Connect with us
Sunday,24-August-2025
تازہ خبریں

جرم

وی ایچ پی کے ایک پروگرام میں الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر یادو کے ریمارکس پر ہنگامہ، کیا کسی جج کو مواخذے کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے؟

Published

on

Judge-Shekhar-Yadav

نئی دہلی : ملک کی عدلیہ اور اس کے ججوں کے بارے میں عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ انصاف فراہم کر سکیں گے۔ لیکن جب جج کسی اور نظریے کی طرف مائل ہو تو اس سے انصاف کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج شیکھر کمار یادو کے معاملے میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ 8 دسمبر کو جسٹس شیکھر کمار یادو اور جج جسٹس دنیش پاٹھک نے الہ آباد ہائی کورٹ کے لائبریری ہال میں وشو ہندو پریشد کے لیگل سیل کی طرف سے منعقد ایک پروگرام میں حصہ لیا۔ وہیں جج شیکھر یادو نے کہا کہ ملک ہندوستان میں رہنے والی اکثریت کے مطابق چلایا جائے گا۔ یہ قانون ہے۔ آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہائی کورٹ کے جج ہونے کے ناطے وہ یہ کہہ رہے ہیں۔ بھائی، قانون کی حکمرانی صرف اکثریت سے ہوتی ہے۔

جب ان کے بیان کے بعد تنازعہ بڑھ گیا تو سپریم کورٹ نے ان کے بیان کا نوٹس لیتے ہوئے الہ آباد ہائی کورٹ سے مکمل معلومات طلب کر لیں۔ ساتھ ہی پارلیمنٹ میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت حال میں اگر یہ مواخذہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو جاتا ہے تو اسے اپنا عہدہ چھوڑنا پڑے گا۔ تاہم، یہ عمل انتہائی پیچیدہ ہے، جس کی وجہ سے ججوں کی سرپرستی ہوتی ہے۔ آئیے اس کو سمجھتے ہیں۔

وی ایچ پی کے اس پروگرام میں ‘وقف بورڈ ایکٹ’، ‘تبدیلی – اسباب اور روک تھام’ اور ‘یکساں سول کوڈ ایک آئینی لازمی ہے’ جیسے موضوعات تھے، جس پر مختلف لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس میں جسٹس شیکھر یادو نے ‘یکساں سول کوڈ ایک آئینی ضروری ہے’ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک ایک ہے، آئین ایک ہے تو قانون ایک کیوں نہیں ہے؟ انہوں نے کہا- ملک ہندوستان میں رہنے والی اکثریت کے مطابق چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ‘جنونی’ لفظ غلط ہے، لیکن یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کیونکہ یہ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔ ان سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

انگلینڈ میں، مواخذے کا عمل شاہی کونسل کیوریا ریگیس کی ٹرسٹی شپ اتھارٹی کے ذریعے شروع ہوا۔ 1700ء سے ججوں اور وزراء کے خلاف مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔ انگلینڈ میں، 16 ویں صدی میں، ہندوستان کے گورنر جنرل وارن ہیسٹنگز اور لارڈ میل ویل (ہنری انڈاس) کا مواخذہ کیا گیا۔ امریکہ کے آئین کے مطابق اس ملک کے صدر، نائب صدر اور دیگر وزراء کو ان کے عہدوں سے اسی وقت ہٹایا جا سکتا ہے جب ان کے خلاف غداری، رشوت ستانی اور کسی اور خصوصی بدانتظامی کے الزامات مواخذے کے ذریعے ثابت ہوں۔ انگلینڈ میں مواخذے کی سزا مقرر نہیں ہے، لیکن امریکہ میں، یہ عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے. اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ سمیت کئی صدور کے مواخذے کا عمل شروع ہوا لیکن یہ اپنے انجام تک نہیں پہنچا۔

ہندوستانی آئین میں مواخذے کا عمل آئرلینڈ کے آئین سے لیا گیا ہے۔ مواخذہ صدر اور سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے لیے استعمال ہونے والا عمل ہے۔ اس کا ذکر آئین کے آرٹیکل 61، 124 (4)، (5)، 217 اور 218 میں موجود ہے۔ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کا پورا عمل آئین میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار آئین کے آرٹیکل 124(4)، (5)، 217 اور 218 میں لکھا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 124(4) میں سپریم کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے عمل کا ذکر ہے اور آرٹیکل 218 میں ہائی کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے پورے عمل کا ذکر ہے۔

سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ججوں کو پارلیمنٹ میں مواخذے کے ذریعے ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ کسی جج کے خلاف بھی مواخذہ اسی وقت لایا جا سکتا ہے جب اس کے خلاف آئین کی خلاف ورزی، بدعنوانی، بدانتظامی یا نااہلی جیسے الزامات ہوں۔ یہ عمل بہت پیچیدہ ہے۔ ججز (انکوائری) ایکٹ 1968 کے مطابق چیف جسٹس یا کسی دوسرے جج کو صرف بدانتظامی یا نااہلی کی بنیاد پر ہٹایا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں جج کے بیان کو کیا سمجھا جائے گا۔

جج کے خلاف مواخذہ پارلیمنٹ کے کسی بھی ایوان یعنی ایوان زیریں لوک سبھا یا ایوان بالا راجیہ سبھا میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ اگر یہ تجویز لوک سبھا میں پیش کی جا رہی ہے، تو اسے لوک سبھا کے کم از کم 100 اراکین کی حمایت کی ضرورت ہے اور اگر اسے راجیہ سبھا میں پیش کیا جا رہا ہے، تو اسے کم از کم 50 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ راجیہ سبھا کسی جج کو ہٹانے کا عمل صرف اس وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب ممبران پارلیمنٹ کے دستخط شدہ تجویز کو لوک سبھا کے اسپیکر یا راجیہ سبھا کے چیئرمین کے ذریعہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر یا چیئرمین اس تجویز کی ابتدائی جانچ کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں۔ کمیٹی سپریم کورٹ کے جج، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور قانونی ماہر پر مشتمل ہے۔ کمیٹی جج پر لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ میں الزامات درست ثابت ہونے پر پارلیمنٹ میں مواخذے کی تحریک پیش کی جاتی ہے۔

آئین کے آرٹیکل 124 (4) کے مطابق جج کو ہٹانے کا عمل اسی وقت آگے بڑھتا ہے جب اس تجویز کو دونوں ایوانوں کے کل ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ نیز، تجویز کی حمایت کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کی تعداد ایوان میں موجود اور ووٹنگ کرنے والے ارکان کی تعداد کے دو تہائی سے کم نہیں ہونی چاہئے۔ جج کو ہٹانے کا پورا عمل مکمل ہونے کے بعد یہ تجویز صدر کے پاس جاتی ہے۔ اس کے بعد صدر کے حکم پر ہی ججوں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔ راجیہ سبھا کے رکن اور سپریم کورٹ میں سینئر وکیل کپل سبل نے شیکھر کمار یادو کے خلاف مواخذے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمراں جماعت کے لوگوں کو بھی مواخذے کے لیے ساتھ دینا چاہیے۔ کیونکہ ایک جج کی ایسی تقریر سے عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ایسے بیانات سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور پڑ سکتا ہے۔ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

سپریم کورٹ کی معروف وکیل اندرا جے سنگھ نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کس طرح ایک مذہبی تنظیم کی میٹنگ ہائی کورٹ کے احاطے میں منعقد کی گئی۔ ہائی کورٹ کے جج اس میں کیسے ملوث ہو گئے؟ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ایک موجودہ جج کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے پر ایک ہندو تنظیم کی طرف سے منعقدہ تقریب میں سرگرم حصہ لینا کتنا شرمناک ہے۔ کئی دیگر وکلاء نے بھی جج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جرم

ممبئی سمیر شبیر شیخ کو منشیات کے کیس میں ۱۵ سال کی قید ایک لاکھ کا جرمانہ کی سزا

Published

on

Arrest

ممبئی : ممبئی شہر میں ڈرگس اور منشیات اسمگلر کے خلاف انٹی نارکوٹکس سیل اے این سی کو بڑی کامیابی ملی ہے ممبئی میں منشیات اسمگلر سمیر شبیر شیخ ۳۲ سالہ کو ممبئی باندرہ یونٹ نے ۱۱۰ گرام ایم ڈی میفیڈون کے ساتھ ۱۲ مئی ۲۰۲۲ کو گرفتار کیا تھا اس معاملہ میں پولیس نے این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی اور اب عدالت نے اس معاملہ میں ملزم کو قصوروار قرار دیتے ہوئے ۱۵ سال کی قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ ملزم کے خلاف این ڈی پی ایس ایکٹ سمیت مارپیٹ تشدد اور دیگر جرائم درج ہیں کل ۹ معاملات درج ہیں۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کروڑوں روپے کی دھوکہ دہی بین الاقوامی گینگ بے نقاب، کرائم برانچ کی کارروائی 12 ملزمین گرفتار، بینک اکاؤنٹ خرید کر دھوکہ دہی کی گئی : ڈی سی پی

Published

on

Crime-Branch

ممبئی : ممبئی کرائم برانچ نے سائبر دھوکہ دہی کے بین الاقوامی ریکیٹ کو بے نقاب کرنے کا دعوی کرتے ہوئے 12 ملزمین کو گرفتار کر لیا ہے۔ یہ ملک بھر میں سائبر دھوکہ دہی میں ملوث تھے اور دوسروں کے بینک اکاؤنٹ خرید کر اس کا استعمال سائبر فراڈ سے حاصل رقومات کی منتقلی کیلئے استعمال کیا کرتے تھے۔ اس لئے اس معاملہ میں کرائم برانچ نے باقاعدہ طو رپر پانچ ایسے افراد کو بھی ملزم بنایا ہے جنہوں نے اپنا بینک اکاؤنٹ فراڈ کیلئے فراہم کئے تھے۔ ان اکاؤنٹ کو 7 ہزار سے 5 ہزار روپے میں خریدا جاتا تھا۔

ممبئی پولیس ہیڈکوارٹر میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی پی ڈٹیکشن راج تلک روشن نے بتایا کہ 60 کروڑ روپے سے زائد دھوکہ دہی کے معاملہ میں ملوث سائبر فراڈ گینگ کو اس وقت بے نقاب کیا گیا جب کاندیولی میں پولیس نے چھاپہ مارا اور یہاں سے پانچ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اس دفتر میں سم کارڈ, لیپ ٹاپ, 25 موبائل فون اور فرضی دستاویزات بھی برآمد ہوئے تھے اس کے علاوہ اے ٹی ایم کارڈ بھی ملا تھا۔ 943 بینک اکاؤنٹ میں سے 181 بینک اکاؤنٹ کا استعمال سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کیلئے کیا گیا تھا۔ ملک بھر میں یہی اکاؤنٹ کا استعمال سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کیلئے کیا جاتا تھا۔

ان اکاؤنٹ کا استعمال ڈیجیٹل اریسٹ, شیئر ٹریڈنگ سمیت دیگر فراڈ کے پیسوں کیلئے کیا گیا تھا, اس کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔ سائبر فراڈ سے متعلق 1930 پر شکایات موصول ہوئی تھی, جس میں کل 339 شکایت میں سے ممبئی کی 16 اور مہاراشٹر میں 46 شکایت کے بعد 16 جرم درج کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر صوبوں میں 277 شکایات موصول ہوئی تھی۔ اس میں سے 33 جرم درج کئے گئے ہیں ملزمین پر مزید مقدمات درج ہونے کا امکان بھی ہے۔ یہ گروہ منظم طریقے سے لوگوں کو بے وقوف بنایا کرتا تھا۔ اس گینگ کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ پہلے وہ ایسے لوگوں کی نشاندہی کرتا جو اپنے بینک اکاؤنٹ فروخت کرنے کے خواہاں ہے۔ اس کے بعد ان کے بینک اکاؤنٹ خرید کر سائبر فراڈ کے پیسوں کی اس میں منتقلی کی جاتی۔ اس کے ساتھ ہی ان بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات اور تمام پاس ورڈ بھی اپنے پاس ہی یہ لوگ رکھتے تھے, اس کے بعد اے ٹی ایم اور دیگر سینٹروں سے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکالا کرتے تھے۔ ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی آن لائن اور اے ٹی ایم سے پیسے نکالے گئے ہیں۔ جن لوگوں کا اکاؤنٹ سائبر فراڈ کے پیسوں کی منتقلی کے لئے استعمال کیا گیا تھا انہیں اس کا علم تھا اس لئے اب ایسے افراد کو بھی ملزم بنایا گیا ہے, جنہوں نے اپنا اکاؤنٹ فراہم کیا ہے۔ یہ تمام بھی جرم میں شریک پائے گئے تھے, اس لئے ڈی سی پی راج تلک روشن نے بتایا ہے کہ لالچ میں کسی کو بھی اپنا اکاؤنٹ فروخت نہ کرے اور سائبر فراڈ سے محفوظ رہنے کیلئے آن لائن پر کسی بھی قسم کی دھمکی سے خوفزدہ نہ ہو, کیونکہ ڈیجیٹل اریسٹ وغیرہ نام کی کوئی چیز نہیں انہوں نے کہا کہ جس طرح سے سائبر فراڈ کے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے اسی طرح کرائم برانچ بھی فعال ہے, ایسے میں کرائم برانچ نے 60 کروڑ سے زائد کے فراڈ کے کیس کو حل کر لیا ہے۔ اور 10 کروڑ روپے ان اکاؤنٹ سے منجمد بھی کئے ہیں۔ جن ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ویبو پٹیل, سنیل کمار پاسوان، امن کمار گوتم، خاتون خوشباو سندر جول، رتیک بندیکر شامل ہے ان ملزمین کے قبضے سے دو لیپ ٹاپ، ایک پرنٹر, 25 موبائل فون متعدد بینکوں کی 25 پاس بک, 30 چیک بک, 46 اے ٹی ایم سوئپ مشین و دیگر کمپنی کے موبائل کے 104 سم کارڈ برآمد ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف سمتا نگر پولیس اسٹیشن میں سائبر فراڈ سمیت دیگر دفعات میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس معاملہ کی تفتیش میں پیش رفت ہونے کے بعد مزید ملزمین کی گرفتاری عمل لائی گئی ہے اور اب تک اس معاملہ میں 12 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس میں جس خاتون کو گرفتار کیا گیا ہے اس نے اپنا اکاؤنٹ فروخت کیا تھا۔ اسی لئے پولیس نے شہریوں سے الرٹ رہنے کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ وہ پیسوں کی لالچ میں ایسے گینگ کے دام میں نہ آئے

Continue Reading

جرم

جلگاؤں سلیمان خان ہجومی تشدد ملزمین پر سخت کارروائی کا مطالبہ، رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی کا جلگاؤں دورہ اہل خانہ سے ملاقات و اظہار ہمدردی

Published

on

ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر و رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے جلگاؤں جامنیر میں مسلم نوجوان سے ہجومی تشدد پر سخت کاررائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پولس کی تفتیش پر بھی شبہ ظاہر کیا ہے اور اہم ملزمین کو بچانے کا الزام بھی اہل خانہ نے عائد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جلگاؤں جامنیر میں سلیمان خان پر ہجومی تشدد اس کی کیا غلطی تھی صرف یہی کہ وہ مسلمان تھا اس لئے اس میں ملوث خاطیوں پر مکوکا کا اطلاق کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۴ سے نفرت کا ماحول عروج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا ہے۔ چار پانچ گھنٹے تک نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ان فرقہ پرستوں اور غنڈوں کی اتنی ہمت کہ وہ سرعام ایک نوجوان کو نشانہ بنائے مسلم نوجوان کے قتل کے معاملہ میں ایس آئی ٹی انکوائری کے ساتھ خاطیوں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ کیس کو پختہ کرنے کا بھی مطالبہ ابوعاصم اعظمی نے کیا ہے۔ چشم دید گواہ کے مطابق گرفتاری عمل میں لائی جائے جو تشدد میں ملوث ہے, وہ سب یہاں کے رکن اسمبلی کے کارکن ہے انہیں بچانے کی کوشش جاری ہے۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے, انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے برسراقتدار ہے۔ مسلم لڑکیوں کو ہٹاؤ یہ پمفلٹ تقسیم کیا جارہا ہے اس پر بھی کارروائی ہو نی چاہئے۔

‎آج مہاراشٹر سماجوادی پارٹی رہنما ابوعاصم اعظمی نے جامنیر میں سلیمان کے خاندان سے ملاقات کی، جسے بنیاد پرستوں نے اس کے خاندان کے سامنے صرف ایک غیر مسلم لڑکی سے بات کرنے پر بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ اعظمی نے مقتول کے گھر والوں سے اظہار ہمدردی کی اور کہا کہ میں ایک باپ کی آنکھوں میں نفرت کی آگ میں اپنے جوان بیٹے کو کھونے کا درد اور ماں کی سسکیوں میں بے بسی دیکھی۔ میں نے سوگوار خاندان کو یقین دلایا کہ ہم ہر ممکن تعاون کریں گے۔

جلگاؤں پولس سے ملاقات کی اورخاندان کے ذریعہ نامزد 2 اہم ملزمین کے خلاف گرفتاری اور کارروائی میں تاخیر پر جواب طلب کیا۔ اس کے ساتھ ہی ابوعاصم اعظمی نے ‎کسی بھی مردہ بیٹے کو واپس نہیں لایا جاسکتا لیکن سوگوار خاندان کے لیے میں وزیر اعلیٰ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سلیمان کے اہل خانہ کو 25 لاکھ روپے کی مالی امداد کرے، خاندان کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی بھی خاطیوں بخشا نہ جائے ایس آئی ٹی تشکیل دی جائے اور ملزموں کے خلاف مکوکا کے تحت کارروائی کی جائے۔

ریاست میں اقتدار کے لیے پھیلائی جا رہی نفرت براہ راست نفرت انگیز تقاریر سے نفرت انگیز جرائم کو جنم دے رہی ہے۔ میں وزیر اعلی دیویندر فڑنویس سے مطالبہ کرتا ہوں کہ نفرت کے خلاف قانون بنایا جائے اور ان کے وزراء پر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی پر پابندی لگائی جائے۔ ‎آج ریاست کو نفرت کے خلاف قانون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ جب تک نفرت انگیز تقاریر بند نہیں ہو گی، نفرت پر مبنی جرائم پر قدغن لگانا ممکن نہیں ہے ۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com