائم مقدمات پر روک لگ سکے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

کیا وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو جہاد کا مطلب معلوم ہے؟ ابوعاصم اعظمی

Published

on

ممبئی : مہاراشٹر کے سماج وادی پارٹی لیڈر اور رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے ریاستی وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو جہاد کا مطلب بھی معلوم ہے؟ اگر بی جے پی سے ہندو مسلم، مندر مسجد جیسے مسائل کو نکال دیا جائے تو کیا وہ الیکشن لڑ سکے گی؟ اگر میں ان کے حلقے سے الیکشن لڑوں تو ہار سکتا ہوں، لیکن جن لوگوں پر وہ ظلم کر رہے ہیں اگر وہ انہیں ووٹ نہ دیں تو اسے "ووٹ جہاد” کہا جائے گا۔ اور میں نہیں مانتا کہ جمعیت علمائے اسلام یا کوئی اور باوقار مسلم تنظیم کبھی مسجد یا زبان کے نام پر نفرت پھیلانے والوں کی حمایت کی ہے, جبکہ بی جے پی کا نفرتی ایجنڈہ ہندو مسلمان میں تفریق پیدا کرتا ہے تاکہ ووٹوں میں انتشار ہو اور ذات پات کی بنیاد پر بی جے پی الیکشن میں فتح یاب ہو۔ مسلمان نے کبھی بھی نفرتی پیغام کو عام نہیں کیا, لیکن جب مسلمان ایسے شدت پسند لیڈر کو ووٹ نہ دے تو اسے ووٹ جہاد سے منسوب کیا جاتا ہے۔ جہاد ایک مقدس لفظ ہے, اس کی اصطلاح غلط طریقے سے پیش کی جارہی ہے۔ جہاد کی اصطلاح جدوجہد ہے اور کسی نیک مقصد اور ملک کے لیے قربانی دینا جہاد ہے, لیکن فرقہ پرستوں, کریٹ سومیا اور نتیش رانے سمیت بی جے پی لیڈران نے تو جہاد کی تشریح ہی تبدیل کردی ہے, جو سراسر غلط ہے اور اس قسم کے بیان سے ان کی مسلم دشمنی عیاں ہوتی ہے, اگر اس کے باوجود اگر کوئی انہیں ووٹ نہ دے تو کہتے ہیں کہ ووٹ جہاد ہے, اگر آپ نفرتی ایجنڈہ پر کام کرو تو کون ووٹ دے گا۔

Continue Reading

سیاست

میونسپل کارپوریشنوں میں ونچت بہوجن اگھاڑی سے انتخابی مفاہمت زیر غور، اتحاد کی مخلصانہ کوششیں : ہرش وردھن سپکل

Published

on

Harsh Vardhan Sapkal

ممبئی : ریاست میں بلدیاتی انتخابات میں ونچیت بہوجن اگھاڑی کے ساتھ اتحاد کی کوششیں جاری ہیں۔ بلدیاتی انتخابات میں کانگریس پارٹی نے اتحاد کا فیصلہ مقامی قیادت کے ساتھ ساتھ پسماندہ طبقے کے حقوق کو بھی دیا تھا۔ مہاراشٹر پردیش کانگریس کے صدر ہرش وردھن سپکل نے کہا کہ بہت سے لوگ ونچت اگھاڑی اور کانگریس کے درمیان اتحاد چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں دونوں طرف کے لیڈروں کے درمیان اچھی بات چیت اور مخلصانہ کوششیں جاری ہیں۔

کانگریس پارٹی کے ریاستی سلیکشن بورڈ کی میٹنگ آج ریاستی صدر ہرش وردھن سپکل کی قیادت میں تلک بھون، دادر میں منعقد ہوئی۔ میٹنگ میں کانگریس پارٹی کے قانون ساز اسمبلی کے لیڈر اے وجے ودیٹیوار، قانون ساز کونسل میں کانگریس پارٹی کے گروپ لیڈر اے ستیج عرف بنٹی پاٹل، سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوان، سشیل کمار شندے، کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اراکین، سابق وزیر کھا نے شرکت کی۔ چندرکانت ہنڈور، سابق وزیر نسیم خان، گوا کے انچارج مانیک راؤ ٹھاکرے، آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری کنال چودھری، بی ایم۔ سندیپ، سابق وزیر یشومتی ٹھاکر، پرفلہ گڈھے پاٹل، کانگریس لیجسلیچر پارٹی کے ڈپٹی لیڈر اے امین پٹیل، سابق وزیر رنجیت کامبلے، سنیل دیشمکھ، مہیلا کانگریس صدر سندھیا تائی ساوالکھے، یوتھ کانگریس کے ریاستی صدر شیوراج مورے، سیوا دل کے ریاستی صدر ولاس اوتاڈے، این ایس یو آئی کے صدر ساگر وِی پٹیل، کانگریس پارٹی کے صدر گنیش سالونکھے اور کانگریس کے ریاستی صدر گنیش سالونکھے۔ جوشی، سینئر ترجمان اتل لونڈے اور ریاستی سلیکشن بورڈ کے ارکان موجود تھے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہرش وردھن سپکل نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات کا اعلان 15 تاریخ کو ہوا تھا اور اس وقت کانگریس پارٹی کی منصوبہ بندی کے لیے میٹنگ تھی، اس وقت انتخابات کو منظم کرنے اور امیدواروں کا تعین کرنے کے لیے حکمت عملی طے کی گئی۔ آج 28 میونسپل کارپوریشنوں کے لیے ریاستی سلیکشن بورڈ کی میٹنگ ہوئی، ضلع کانگریس کمیٹیوں کی سفارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے پارٹی سطح پر ایک اہم مرحلہ مکمل کیا گیا ہے۔ عوامی رابطہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹکٹوں کی تقسیم پر بات کی گئی ہے۔

ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کے ساتھ مہا وکاس اگھاڑی اور انڈیا اگھاڑی کی ایک اتحادی پارٹی کے طور پر بات چیت جاری ہے۔ تنظیم کے رہنماؤں کو ایسی ہدایات دی گئی ہیں، اس کے علاوہ اتحاد کے لیے کسی جماعت کی طرف سے کوئی تجویز موصول نہیں ہوئی، اگر ایسی کوئی تجویز آئی تو اس پر غور کیا جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں سپکل نے کہا کہ میں ممبئی میونسپل کارپوریشن میں اتحاد کی بات چیت کا حصہ نہیں ہوں لیکن آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سکریٹری یو بی وینکٹیش ونچت بہوجن اگھاڑی کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، اس کے لیے پارٹی نے ان تینوں کو رابطے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

نئی ممبئی کا بدنام منشیات اسمگلر نوین گروناتھ چیچکر کی 41.64 لاکھ روپے کی جائیدادیں منجمد، منی کوپر گاڑی بھی ضبط

Published

on

NCB

ممبئی : ممبئی منشیات کے نیٹ ورک کی غیر قانونی مالیاتی فراہمی کو ختم کرنے کی کوشش میں مجاز اتھارٹی اور ایڈمنسٹریٹر کے دفتر، اسمگلرز اور فارن ایکسچینج مینیپولیٹر (جائیداد کی ضبطی) ایکٹ اور این ڈی پی ایس ایکٹ نے این سی بی ممبئی کی جانب سے جاری کردہ منجمد کرنے کے حکم کی تصدیق کی ہے, جس میں منشیات کے سرغنہ، جی ایس ڈی کی ایک سے زیادہ قسم کی منشیات میں ملوث منشیات کے کنگپن کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں شامل ہیں۔ دوسرے منجمد جائیدادوں کی قیمت 41,64,701/- روپے ہے۔

۲۷ جنوری۲۰۲۱ کو، مخصوص انٹیلی جنس کی بنیاد پر، نارکوٹکس کنٹرول بیورو، ممبئی زونل یونٹ نے بیلا پور اور نیرول، نوی ممبئی کے علاقے میں تین ملزمین کو زیرحراست لیا تھا اور متعدد قسم کی منشیات جیسے کوکین، تجارتی مقدار میں ایل ایس ڈی اور گانجہ ضبط کیا۔ نئی ممبئی کے بیلا پور اور نیرول کے علاقے میں ممنوعہ اشیاء فروخت کی جا رہی تھیں, بعد کی تفتیش میں ملزم اور سی بی ڈی بیلا پور، نوی ممبئی، مہاراشٹر کے کنگ ‘پین نوین گروناتھ چچکر’ کی شناخت بین الاقوامی اور بین ریاستی ڈرگ سنڈیکیٹ کو چلانے والے کنگ پن کے طور پر ہوئی۔

منشیات کی غیر قانونی فروخت سے حاصل کردہ اثاثوں کا سراغ لگانے کے لیے ایک گہری مالی تحقیقات کی گئیں۔ اس تحقیقات کے نتیجے میں سٹی بینک میں ایک بینک اکاؤنٹ اور ایک پرتعیش گاڑی منی کوپر کی شناخت ہوئی، جو نومبر 2025 میں منجمد کر دی گئی تھیں، جن کی مجموعی قیمت 41,64,701/- روپے تھی، جس کی دسمبر 2025 میں مجاز اتھارٹی نے تصدیق کی ہے۔

مرکزی ملزم نوین چھیکر، عادی ملزم اور نئی ممبئی کے بیلاپور اور نیرول کے علاقے میں منشیات کا ایک بدنام اسمگلر ہے۔ اس کے خلاف این ڈی پی ایس کے پانچ مقدمات درج ہیں- تین این سی بی ممبئی، ایک نیرول پی ایس اور ایک کسٹمزاسے این سی بی ممبئی نے ٹریس کرنے اور مسلسل کوششوں کے طویل عمل کے بعد گرفتار کیا ہے۔ وہ اس وقت ان مذکورہ مقدمات کے تحت عدالتی حراست میں ہیں۔

این سی بی نے شہریوں سے منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ منشیات کی فروخت یا اسمگلنگ سے متعلق معلومات کو ایم اے این اے ایس نیشنل نارکوٹکس ہیلپ لائن (ٹول فری) 1933 پر گمنام طور پر شیئر کیا جا سکتا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com