Connect with us
Sunday,22-September-2024

خصوصی

اردو زبان کی آبیاری کی کوششیں کرنے والے قابلِ مبارکباد ہیں۔ ساجدہ نہال احمد

Published

on

The-book-'E-Learning'

اردو زبان کی ترقی اور فروغ پر زور دیتے ہوئے چیئرمن، انجمن تعلیمِ جمہور (مالیگاؤں) نے کہا کہ اردو زبان کی آبیاری کے لیے جو لوگ کوششیں کر رہے ہیں، وہ قابلِ مبارکباد ہیں، اور ان کی ادنی سی بھی کوشش اردو کے فروغ میں معاون ثابت ہوگی۔ یہ بات انہوں نے اردو زبان کی ترقی ترویج کے لئے کوشاں اور کورونا کے دور بھی سرگرم ماہر تعلیم اشفاق عمر کی کتاب ’ای لرننگل‘ کا رسم اجرا انجام دیتے ہوئے کہی۔

پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے شہر مالیگاؤں کی علمی و ادبی خدمات کا سرسری جائزہ پیش کیا، اور کہا کہ جو لوگ اردو زبان کی آبیاری کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، وہ قابلِ مبارکباد ہیں اور ان کا ساتھ دینا، کتابیں خرید کر پڑھنا اردو زبان کی بقاء کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے تمام ہی لوگوں کے کاموں کی ستائش بھی کی۔

ثمر اکیڈمی، مالیگاوں کے زیرانصرام جمہور ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کیمپس، مالیگاوں میں منعقدہ تقریب میں افتتاحی کلمات پیش کرتے ہوئے پروگرام کے کنوینر ایڈوکیٹ خلیل احمد انصاری نے جامِ جم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج سب کے ہاتھوں میں جامِ جم کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل کی شکل میں موجود ہے۔ ہمیں زمانے کے ساتھ چلنا ہے، اور جو ’جامِ جم آپ کے ہاتھوں میں ہے اس کا تعمیری مقاصد کے لیے مثبت استعمال کیجئے۔ اس کا استعمال قوم و ملت کی ترقی و ترویج کے لیے کریں۔ اسی کے ساتھ پروگرام میں شہر کے معروف سرجن ڈاکٹر سعید احمد فارانی کو ممبئی میں ’ٹائمز انفلونشیل پرسن‘ ایوارڈ ملنے اور ان کی بیش بہا طبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے استقبالیہ دیا گیا۔

پروگرام کے کنوینر احمد ایوبی سر نے پروگرام کے اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ای لرننگ کی معلومات عام کرنا اور اردو کی ترویج میں مصروف اہل قلم افراد کی خدمات کا اعتراف کرنا پروگرام کا مقصد ہے۔

پروگرام کے رابطہ کاراشفاق عمر نے بیرونِ شہر کے مہمانوں کا تعارف پیش کرتے اور ای لرننگ کی مثال دیتے ہوئے اپنے موبائل پر جدید تکنالوجی کی مثال پیش کی اور نظام شمسی کے 3D ماڈل کو سامعین کے روبرو پیش کیا۔ اشفاق عمر نے شکریے کی رسم ادا کی اور اس میں کئی معززین کے پیغام پیش کئے۔ خاص طور پر مشہور تعلیمی و سماجی رہنما سلیم الوارے (ممبئی) کا پیغام پیش کیا جس کے مطابق وہ کوکن میں سیلاب ریلیف کے کاموں میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ، ”آپ نے میرے اعزاز میں پروگرام رکھاہے جو میرے لیے ذاتی خوشی کی بات ہے مگر میرے لیے زیادہ اہم ہے کہ میں کوکن کے لوگوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ لاسکوں۔“

تعارف ہی کے دوران مسٹر اشفاق عمر کی کتابوں کی رسمِ اجراء انجام دی گئی، اور ان کی علمی، ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مومنٹو سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر خلیل صدیقی (لاتور) نے اپنی مخاطبت میں اہلیانِ مالیگاؤں کو اتنے عظیم بامقصد پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد دی۔ نثار خان (ممبئی) نے ای لرننگ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ای لرننگ جیسی کتابوں کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کیا۔ راجستھان سے تشریف لائے ڈاکٹر محمد حسین نے اظہار ِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس پروگرام میں کتابوں کی اہمیت کو تو جانا ہی ساتھ میں نئی تکنالوجی پر مبنی کتاب ”ای لرننگ“ کے ذریعے نئی تکنالوجی کو بھی جانا۔ عرفان صدیقی نے اشفاق عمر سر کی خدمت میں بطور ہدیہ ایک رقم چیک کی صورت میں پیش کی۔

اس کے علاوہ سیّدہ تبسّم ناڈکر، ممبئی کی دو کتابیں ’روحِ تبسّم‘ (غزلوں کا مجموعہ) اورعکسِ مجسّم (سماجی واصلاحی مضامین کا مجموعہ)، تنویر حمد (حمدیہ قطعات کا مجومہ) شاعر خلیل صدیقی (لاتور) اور طلعت سروہا (سہارنپور) کی دو کتابیں کاوشِ طلعت (غزلوں کا مجموعہ) اور دردِ صحرا (افسانے) اور اشفاق عمر کی کتاب ’ای لرننگ‘ کی رسمِ اجراء انجام دی گئی۔ ڈاکٹر محمد حسین (راجستھان)، ڈاکٹر خلیل صدیقی (لاتور)، تبسّم ناڈکر(ممبئی)، طلعت سروہا (سہارنپور)، مشیر حمدانصاری (ممبئی)، سلیم الوارے (ممبئی)، ڈاکٹر شاہد صدیقی (ممبئی)، نثار احمد خان (ممبئی)، محمد رفیق شیخ (ممبئی)، منظور ناڈکر (ممبئی)، شیخ عزیز (بھساول)، منور حسین (احمد نگر) کی علمی، ادبی و سماجی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو خدمت میں مومنٹو پیش کئے گئے۔

پروگرام میں ڈٖاکٹر منظور حسن ایوبی، پروفیسر عبدالمجید صدیقی (قومی صدر، سی سی آئی) علیم الدین ناز، شاہد اختر (جمہور)، قمرالنساء شبیر (دھولیہ)، محمد رضاسر (ایم سی ای)، افتخارالنساء میڈم (دھولیہ)، ماسٹر سعید پرویز، عرفان احمد صدیقی، خیال انصاری، شکیل صادق سر، انصاری مسعودالظّفر، ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر (ممبئی)، عتیق شعبان، رضوان ربّانی، رقیہ آپا (مالیگاؤں گرلز)، خان سلیم پیلا پھیٹا، اسکول ہٰذا کے اساتذہ سمیت کثیر تعداد میں لوگ شامل تھے۔ برکتی محمد مصطفیٰ سر نے نظامت کے فرائض بہترین انداز میں انجام دئیے۔

خصوصی

ممبئی نیوز : واشی فلائی اوور پر ٹریلرز کے ٹکرانے کے بعد سائین – پنول ہائی وے پر بڑے پیمانے پر ٹریفک جام

Published

on

By

Accident

ممبئی: سیون-پنویل ہائی وے کے ذریعے پونے کی طرف جانے والے مسافروں کو پیر کے روز ایک آزمائش کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو چار گھنٹے سے زیادہ تک چلنے والی ٹریفک کی جھڑپ میں پھنسا ہوا پایا۔ واشی فلائی اوور پر دو ٹریلر آپس میں ٹکرانے کے بعد بھیڑ بھڑک اٹھی۔

صورتحال سے نمٹنے کے لیے محکمہ ٹریفک نے تیزی سے 30 سے زائد پولیس اہلکاروں کو جمبو کرینوں کے ساتھ متحرک کیا تاکہ گاڑیوں کو ہٹانے اور معمول کی روانی کو بحال کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ایک کلومیٹر تک پھیل گیا۔

یہ واقعہ صبح 6 بجے کے قریب پیش آیا جب دو ملٹی ایکسل گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں کیونکہ معروف ٹریلر کا ڈرائیور بروقت بریک نہ لگا سکا۔ واشی ٹریفک کے انچارج سینئر پولیس انسپکٹر ستیش کدم نے وضاحت کی کہ بارش کے موسم نے سڑکوں کو پھسلن بنا دیا ہے۔ سامنے کا ٹریلر، بھاری دھات کے پائپوں کو لے کر، اس کے کلچ کے ساتھ تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں رفتار کم ہوئی۔ پیچھے آنے والا ٹریلر وقت پر رکنے میں ناکام رہا، جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور اس کے بعد ٹریفک جام ہوگیا۔

خوش قسمتی سے حادثے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم، مسافروں، بشمول دفتر جانے والے اور طلباء، نے ٹریفک جام کی وجہ سے ہونے والی نمایاں تاخیر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ چیمبر سے واشی کا سفر کرنے والے طلباء اسکول کے اوقات کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد اپنی منزل پر پہنچے۔

سڑک کے پورے حصے کو بلاک کر دیا گیا، جس سے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ نے گاڑیوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ دوپہر تک، بھیڑ کم ہوگئی کیونکہ دونوں ٹریلرز کو کامیابی کے ساتھ سڑک سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ٹریفک کی روانی کو آسان بنانے کے لیے فلائی اوور پر ایک لین کھلی رکھی گئی اور گاڑیوں کو پرانے فلائی اوور کو متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔

Continue Reading

خصوصی

ٹیپوسلطانؒ سرکل راتوں رات مہندم، ٹیپوسلطانؒ سے زیادہ ساورکرکو دی گئی اہمیت

Published

on

By

Tipu Sultan's Circle

انگریزوں سے معافی مانگنے والے ساورکر کے مجسمہ کی تزئین کاری کے نام پر 20 لاکھ روپئے کے فنڈز کو مختص کئے جانے پر مسلمان تذبذب میں مبتلا تھے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے عامداروں نے ساورکر کے نام پر فنڈز کو منظوری نہیں دی، وہیں پہلی بار منتخب ہونے والے مسلم عامدار کی جانب سے 20 لاکھ روپئے کے فنڈ کو ہری جھنڈی ملنے کی مہیش مستری کی ویڈیو نے مسلم ووٹرس کو حیرت میں ڈالا تھا۔

گزشتہ چند ماہ قبل کی بات ہے، ایک چوراہے کا نام ٹیپوسلطانؒ کے نام سے منظوری لینے کی بات پر مسلم لیڈران میں آپس میں کریڈیٹ لینے کی زبانی جنگ شروع تھی، مسلم نگرسیوکوں کی جانب سے میئر اور آیوکت کو نیویدن دیا گیا تھا۔ حالانکہ اجازت اور منظوری نہیں ملی تھی۔ پھر اچانک ماریہ ہال کے پاس ٹیپوسلطانؒ کے نام سے سرکل تعمیر کیا، جس میں مختصراً ٹیپوسلطانؒ کے بارے میں لکھا تھا، شیر کا چہرہ اور دو تلواریں تھی، سب کو منہدم کر دیا گیا۔ اتنی بڑی شخصیت کے مالک کے نام سے منسوب سرکل کو بغیر سرکاری اجازت تعمیر کرنا عقلمندی ہے؟ یا پھر بی جے پی کو ہوا دینے اور فائدہ پہنچانے کے لیے یہ کام کیا گیا تھا؟ بی جے پی کو اچانک مندر کی مورتی توڑے جانے پر ٹیپو سلطانؒ سرکل کی یاد کیوں آئی؟ کئی مہینوں سے بنے سرکل کو مہندم کرنے کے لیے 9 جون کو ہی کیوں چنا گیا؟ پہلے بھی مہندم کیا جاسکتا تھا، اگر غیرقانونی اور بغیر سرکاری اجازت کے سرکل بنا تھا تو بنتے وقت ہی کاروائی ہونا چاہئے تھا، سیاست گرمانے کے لئے مندر کا مدعا آتے ہی ٹیپوسلطانؒ کی یاد اچانک کیسے آگئی؟ برادرانِ وطن کے چند لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ٹیپوسلطانؒ کا مذاق بنایا جا رہا ہے، اسی کے ساتھ مسلمانوں میں ولی کامل کی بےعزتی پر بہت زیادہ افسوس جتایا جارہا ہے۔ بغیر سرکاری اجازت کے سرکل کو کون، کیوں، اور کیسے بنایا تھا؟ دھولیہ ضلع کلکٹر جلج شرما نے ایک مقامی مراٹھی روزنامہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس نے ٹیپوسلطانؒ سرکل بنایا تھا، اس نے خود توڑ دیا. ضلع کے سب سے زیادہ ذمہ داری والے فرد کا یہ جملہ دانتوں میں انگلی دبانے پر مجبور کرتا ہے.

ٹیپوسلطانؒ جنگ آزادی میں اہم رول ادا کرنے والے ہیرو تھے، ان کا مجسمہ یا سرکل شہر کے قلب میں یعنی پانچ قندیل پر یا پھر بس اسٹیشن پر نہیں بنایا جاسکتا ہے؟ ساورکر کے مجسمہ کو 20 لاکھ کا فنڈ دیا جاسکتا ہے تو ٹیپوسلطانؒ کے مجسمہ یا سرکل کے لیے 40 لاکھ کا فنڈ منظور نہیں کیا جاسکتا؟ بنگلور کے بوٹینیکل گارڈن میں ٹیپوسلطانؒ کا مجسمہ موجود ہے تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟ ٹھیک ہے مجسمہ بنانا اسلام میں جائز نہیں ہے، لیکن سرکل سے کسی کو کیوں تکلیف ہو سکتی ہے؟ دھولیہ میں ساورکر کے پہلے سے بنے ہوئے مجسمے پر الگ سے 20 لاکھ کا فنڈ دیا جاسکتا ہے، تو ٹیپوسلطانؒ کے لیے کیوں نہیں؟ ٹیپوسلطانؒ کے نام سے ہندو فرقہ پرست پارٹی اور مسلم فرقہ پرست پارٹی دونوں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی؟ سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ٹیپوسلطانؒ سرکل بنوایا گیا تھا؟ بہرحال راتوں رات سرکل منہدم کرنے سے ایک طرف بی جے پی کو زبردست فائدہ پہنچا ہے وہیں دوسری جانب ولی کامل حضرت شہید ٹیپوسلطانؒ کی بے حرمتی و بے عزتی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ناک کٹ گئی ہیں.

Continue Reading

خصوصی

ممبئی اور اسکے نواحی علاقوں میں ڈھابوں کا چلن عروج پر، عوام بال بچوں کے ساتھ کھانے کا لطف اٹھاتے ہیں، کئی دھابوں میں گھرجیسا ماحول

Published

on

Sanaya-Dhaba

ممبئ : یوں تو ممبئی کے متعدد جگہوں پر مغلائی کھانوں کے لئے ہوٹل موجود ہیں لیکن ان دنوں ممبئی سے متصل علاقوں میں موجود ڈھابوں کا چلن بہت زیادہ ہے۔ ممبئی اور ممبئی سے متصل علاقوں میں عمدہ کھانے کے شوقین گھوڈ بندر روڈ، وسی ویرار علاقے میں موجود ڈھابوں کا رخ کر رہے ہیں۔ ہفتے کے آخری تین دنوں میں ان ڈھابوں میں تل رکھنے کو جگہ نہیں رہتی۔ کیونکہ یہاں لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ نہ صرف مغلائی کھانوں کا لطف اٹھانے آتے ہیں، بلکہ ایک الگ ہی ماحول کا لطف اٹھانے آتے ہیں۔ ہم نے ممبئی کے اس علاقے کا جائزہ لیا اور یہاں موجود ڈھابے اور اس میں موجود پکوان جو لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، انکے بارے میں جاننے کی کوشش کی کہ آخر کیا وجہ ہے کے ممبئی جیسی نائٹ لاف کو چھوڈ کر لوگ یہاں کا رخ کر رہے ہیں۔

وسئی نائے گاؤں علاقے میں گھوڈ بندر روڈ قومی شاہراہ 48 پر وسیع و عریض علاقے میں پھیلا سنایا ڈھابہ ہے اس علاقے میں ڈھابے کی خاصی تعداد ہے لیکن اس ڈھابے کا منفرد انداز اور مغلائی کھانوں کے ذائقے نے عوام کے دلوں میں بہت ہی کم وقت میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کی ہے۔ یہاں ١٦٠٠ سے زائد قسم کی کھانے ہیں، جبکہ روزمرہ میں ٣٠٠ سے زائد مغلائی کھانے پسند کئے جاتے ہیں، یہی سبب ہے کہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں آتے ہیں۔ ممبئی سے محض ایک گھنٹے کے فاصلے پر واقع اس ڈھابے میں سنایا تھال، نظام سنایا تھال، یوسفی تھال، سلمونی تھال گزشتہ۴ برسوں سے کھانے کے شوقین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مغلائی کھانوں میں بٹیر سوپ، مٹن کالی مرچ، چکن لیمن ڈرائیو، ممبئی کا توا، چکن کشیمری کباب، چکن پہاڈی کباب، چکن بھرا، مٹن نظامی، مٹن تندوری، مٹن سنایا اسپیشل، مٹن تندور بنجارہ سب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔

ڈھابے کو ڈھابے کے جیسا دیکھنے کے لئے قدیم طرز پر اسے بانس اور لکڑیوں سے بنایا گیا ہے، اور اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جیسا کہ اگر فیملی کے ساتھ ہیں تو پریوار ہال. اگر آپ بیچلر ہیں تو بنٹائز ہال، اگر آپ کہیں بھی بیٹھ کر کھانے کے خواہشمند ہیں تو صورتی لالہ ہال، دسترخوان پر بیٹھکر یا زمین پر بیٹھ کر کھانے کے اگر شوقین ہیں تو نوابی ہال بنایا گیا ہے، جہاں پردے کا پورا اہتمام کیا گیا ہے. اگر آپ کھلے آسمان کے نیچے کھانے کے خواہشمند ہیں تو اسکے لئے۔ مون ویو ہے. اسکے علاوہ آئسکریم کے لئے یہاں پورا ایک کائونٹر بنایا گیا ہے، جہاں انواع اقسام کی آئسکریم بنائی جاتی ہیں. جسکے بنانے کا ایک الگ انداز ہے. جہاں لوگ آئسکریم کھانے کے ساتھ ساتھ اس انداز کو دیکھنے کے لئے زیادہ بچیں ہوتے ہیں جس انداز میں یہاں آئسکریم بنائی جاتی ہے. اسکے علاوہ یہاں مرد عورت کے لئے الگ عبادت گاہیں بنائی گئی ہیں، جہاں آپ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ان سب کے بیچ سب سے اہم یہ کہ اگر فیملی کے ساتھ یہاں آتی ہے تو بچوں کے لطف اندوزی کے لئے بھی انتظام ہے، چونکہ زیادہ تر لوگ اپنے اہل خانہ اپنی فیملی کے ساتھ یہاں آتے ہیں اس لئے بچوں کی خاصی تعداد یہاں موجود رہتی ہے اسلئے ڈھابے کے ایک حصے میں بچوں کے لئے کھیل کود اور مختلف گیم مختص کیا گیا ہے. تاکہ بچے یہاں کھل کود سکیں اسے موج مستی پارک کا نام دیا گیا ہے۔

ممبئی جیسی گنجان آبادی والے اس شہر میں مہنگی ہوٹلیں بہت ہیں، لیکن ڈھابے کا تصور یہاں اس لئے کامیاب نہیں ہوتا کہ یہاں جگہ کی قلت ہے جبکہ ان علاقوں میں بڑی جگہیں ہیں جہاں ڈھابے کے بارے میں کئی لوگوں نے سوچا اور ایک کامیاب کاروبار کی شکل میں نمودار ہوئے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com