Connect with us
Sunday,22-June-2025
تازہ خبریں

جرم

ٹاورکی تعمیرکے نام پرمدن پورہ کی عیسی سمنارچال کے مکینوں سے بلڈرعبدالکریم کی دھوکہ دہی

Published

on

ajmal-heights

جعلسازی اور بدعنوانی تو اب جیسے حضرت انسان کے خون کے ساتھ گردش کر رہی ہیں. جہاں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہے، وہیں ٹھگی اور جعلسازی کے معاملات سر اٹھائے کھڑے ہیں. جنوبی ممبئی میں مدن پورہ جو کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے. اس علاقے کی بات کی جائے، تو انگریزی دور حکومت میں بھی اس علاقے کی آن بان شان قائم تھی۔ کہتے ہیں کہ خلافت ہاؤس کا پہلا جلوس جس میں مہاتما گاندھی نے شرکت کی تھی۔ جب وہ جلوس مدن پورہ سے گزرا، تو یہاں کی عوام نے بڑے ہی پرتپاک انداز میں اس جلوس کا استقبال کیا تھا۔

یہاں کے عوام چال میں چھوٹے چھوٹے کمرے میں رہ کر اپنی زندگی سے جدوجہد کرتے تھے۔ انگریزی دور میں بنائی گئی یہ چال آج بھی مدن پورہ میں موجود ہے۔ ان میں سے کچھ چال تو ۱۲۰ سال پرانی ہے۔ اور بیشتر چال از سر ٹو تعمیر (پاور) کے نام پر صفحہ ستی سے مٹا دی گئی۔ عروس البلاد میں اپنا آشیانہ بنانا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے. ایک چھوٹے سے جھونپڑے کی قیمت بھی یہاں لاکھوں میں ہے. ایسے میں ایک ایسی ہی چال کو ۲۰۰۸ میں ایک بلڈر عبدالکریم نے ازسر ٹو تعمیر کے نام پر ڈھا دیا۔ بلڈر نے وہاں کے مکینوں کو ہتھیلی پر چاند دکھایا. اپنے آشیانے کا خواب آنکھوں میں سجائے چال کے مکینوں نے چال خالی کر کے بلڈر کو سونپ دی. مگر ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا.

آج ۲۰۲۱ء میں بھی وہ خواب خواب ہی ہے۔ دراصل تقریباً ۲۰ سالوں سے مدن پورہ کی قدیم عمارت کے بدلے جدید بلڈنگ بنانے کا کام شروع ہوا تھا۔ اور بہت سی چالوں کو توڑ کر ٹارو بھی بتائے گئے ہیں، مگر بچارے عیسی سمار چال کے مکینوں کے ساتھ دھوکہ ہوگیا. اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ کرنے کا سوچ کر اپنے آباء و اجداد کے گھروں کو چھوڑنے راضی ہوگئے. اس طویل عرصے میں ان میں سے بیشتر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ بلڈر نے اپنی سست رفتاری کا مظاہرہ کیا کہ جو بچے تھے، وہ اب جوان ہو چکے تھے۔

دراصل عبدالکریم نے یہاں کے مکینوں کے ساتھ جعلسازی کی۔ نہ وقت پر کرایہ ادا کیا اور نہ ہی اپنے قول فعل کے مطابق بلڈنگ تعمیر کی سالوں گزر گئے، تب کہیں جا کر بلڈنگ کا کام شروع ہوا۔ جب فلیٹس کی بکنگ شروع ہوئی۔ بلڈر صاحب نے اپنے ایمان اور تمام قاعدے قانون کو بالائے طاق رکھ کر ایک فلیٹ دو یا اس سے مزید افراد کو فروخت کیا، تو کہیں ایسا بھی ہوا کہ ایک فلیٹ کا رجسٹریشن دو لوگوں کے نام پر ہوا۔ حد تو تب ہوگئی، جب .B.M.C میں دیا گیا نقشہ ہی بدل دیا گیا، اور مکین اس بات سے لاعلم رہے۔ اب دس سال گزر چکے تھے۔ کرایہ مل رہا تھا۔ اور نہ ہی فلیٹ اب لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ ۲۰۱۷ میں نیاز احمد انصاری (نجو بھائی) نے ہمت کر کے مکینوں کو جمع کیا، ان سے پیسے جمع کر کے نجو بھائی کی کاوش سے پرائیوٹ انجیر کو مقرر کر کے لفٹ لگوائی گئی۔ لائٹ کا کنیکشن جوڑا گیا۔ پانی کی لائن لائی گئی۔ اور بیشتر مکینوں نے جو صرف چار دیواری بلڈر نے بنائی تھی، جسے لوگوں نے اپنے ذاتی خرچ سے لاکھوں روپے خرچ کر کے فلیٹ کی شکل دی۔ اب معاملہ یہی ختم نہیں ہوا۔ ایسے بہت سے حضرات اب بھی موجود ہیں، جنھیں نہ تو گھر ملا ہے، اور نہ ہی گھر کے بدلے رقم۔ عبدالکریم اور اس کے دوست ظفر دونوں نے عوام کی گاڑھی کمائی کو پانی کی طرح بہا کر برباد کر دیے۔ اور لوگوں کو صرف جھوٹے دلاسے اور تسلی دیتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو پارکنگ میں فلیٹ دے دیا گیا۔ پارکنگ کی جگہ بیچ دی گئی۔ سات منزلہ پارکنگ میں پہلے منزلے سے ہی بلڈر نے گودام کی شکل میں جگہ فروخت کرنا شروع کر دی۔ پرانے مکینوں کو پانجویں منزل پر فلیٹ دے دیا گیا، کسی کو اوپر کا فلیٹ بول کر نیچے کا فلیٹ دے دیا گیا، تو کسی کو آج تک صرف تسلی مل رہی ہے۔

نیاز احمد انصاری (نجو بھائی) نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمارے والدین نے ہمیں ایک لیگل گھر دیا تھا، مگر ہم ہمارے بچوں کو غیر قانونی گھر دینے پر مجبور ہیں. کیونکہ بلڈر نے کسی کو پارکنگ ایریا میں فلیٹ دیا، تو کسی کو رفیوجی ایریا میں جو کہ سراسر غیر قانونی ہے۔ انھوں نے اور بھی خلاصہ کیا کہ نلڈنگ میں پائی لائٹ بھی غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہے۔ لوگوں کی مجبوری تھی کہ وہ مزید کرائے سے نہیں رہ سکتے تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا ک عبدالکریم بلڈر کے علاوہ اس کے دو اور پارٹنر تھے، اتم پروہت اور منوج پروہت. یہ دونوں پاٹنر عبدالکریم بلڈر کے فائنانسر تھے، جنہیں بعد میں عبدالکریم نے دھوکہ دیا، اور جو فلیٹس ان حضرات کے نام تھے، جیسا معاہدہ لوگوں کے درمیان ہوا تھا۔ عبدالکریم نے ان حضرات (فائنانسر) کے فلیٹ بھی ان کے علم میں لائے بغیر دیے۔ اور جب لوگوں نے اپنے پیسے کا تقاضہ کیا تو عبدالکریم نے ہاتھ اٹھا دیے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منوج پروہت اور اتم پروہت نے کورٹ کی مدد سے بلڈنگ کے 24 فلیٹس کو سیل کروا دیا اور پہ شرط رکھی، کہ جب تک ہماری قم ہمیں نہیں ملتی، ہم کورٹ کیس واپس نہیں لیں گے، اور فلیٹس ایسے ہی سیل رہیں گے۔ اب وہ ۲۳ فیمیلی جنھوں نے موٹی رقم دے کر فلیٹس خریدا تھا، اور اسے سجایا تھا، ان کے سروں پر سے چھت غائب تھی۔ وہ سبب ایک عجیب سے کرب میں مبتلا تھے۔ اب تو عبدالکریم سامنے آ رہا تھا اور نہ ہی اس کا ساتھی ظفر نہ ہی کسی کا فون ریسیو ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے عبدالکریم نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ ان کا گھر جلد ہی کورٹ کے ذریعے آزاد کرا لیا جائے گا۔

عبدالکریم نے نیا پانسہ پھینکا اور ڈونگری کے رہنے والے فراز مستری اور ان کے بھائی سے رابطہ کر کے یہ کہا کہ آپ لوگ یہ بلڈنگ کے مالکانا حق حاصل کر سکتے ہیں، اگر آپ لوگ منوج اور اتم کے پیسے ادا کرو تو، یہ بلڈنگ آپ کی ملکیت ہوگی۔ آپ لوگ اسکو مزید ڈیولپ بھی کر سکتے ہو، اور آٹھ ماہ قبل فراز مستری جو کہ ایک بزنسں مین بھی ہے۔ اس نے بلڈنگ کے مالکانہ حق حاصل کر لیے۔ اور عبدالکریم کے پرانے فنائنسر کا پہیہ ادا کر دیا۔ اب کہانی میں نیا موڑ آ گیا۔

فراز اینڈ کمپنی نے بلڈنگ میں آتے ہی بڑے بڑے وعدے اور دعوت شروع کروادی. خود فراز مستری نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے B.M.C کے (ای) وارڈ میں شکایت کر کے بلڈنگ کے کئی غیر قانونی فلیٹس کو تڑوا دیا، کہ مکینوں میں خوف و ہراس پھیل جائے۔ پھر شروع ہوا وصولی کا دھندہ، لوگوں کو ڈرایا کہ تمہارا فلیٹ بھی توڑ دیا جائے گا، یہ فلیٹ بھی غیر قانونی ہے۔ لہذا آپ لوگ ۵ لاکھ فی فلیٹ کے حساب سے مجھے ادا کریں تاکہ میں .B.M.C آفیسروں سے اس معاملے کو آگے بڑھنے سے روک سکوں۔ مزید دشواری نہ ہوئی کہ پوری بلڈنگ کو کلر کرنے کے نام پر ڈھانک دیا گیا. 5 ماہ گزر جانے کے بعد بھی کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ صرف وعدے اور دلاسے کا دوسرا دور بھی جاری ہے. فراز مستری نے باونسرس کے ذریعے بھی لوگوں کو ہراساں کرنا شروع کیا۔ اور اپنے اثر رسوخ اور پیسے کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ لوگوں سے کہا گیا کہ : Stamp Duty کے پیسے ادا کرو. کئی ماہ گزر جانے کے بعد بھی لوگوں کے Stamp Duty کا رجسٹریشن، آج تک نہیں ہوا۔ لوگ اسی طرح پریشان ہیں، اور خوفزدہ بھی۔

بلڈنگ کے چوتھے اور پانچویں منزلے پر فراز مستری نے مکمل طور پر اپنا قبضہ جما دیا ہے۔ اور پارکنگ کی جگہ پر فلیٹ بنوا کر لوگوں کو خود فروخت کرنا چاہتا ہے۔ مزید یہ بھی کوشش کی گئی کہ ٹیرس پر دو فلیٹ اور بنا کر اسے بھی بیچ دیا جائے، جس کی مزمت اجمل ہائٹس کی سوسائٹی نے کی، اور قانونی چارہ جوئی کا بھی سہارا لیا، مگر اب بھی دور تک کہیں خوش آئندہ مستقبل لوگوں کو نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہ وہی مثل ہے کہ دیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ فراز مستری نے ٹاور کے لوگوں کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہیں، (Purchese یہ Tenants) تاکہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔ اور لوگ آپس میں لڑتے رہیں. نجو بھائی نے مزید بتایا کہ بلڈنگ کا ازسر نو تعمیر کے لیے .R. M. K ریالٹی کمپنی سے معاہدہ ہوا تھا۔ اس نے مقامی حضرات کے ساتھ دھوکہ کیا۔ آج بھی 6 فلیٹس پرانے مقامی لوگوں کو نہیں ملے ہیں، جس میں 6 فیملی ہے۔ ایک جونی مسجد کا روم ہے، اور ایک پنچو تعزیہ کا روم ہے۔ بلڈر عبدالکریم اینڈ کمپنی .M.R.K ریالٹی نے GYM کے ساتھ ریڈنگ روم، میت کو غسل دینے کی جگہ اور بڑے پیمانے پر بلڈنگ میں جدید کاری کے خواب لوگوں کو دکھائے تھے، جو آج بھی خواب ہی ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ .G.S.T کے نام پر Purcheser حضرات سے 5 سے 6 لاکھ روپے لیے گئے، جب کے .M.R.K ریالٹی کا اپنا .G.S.T اکاونٹ ہے ہی نہیں. وہ لیتے وقت .G.S.T کے نام پر پیسے وصولے ہیں، اور دیتے وقت کہتے ہیں کیسی .G.S.T.

یہی وجہ ہے کہ آج تک لفٹ کمپنی کا 7 لاکھ .G.S.T بقایا ہے، اب وہ 4 فیمیلی مسجد کا فلیٹ اور پنچا تعزیہ کا روم کون دے گا؟ کب دے گا؟ کہاں سے دے گا؟ یہ سوال آج بھی سوال ہی ہے۔ فراز مستری نے ہاتھ اٹھا دیا ہیں۔ تو یہ 6 فلیٹس کون دے گا.

جرم

جے این پی اے میں 800 کروڑ روپے کی بدعنوانی کا الزام : سی بی آئی نے سابق چیف منیجر، نجی کمپنیوں کے خلاف مقدمہ درج کیا

Published

on

CBI

سی بی آئی نے 18 جون 2025 کو جے این پی ٹی کے اس وقت کے چیف منیجر (پی پی ڈبلیو ڈی)، ممبئی اور چنئی میں واقع نجی کمپنیوں اور دیگر کے خلاف جواہر لعل نہرو پورٹ اتھارٹی (جے این پی اے) کے کیپٹل ڈریجنگ پروجیکٹ میں 800 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچانے پر ایف آئی آر درج کی تھی۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جے این پی اے کے عہدیداروں اور نجی کمپنیوں کے درمیان مجرمانہ سازش رچی گئی تھی جس کے نتیجے میں معاہدوں میں بھاری مالی نقصان ہوا تھا۔ یہ کیس نیویگیشنل چینل کی گہرائی بڑھانے کے لیے جے این پی اے کے کیپٹل ڈریجنگ پروجیکٹ سے متعلق ہے، جس میں ممبئی میں واقع ایک نجی کمپنی اور چنئی میں واقع ایک اور کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا تھا۔ ٹاٹا کنسلٹنگ انجینئرز (ٹی سی ای) پروجیکٹ مینجمنٹ کنسلٹنٹ کے طور پر اس پروجیکٹ میں شامل تھے۔

الزام ہے کہ پروجیکٹ کے پہلے مرحلے میں چینل کی دیکھ بھال کے دوران ٹھیکیداروں کو 365.90 کروڑ روپے کی اضافی رقم ادا کی گئی۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں، جو پہلے مرحلے کی دیکھ بھال کی مدت کے ساتھ اوور لیپ ہو گیا، ٹھیکیدار کو 438 کروڑ روپے کی اضافی رقم دی گئی جبکہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں کوئی اوور ڈریجنگ نہیں ہوئی۔ سی بی آئی نے ممبئی اور چنئی میں جے این پی اے حکام، کنسلٹنگ کمپنی اور ملزمین پرائیویٹ کمپنیوں کے پانچ مقامات پر چھاپے مارے۔ اس عرصے کے دوران پراجیکٹ سے متعلق کئی دستاویزات، ڈیجیٹل ڈیوائسز اور سرکاری ملازمین کی جانب سے کی گئی سرمایہ کاری کے دستاویزات برآمد ہوئے ہیں۔ تمام دستاویزات کی جانچ کی جا رہی ہے اور معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

ایف آئی آر میں نامزد ملزمان :
جناب سنیل کمار مادبھاوی، اس وقت کے چیف مینیجر (پی پی ڈبلیو ڈی)، جے این پی ٹی
مسٹر دیودتا بوس، پروجیکٹ ڈائریکٹر، ٹاٹا کنسلٹنگ انجینئرز
ٹاٹا کنسلٹنگ انجینئرز، ممبئی
بوسکالس سمیٹ انڈیا ایل ایل پی، ممبئی
Jاوہن ڈی نول ڈریجنگ انڈیا پرائیویٹ۔ لمیٹڈ، چنئی
دیگر نامعلوم سرکاری اور نجی افراد
سی بی آئی معاملے کی گہرائی سے تحقیقات کر رہی ہے اور مزید کارروائی جاری ہے۔

Continue Reading

جرم

موسلادھار بارش سے کسانوں کا بڑا نقصان، کسانوں کو سرکاری سبسڈی میں 100 کروڑ کا گھوٹالہ بے نقاب، بی جے پی نے 21 افسران کو معطل کیا

Published

on

ممبئی/جالنا : موسلادھار بارش کی وجہ سے مہاراشٹر کے جالنا ضلع میں کسانوں کو بھاری نقصان ہوا ہے۔ تاہم اس نقصان کی تلافی کے لیے حکومت کی طرف سے دی گئی گرانٹ کی تقسیم میں انتظامی افسران نے بڑا گھپلہ کیا ہے اور بی جے پی کے ایم ایل اے ببن راؤ لونیکر نے اس گھوٹالے کا پردہ فاش کیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ 2022 سے 2024 کے درمیان 100 کروڑ روپے کا گھوٹالہ ہوا ہے۔ اس معاملے میں قصوروار پائے گئے 21 افسران کے خلاف معطلی کی کارروائی کی گئی ہے۔ ایم ایل اے لونیکر نے ایس آئی ٹی یا سی بی آئی سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ہمارے ساتھی مہاراشٹر ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، جالنا ضلع میں شدید بارش، سیلاب اور ژالہ باری کی وجہ سے کسان مشکل میں ہیں۔ حکومت نے کسانوں کی مدد کے لیے 412 کروڑ روپے کی گرانٹ کو منظوری دی۔ لیکن اس گرانٹ میں بڑی کرپشن کی گئی۔ 100 کروڑ روپے کا گھپلہ بے نقاب ہوا ہے۔ ایم ایل اے ببن راؤ لونیکر نے اس گھوٹالے کا پردہ فاش کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ اہلکاروں نے جعلی کسان دکھا کر دوگنا سبسڈی لی اور سرکاری اراضی کے نام پر رقم غبن کی۔

ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی رپورٹ کے مطابق 34.97 کروڑ روپے کا غبن کیا گیا ہے۔ لیکن ایم ایل اے ببن راؤ لونیکر کے مطابق یہ گھوٹالہ 100 کروڑ روپے سے زیادہ کا ہے۔ یہ گھپلہ امباد، گھنساونگی، بھوکردان اور جعفرآباد تعلقہ میں ہوا۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ اس میں تحصیلدار، سب ڈویژنل آفیسر، تالاٹھی، گرام سیوک اور ایگریکلچر اسسٹنٹ شامل ہیں۔ 14 جون 2025 کو جالنہ میں ضلعی منصوبہ بندی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس میٹنگ میں ایم ایل اے نے اس گھوٹالے کا پردہ فاش کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف مالی غبن نہیں ہے بلکہ کسانوں کے اعتماد اور حقوق کا بھی قتل ہے۔ سب کچھ گنوانے والے کسانوں کے منہ سے کھانا چھیننے والے کرپٹ افسران کو جیل میں ڈالنا چاہیے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس گھوٹالے کی جانچ ایس آئی ٹی یا سی بی آئی سے کرائی جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قصورواروں کی جائیداد ضبط کر کے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ انہوں نے مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع میں گرانٹ کی تقسیم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے میں اب تک 21 افسران کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔ اس میں گزشتہ ہفتے 10 دیہی ریونیو افسران (تلاٹھی) اور 11 افراد (19 جون 2025) شامل ہیں۔

ڈی جی کوریواد، سچن بگول، جیوتی کھرجولے، گنیش میسل، کیلاش گھرے جیسے ملازمین کو معطل کر دیا گیا ہے۔ ضلع کلکٹر ڈاکٹر شری کرشنا پنچال نے تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کمیٹی نے امباد اور گھنساونگی کے 75-80 گاؤں کا دوبارہ معائنہ کیا۔ اس میں 74 ملازمین کو قصوروار پایا گیا ہے۔ دیگر 10-15 افراد معطل ہیں۔ ایم ایل اے لونیکر نے سب ڈویژنل افسران اور تحصیلداروں پر بھی سنگین الزامات لگائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جونیئر ملازمین کے خلاف کارروائی کرکے سینئرز کا ساتھ دینا کسانوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ فی الحال 5 تحصیلداروں اور 5 سب تحصیلداروں کو نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ تاہم ابھی تک اس کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔

ضلعی انتظامیہ اب تک 5 کروڑ 74 لاکھ روپے وصول کر چکی ہے۔ ایم ایل اے لونیکر نے باقی رقم کی وصولی کے لیے قصوروار لوگوں کی جائیداد ضبط کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ کل 2 لاکھ 57 ہزار 297 کسانوں میں سے 1 لاکھ 94 ہزار 113 کسانوں نے سبسڈی حاصل کی ہے۔ جبکہ 63 ہزار 184 کسانوں کی سبسڈی اور 15 ہزار 31 لوگوں کی ای کے وائی سی زیر التوا ہے۔ ضلع کلکٹر ڈاکٹر پنچال نے کہا کہ فنڈز کی کمی اور ای-کے وائی سی مسئلہ کی وجہ سے کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی روک دی گئی ہے۔

ایم ایل اے لونیکر نے جالنا ضلع کے تمام ایم ایل ایز کو اکٹھا کرکے اسمبلی میں اس مسئلہ کو اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسانوں کی ایک ایک پائی واپس لیں گے۔ ہم بدعنوانوں کو جیل میں ڈالیں گے اور ان کی جائیدادیں ضبط کریں گے۔ حکومت فوری طور پر ایس آئی ٹی تحقیقات کا حکم دے، ورنہ سڑکوں پر نکلیں گے! ڈویژنل کمشنر جتیندر پاپالکر نے مراٹھواڑہ کے تمام اضلاع میں گزشتہ 5 سالوں میں گرانٹ کی تقسیم کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اس سے دیگر اضلاع میں بھی بے ضابطگیاں سامنے آنے کا امکان ہے۔ ایم ایل اے ببن راؤ لونیکر نے خبردار کیا ہے کہ جالنا ضلع کے کسان اس گھوٹالے کو برداشت نہیں کریں گے۔ ہم ہر کرپٹ افسر کو بے نقاب کریں گے اور کسانوں کے پیسے واپس کرائیں گے۔ ریاستی حکومت فوری طور پر ایس آئی ٹی تحقیقات کا حکم دے، ورنہ سڑکوں پر نکلیں گے!

Continue Reading

جرم

جوہو ہوکہ پارلر پر چھاپہ : 5 نوجوان خواتین سمیت 45 افراد کے خلاف مقدمہ درج

Published

on

Hukka Paler

ممبئی، جون 2025 – ممبئی کرائم برانچ نے گزشتہ رات دیر گئے جوہو کے ایک غیر قانونی ہوکہ پارلر پر بڑی کارروائی کرتے ہوئے چھاپہ مارا۔ اس کارروائی میں 45 افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں 5 نوجوان خواتین بھی شامل ہیں۔ تمام افراد کے خلاف مختلف قانونی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

دریافت اور گرفتاریاں

رات تقریباً 1 بجے، ممبئی پولیس کی کرائم انٹیلیجنس یونٹ (CIU) نے ایک روف ٹاپ لاؤنج پر چھاپہ مارا، جہاں گاہکوں کو تمباکو ملا ہوا ہوکہ پیش کیا جا رہا تھا۔ پولیس کو موقع پر کم از کم 30 افراد ہوکہ پیتے ہوئے ملے۔ یہ پارلر بغیر کسی قانونی لائسنس کے چلایا جا رہا تھا، جو کہ 2017 کے کملا ملز آتشزدگی کے بعد بنائے گئے قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

گرفتار کیے گئے 45 افراد میں عملہ، انتظامیہ اور گاہک شامل تھے۔ ان میں پانچ نوجوان خواتین بھی شامل ہیں، جن کی عمریں 20 سے 25 سال کے درمیان بتائی جا رہی ہیں۔ پولیس نے ہوکہ کے مختلف سامان، جیسے پائپ، کوئلہ، تمباکو کے آمیزے اور فلیورز بھی قبضے میں لے لیے ہیں۔

قانونی کارروائی

ملزمان کے خلاف مندرجہ ذیل قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں :

  • بھارتی تعزیراتِ قانون (Indian Penal Code – IPC) کی مختلف دفعات،
  • سگریٹ و دیگر تمباکو مصنوعات ایکٹ (COTPA)،
  • آفاتِ سماوی مینجمنٹ ایکٹ (Disaster Management Act)، جو کملا ملز سانحہ کے بعد لاگو کیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ 2017 کے کملا ملز آتشزدگی کے بعد ممبئی شہر کی حدود میں ہوکہ پارلرز پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی تھی، جس واقعے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

حفاظتی خدشات

انتظامیہ نے کوئلے سے جلنے والے ہیٹرز اور بند کمروں میں ہوکہ پیش کیے جانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، کیونکہ یہ آگ لگنے کے بڑے خطرات پیدا کرتے ہیں۔ جس چھت پر یہ پارلر قائم تھا وہاں کسی بھی قسم کی آگ بجھانے کی منظوری یا ساز و سامان موجود نہیں تھا، جس سے ایک اور حادثے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ شہری قوانین کے مطابق بغیر اجازت تعمیرات خصوصاً عمارت کی چھتوں پر سختی سے ممنوع ہیں۔

وسیع تناظر

کملا ملز سانحے کے بعد سے ممبئی پولیس مسلسل غیر قانونی ہوکہ ڈینز کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ 2021 سے اب تک اندھیری، باندرہ اور دیگر مضافاتی علاقوں میں کئی جگہوں پر چھاپے مارے گئے ہیں۔ خاص طور پر، فروری 2021 میں اندھیری کے ایک روف ٹاپ پارلر پر بھی ایسی ہی کارروائی کے دوران 42 افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

آئندہ کا لائحہ عمل

تمام 45 گرفتار شدہ افراد پر الزامات عائد کیے جا چکے ہیں اور ان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔ تفتیش کار اس ہوکہ پارلر کی ملکیت، قانونی خلاف ورزیوں اور اس کے گاہکوں سے متعلق عوامی صحت یا سلامتی کے خطرات کی جانچ کر رہے ہیں۔ حکام نے ماضی کے حادثات سے بچنے کے لیے فائر سیفٹی قوانین کی مزید سخت نگرانی کا بھی عندیہ دیا ہے۔

کیوں یہ معاملہ اہم ہے :

  • عوامی سلامتی: بند جگہوں پر ہوکہ پارلر، خاص طور پر بغیر حفاظتی اقدامات کے، بڑے خطرے کا باعث ہوتے ہیں۔
  • قانون کا نفاذ: پابندی کے باوجود غیر قانونی ہوکہ سرگرمیاں جاری رہنا، نگرانی کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
  • پالیسی کی یاد دہانی: کملا ملز سانحہ اب بھی ممبئی کی نائٹ لائف میں ہوشیاری برتنے کی اہمیت کو یاد دلاتا ہے۔
Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com