Connect with us
Saturday,22-November-2025

(جنرل (عام

ہمیں ایسے اسکولوں کی ضرورت ہے، جس میں دینی ماحول کے ساتھ ہمارے بچے دنیاوی تعلیم حاصل کرسکیں۔ تعلیمی وظائف کا اعلان کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی کی اپیل

Published

on

maulana-arshad-m.

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے تعلیمی سال 2021-22 کے لئے باضابطہ طور پر تعلیمی وظائف کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں ایسے اسکولوں کی ضرورت ہے، جس میں دینی ماحول کے ساتھ ہمارے بچے دنیاوی تعلیم حاصل کر سکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اسکالرشپ کی رقم بھی گزشتہ سال سے بڑھا کر ایک کڑوڑ کر دی گئی ہے۔ اور اس میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔

رواں سال 2021-22 کے لئے اسکالر شپ فارم جمع کرنے کی تاریخ 20 جنوری سے 14 فروری 2022 ہے۔ فارم ویب سائٹ www.jamiatulamaihind.org ڈاؤن لوڈ کئے جاسکتے ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ تعلیمی سال کے دوران مختلف کورسز میں منتخب ہونے والے 656 طلباء کو اسکالرشپ دی گئی تھی، جن میں ہندو طلباء بھی شامل تھے۔ یہ اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ جمعیۃ علماء ہند مذہب کی بنیاد پر کوئی کام نہیں کرتی۔ اہم بات یہ ہے کہ طلباء کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اب اسکالرشپ کی رقم بھی گزشتہ سال سے بڑھا کر ایک کڑوڑ کر دی گئی ہے۔ اور آنے والے سالوں میں اس رقم میں مزید اضافہ کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ اسکالر شپ کے ساتھ ہی مولانا مدنی کی ایماء پر مولانا حسین احمد مدنی چیئرٹیبل ٹرسٹ دیوبند اور ہندگرواکیڈمی دہلی کے باہمی تعاون سے ”مدنی 100“ کے نام سے ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا بھی آغاز کیا گیا ہے۔ جس میں ذہین، محنتی مگر مالی طور پر کمزور طلبہء کو مسابقاتی امتحانات کی تیاری کے لئے مفت رہائش کے ساتھ مفت کوچنگ فراہم کی جا رہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ان وظائف کا اعلان کرتے ہوئے ہمیں انتہائی مسرت کا احساس ہو رہا ہے کہ ہماری اس ادنی ٰسی کوشش سے بہت سے ایسے ذہین اور محنتی بچوں کا مستقبل کسی حد تک سنور سکتا ہے۔ جنہیں اپنی مالی پریشانیوں کی وجہ سے اپنے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھنے میں سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی جنگ اب شروع ہوئی ہے، اس کا مقابلہ کسی ہتھیار یا ٹکنالوجی سے نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس جنگ میں سرخروئی حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کر کے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیار سے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کو شکست سے دو چار کر کے کامیابی اور کامرانی کی وہ منزلیں سر کرلیں، جن تک ہماری رسائی سیاسی طور پر محدود اور مشکل سے مشکل تر بنا دی گئی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام حکومتوں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کر دیا، سچر کمیٹی کی رپورٹ اس کی شہادت دیتی ہے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے، کہ مسلمان تعلیم کے شعبہ میں دلتوں سے بھی پیچھے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قوموں کو اپنی کامیابی کی تاریخ خود لکھنی پڑتی ہے، اور مسلمانوں کو بھی اپنی کامیابی عبارت خود لکھنی ہوگی۔

مولانا مدنی نے سوال کیا کہ کیا یہ خودبخود ہوگیا یا مسلمانوں نے جان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کی؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، بلکہ اقتدار میں آنے والی تمام سرکاروں نے ہمیں تعلیمی پسماندگی کا شکار بنائے رکھا۔ انہوں نے شاید یہ بات محسوس کر لی تھی، کہ اگر مسلمان تعلیم کے میدان میں آگے بڑھے تو اپنی صلاحیتوں اور لیاقت سے وہ تمام اہم اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو جائیں گے، چنانچہ تمام طرح کے حیلوں اور روکاوٹوں کے ذریعہ مسلمانوں کو تعلیم کے قومی دھارے سے الگ تھلگ کر دینے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ انہوں نے زوردیکر کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں، ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں دینی ماحول میں ہمارے بچے اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔انہوں نے قوم کے بااثرافرادسے یہ اپیل بھی کی کہ جن کو اللہ نے دولت دی ہے وہ زیادہ سے زیادہ لڑکے اور لڑکیوں کے لئے ایسے اسکول و کالج بنائیں، جہاں بچے دینی ماحول میں آسانی سے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں اور جو پیسہ وہ اپنا سیاست، نکاح اور شادیوں میں بے دریغ خرچ کرتے ہیں وہ اپنا فرض سمجھتے ہوئے بچے اور بچیوں کے لئے تعلیمی ادارے قائم کریں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں جس طرح مفتی، علماء و حفاظ کی ضرورت ہے۔ اسی طریقے پر پروفیسر، ڈاکٹر و انجینئر وغیرہ کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جو ہمارے لئے اس وقت انتہائی اہم ہے اس جانب مسلمان خاص کر شمالی ہندوستان کے مسلمان توجہ نہیں دے رہے ہیں، آج مسلمانوں کو دوسری چیزوں پر خرچ کرنے میں تو دلچسپی ہے، لیکن تعلیم کی طرف ان کی توجہ نہیں ہے، یہ ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ملک کے موجودہ حالات کا مقابلہ صرف اور صرف تعلیم سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انھیں حالات کے پیش نظر ہم نے دیوبند میں اعلیٰ عصری تعلیم گاہیں، جیسے کہ بی ایڈکالج، ڈگری کالج، لڑکے اور لڑکیوں کے لئے اسکولس اور مختلف صوبوں میں آئی ٹی آئی قائم کئے ہیں۔ جن کا ابتدائی فائدہ بھی اب سامنے آنے لگا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہندکا دائرہ کار بہت وسیع ہے اور وہ ہر محاذ پر کامیابی سے کام کر رہی ہے، چنانچہ ایک طرف جہاں یہ مکاتب ومدارس قائم کر رہی ہے وہیں اب اس نے ایسی تعلیم پر بھی زور دینا شروع کر دیا ہے، جو روزگار فراہم کرتا ہے، روزگار فراہم کرنے والی تعلیم سے مراد تکنیکی اور مسابقتی تعلیم سے ہے تاکہ جو بچے اس طرح کی تعلیم حاصل کر کے باہر نکلیں انہیں فورا روزگار اور ملازمت مل سکے، اور وہ خود کو احساس کمتری سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے بچوں میں ذہانت اور صلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے، حال ہی آنے والے کچھ سروے رپورٹوں میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مسلم بچوں میں نہ صرف تعلیمی تناسب میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ ان میں پہلے کے مقابلے میں تعلیمی رجحان میں بھی زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس لئے ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اگر ہم انہیں متحرک کریں حوصلہ دیں تو راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو عبور کر کے کامیابی کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ میں انہیں قوموں کا تذکرہ ملتا ہے جو تعلیم و ہنر میں طاق تھیں۔ انہوں نے کہا کہ مدنی 100 کے نام سے کوچنگ سینٹر کے قیام کے پیچھے در حقیقت یہی جذبہ کار فرما ہے۔ جس کے تحت مالی طور پر کمزور ذہین طلباء کو مسابقتی امتحانات کی تیاری کے لئے مفت کوچنگ کا عمل باقاعدہ شروع ہو چکا ہے۔ انہوں نے اخیر میں کہا کہ اتنا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ ہمیں ملک کے کونے کونے میں اس طرح کے اپنے اسکول کالج کے ساتھ کوچنگ اداروں کی ضرورت ہے، ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ گھر بیٹھے کوئی انقلاب نہیں آتا، بلکہ اس کے لئے کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔

واضح رہے کہ جمعیۃ علماء ہند اور ایم ایچ اے مدنی چیریٹیبل ٹرسٹ دیوبند 2012 سے میرٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والے غریب طلباء کو اسکالر شپ فراہم کر رہی ہے۔ اسی اسکیم کے تحت ہر سال انجینئرنگ، میڈیکل،ایجوکیشنل، جرنلزم سے متعلق یا کسی بھی ٹیکنیکل، پروفیشنل کورس میں زیر تعلیم مالی طور پر کمزور ایسے طلبہء کو اسکالرشب دی جاتی ہے۔ جنہوں ںے گزشتہ سال کے امتحان میں کم از کم 70% فیصد نمبر حاصل کئے ہوں۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

ریاست میں موسم سرما میں بارش کا اندیشہ، تین اضلاع میں الرٹ جاری

Published

on

‎ممبئی ریاست میں موسم مسلسل بدل رہا ہے۔ اب شدید سردی کے بعد بھارتی محکمہ موسمیات نے براہ راست بارش کی بڑی وارننگ دے دی ہے۔ ریاست اس وقت بارش کے لیے سازگار موسم کا سامنا کر رہا ہے۔ ریاست میں گزشتہ کچھ دنوں سے سردی اور درجہ حرارت
‎میں گراؤٹ درج کیا گیا ہے۔ پارہ مسلسل گر رہا ہے۔ پونے میں شدید سردی، درجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے پونےکر کو گلابی سردی کا سامنا ہے۔ پونے ہی نہیں ریاست کے کئی حصوں میں شدید سردی پڑ رہی ہے اور شمال سے ٹھنڈی فضائیں چل رہی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں شدید سردی ہے اور اگلے چند دنوں میں پارہ مزید گرنے کا امکان ہے۔ تاہم کل سے سردی میں قدرے کمی آئی ہے۔ ممبئی، ناگپور، اکولہ، سولاپور، چھترپتی سمبھاجی نگر، بیڈ، ناندیڑ، پربھنی، ہنگولی، اہلیہ نگر، گڈچرولی، گوندیا، جلگاؤں، بھنڈارا، ایوت محل کے اضلاع میں پارہ گر رہا ہے۔ دھولیہ میں پارہ 7.5 سیلسیس تک گر گیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات نے اب بہت بڑی وارننگ جاری کر دی ہے۔
‎اگرچہ اس وقت سردی محسوس کی جارہی ہے تاہم بعض علاقوں میں گزشتہ دو تین روز کے مقابلے میں سردی میں کمی آئی ہے۔ یہی نہیں ابر آلود موسم بھی ہے۔ فی الحال ریاست میں بارش کے لیے ماحول سازگار ہے۔ ہندوستانی محکمہ موسمیات نے کچھ اضلاع میں بارش کی وارننگ بھی جاری کی ہے۔ کولہاپور، سانگلی اور سندھو درگ اضلاع میں بارش کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر پارہ 10 ڈگری سے بھی نیچے ہے۔ جمعہ کو ریاست میں سب سے کم درجہ حرارت دھولیہ میں ریکارڈ کیا گیا۔ دھولے میں درجہ حرارت 7.5 ڈگری ریکارڈ کیا گیا۔ پربھنی میں درجہ حرارت 8.9 ریکارڈ کیا گیا۔ نفاد میں درجہ حرارت 8 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔ پونے، اہلیہ نگر اور مہابلیشور میں پارہ 11 ڈگری تک گر گیا۔ آج ریاست کے کچھ شہروں میں بارش کے لیے موسم سازگار ہے۔ کولہاپور، سانگلی اور سندھو درگ میں ہلکی سے درمیانی بارش ہوگی۔ پونے میں پارہ 10 ڈگری سے نیچے گر گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہوا میں شدید دھند ق کہرا چھائی ہوئی ہے۔ سردی سے بچنے کے لیے پونے کے سرس باغ میں گنپتی بپا کو روایتی طور پر اونی سویٹر اور کان کی ٹوپی پہنائی گئی ہے۔ یہ سویٹر گنپتی بپا کو اس خوشگوار احساس کے ساتھ دیا گیا ہے کہ گنپتی بپا کو بھی سردی محسوس ہو رہی ہوگی۔ ہر موسم سرما میں، جب بھی سردی بڑھتی ہے، گنپتی بپا کو ایک سویٹر دیا جاتا ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی چارکوپ بلڈر پر فائرنگ، ۴ گرفتار

Published

on

ممبئی : ممبئی پولس نے چارکوپ میں بلڈر پر فائرنگ کے بعد اس معمہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے اور اس میں ملوث راجیش رمیش چوہان عرف دیاکاندیوالی، ممبئی۔سبھاش بھیکاجی موہتے، ویرار، پالگھر، منگیش ایکناتھ چودھری،بھورپونے کرشناروشن بسنت کمار سنگھ کاشیگاؤں، تھانے کو گرفتار کیا ہے ان چاروں پر بلڈر پر فائرنگ کا الزام الزام ہے اس فائرنگ کے بعد علاقہ میں سنسنی پھیل گئی تھی جس کے بعد پولس نے مشترکہ ٹیم کے معرفت ملزمین کی تلاش کی اور انہیں گرفتار کر لیا ہے پولس نے ۲۴ گھنٹے کے اندر ہی ملزمین کو اپنی گرفت میں لے لیا اس کے لئے پولس نے سی سی ٹی وی کی مدد سے گرفتاری بھی عمل میں لائی ہے ۔

Continue Reading

سیاست

شندے سینا اراکین کی شمولیت سے یو بی ٹی میں ہلچل… زبان لسانیات کے نام پر کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دی جاسکتی : ادھو ٹھاکرے

Published

on

‎ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کا ابھی اعلان نہیں ہوا ہے۔ تاہم اس سے پہلے ادھو ٹھاکرے نے آج ایکناتھ شندے کو بڑا جھٹکا دیا۔ مگاتھانے میں ایکناتھ شندے کی شیو سینا کے شیوسینک آج ماتوشری میں ادھو ٹھاکرے گروپ کا دامن تھام لیا یہ شندے اور پرکاش سروے کے لیے ایک دھچکا ہے۔ کیونکہ پرکاش سروے مگا تھانے اسمبلی حلقہ سے ایم ایل اے ہیں۔ وہ شیو سینا شندے گروپ میں ہیں۔ اب ہمیں احساس ہونے لگا ہے کہ بی جے پی اور غدار کتنے منافق ہیں۔ یہ جنگ آسان نہیں ہے۔ آپ جوش میں ہیں۔ آپ کو جوش میں ہونا چاہیے۔ لیکن اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور ہر طرف دیکھیں۔ بی جے پی دھوکے اور سازش کی پارٹی ہے اس لئے اس سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے یہ الزام ادھو ٹھاکرے نے عائد کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اب پارٹی کو توڑتے ہوئے گھر توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی ہندوتوا کا بلبلا پھٹ گیا ہے۔ پالگھر قتل عام اس وقت ہوا جب ہم اقتدار میں تھے، یہ ایک افسوس ناک واقعہ تھا، کسی نے اس کی حمایت نہیں کی، ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ پالگھر معاملہ کے مشکوک افراد کو جب بی جے پی نے اپنی پارٹی میں شامل کیا تو اس پر ہنگامہ برپا ہوا اور بعدازاں اسے پارٹی سے نکال دیا گیا بی جے پی صرف ہندوتوا کا ڈھونگ کرتی ہی اس کا حقائق سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ ‘ہم یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ زبان کی بنیاد پر کسی کو قتل کیا جائے’ اب لسانی علاقائیت کو بھڑکایا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم زبان کی بنیاد پر کسی کو مارنے کی قطعی اجازت نہیں دیتے ۔کوئی زبان دیگر زبان سے تعصب نہیں برتتی ، لسانی علاقائیت کہاں سے شروع ہوئی؟ کسی نے مگا تھانے میں کہا تھا کہ مراٹھی میری ماں ہے، اگر میری ماں مر جائے تو ہم ان سے کیا امید رکھ سکتے ہیں، ہم ایسے لوگوں سے کیا بات کر سکتے ہیں۔آر ایس ایس کے جوشی نے کہا کہ وہاں کی مادری زبان مراٹھی نہیں ہے ہم مراٹھی زبان کی حفاظت کےلئے ہر ضروری اقدام کریں گے لیکن تشدد کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جاسکتی ۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com