Connect with us
Friday,11-April-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

آرایس ایس کسی خاص مذہب، ذات، دھرم پر یقین نہیں رکھتا۔ ڈاکٹر شیخ عقیل احمد

Published

on

آرایس ایس کسی خاص مذہب، ذات، دھرم پر یقین رکھے بغیر اس کے تمام خطبات اور بیانات میں صرف ایک طبقے یا مذہب کی بات نہیں کی جاتی بلکہ ہندوستان کے تمام طبقات کی بات کی جاتی ہے اور اس کا بنیادی منشور خدمت خلق، ہندوستانی افکار و اقدار کا تحفظ اور حب الوطنی ہے۔ یہ بات قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائرکٹر، ڈاکٹر شیخ عقیل احمدنے ’ایک فلاحی اور رفاہی تنظیم آر ایس ایس‘ نامی تجزیے میں کہی ہے۔
اس میں انہوں نے کہا کہ دنیا میں بہت سی رفاہی تنظیمیں ہیں جو انسانی فلاح و بہبود کے کاموں سے جڑی ہوئی ہیں، ہندوستان میں بھی آر ایس ایس ایک ایسی سماجی تنظیم ہے جس کا بنیادی منشور خدمت خلق، ہندوستانی افکار و اقدار کا تحفظ اور حب الوطنی ہے۔ یہ تنظیم بہت مربوط اور منظم ہے اور اس کا دائرہئ کار بہت وسیع ہے۔ آر ایس ایس نے سماجی اور تعلیمی ترقی کے میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ کسی سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ پورے ہندوستان میں آر ایس ایس کا ایک مربوط نیٹ ورک ہے جس کا بنیادی مقصد ہندوستانی عوام کے درمیان سماجی بیداری پیدا کرنا اور انھیں ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے روشناس کرانا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستانیت، سودیشی، قومی و سماجی اتحاد پر اس تنظیم کا زور ہے اور شاید اسی وجہ سے کچھ لوگ مخصوص نظریاتی عینک سے اس تنظیم کو دیکھتے ہیں اور اسے ایک خاص طبقے یا ذات سے مخصوص کردیتے ہیں جبکہ آر ایس ایس کسی خاص مذہب، ذات، دھرم پر یقین نہیں رکھتی بلکہ تہذیبی تنوع اور تکثیریت پر اس کا ایقان ہے اور ایک غیرطبقاتی سماج کی تشکیل اس کا بنیادی مقصد ہے۔ سماج کو متحد کرنا اور سبھی طبقات کی ترقی اس کے ایجنڈے میں شامل ہے اور جب سے موہن بھاگوت جی جیسی وژنری شخصیت نے اس تنظیم کی کمان سنبھالی ہے انھوں نے اس کے اندازِفکر اور طرزِ احساس کو بھی بہت حد تک تبدیل کیا ہے۔ ان کے ہاں نظریاتی کشادگی اور وسعت ہے جس کا اندازہ ان کے خطبات اور بیانات سے بہ آسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے ہمیشہ آر ایس ایس سے جڑے ہوئے افراد کو ہدایت دی ہے کہ بغیر کسی تعصب و امتیاز کے تمام ہندوستانی عوام کی خدمت کریں۔ شخصیت سازی اور سماجی فلاح کے مشن کے ساتھ یہ تنظیم ہندوستان کے طول و عرض میں آگے بڑھ رہی ہے۔ موہن بھاگوت جی بار بار پورے ہندوستانی عوام کو متحد کرنے کے جذبے کے ساتھ یہ کہتے رہے ہیں کہ ”ہندو کوئی مذہب، صوبہ یا ملک کا نام نہیں بلکہ ایک کلچر ہے اور ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کی یہ وراثت ہے، اس لیے ہندوستان میں رہنے والے ایک سو تیس (130)کروڑ لوگ سبھی ہندو ہیں اور بھارت ماتا کی اولاد ہیں۔ یہ اپنی الگ الگ تہذیبوں اور ثقافتوں اور مذاہب کے باوجود ہندوستانی ہونے کی بنا پر ایک ہیں اور یہی تنوع اور تکثیریت ہمارا تشخص اور شناخت ہے۔ موہن بھاگوت جی اسی لیے اپنے تمام خطبات اور بیانات میں صرف ایک طبقے یا مذہب کی بات نہیں کرتے بلکہ ہندوستان کے تمام طبقات کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ جس دن یہ کہا جائے گا کہ ”یہاں مسلمان نہیں چاہیے اسی دن وہ ہندوتو نہیں رہے گا۔“
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے کہاکہ کرونا بحران کے دوران بھی انھوں نے یہ واضح کیا کہ چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام نہیں کیا جاسکتا اور یہ بھی کہا کہ بغیر تعصب و امتیاز کے ہر متاثرہ فرد کی مدد کرنا ہمارا اخلاقی فریضہ ہے اور انھوں نے اپنے خطبے میں یہ بھی کہا کہ دونوں قوموں کے باشعور افراد سامنے آئیں اورذہنوں میں جو تعصبات اور شکوک و شبہات ہیں وہ مکالمے کے ذریعے دور کریں کہ مکالمہ ہی کے ذریعے سے ہم اپنے ملک کو ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں اور سب کی ترقی کے خواب کو پورا کرسکتے ہیں۔ انھوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ بھارت میں سب سے زیادہ مسلمان خوش ہیں کیونکہ ہندو تہذیب میں سبھی کے لیے عزت و احترام کا جذبہ ہے۔ ہمیں کسی سے مذہب کی بنیاد پر نفرت نہیں ہے۔ ہمیں ایک بہتر اور صحت مند سماج کی تعمیر و تشکیل کے لیے ایک ساتھ آگے بڑھنا ہوگا تاکہ ملک میں تبدیلی آسکے اور ترقی کے مساوی مواقع پیدا ہوں۔ اسی لیے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے مسائل و معاملات پر غور و فکر کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ موہن بھاگوت جی نے ہمیشہ قومی یکجہتی، ہم آہنگی اور ہندوستان کے تمام مذہبی طبقات کے درمیان اتحاد اور بھائی چارے کی تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ مذہب، فرقہ اور ذات کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ناانصافی یا زیادتی اچھی بات نہیں ہے۔ کرونا جیسے بحران میں بھی جب ملک میں مذہبی بنیاد پر منافرت شروع ہوئی تو انھوں نے تمام ہندوستانی عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کرونا سے کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ڈرنے سے بحران اور سخت ہوجائے گا، ہم تمام لوگوں کو خوداعتمادی، مستقل مزاجی اور منظم طریقے اور قواعد کی پابندی کرتے ہوئے بغیر کسی تفریق کے کام کرنا ہوگا، بھید بھاؤ کے بغیر دوسرو ں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ہمیں اس موقعے پر خوف، غصے اور تعصب سے بھی بچنا ہوگا اور ہمیں بے احتیاطی، لاپرواہی، خوف و غصہ، سستی، ٹال مٹول جیسی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہوگی تبھی ہم کرونا جیسے قہر سے نجات حاصل کرپائیں گے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کرونا ہمارے لیے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے اور یہ ہمیں قواعد و ضوابط کی پابندی کے ساتھ نئے بھارت کی تعمیر کی دعوت بھی دے رہا ہے۔ اس بحران نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے، خاص طور پر خودانحصاری کی تعلیم دی ہے اور ایک نئے معاشی ترقیاتی ڈھانچے کی تشکیل کا احساس بھی دلایا ہے۔ ماحولیات کے تحفظ اور سودیشی چیزوں کے استعمال کی ضرورت کے ساتھ ساتھ ہمیں متحد ہوکر لڑنے کا بھی سبق دیا ہے۔ کرونا سے نجات ہمیں اسی صورت میں مل سکتی ہے جب فرد اور معاشرہ مربوط ہوکر اس کے خلاف جنگ لڑیں گے۔یہ ہمیں اچھا بننے اور دوسروں کو اچھا بنانے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے ہمیں متحد ہوکر کرونا کو ختم کرنا ہوگا۔ ذات، مذہب اور طبقات میں تقسیم ہوکر ہم اس قہر سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔
ڈاکٹر عقیل نے کہاکہ موہن بھاگوت جی نے کرونا کے سلسلے میں اپنی سماجی ذمے داری کو محسوس کرتے ہوئے جس طرح کا خطاب کیا اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخاطب صرف ایک ذات، قوم یا دھرم کے لوگوں سے نہیں بلکہ ہندوستان کے تمام لوگوں سے ہے، اور یہی سماجی اتحاد آر ایس ایس کا مشن ہے۔

سیاست

وقف بل کے خلاف عدالت جانے کی تیاریاں، اکھلیش کا اعلان… فرضی انکاؤنٹر میں لوگوں کو مارنے کا الزام، بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ کے بیان پر بھی حملہ

Published

on

Akhilesh Yadav

جونپور : اکھلیش یادو نے اتر پردیش کے جونپور میں وقف ایکٹ پر بڑا حملہ کیا ہے۔ انہوں نے وقف ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی بات کی ہے۔ ایس پی صدر منگل کو جونپور میں تھے۔ اس دوران انہوں نے مرکزی اور یوپی حکومتوں پر شدید حملہ کیا۔ وہ سابق بلاک سربراہ مسز سرجودی کے آنجہانی شوہر دھرمراج یادو کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ موجودہ حکومت کسی بھی محاذ پر ٹھیک سے کام نہیں کر رہی ہے۔ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے عوام کو تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے وقف بل کے حوالے سے بھی کچھ ایسا ہی کہا۔ اکھلیش یادو نے وقف ترمیمی قانون کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس قسم کے بل کے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے وقف بل لائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کے ذریعے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہم (سماج وادی پارٹی) نے اسے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بھی قبول نہیں کیا۔ پھر بھی قبول نہیں کریں گے۔ ہم اس بل کی قانونی مخالفت کریں گے۔

ایس پی صدر نے الزام لگایا کہ ریاست میں لوگوں کو فرضی انکاؤنٹر میں مارا جا رہا ہے۔ اکھلیش یادو نے ٹک ٹاک بنانے والے مسلم لڑکے کی موت کا معاملہ اٹھایا۔ اس کے علاوہ بینک ڈکیتی کیس میں جونپور کے ایک نوجوان کے انکاؤنٹر کا معاملہ بھی اس دوران اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم نے ایک یادو نوجوان کے انکاؤنٹر کا معاملہ اٹھایا تو ایک کشتریہ کا بھی سامنا ہوا۔ تم لوگ یہیں سے ہو۔ یہ کیسز آپ کے سامنے ہوئے ہیں۔ اکھلیش یادو نے بلڈوزر ایکشن کیس میں یوپی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے ریمارکس پر بھی بات کی۔ اکھلیش یادو نے کہا کہ سپریم کورٹ آج جو کہہ رہی ہے، ہم کافی عرصے سے کہہ رہے ہیں۔ یوپی میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ قانون کی حکمرانی ختم کر کے اہلکار اپنی مرضی کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ من پسند افسران کام کر رہے ہیں۔ جن افسران کو وہ چاہتے ہیں مقدمات درج کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں امن و امان کے نام پر کچھ نہیں بچا ہے۔

بجلی کے معاملے پر اکھلیش یادو نے کہا کہ حکومت بجلی مہنگی کر رہی ہے۔ محکمہ بجلی کی جانب سے صرف میٹر لگانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ اتر پردیش کو ترقی دی جائے گی۔ یوپی میں 10 سالوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے ہیں۔ سماج وادی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی طرف سے دیئے گئے لیپ ٹاپ اب بھی کام کر رہے ہیں۔ اکھلیش یادو نے ون نیشن ون الیکشن پر مرکزی حکومت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو پہلے پورے اتر پردیش کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ ملک بھر میں بیک وقت انتخابات کے انعقاد کو بھول جائیں۔ بریلی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پولیس خود ہی مقدمہ درج کر رہی ہے۔ گرفتاری وہ خود کر رہی ہے۔ ای وی ایم کے معاملے پر انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں چھیڑ چھاڑ کا امکان ہے۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو نے 2027 کے اسمبلی انتخابات کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ اس میں بی جے پی کا مکمل صفایا ہو جائے گا۔

Continue Reading

سیاست

کانگریس صدر کھرگے نے عالمی یوم صحت کے موقع پر مرکزی حکومت کی صحت پالیسیوں پر تنقید کی، بی جے پی کی دوا، علاج پر مہنگائی کی گولی…

Published

on

kharge

نئی دہلی : کانگریس صدر ملکارجن کھرگے نے عالمی یوم صحت کے موقع پر مرکزی حکومت پر حملہ بولا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ‘ملک کے صحت کے نظام کو آئی سی یو میں بھیج دیا ہے’۔ کھرگے نے کہا کہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عام آدمی پر علاج کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بڑھتی مہنگائی، صحت کی سہولیات کی کمی اور کم سرکاری اخراجات پر حکومت پر حملہ کیا۔ کھرگے نے کہا کہ پچھلے 5 سالوں سے طبی مہنگائی ہر سال 14 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ جس کی وجہ سے علاج بہت مہنگا ہو گیا ہے۔ اپریل سے اب تک 900 ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ نیتی آیوگ کی رپورٹ کے مطابق مہنگے علاج کی وجہ سے ہر سال 10 کروڑ لوگ غربت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عام لوگوں کو ہیلتھ اور لائف انشورنس پر 18 فیصد جی ایس ٹی ادا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیکل آکسیجن، پٹیاں، سرجیکل آئٹمز پر 12٪ جی ایس ٹی لگتے ہیں، اور ہسپتال کی وہیل چیئر، سینیٹری نیپکن پر 18٪ جی ایس ٹی لگتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مریضوں کے اخراجات مزید بڑھ گئے ہیں۔ کھرگے نے کہا کہ پچھلے ایک سال میں ہسپتال کے اخراجات میں 11.3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انجیو پلاسٹی کی لاگت دوگنی اور گردے کی پیوند کاری کی لاگت تین گنا ہو گئی ہے۔ جس سے مریضوں پر بھاری بوجھ پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ہیلتھ پالیسی 2017 کے تحت حکومت کو صحت پر جی ڈی پی کا 2.5 فیصد خرچ کرنا تھا لیکن صرف 1.84 فیصد خرچ کیا گیا۔ گزشتہ 5 سالوں میں صحت کے بجٹ میں 42 فیصد کمی کی گئی ہے۔ ساتھ ہی، عالمی یوم صحت پر پی ایم نریندر مودی نے کہا کہ ‘صحت ہی اصل خوش قسمتی اور دولت ہے۔’ انہوں نے صحت مند معاشرے کے لیے حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت صحت کی خدمات پر توجہ مرکوز رکھے گی۔ پی ایم نے موٹاپے کو بڑا مسئلہ قرار دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال 2050 تک 44 کروڑ سے زیادہ ہندوستانی موٹاپے کا شکار ہوں گے۔ انہوں نے کھانے میں تیل کو 10 فیصد کم کرنے اور ورزش کو زندگی کا حصہ بنانے کا مشورہ دیا۔

Continue Reading

سیاست

وقف ترمیمی بل پر بہار میں ہنگامہ۔ اورنگ آباد میں جے ڈی یو سے سات مسلم لیڈروں نے استعفیٰ دے دیا۔

Published

on

JDU-leaders

اورنگ آباد : وقف بل کی منظوری کے بعد جے ڈی یو کو بہار میں مسلسل دھچکے لگ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں جے ڈی یو کو اورنگ آباد میں بھی بڑا جھٹکا لگا ہے۔ بل سے ناراض ہو کر اورنگ آباد جے ڈی یو کے سات مسلم لیڈروں نے اپنے حامیوں کے ساتھ ہفتہ کو پارٹی کی بنیادی رکنیت اور عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ دینے والوں میں جے ڈی (یو) کے ضلع نائب صدر ظہیر احسن آزاد، قانون جنرل سکریٹری اور ایڈوکیٹ اطہر حسین اور منٹو شامل ہیں، جو سمتا پارٹی کے قیام کے بعد سے 27 سالوں سے پارٹی سے وابستہ ہیں۔

اس کے علاوہ پارٹی کے بیس نکاتی رکن محمد۔ الیاس خان، محمد فاروق انصاری، سابق وارڈ کونسلر سید انور حسین، وارڈ کونسلر خورشید احمد، پارٹی لیڈر فخر عالم، جے ڈی یو اقلیتی سیل کے ضلع نائب صدر مظفر امام قریشی سمیت درجنوں حامیوں نے پارٹی چھوڑ دی ہے۔ ان لیڈروں نے ہفتہ کو پریس کانفرنس کی اور جے ڈی یو کی بنیادی رکنیت اور پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024 کی حمایت کرنے والے نتیش کمار اب سیکولر نہیں رہے۔ اس کے چہرے سے سیکولر ہونے کا نقاب ہٹا دیا گیا ہے۔ نتیش کمار اپاہج ہو گئے ہیں۔

ان لیڈروں نے کہا کہ جس طرح جے ڈی یو کے مرکزی وزیر للن سنگھ لوک سبھا میں وقف ترمیمی بل 2024 پر اپنا رخ پیش کر رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے بی جے پی کا کوئی وزیر بول رہا ہو۔ وقف ترمیمی بل کو لے کر جمعیۃ العلماء ہند، مسلم پرسنل لا، امارت شرعیہ جیسی مسلم تنظیموں کے لیڈروں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن وزیر اعلیٰ نے کسی سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی وقف ترمیمی بل پر کچھ کہا۔ انہوں نے وہپ جاری کیا اور لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں بل کی حمایت حاصل کی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب جے ڈی یو کو مسلم لیڈروں، کارکنوں اور مسلم ووٹروں کی ضرورت نہیں ہے۔

وزیراعلیٰ نتیش کمار کو بھیجے گئے استعفیٰ خط میں ضلع جنرل سکریٹری ظہیر احسن آزاد نے کہا ہے کہ انتہائی افسوس کے ساتھ جنتا دل یونائیٹڈ کی بنیادی رکنیت اور عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ میں سمتا پارٹی کے آغاز سے ہی پارٹی کے سپاہی کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ جب جنتا دل سے الگ ہونے کے بعد دہلی کے تالکٹورہ اسٹیڈیم میں 12 ایم پیز کے ساتھ جنتا دل جارج کی تشکیل ہوئی تو میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے بعد جب سمتا پارٹی بنی تو مجھے ضلع کا خزانچی بنایا گیا۔ اس کے بعد جب جنتا دل یونائیٹڈ کا قیام عمل میں آیا تو میں ضلع خزانچی تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ بہار اسٹیٹ جے ڈی یو اقلیتی سیل کے جنرل سکریٹری بھی تھے۔ ابھی مجھے ضلعی نائب صدر کی ذمہ داری دی گئی تھی جسے میں بہت اچھے طریقے سے نبھا رہا تھا لیکن بہت بھاری دل کے ساتھ پارٹی چھوڑ رہا ہوں۔ جے ڈی یو اب سیکولر نہیں ہے۔ للن سنگھ اور سنجے جھا نے بی جے پی میں شامل ہو کر پارٹی کو برباد کر دیا۔ پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو پورا بھروسہ تھا کہ جے ڈی یو وقف بل کے خلاف جائے گی لیکن جے ڈی یو نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے اعتماد کو توڑا اور خیانت کی اور وقف بل کی حمایت کی۔ آپ سے درخواست ہے کہ میرا استعفیٰ منظور کر لیں۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com