Connect with us
Saturday,06-September-2025
تازہ خبریں

ممبئی پریس خصوصی خبر

کہانی اب قلمی کہانی نہیں بلکہ فلم ہے اور اسے سچ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

Published

on

(زین شمسی) بھگوان گڈوانی نے جب دی سورڈ آف ٹیپو سلطان کے نام سے کتاب لکھی تو ان سے یہ پوچھا گیا کہ آخر آپ کو ٹیپو سلطان پر کتاب لکھنے میں اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہو ئی۔ بھگوان گڈوانی نے کہا کہ جب میں بھارت کی تواریخ پر تحقیق کر رہا تھا تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہی وہ جیالا تھا جو میدان جنگ میں شیر کی موت مرا تھا۔اس نے کہا تھا کہ گیڈروں کی سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے اور اس کی لاش کے نزدیک تک جانے کی ہمت انگریزوں کی نہیں ہوئی اور جب وہ ڈرتے ڈرتے اس کی لاش تک پہنچے انگریزوں کے سپہ سالار کے منہ سے صرف ایک ہی جملہ نکلا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہوا۔ ایسی کچھ اور باتیں تھیں جس نے بھگوان گڈوانی کو ٹیپو پر کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔ ان کی اس کتاب پر سنجے خان نے دوردرشن پر اسی نام سے سیریل بنایا۔ جو 1990 میں موضوع بحث بنا۔ وہ وقت رامائن اور مہابھارت کا بھی تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ دی سورڈآف ٹیپو سلطان یعنی ٹیپو سلطان کی تلوار کے شروع ہونے سے پہلے سرکاری مینجمنٹ نے نوٹس کے طور پر یہ جملہ چسپاں کر دیا تھا کہ یہ تصوراتی کہانی پر مبنی سیریل ہے ، جس کا تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں ، جبکہ رامائن اور مہابھارت کے لئے یہ نوٹس دینا ضروری نہیں سمجھا گیا تھا کہ یہ تو آستھا کا سوال ہے اور مذہبی سیریل ہے۔ گویا آج جب مسلمانوں یعنی مغل اور سلطنت دہلی کے ادوار کوتاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کامیاب پہل ہوئی اور بھاجپا نے ٹیپو سلطان کو ویلن بنا کر پیش کرنے کی مہم شروع کی تو وہ نئی بات نہیں تھی بلکہ اس کے تار ماضی سے جڑے ہوئے تھے۔ جو سچ ہے اسے کلپنایعنی تصوراتی چیز کہا گیا اور جو مذہبی چیزیں ہیں،اسے تاریخی سچائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
فلمی دنیا کا سب سے فلاپ ڈائریکٹر اگنی ہوتری راتوں رات کروڑ پتی بن گیا کیونکہ ان کے صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ کشمیر کے پنڈتوں کے درد کو اجاگر کرتے ہوئے ایک فلم بنائو اور پھر کیا تھا کشمیر فائلس نے راتوں رات کروڑوں روپے کما لئے ، کیونکہ اس کی تشہیر کی ذمہ داری بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم نے اٹھا لی تھی۔ اس فلم کی شاندار کامیابی نے لاکھوں کشمیریوں کی موت کو جھوٹ اور چند کشمیری پنڈتوں کے استحصال کو سچ بنا دیا اور کشمیر کا یہ واقعہ فلم کے ذریعہ تاریخ کا حصہ بن گیا وہیں گجرات نسل کشی پر مبنی بی بی سی ڈاکومنٹری کو جھوٹ کا منبع بنا کر پیش کیا گیا اور بی بی سی پر سرکاری ایجنسیوں کا سایہ منڈلانے لگا۔ عشرت جہاں، احسان جعفری ، بلقیس بانو اور ان جیسے حقیقی کردار رعنا ایوب کے گجرات فائلس میں تصوراتی کردار ٹھہرے جبکہ مایا کودنانی ، بابو بجرنگی ، کاجل گجراتی یہ سب آج کے سیاست کےہیرو قرار دے دئے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات سے 40 ہزار لڑکیاں و خواتین لاپتہ ہیں۔ جسے اب تک تلاش نہیں کیا جا سکا ہے، وہ کس حال میں ہیں ، کیا کر رہی ہیں ، اس سے گجرات کو کوئی مطلب بھی نہیں ہے ، فکر اس بات کی ہے کہ کیرالہ اسٹوری میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ مطلب یہاں بھی وہی کہ جو تصوراتی چیز ہے وہ حقیقت ہے اور جو حقیقت ہے وہ پردہ میں ہے۔ کیرالہ اسٹوری کا پرچار و پرسار کا ذمہ پرسار بھارتی کے حوالہ نہیں بلکہ بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم کے ہی سر ہے۔ یوگی جی نے کشمیر فائلس کے بعد کیرالہ اسٹوری کو بھی ٹیکس فری کر کے سب اندھ بھکتوں کو دکھانے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ اب یہ فلم سلمان خان کی فلم کو بھی پچھاڑ رہی ہے اور سائوتھ کی بلاک بسٹر ایشوریہ رائے کی اداکاری سے سجی پی ایس 2کو بھی ٹکر دے رہی ہے۔ گویا تفریح کے سب سے بڑے وسیلے پر بھی نفرت کا ملبہ چڑھا دیا گیا۔
چونکہ مغلوں اور مسلمانوں کی حکومت کے بارے میں جاننا بھارت کے لوگوں کے لئے لازمی نہیں ہے اس لئے این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں عہدمغلیہ کو پڑھنے کا کیا جواز بنتاہے اس لئے اسے نصاب سے ہی ہٹا دیا گیا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مغلوں کو ہٹا دینے سے شیواجی اور مہارانا پرتاپ اور رانا سانگا کو کس طرح بہادر اور نڈر ثابت کیا جا سکے گا۔ کے آصف نے فلم مغل اعظم کے ذریعہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کے پیار کی کہانی کی کچھ ایسی فلم سازی کی وہ آج تک کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی فلم بن گئی۔ اس فلم میں اکبر اعظم کے قد کو اتنا بڑا کر دیا کہ اس کا کردار سیکولرازم کی ایک مثال بن گیا۔ مگر اب کیا ہوگا جب اکبر کے بارے میں ہی نئی نسل کو پتہ نہیں ہوگا۔مغل دور کو تاریخ سے ہٹانے سے قبل یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ جس دور کو ہم کتابوں سے ہٹا رہے ہیں اس کے بانی بابر کو ہم ویلن ثابت کر چکے ہیں اور اس کے ذریعہ بھارت کے مسلمانوں کو بابر کی اولاد کا تمغہ تھما چکے ہیں۔ اب تو نئی نسل پوچھے گی ، کون بابر؟ تو اس کے لئے اوٹی ٹی پر ایک سیریل بنایا گیا، جس کا نام رکھا گیا” ّتاج”۔ جس میں بوڑھے ہوچلے نصیر الدین شاہ اہم رول میں ہیں۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ نصیر نے بغیر اسکرپٹ پڑھے کسی سیریل میں کام کیا ہو۔ کیونکہ اس سیریل کے ذریعہ مغل ادوار کو عیش و عشرت کا عہد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اب اسے نصیر الدین شاہ کی کمزوری کہی جائے یا مجبوری مگر پہلی بار نصیر کا اٹھایا گیا یہ قدم حیران کر دینے والا ہے اور ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نصیر نے اس سیریل کو سائن کیسے کر لیا۔
دراصل کیرالہ اسٹوری کے تصوراتی قصہ کو کرناٹک کے سیاسی اسٹوری کا حصہ تسلیم کیا جارہا ہے۔ اڈانی ، پلوامہ اور خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کے ہنگامے کے دوران کرناٹک میں ووٹنگ کے لئے جو نصب العین بنایا گیا تھا اس میں کیرالہ اسٹوری کے تصوارتی کہانی کا تڑکا لگایا گیا، ورنہ کل ہی کشمیر فائلس کے ڈائریکٹر اگنی ہوتری نے عدالت سے بلا مشروط معافی مانگ لی ہے کہ ہم نے فلم کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا کام کیا۔دراصل آج کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ،اور معاشی سچائی دراصل فلموں کی تصوراتی کہانیوں کا احساس کراتی ہے۔ سچائی پر فلم نہیں بن رہی ہے بلکہ فلم کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

عید میلاد : منور میں مذہبی ہم آہنگی اور سماجی اتحاد کا جشن

Published

on

Eid Milad

پالگھر: منور شہر سمیت دہیسر کی طرف منور، دس، تکواہل، مستانہ کا، کٹلے وغیرہ علاقوں میں مسلم برادری نے عید میلاد بڑے جوش و خروش اور امن کے ساتھ منایا۔ جلوس نے قومی مفاد، بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیا۔ خاص طور پر اس جلوس میں ہندو برادری اور گرام پنچایت نے مختلف مقامات پر مسلمان بھائیوں کے لیے پانی اور بچوں کے لیے کھانے کے اسٹال لگا کر مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دینے کی کوشش کی۔ جلوس کے لیے سڑکوں کو صاف ستھرا رکھا گیا تھا اور ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانے کے لیے رضاکاروں نے خصوصی کوششیں کیں۔ جشن کے بعد، مسلم کمیونٹی نے خون کے عطیہ کیمپ کا انعقاد کرکے سماجی کاروبار کو فروغ دیا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پولیس انسپکٹر رنویر بیس کی رہنمائی میں سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ پرامن اور نظم و ضبط کے ساتھ منائی جانے والی یہ عید میلاد سماجی اتحاد کی ایک مثال بن گئی۔

Continue Reading

جرم

ممبئی میں خودکش بمبار کی دھمکی دینے والا اشوینی کمار یوپی سے گرفتار

Published

on

visarjan & police

ممبئی کرائم برانچ نے ممبئی شہہر میں گنپتی وسرجن پر بم دھماکہ کرنے کی دھماکہ دینے والا اشوینی کمار کو اترپردیش یوپی گوتم بدھ نگر پولس اسٹیشن کی حدود سے گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے. ملزم اشوینی کمار نے اس سے قبل بھی سمتا نگر پولس اسٹیشن سمیت دیگر پولس اسٹیشن کی حدود میں بم دھماکہ کی دھمکی دی تھی. گنپتی وسرجن پر بم دھماکہ کی دھمکی کے بعد پولس نے ہائی الرٹ جاری کردیا اس دھمکی سے ممبئی میں دہشت تھی. اس کے بعد پولس نے ۲۴ گھنٹے میں ہی ملزم کو گرفتار کیا ہے. اشوینی کمار نے دھمکی کیوں دی اور اس کے پس پشت کیا سازش کار فرما تھی, اس کی بھی تفتیش جاری ہے. اشوینی کمار کو گرفتار کر کے ممبئی لایا گیا ہے۔

ممبئی میں گنپتی وسرجن پر بم دھماکوں کی دھمکی کے بعد ممبئی پولیس الرٹ ہو گئی ہے, لیکن یہ دھمکی کسی شرارتی عناصر نے ایس ایم ایس کے معرفت دی ہے, جس کے بعد پولس نے اس پر تفتیش بھی شروع کر دی ہے. جبکہ پولس کی تفتیش میں یہ واضح ہوا ہے کہ پولس کو گمراہ کرنے کے لیے یہ دھمکی دی گئی ہے, یہ اطلاع پولس ذرائع نے دی ہے۔ ملزم نے یہاں ممبئی پولس کے ٹریفک پولیس کو اس کے آفیشل واٹس ایپ نمبر پر دھمکیاں دی تھیں اور دعویٰ کیا تھا کہ شہر بھر میں 34 گاڑیوں میں 34 خودکش بمبار تیار ہیں اور یہ دھماکہ پورے ممبئی کو ہلا کر رکھ دے گا۔ لشکر جہادی نامی تنظیم نے ممبئی میں دھماکہ کی دھمکی دی تھی. ملزم نے دھمکی میں کہا تھا کہ 14 پاکستانی دہشت گرد ہندوستان میں داخل ہوئے ہیں۔ دھمکی کے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ دھماکے میں 400 کلو گرام آر ڈی ایکس استعمال کیا جائے گا۔ ممبئی پولیس ہائی الرٹ پر ہے، اور ریاست بھر میں سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ گنپتی وسرجن پر بڑے پیمانے پر گنپبتی جلوس میں گنیش بھکت راستہ پر ہوتے ہیں اور بھیڑ بھاڑ بھی زیادہ ہوتی ہے. دادر پریل اور لال باغ میں سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی ہے. اس دوران پولس نے ان علاقوں میں ڈرون سے نگرانی بھی شروع کر دی ہے. اس کے علاوہ وسرجن کے دوران پولس نے الرٹ بھی جاری کیا ہے, جبکہ دھمکی سے متعلق پولیس نے تحقیقات کر کے ملزم کو اترپردیش سے گرفتار کر لیا ہے, اور اس سے باز پرس جاری ہے۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

جلوس عید میلاد پر ڈی جے کا استعمال ممنوعہ، خلافت کمیٹی میٹنگ میں جوائنٹ پولس کمشنر کی قانون کی پاسداری کی شرکا جلوس سے اپیل

Published

on

Prophet-is-celebration

ممبئی عید میلاد النبی ﷺ پر پولس نے سخت حفاظتی انتظامات کا دعوی کرتے ہوئے شرکا جلوس قانون کی پابندی کی تلقین کی ہے. ساتھ ہی جلوس محمدی میں ڈی جے پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی, اس لئے شرکا جلوس سے پولس نے درخواست کی ہے کہ وہ ڈی جے کے استعمال سے گریز کرے. ممبئی کے خلافت ہاؤس میں جلوس محمدی کے سلسلے میں منعقدہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے جوائنٹ پولس کمشنر ستیہ نارائن چودھری سے عید میلاد النبی ﷺ پر خوشخبری سناتے ہوئے رات ۱۲ بجے تک لاؤڈ اسپیکر استعمال کی اجازت دیدی ہے. اس کے ساتھ ہی ستیہ نارائن چودھری نے مسلمانوں سے درخواست کی ہے کہ ڈی جے جلوس محمدی میں استعمال ممنوعہ ہے, اس لئے ڈی جے استعمال سے شرکا جلوس اجتناب کرے. انہوں نے کہا کہ جلوس میں قانون کی تابعداری کرے. بلاہیلمنٹ، ٹریپل سیٹ اور ٹریفک قانون کی خلاف ورزی نہ ہو, اس بات کا خیال رکھنا لازمی ہے. انہوں نے کہا کہ گنیتی وسرجن کے بعد ۸ ستمبر کو جلوس سے قبل اس وقت تک بینر اور پوسٹر نہ لگایا جائے, جب تک مقامی پولس انسپکٹر اس کی اجازت نہ دے. انہوں نے کہا کہ ٧ کی صبح تک لال باغ کے راجہ کا وسرجن ہوتا ہے, اس کے بعد مجمع اپنے گھروں کی جانب جاتا ہے. ایسے میں یہ عمل مکمل ہونے تک کوئی بھی بینر یا پوسٹر سڑکوں پر نہ لگائیں اور جب یہ تمام عمل مکمل ہوگا تو پھر ہر علاقے اور روٹ پر بینر اور پوسٹر لگائے جاسکتے ہیں اس کی اجازت ہے اور کسی کو بھی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ عید میلاد النبی ﷺ پرامن ہو, اس لئے شرکا جلوس کو ضروری ہدایات اور رہنمایانہ اصول پر عمل کرنے کی تلقین کی گئی ہے. اس میٹنگ میں خلافت کمیٹی کارگزار صدر سرفراز آرزو، ایم ایل اے امین پٹیل، وارث پٹھان اور پولس افسران و عوام موجود تھے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com