Connect with us
Friday,22-November-2024
تازہ خبریں

ممبئی پریس خصوصی خبر

کہانی اب قلمی کہانی نہیں بلکہ فلم ہے اور اسے سچ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

Published

on

(زین شمسی) بھگوان گڈوانی نے جب دی سورڈ آف ٹیپو سلطان کے نام سے کتاب لکھی تو ان سے یہ پوچھا گیا کہ آخر آپ کو ٹیپو سلطان پر کتاب لکھنے میں اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہو ئی۔ بھگوان گڈوانی نے کہا کہ جب میں بھارت کی تواریخ پر تحقیق کر رہا تھا تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہی وہ جیالا تھا جو میدان جنگ میں شیر کی موت مرا تھا۔اس نے کہا تھا کہ گیڈروں کی سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے اور اس کی لاش کے نزدیک تک جانے کی ہمت انگریزوں کی نہیں ہوئی اور جب وہ ڈرتے ڈرتے اس کی لاش تک پہنچے انگریزوں کے سپہ سالار کے منہ سے صرف ایک ہی جملہ نکلا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہوا۔ ایسی کچھ اور باتیں تھیں جس نے بھگوان گڈوانی کو ٹیپو پر کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔ ان کی اس کتاب پر سنجے خان نے دوردرشن پر اسی نام سے سیریل بنایا۔ جو 1990 میں موضوع بحث بنا۔ وہ وقت رامائن اور مہابھارت کا بھی تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ دی سورڈآف ٹیپو سلطان یعنی ٹیپو سلطان کی تلوار کے شروع ہونے سے پہلے سرکاری مینجمنٹ نے نوٹس کے طور پر یہ جملہ چسپاں کر دیا تھا کہ یہ تصوراتی کہانی پر مبنی سیریل ہے ، جس کا تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں ، جبکہ رامائن اور مہابھارت کے لئے یہ نوٹس دینا ضروری نہیں سمجھا گیا تھا کہ یہ تو آستھا کا سوال ہے اور مذہبی سیریل ہے۔ گویا آج جب مسلمانوں یعنی مغل اور سلطنت دہلی کے ادوار کوتاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کامیاب پہل ہوئی اور بھاجپا نے ٹیپو سلطان کو ویلن بنا کر پیش کرنے کی مہم شروع کی تو وہ نئی بات نہیں تھی بلکہ اس کے تار ماضی سے جڑے ہوئے تھے۔ جو سچ ہے اسے کلپنایعنی تصوراتی چیز کہا گیا اور جو مذہبی چیزیں ہیں،اسے تاریخی سچائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
فلمی دنیا کا سب سے فلاپ ڈائریکٹر اگنی ہوتری راتوں رات کروڑ پتی بن گیا کیونکہ ان کے صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ کشمیر کے پنڈتوں کے درد کو اجاگر کرتے ہوئے ایک فلم بنائو اور پھر کیا تھا کشمیر فائلس نے راتوں رات کروڑوں روپے کما لئے ، کیونکہ اس کی تشہیر کی ذمہ داری بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم نے اٹھا لی تھی۔ اس فلم کی شاندار کامیابی نے لاکھوں کشمیریوں کی موت کو جھوٹ اور چند کشمیری پنڈتوں کے استحصال کو سچ بنا دیا اور کشمیر کا یہ واقعہ فلم کے ذریعہ تاریخ کا حصہ بن گیا وہیں گجرات نسل کشی پر مبنی بی بی سی ڈاکومنٹری کو جھوٹ کا منبع بنا کر پیش کیا گیا اور بی بی سی پر سرکاری ایجنسیوں کا سایہ منڈلانے لگا۔ عشرت جہاں، احسان جعفری ، بلقیس بانو اور ان جیسے حقیقی کردار رعنا ایوب کے گجرات فائلس میں تصوراتی کردار ٹھہرے جبکہ مایا کودنانی ، بابو بجرنگی ، کاجل گجراتی یہ سب آج کے سیاست کےہیرو قرار دے دئے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات سے 40 ہزار لڑکیاں و خواتین لاپتہ ہیں۔ جسے اب تک تلاش نہیں کیا جا سکا ہے، وہ کس حال میں ہیں ، کیا کر رہی ہیں ، اس سے گجرات کو کوئی مطلب بھی نہیں ہے ، فکر اس بات کی ہے کہ کیرالہ اسٹوری میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ مطلب یہاں بھی وہی کہ جو تصوراتی چیز ہے وہ حقیقت ہے اور جو حقیقت ہے وہ پردہ میں ہے۔ کیرالہ اسٹوری کا پرچار و پرسار کا ذمہ پرسار بھارتی کے حوالہ نہیں بلکہ بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم کے ہی سر ہے۔ یوگی جی نے کشمیر فائلس کے بعد کیرالہ اسٹوری کو بھی ٹیکس فری کر کے سب اندھ بھکتوں کو دکھانے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ اب یہ فلم سلمان خان کی فلم کو بھی پچھاڑ رہی ہے اور سائوتھ کی بلاک بسٹر ایشوریہ رائے کی اداکاری سے سجی پی ایس 2کو بھی ٹکر دے رہی ہے۔ گویا تفریح کے سب سے بڑے وسیلے پر بھی نفرت کا ملبہ چڑھا دیا گیا۔
چونکہ مغلوں اور مسلمانوں کی حکومت کے بارے میں جاننا بھارت کے لوگوں کے لئے لازمی نہیں ہے اس لئے این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں عہدمغلیہ کو پڑھنے کا کیا جواز بنتاہے اس لئے اسے نصاب سے ہی ہٹا دیا گیا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مغلوں کو ہٹا دینے سے شیواجی اور مہارانا پرتاپ اور رانا سانگا کو کس طرح بہادر اور نڈر ثابت کیا جا سکے گا۔ کے آصف نے فلم مغل اعظم کے ذریعہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کے پیار کی کہانی کی کچھ ایسی فلم سازی کی وہ آج تک کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی فلم بن گئی۔ اس فلم میں اکبر اعظم کے قد کو اتنا بڑا کر دیا کہ اس کا کردار سیکولرازم کی ایک مثال بن گیا۔ مگر اب کیا ہوگا جب اکبر کے بارے میں ہی نئی نسل کو پتہ نہیں ہوگا۔مغل دور کو تاریخ سے ہٹانے سے قبل یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ جس دور کو ہم کتابوں سے ہٹا رہے ہیں اس کے بانی بابر کو ہم ویلن ثابت کر چکے ہیں اور اس کے ذریعہ بھارت کے مسلمانوں کو بابر کی اولاد کا تمغہ تھما چکے ہیں۔ اب تو نئی نسل پوچھے گی ، کون بابر؟ تو اس کے لئے اوٹی ٹی پر ایک سیریل بنایا گیا، جس کا نام رکھا گیا” ّتاج”۔ جس میں بوڑھے ہوچلے نصیر الدین شاہ اہم رول میں ہیں۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ نصیر نے بغیر اسکرپٹ پڑھے کسی سیریل میں کام کیا ہو۔ کیونکہ اس سیریل کے ذریعہ مغل ادوار کو عیش و عشرت کا عہد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اب اسے نصیر الدین شاہ کی کمزوری کہی جائے یا مجبوری مگر پہلی بار نصیر کا اٹھایا گیا یہ قدم حیران کر دینے والا ہے اور ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نصیر نے اس سیریل کو سائن کیسے کر لیا۔
دراصل کیرالہ اسٹوری کے تصوراتی قصہ کو کرناٹک کے سیاسی اسٹوری کا حصہ تسلیم کیا جارہا ہے۔ اڈانی ، پلوامہ اور خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کے ہنگامے کے دوران کرناٹک میں ووٹنگ کے لئے جو نصب العین بنایا گیا تھا اس میں کیرالہ اسٹوری کے تصوارتی کہانی کا تڑکا لگایا گیا، ورنہ کل ہی کشمیر فائلس کے ڈائریکٹر اگنی ہوتری نے عدالت سے بلا مشروط معافی مانگ لی ہے کہ ہم نے فلم کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا کام کیا۔دراصل آج کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ،اور معاشی سچائی دراصل فلموں کی تصوراتی کہانیوں کا احساس کراتی ہے۔ سچائی پر فلم نہیں بن رہی ہے بلکہ فلم کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

سیاست

مفتی اسمعیل کو غیرت دلاتی اکبرالدین کی تقریر… حیرت انگیز طور پر مفتی اسمعیل کا ایک بھی تعمیری کام نہیں بتا پاۓ اکبرالدین اویسی

Published

on

akbaruddin owaisi

مالیگاٶں : مجلس اتحاد المسلمین حیدراباد کے فلور لیڈر اکبرالدین اویسی نے سلام چاچا روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اکبر اویسی صاحب کے جلسے میں روایتی طور پر ہمیشہ کی طرح عوامی ہجوم کا رہنا مفتی اسمعیل کی مقبولیت سے نہیں گردانا جانا چاہیۓ۔ اس جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوٸے اکبرالدین اویسی نے صرف اور صرف حیدرآباد تلنگانہ میں مجلس کی تعلیمی، معاشی، سیاسی کارکردگیوں کو گنوایا اور شاٸید وہ یہ بھول گٸے کہ مالیگاٶں میں بھی گذشتہ پانچ سالوں سے مجلس کا بھی ایم ایل اے ہے۔ یا پھر اکبر الدین اویسی کو جان بوجھ کر مجلس کے حیدرآباد کے کاموں کو بتاکر مالیگاٶں مجلس کے آمدار مفتی اسمعیل کو غیرت دلانے کا کام کررہے تھے۔

ایک گھنٹہ سے زاٸد اپنی تقریر میں اکبرالدین اویسی نے مفتی اسمعیل کے ایک بھی تعمیری کام گنوانے سے قاصر نظر آٸے, جسکا ڈھنڈورا مقامی طور پر ایم ایل اے مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کی طرف سے پیٹا جارہا ہے۔ مالیگاؤں کی عوام نے اکبرالدین اویسی کی تقریر کو مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کے لیۓ آٸینہ دکھانے اور غیرت دلانے سے تعبیر کرتے دکھائی دے رہے ہیں

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

30 سالوں سے جیل میں قید پانچ ملزمین کو چالیس دنوں کی پیرول منظور, جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی

Published

on

rajasthan-high-court

ممبئی 19 / اکتوبر : گذشتہ 30 سالوں سے زائد وعرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید کی سزا کاٹ رہے چار ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جئے پور ہائی کورٹ نے گذشتہ کل جاری کیا۔ مل مین کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی۔ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ابرے رحمت انصاری، اشفاق احمد، محمد آفاق، فضل الرحمن اور ڈاکٹر جلیس انصاری کو جئے پور ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اندر جیت سنگھ اور جسٹس بھون گوئل نے چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ملزمین اب تک چار مرتبہ پیرول کی سہولت حاصل کرچکے ہیں, لیکن انہیں ہر مرتبہ ہائی کورٹ سے پیرول لینا پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے پیرول ملنے کے باجود ہر سال جیلر ان کی پیرول کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردیتا ہے کہ ملزمین کو سنگین الزامات کے تحت عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔

جئے پور سینٹرل جیلر کی جانب سے پیرول کی درخواست مسترد کیئے جانے کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء کے توسط سے ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ سوامی اور ایڈوکیٹ ہرشیت شرما کے ذریعہ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی, جس پر کئی سماعتیں ہوئی۔ راجستھان سرکار کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا آر ڈی رستوگی اور کے معاونین وکلاء نے ملزمین کی پیرول پر ہائی کورٹ کی درخواست کی سخت لفظوں میں مخالفت کی تھی, لیکن ملزمین کے وکلاء کی دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔

ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین گذشتہ 30 سالوں زائد عرصے سے جیل میں قید ہے اور اس دوران انہیں صرف چار مرتبہ پیرول ملی, جس کی وجہ سے وہ فیملی اور دیگر رشتہ داروں سے مل سکے ہیں, اور انہوں نے پیرول کی سہولت کا کبھی غلط فائدہ نہیں اٹھایا, لہذا انہیں مزید انہیں پیرول پر رہا کیا جائے جسے عدالت نے منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ انڈین جیل قانون 1894 کے مطابق ان قیدیوں کو سال میں 30 سے لیکر 90 دنوں تک پیرول پر رہا کیا جاسکتا ہے جو جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں, اور وہ بیماری سے جوجھ رہے ہوں یا ان کی فیملی میں کوئی شدید بیمار ہو، شادی بیاہ میں شرکت کی خاطر، زچکی کے موقع پر، حادثہ میں اگر کسی فیملی ممبر کی موت ہو جائے تو جیل میں قید شخص کو عارضی طور پر جیل سے رہائی دی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ٹاڈا، پوٹا، مکوکا اور دیگر خصوصی قوانین کے ذمرے میں آنے والے ملزمین کو پیرول پر رہا نہیں کیئے جانے کے تعلق سے جی آر جاری کیا تھا, جس کے بعد سے جیل حکام نے ملزمین کو پیرول پر رہا کیئے جانے کی عرضداشتوں کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن جمعیۃ علماء نے حکومت کے جی آر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا, جس کے بعد سے ملزمین کو راحتیں ملنا شروع ہوئیں۔

Continue Reading

بین القوامی

نکسا اور نکبہ کے ملاپ سے بھی بدتر؟ ایک سال اور کوئی امید نہیں

Published

on

Gaza


خان گلریز شگوفہ (کلیان)، ممبئی : اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنی نسل کشی شروع کیے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے مسلح و اقسام بریگیڈز کے مسلح جنگجوؤں کے حملے کے جواب میں 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہوا۔ اس حملے کے دوران تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 کو غزہ میں اسیر بنا کر لے جایا گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے ایک شیطانی بمباری کی مہم شروع کی اور 2007 سے غزہ کا محاصرہ پہلے سے زیادہ سخت کر دیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران، اسرائیلی حملوں میں غزہ میں رہنے والے کم از کم 41,615 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ہر 55 میں سے 1 کے برابر ہے۔ کم از کم 16,756 بچے مارے جا چکے ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تنازعات کے ایک سال میں ریکارڈ کیے گئے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 17,000 سے زیادہ بچے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں۔

7 اکتوبر 2023 – کے بعد کے اہم لمحات

7 اکتوبر 2023 – اسرائیل میں حماس کی کارروائی
7 اکتوبر 2023 – اسرائیل کی جوابی کارروائی
8 اکتوبر 2023 – حزب اللہ لڑائی میں شامل ہوئی
17 اکتوبر 2023 – الاحلی اسپتال غزہ کے الاحلی عرب اسپتال میں ایک زبردست دھماکا – جو بے گھر فلسطینیوں سے بھرا ہوا تھا – تقریبا 500 افراد ہلاک ہوگئے۔
19 نومبر 2023 – حوثیوں کا پہلا حملہ
نومبر 24 سے 1 دسمبر 2023 – عارضی جنگ بندی
29 فروری کو “Flour Massacre” میں غزہ شہر کے نابلسی راؤنڈ اباؤٹ پر انسانی امداد کے انتظار میں قطار میں کھڑے 118 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
18 مارچ سے 1 اپریل تک الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے محاصرے میں 400 افراد کا قتل۔
6 مئی 2024 – رفح پر حملہ.
27 مئی کو رفح کے علاقے المواسی میں ایک پناہ گزین کیمپ میں 45 افراد کا قتل، جسے “خیمہ قتل عام” کہا جاتا ہے۔
· 8 جون کو نصیرات پناہ گزین کیمپ میں 274 فلسطینیوں کا قتل۔
13 جولائی 2024 – المواسی کا قتل عام ·
10 اگست کو غزہ شہر کے التابین اسکول میں 100 سے زیادہ افراد کا قتل۔
17 ستمبر 2024 – لبنان میں موت کا دن، جنگ کو سرکاری طور پر وسیع کرنا.
23 ستمبر کو اسرائیل نے لبنان پر براہ راست حملہ کیا، جنوب میں، مشرق میں وادی بیکا اور بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے دحیہ میں کم از کم 550 افراد مارے گئے۔
اس کے بعد 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کو دحیہ پر حملے میں قتل کر دیا گیا، یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے کئی اپارٹمنٹس کی عمارتوں کو لپیٹ میں لے لیا۔
اسرائیل نے مبینہ طور پر 80 بموں کا استعمال کیا جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 90 زخمی ہوئے۔ نصراللہ کے قتل کے فوری بعد اسرائیلی مطالبات کے بعد لوگوں کو دحیہ کے بڑے حصے سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ لبنان کی حکومت اب کہتی ہے کہ تقریباً 1.2 ملین افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ Lebanon’s Health Ministry کے مطابق، غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک لبنان میں 2,000 افراد مارے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر پچھلے تین ہفتوں میں مارے گئے۔

جنگ کی جھلکیاں :-
41,909 افراد ہلاک
97,303 زخمی
10,000 لوگ ملبے تلے دب گئے
114 ہسپتال اور کلینک غیر فعال کر دیے گئے۔
ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں اور غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں کم از کم 986 طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 165 ڈاکٹرز، 260 نرسیں، 184 ہیلتھ ایسوسی ایٹس، 76 فارماسسٹ اور 300 انتظامی اور معاون عملہ شامل ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرز میں سے کم از کم 85 سول ڈیفنس ورکرز ہیں۔

7 اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی 520 لاشیں
1.7 ملین متعدی بیماریوں سے متاثر ہیں
96 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون کے تحت، بین الاقوامی مسلح تصادم میں کسی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا مارنا جنگی جرم ہے۔

700 پانی کے کنویں تباہ ہو گئے
صحافیوں کے لیے سب سے مہلک مقام رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 130 سے زیادہ صحافی، تقریباً تمام فلسطینی، مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کے میڈیا آفس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 175 ہے، جو کہ 7 اکتوبر سے ہر ہفتے اوسطاً چار صحافی مارے جاتے ہیں۔

ہزاروں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
غزہ کا بیشتر حصہ تباہ
ایک اندازے کے مطابق غزہ پر 75,000 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا ہے اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ 42 ملین ٹن سے زیادہ کے ملبے کو صاف کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، جو کہ نہ پھٹنے والے بموں سے
بھی بھرا ہوا ہے۔
غزہ کے میڈیا آفس نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان کا تخمینہ 33 بلین ڈالر لگایا ہے۔

150,000 گھر مکمل طور پر تباہ
123 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ
ثقافتی مقامات، مساجد اور گرجا گھروں پر حملے
410 کھلاڑی، کھیلوں کے اہلکار یا کوچ ہلاک

غزہ کے لوگوں کی سب سے زیادہ پیاری یادوں کو نقش کرنے والے نشانات کے کھو جانے سے بہت سے لوگوں کے لیے دوبارہ تعمیر کا تصور ناممکن لگتا ہے۔

جنگ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اگر اسے آج روک دیا جائے تو بھی غزہ کی تعمیر نو کی لاگت حیران کن ہوگی۔ صرف پہلے آٹھ مہینوں میں، اقوام متحدہ کے ایک ابتدائی جائزے کے مطابق، جنگ نے 39 ملین ٹن ملبہ پیدا کیا، جس میں نہ پھٹنے والے بم، ایسبیسٹوس، دیگر خطرناک مادے اور یہاں تک کہانسانی جسم کے اعضاء.

مئی میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 80 سال لگ سکتے ہیں. لیکن غزہ والوں کے لیے، نہ وقت اور نہ ہی پیسہ ان سب چیزوں کی جگہ لے سکتا ہے جو کھو گیا ہے۔ اگر فلسطینیوں کی پچھلی نسلوں کا صدمہ نقل مکانی کا تھا، تو جناب جودہ نے کہا، اب یہ ایک شناخت کے مٹ جانے کا احساس بھی ہے: “کسی جگہ کو تباہ کرنے سے اس کا ایک حصہ تباہ ہو جاتا ہے جو آپ میں ہیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com