Connect with us
Thursday,04-September-2025
تازہ خبریں

سیاست

یوپی : دوسرے مرحلے کی 55 سیٹوں پر ووٹنگ کا آغاز

Published

on

vote

اتر پردیش میں دوسرے مرحلے کے تحت 9 اضلاع کی 55 سیٹوں پر پیر کو سخت سیکورٹی کے انتظامات کے درمیان ووٹنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رائے دہندگان صبح 7 بجے سے شام 6 بجے تک اپنی حق رائے دہی کا استعمال کر سکیں گے۔

چیف الیکشن افسر اجئے کمار شکلا نے اتوار کو کہا کہ ان تمام سیٹوں پر مجموعی طور سے 2.02 کروڑ رائے دہندگان بشمول 1.05 کروڑ مرد اور 94 لاکھ خواتین 586 امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کریں گے، جن میں 69 خواتین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا 12544 پولنگ سنٹرس کے 23404 پولنگ بوتھ پر رائے دہندگان اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ سال 2017 میں ان سیٹوں پر مجموعی ووٹنگ کا اوسط فیصد 65.53 ریکارڈ کیا گیا تھا۔

وہیں اڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (نظم ونسق) پرشانت کمار نے کہا آٹھ اسمبلی حلقوں بشموں نگینہ، دھام پور، بجنور، اسمولی، سنبھل، دیوبند، رامپور منہارن اور گنگوہ کو حساس حلقوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں 436 بستیوں اور مقامات کو کافی حساس اور 4917 پولنگ بوتھ کو حساس بوتھوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

اے ڈی جی نے بتایا کہ خواتین کے لئے 127 پنک بوتھ بنائے گئے ہیں جہاں پر 42 خاتون انسپکٹر یا سب۔انسپکٹر اور 488 کانسٹیبل اور ہیڈ کانسٹیبل تعینات کئے گئے ہیں۔ اس مرحلے میں سنٹرل فورسز کی 733.44 کمپنیوں کو 12544 پولنگ بوتھ پر تعینات کیا گیا ہے۔

یو پی پولیس نے 6860 انسپکٹر اورسب انسپکٹر، 54670 کانسٹیبل و ہیڈ کانسٹیبل کے ساتھ 18.01 کمپنی پی اے سی، 930 پی آر ڈی جوان اور 7746 چوکیداروں کو اس مرحلے میں تعینات کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ہدایت کے مطابق جن اضلاع میں ووٹنگ ہونی ہے تمام شراب کی دوکانیں 5 بجے تک بند رہیں گی، اور سرحدین سیل کر دی گئی ہیں۔

جن اضلاع کی 55 سیٹوں پر ووٹ ڈالے جائیں گے، ان میں امروہہ، سہارنپور، بجنور، رامپور، سنبھل، مرادآباد، بریلی، بدایوں اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ اس مرحلے میں یوگی حکومت کے تین وزیر اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ سہارنپور سے سریش کھنہ، ضلع سنبھل کی چندوسی سے گلابو دیوی اور رامپور کی بلاسپور سیٹ سے بلدیو سنگھ اولکھ شامل ہیں۔

اپوزیشن کے معروف چہرے جو انتخابی میدان میں ہیں، ان میں سینئر سماج وادی پارٹی (ایس پی) لیڈر اعظم خان رامپور صدر سے، یوگی کابینہ کے سابق وزیر اور اب ایس پی امیدوار دھرم پال سنگھ سینی ضلع سہارنپور کی نکور سے اور امروہہ سے محبوب علی قابل ذکر ہیں۔

مسلم اکثریتی علاقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف پارٹیوں نے 75 سے زیادہ مسلم امیدوار اتارے ہیں۔ ان میں بی ایس پی کے سب سے زیادہ 25، ایس پی۔ آر ایل ڈی اتحاد کے 18، کانگریس نے 23 مسلم امیدواروں کو انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ وہیں ایم آئی ایم کے 15 مسلم چہروں نے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا ہے۔

تقریبا ایک مہینے تک چلی انتخابی مہم میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے علاوہ اپوزیشن پارٹیاں ایس پی۔ بی ایس پی، آر ایل ڈی، اور کانگریس سمیت دیگر پارٹیوں نے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والی 55 سیٹوں میں سے تقریبا 25 سیٹوں پر مسلم ووٹر اور 20 سے زیادہ سیٹوں پر دلت ووٹر ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔

اس علاقے میں سال 2017 کے مودی لہر نے دلت۔ مسلم صف بندی کی وجہ سے ماضی میں بی جے پی کے کمزور ہونے کے طلسم کو توڑتے ہوئے 55 میں سے 38 سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ جبکہ ایس پی کو 15 اور اس کی اتحادی پارٹی کانگریس کو دو سیٹیں ملی تھیں۔ اس وقت ایس پی کے 15 میں سے 10 اور کانگریس کے دو میں سے ایک مسلم ایم ایل اے جیتے تھے۔ ماہرین کی رائے میں دلت ووٹوں میں تقسیم کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ سابقہ الیکشن میں بی ایس پی کا اس علاقے میں کھاتہ بھی نہیں کھل سکا۔

اس الیکشن میں کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کی مشکلیں بڑھا سکتی ہے۔ وہیں مخالف خیمے سے ایس پی نے اس علاقے میں احتجاج کو شباب پر پہنچا کر ووٹروں کو پولنگ اسٹیشن تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے پہلے سال 2012 میں جب ایس پی نے حکومت بنائی تھی اس وقت بھی ایس پی کو اس علاقے کی 55 سیٹوں میں سے 27 سیٹوں میں جیت ملی تھی، جبکہ بی جے پی کے کھاتے میں 8 سیٹیں آئی تھیں۔

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ والے 9 اضلاع میں سے سات اضلاع رامپور، سنبھل، مرادآباد، سہارنپور، امروہہ، بجنور اور نگینہ میں دلت مسلم ووٹر ہی امیدواروں کے قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ایس پی۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اتحاد کیا تھا، اور ان سات اضلاع کی سبھی سات لوک سبھا سیٹوں پر جیت درج کی تھی۔ ان میں ایس پی کو رامپور مرادآباد اور سنبھل جبکہ بی ایس پی کو سہارنپور، نگینہ، بجنور اور امروہہ سیٹوں میں جیت ملی تھی۔

واضح رہے کہ اس الیکشن میں ذات پات کی صف بندی کی بنیاد پر بی جے پی کے لئے سابقہ الیکشن کی طرر پر مذہب کی بنیاد پر اور سیکورٹی کے مسئلے پر ووٹوں کی تقسیم کرانا سخت چیلجنگ ثابت ہوا ہے۔ سبھی پارٹیوں کے امیدواروں کہ فہرست سے صاف ہوگیا ہے، کہ اس علاقے میں الیکشن کا دارومدار دلت، جاٹ اور مسلم ووٹوں کے پولرائزیشن پر منحصر ہے۔

جہاں تک انتخابی مہم کا سوال ہے تو کورونا انفکشن کے خطرے کے درمیان ہو رہے۔ اس الیکشن میں گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں انتخابی مہم کا شور کافی کم رہا۔ الیکشن کمیشن کی گائیڈ لائن کے تحت ریلی، جلوس اور روڈ شو وغیرہ پر پہلے ہی روک لگا دی تھی۔
ورچول انتخابی تشہیر کے معاملے میں بی جے پی نے اپوزیشن پارٹیوں کو ضرور پیچھے رکھنے کی کوشش کی، لیکن 06 فروری سے عوامی ریلیاں کرنے کی اجازات ملنے کے بعد ایس پی۔ بی ایس پی اور کانگریس محدود روڈ شو اور عوامی ریلیاں کر کے ووٹروں تک اپنے پیغام پہنچانے میں مشغول ہیں۔

بی ایس پی سپریمو مایاوتی ابتداء میں اگرچہ سے انتخابی مہم سے دور رہیں، لیکن دو فروری سے انہوں نے مغربی اترپردیش میں تین ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے مقابلے کو دلچسپ بنا دیا۔

انتخابی ایجنڈوں کی اگر بات کی جائے تو کسان تحریک کا گڑھ رہے۔ مغربی اترپردیش میں کسانوں کی پریشانیاں سب سے بڑا ایجنڈا ہیں۔ ماہرین کی رائے میں مودی حکومت بھلے ہی تینوں زرعی قوانین واپس لے کر سب سے لمبے کسان تحریک کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہو، لیکن کسانوں کا غصہ اب بھی بی جے پی کے لئے اس الیکشن کا سب سے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

کسانوں کے اشتعال کو کم کرنے کے لئے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ، وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ترقیاتی کاموں کا اس علاقے میں جم کر انتخابی مہم چلائی ہے۔ بی جے پی نے شاہ کو مغربی اترپردیش میں پارٹی کا انتخابی انچارج بنایا ہے۔ یہ الیکشن شاہ کے انتخابی انتظامات کو بھی کسوٹی پر پرکھے گا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سال 2012 میں جب سماج وادی پارٹی اقتدار میں آئی تھی، اس وقت ایس پی نے 55 میں سے 27 سیٹوں پر جیت درج کی تھی، جب کہ بی جے پی کے کھاتے میں محض 8 سیٹیں آئی تھیں۔

ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اکھلیش کے انتخابی نتائج کی لگاتار ناکامیوں پر اس الیکشن میں بریک لگتا ہے یا نہیں۔ وہ آر ایل ڈی کے جینت چودھری کے ساتھ پورے مغربی اترپردیش میں لگاتار انتخابی مہم کر کے کسانوں کے پریشانیوں کو اہم ایجنڈا بنا رہے ہیں۔ جس سے کسانوں کی ناراضگی بی جے پی کا وجئے رتھ روک سکے۔ علاوہ ازین یہ الیکشن جینت چودھری کے لئے بھی سخت امتحان ہے۔ یہ انتخاب یہ طے کرے گا کہ وہ جاٹ لینڈ کے چودھری ہیں یا نہیں۔

بی ایس پی کی بھی کوشش ہے کہ مغربی اترپردیش میں ایس پی آر ایل ڈی اتحاد اور بی جے پی کی لڑائی کو سہ رخی بنا دیا جائے۔ اس علاقے کی دلت اکثریتی دو درجن سیٹوں پر اپنے امیدوار جتانے کی بی ایس پی کی ہر ممکن کوشش جاری ہے۔ سابقہ امتحانات میں اس علاقے سے ایک بھی سیٹ پر کامیابی حاصل نہ کر پانے والی بی ایس پی کے لئے یہ الیکشن اپنے وجود کو ثابت کرنے والا ہو گیا ہے۔

جرم

دہلی کی ایک 76 سالہ خاتون کو پہلگام کے دہشت گردوں کو فنڈینگ کا الزام لگا کر سائبر فراڈ نے 43 لاکھ روپے لوٹ لیے، نوئیڈا پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

Published

on

terrorists

نئی دہلی : ایک 76 سالہ معصوم خاتون کو پہلگام حملے کے دہشت گردوں کو پیسے دینے کے الزام میں نہ صرف ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ اپنی پوری زندگی میں بچائے گئے تمام پیسے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ سائبر کرائم سے جڑا یہ ایک ایسا سنسنی خیز معاملہ ہے جو کسی کو بھی حیران کر سکتا ہے۔ بزرگ خاتون کو اس وقت احساس ہوا کہ جب وہ ایک معروف وکیل سے رابطہ میں آئی تو اسے دھوکہ دیا گیا تھا۔ تاہم، تب تک اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا لگ چکا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، بزرگ خاتون کے ساتھ یہ سارا فراڈ 18 جولائی کو شروع ہوا۔ نوئیڈا میں رہنے والی 76 سالہ سرلا دیوی کو اپنی لینڈ لائن پر کال موصول ہوئی۔ اس کے پاس موبائل ہے، اس لیے اب شاید ہی کوئی اس کی لینڈ لائن پر کال کرتا ہے۔ جب بزرگ خاتون نے فون اٹھایا تو دوسری طرف موجود خاتون نے کہا کہ وہ ایک ٹیلی کام کمپنی سے ہے اور کال کو ممبئی پولیس کی کرائم برانچ سے جوڑنے کو کہا۔ پھر ممبئی پولیس کی کرائم برانچ کا ایک شخص پولیس افسر کا روپ دھار کر فون اٹھاتا ہے۔ پھر وہ جو کچھ کہتا ہے وہ بوڑھی عورت کے ہوش و حواس کھو دیتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستانی دہشت گردوں کو فنڈ فراہم کرنے والا تھا جنہوں نے جموں و کشمیر کے پہلگام میں 26 لوگوں کا قتل عام کیا۔ اگلے 24 دن اس طرح گزرے کہ بزرگ خاتون کی ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ بے سود ہو گیا۔

کرائم برانچ کے اہلکار ظاہر کرتے ہوئے سائبر مجرموں نے بوڑھی خاتون کی بے گناہی ثابت کرنے کے بہانے آہستہ آہستہ 43 لاکھ روپے ان کے کھاتوں میں منتقل کر دیے۔ جب تک بزرگ خاتون کو معلوم ہوا کہ اسے لوٹا جا رہا ہے، اس کے اکاؤنٹس خالی ہو چکے تھے۔ اب خاتون کی شکایت پر نوئیڈا کے سیکٹر-36 کے سائبر کرائم پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی گئی ہے۔ سرلا دیوی نے اپنی شکایت میں کہا ہے، ‘کال کرنے والے نے مجھے بتایا کہ میرے نام پر بائیکلہ، ممبئی میں ایک فون نمبر رجسٹرڈ ہے اور اسے جوا اور بلیک میلنگ جیسی غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد، جس شخص سے اس نے مجھ سے رابطہ کیا، مجھے بتایا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان کے پاس کلیئرنس سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہے۔’

جس شخص سے بوڑھی خاتون کا فون جڑا تھا، وہ ممبئی کرائم برانچ کا اے سی پی ہونے کا بہانہ کرتا تھا، اس نے اسے دھمکی دی کہ اس کے نام پر گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا ہے۔ اس پر حوالات کے لین دین اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ اس نے پہلگام حملے کے دہشت گردوں کی مالی معاونت میں بھی اس کا نام لیا تھا۔ اس نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ ‘میں ایک 76 سالہ بوڑھی عورت ہوں… اکیلی رہنے والی بیوہ ہوں… میں پریشان اور ذہنی اور نفسیاتی دباؤ میں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ میں گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے تمام بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات دوں اور سیکیورٹی رقم جمع کراؤں… انہوں نے کہا کہ تفتیش مکمل ہونے کے بعد تمام رقم واپس کر دی جائے گی۔’

نوئیڈا پولیس نے کہا ہے کہ 20 جولائی سے 13 اگست کے درمیان اس کے اکاؤنٹ سے تقریباً 43 لاکھ روپے مختلف آن لائن ذرائع سے متعدد اکاؤنٹس میں منتقل کیے گئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود سائبر فراڈ کرنے والے اس پر 15 لاکھ روپے مزید دینے کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔ اسے ویڈیو کالز کے ذریعے دھمکیاں دی جارہی تھیں۔ پولیس کے مطابق، ‘جب وہ ایک وکیل کے رابطے میں آئی، جسے وہ جانتی تھی، تب اسے معلوم ہوا کہ وہ سائبر فراڈ کا شکار ہو چکی ہے اور جعلسازوں سے چھٹکارا پا چکی ہے۔’ نوئیڈا پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 308 (2)، دھوکہ دہی-318 (4) اور جعلسازی کے ذریعے نقالی -319 (2) اور آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ 66D کے تحت مقدمہ درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

اردو گولڈن جبلی تقریبات : ‎وزیر اقلیتی امور ببن کوکاٹے سے ابوعاصم اعظمی کی ملاقات تمام مطالبات فوری طور پر حل کرنے کی یقین دہانی اردو اکیڈمی کا جلد قیام

Published

on

Babun-Kokate-&-Azmi

‎ممبئی : ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر و رکن اسمبلی ابوعاصم اعظمی نے مسلم مسائل اور اردو اکیڈمی سے متعلق جو مطالبات وزیر اقلیتی امور کوکاٹے سے کئے تھے اسے سرکار نے قبول کرتے ہوئے وزارت اقلیتی امور نے اردو اکیڈمی کی جلد ازجلد قیام کے ساتھ اردو گولڈن جبلی کی تقریبات کو عالمی سطح پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی تقریبات یہاں نڈیاڈ والا منعقد کریں گے, اس کے ساتھ ہی اردو اکیڈمی کے قیام میں اردو زبانوں اور مسلم اکثریتی علاقوں سے اراکین کی تقرری ہوگی. اس کے ساتھ ہی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات سے متعلق مسائل کو بھی مانک راؤ کوکاٹے نے حل کرنے کا یقین دلایا ہے۔ اقلیتوں کے لئے اسکالر شپ سے لے کر او بی سی کے طرز پر مسلمانوں اور طلبا کو تعلیمی وظائف کا بھی مطالبہ اعظمی نے کیا تھا۔ پسماندہ اور مالی کمزور طلبا کو تعلیمی وظائف پر بھی اعظمی نے زور دیا تھا, اس کے علاوہ نیٹ اور یو پی ایس سی تربیتی کیمپ اور کلاس شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایم پی ایس سی کے امتحان میں اردو زبان کے امیدواروں کو اردو میں امتحان دینے کی سہولت کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ مسلمانوں کی تعلیمی معاشی اور دیگر پسماندگی کا مطالعہ کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا, اس پر آج ابوعاصم اعظمی نے وزیر اقلیتی امور مانک راؤ کوکاٹے سے ملاقات کر کے تمام مسائل پر توجہ طلب کرتے ہوئے انہیں حل کرنے کا مطالبہ بھی کیا, جس پر وزیر نے مثبت یقین دہائی کراتے ہوئے مسائل حل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اس دوران ابوعاصم اعظمی نے ہمراہ سنیئر صحافی سعید حمید بھی موجود تھے اور انہوں نے بھی وزیر اقلیتی امور سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے اردو کے مسائل پر توجہ مبذول کرائی۔ اس پر وزیر موصوف نے تمام مطالبات پر فوری طور پر کارروائی کی ہدایت دی ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

جلوس محمدی کے لئے عام تعطیل ۸ ستمبر کو ہو گی

Published

on

Mhim-&-Khilafat

ممبئی : ممبئی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام تعطیل جمعہ کے بجائے پیر۸ ستمبر کو ہو گی. یہ جی آر نوٹیفکیشن عام انتظامیہ محکمہ نے جاری کیا ہے. ممبئی اور مضافات میں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تناظر میں تعطیل کو ۵ ستمبر بروز جمعہ سے منتقل کر کے ۸ ستمبر کو دی گئی ہے. اس سے قبل مسلمانوں نے متفقہ طور پر ریاست میں گنپتی وسرجن کے پیش نظر جلوس محمدی ۸ ستمبر کو نکالنے کا فیصلہ لیا تھا اور ممبئی کے خلافت ہاؤس میں منعقدہ میٹنگ میں یہ فیصلہ مولانا معین الدین اشرف المعروف معین میاں کی قیادت میں خلافت کمیٹی کے کارگزار صدر سرفراز آرزو نے لیا تھا اور مسلمانوں نے مطالبہ کیا تھا کہ سرکاری تعطیل ۸ ستمبر یعنی پیر کو دی جائے, جس کو قبول کرتے ہوئے عام انتظامیہ محکمہ نے سرکلر جاری کیا ہے. اب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چھٹی ۵ ستمبر کے بجائے ۸ ستمبر کو ہو گی۔ اس سے مسلمانوں اور جلوس کمیٹیوں نے مسرت کا اظہار کیا ہے. مسلمانوں نے گنپتی وسرجن کے سبب عید میلاد النبی کے جلوس کو ۸ ستمبر کو نکالنے کا فیصلہ کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کا ثبوت دیا تھا. یہ ہندو مسلم اتحاد کی روشن مثال ہے, اسی لئے سرکار نے اب عام تعطیل ۸ ستمبر کو دیدی ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com