(جنرل (عام
بامبے ہائی کورٹ نے ایکناتھ شندے کے بارے میں متنازعہ گانا بنانے والے اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو گرفتاری سے دی بڑی راحت۔

ممبئی : اسٹینڈ اپ کامیڈین کنال کامرا کو مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کا نام لیے بغیر تبصرہ کرنے کے معاملے میں ممبئی ہائی کورٹ سے راحت ملی ہے۔ عدالت نے کامرہ کی گرفتاری پر پابندی لگا دی ہے۔ بمبئی ہائی کورٹ نے ممبئی پولیس کو حکم دیا کہ وہ ان کے ‘غدار’ ریمارک کے لیے ان کے خلاف درج ایف آئی آر میں گرفتار نہ کرے۔ اس کے ساتھ ہی ممبئی پولیس کو بھی عدالت سے چنئی میں کنال کامرا سے پوچھ گچھ کی اجازت مل گئی ہے۔ اب ممبئی پولیس چنئی جائے گی اور مقامی پولیس کی مدد سے کامرہ کا بیان ریکارڈ کرے گی۔ یہ حکم جسٹس سارنگ کوتوال اور ایس ایم موڈک کی بنچ نے دیا ہے۔ بنچ نے کہا کہ درخواست گزار کو کھر میں درج مقدمے میں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ معاملے کی تفتیش جاری رہ سکتی ہے۔ تحقیقاتی ایجنسی چنئی کی مقامی پولیس کی مدد سے کامرہ کا بیان مکمل کر سکتی ہے۔ اس سے پہلے 8 اپریل کو، بمبئی ہائی کورٹ نے کامرہ کی درخواست پر سماعت کی تھی جس میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ ہائی کورٹ نے کنال کو 16 اپریل تک تحفظ فراہم کیا اور تمام حکومتی جماعتوں کو نوٹس جاری کرکے ان سے جواب طلب کیا۔
کامرہ نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 19 اور 21 کے تحت آزادی اظہار اور زندگی کے حق کے بنیادی حق کی بنیاد پر اپنے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ دراصل کنال کامرا کے خلاف ممبئی کے کھار تھانے میں تین الگ الگ کیس درج ہیں۔ تینوں معاملات میں، مہاراشٹر کے مختلف مقامات سے زیرو ایف آئی آر کے تحت شکایات ممبئی کے کھار پولیس اسٹیشن کو منتقل کردی گئی ہیں۔ یہ ایف آئی آر بلدھانا، ناسک اور تھانے اضلاع سے درج کی گئی ہیں اور اب ممبئی کے کھار پولیس اسٹیشن ان کی تحقیقات کر رہی ہے۔ ممبئی پولیس کے مطابق کامرا پر مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام ہے۔ اس سلسلے میں کنال کامرا کو تین بار پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا لیکن وہ پولیس اسٹیشن میں پیش نہیں ہوئے۔ خار پولیس نے ہیبی ٹیٹ اسٹوڈیو سے وابستہ متعدد افراد سے پوچھ گچھ کرکے ان کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔ کیس سے جڑے دیگر لوگوں سے پوچھ تاچھ جاری ہے۔
جرم
قرض کی آڑ میں دھوکہ دلی کال سینٹر بے نقاب : بجاج فائنانس کے نام پر قرض دلانے پر دھوکہ دھڑی تین ملزمین گرفتار، 105 موبائل کا دغابازی میں استعمال

ممبئی : بلاسودی قرض کی فراہمی کا لالچ دے کر لوگوں کو بے وقوف بنانے والے گروہ کو ممبئی کرائم برانچ کے سائبر سیل نے بے نقاب کیا ہے۔ سائبر پولیس اسٹیشن مغربی ممبئی میں شکایت کنندہ بزرگ شہری 70 سالہ نے شکایت درج کروائی, جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ان دغا بازوں کا سراغ لگایا اور دلی میں ایک کال سینٹر کا بھی پردہ فاش کیا, جہاں سے لوگوں کو بے وقوف بنایا جاتا تھا۔ شکایت کنندہ کو 28 اگست 2023 سے 2 نومبر 2024ء تک فریب دیا گیا۔ شکایت کنندہ کو بتایا گیا کہ انہیں بجاج فائنانس دلی سے زیرو صفر سود پر قرض کی فراہمی ہوسکتی ہے۔ اس کی آڑ میں شکایت کنندہ سے متعدد معاملات کی فیس کے نام پر بینکوں سے ایک کروڑ 14 لاکھ روپے وصول کئے۔ اس کے بعد کرائم برانچ نے تفتیش کی اور دلی میں میکسیمم مارکیٹنگ پرائیوٹ لمٹیڈ آنند ویہار میں چھاپہ مار کارروائی کی اور یہ کال سینٹر کا پردہ فاش کر دیا۔ اس میں پولیس نے شہزاد لال خان عرف رحمان 30 سالہ، انوج اتم سنگھ راؤت عرف انیل کمار یادو 30 سالہ اور عامر حسین 34 سالہ کو گرفتار کر لیا۔ ان کے قبضے سے 105 موبائل فون، ایک لیپ ٹاپ برآمد کیا گیا ہے, اس تفتیش میں یہ خلاصہ ہوا ہے کہ یہ موبائل نمبر ملک بھر میں سائبر جرائم میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ نمبر 132 جرائم میں استعمال کیا گیا ہے, یہ کارروائی ممبئی کرائم برانچ اور سائبر سیل نے انجام دی ہے۔ یہ کارروائی ممبئی پولیس کمشنر وویک پھنسلکر، اسپیشل کمشنر دیوین بھارتی، جوائنٹ پولیس کمشنر کرائم لکمی گوتم کی ایما پر کی گئی ہے۔ ڈی سی پی کرائم ڈٹیکشن دتہ نلاوڑے نے بتایا کہ ممبئی پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سائبر پر دغا بازی سے الرٹ رہے اور زیادہ سرمایہ کاری کے نام پر نفع بخش کی لالچ میں سرمایہ کاری نہ کرے۔ سوشل میڈیا پر بلا کاغذات کے قرض کی فراہمی کے دام میں نہ آئے شناساؤں کے کہنے پر کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری نہ کرے اور کسی بھی قسم کا موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ نہ کرے, اگر کوئی دغا بازی کا شکار ہوتا ہے تو فوری طور پر 1930 پر رابطہ کرے۔
(جنرل (عام
مرکزی حکومت نے وقف ترمیمی قانون پر سپریم کورٹ میں حلف نامہ کیا داخل، ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو خارج کرنے اور پابندی نہ لگانے کی اپیل۔

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے جمعہ کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا ہے۔ یہ حلف نامہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی صداقت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو خارج کرنے کے لیے ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت قانون کا جائزہ لے سکتی ہے، لیکن صرف کچھ بنیادوں پر۔ جیسے کہ قانون بنانے کا اختیار کس کے پاس ہے اور کیا اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ درخواستیں اس غلط فہمی پر مبنی تھیں کہ ترامیم سے مذہبی آزادی کا بنیادی حق چھین لیا گیا ہے۔ حکومت نے عدالت سے کہا کہ وہ اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ دے اور کوئی پابندی نہ لگائے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وقف ایکٹ میں ترامیم پارلیمانی پینل کے مکمل مطالعہ کے بعد لائی گئی ہیں۔ حکومت نے کہا کہ وقف املاک کا غلط استعمال کرتے ہوئے نجی اور سرکاری املاک پر قبضہ کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، مغل دور میں، آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد، کل 18,29,163.896 ایکڑ وقف جائیدادیں بنائی گئیں۔ حکومت نے حلف نامے میں کہا کہ جو بات چونکانے والی ہے وہ یہ ہے کہ 2013 کے بعد وقف اراضی میں 20,92,072.536 ایکڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے یہ بھی کہا کہ مقننہ کے ذریعہ بنائے گئے قانون کو تبدیل کرنا درست نہیں ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے اپنے دائرہ اختیار میں کام کیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وقف جیسے مذہبی ٹرسٹ کا صحیح طریقے سے انتظام کیا جائے۔ حکومت نے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے پابندی لگانا درست نہیں کیونکہ قانون کی صداقت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت نے مزید کہا کہ وقف ایکٹ کے جواز کو چیلنج کرنے کی درخواست گزاروں کی کوششیں عدالتی نظرثانی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ حکومت نے کہا کہ عدالت کسی بھی قانون کا جائزہ صرف اس کے قوانین بنانے اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی بنیاد پر کرے۔ حکومت نے یہ بھی کہا کہ درخواستیں اس غلط فہمی پر مبنی تھیں کہ ترامیم سے مذہبی آزادی کا بنیادی حق چھین لیا گیا ہے۔
قومی
اداریہ : پہلگام بدلہ لیں گے, مگر کیسے؟

قمر انصاری (ممبئی) : پہلگام دہشت گرد حملے کے صدمے سے ملک اب تک باہر نہیں آ سکا ہے۔ چونکہ یہ دعویٰ کیا گیا کہ کشمیر سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو چکا ہے، پورے ملک سے پچیس لاکھ سیاح کشمیر پہنچے اور اسی دوران یہ حملہ ہو گیا۔ عوام میں شدید غصہ ہے کہ کشمیر میں بہائے گئے خون اور آنسو کے ہر قطرے کا بدلہ لیا جائے, اور پاکستان کو سبق سکھایا جائے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پہلگام واقعے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ یہ مطالبہ اس لیے اب کیا جا رہا ہے کیونکہ اس حملے نے حکومت کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ اگر اس حکومت نے گزشتہ دس برسوں میں کسی سانحے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال نہ کیا ہوتا، تو آج ایسی باتیں کرنے کی نوبت نہ آتی۔ پہلگام حملہ غیر انسانی اور قابلِ نفرت ہے، اور اس کا بدلہ ضرور لیا جانا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ بدلہ کیسے لیا جائے؟
ملک کو اصل خطرہ ان لوگوں سے ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی کو ووٹ دینا، مودی کو وزیر اعظم بنانا ہی بدلہ ہے، اور اس طرح کرنے سے دہشت گرد اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جائیں گے۔ بدلہ پاکستان اور دہشت گردوں سے لینا ہے، نہ کہ ہندوستانی مسلمانوں سے۔ کیا پہلگام کا بدلہ مسلمانوں کو چیلنج کر کے، ان کی مسجدوں اور مدرسوں پر حملہ کر کے لیا جائے گا؟ کچھ لوگوں میں ایسا کرنے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔ لڑائی پاکستان کے خلاف ہے، ان قوم پرست مسلمانوں کے خلاف نہیں جو ہندوستان کے شہری ہیں۔ اُڑی اور پلوامہ حملوں کے بعد بھی “ہم بدلہ لیں گے، سبق سکھائیں گے” جیسے نعرے لگائے گئے۔ پارلیمان اور جلسوں میں جوش و خروش سے بیانات دیے گئے۔ اُڑی کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان کے زیرِ قبضہ کشمیر میں “سرجیکل اسٹرائیک” کی گئی۔ تب کہا گیا کہ پاکستان اور دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، لیکن حقیقت میں کچھ بھی نہیں بدلا۔
اندرا گاندھی نے 1971 میں براہ راست جنگ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور حقیقی سبق سکھایا، پھر بھی پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ مودی حکومت آخر کیا کرنے جا رہی ہے؟ حکومت کو کام کرنا چاہیے، صرف تشہیر نہیں۔ اگر وہ صرف اس اصول پر عمل کر لے تو کافی ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کابینہ کی میٹنگ بلائی اور کچھ فوری فیصلے کیے۔ پاکستان کا سفارت خانہ بند کر دیا گیا ہے۔ ہندوستان میں موجود تمام پاکستانی شہریوں کو 24 گھنٹوں کے اندر ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔ حتیٰ کہ واہگہ بارڈر بھی عارضی طور پر بند کر دیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ پاکستان سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی شروعات ہے۔ تو پھر کرکٹ کا کیا ہوگا؟ بھارت اور پاکستان کے درمیان میچ دبئی میں ہوتے ہیں اور بڑی تعداد میں بھارتی شائقین وہاں جاتے ہیں۔ جے شاہ عالمی کرکٹ کے سربراہ ہیں۔ انہیں صاف اعلان کرنا چاہیے کہ اب پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔ یہاں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانا اور باہر جا کر کرکٹ کھیلنا بند ہونا چاہیے۔
پہلگام حملے سے متاثر ہو کر مودی نے سعودی عرب کا دورہ منسوخ کر دیا۔ راہول گاندھی بھی اپنا امریکہ کا دورہ ختم کر کے واپس آ رہے ہیں۔ ایسے وقت میں حکومت کی طرف سے آل پارٹی میٹنگ بلانا عام بات ہے، لیکن جب حکومت حزب اختلاف کی آواز دبائے، کشمیر سے منی پور تک پارلیمان میں کسی معاملے پر بحث نہ ہونے دے، تو ایسی میٹنگ سے کیا حاصل ہوگا؟ وزیر داخلہ قومی سلامتی کے معاملے میں سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ وہ عوام کی جانوں کے تحفظ میں ناکام رہے۔ ان کو ہٹانا ایک متفقہ عوامی مطالبہ بنتا جا رہا ہے۔ اگر حکومت اس مطالبے پر غور نہیں کرے گی، تو ایسی میٹنگیں محض دکھاوا ہوں گی۔
آرٹیکل 370 کا خاتمہ ایک اچھا قدم تھا، مگر جموں و کشمیر کا مکمل ریاستی درجہ ختم کر کے کیا حاصل ہوا؟ حکومت اس کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ فوج میں بڑی کٹوتیاں کی گئیں، دفاعی بجٹ میں کمی کی گئی۔ یہ نہایت خطرناک کھیل ہے۔ پلوامہ میں فوجی جوانوں کو ہوائی جہاز دستیاب نہ ہوئے، اور پہلگام میں ہزاروں سیاحوں کی سیکیورٹی خطرے میں ڈال دی گئی۔ اب جب حملہ ہو چکا ہے اور معصوم لوگ مارے گئے ہیں تو حکومت بھاگ دوڑ میں مصروف ہو گئی ہے۔ پہلگام حملہ اگرچہ وحشیانہ ہے، لیکن اس پر ہندو-مسلمان نفرت کو ہوا دینا اس سے بھی زیادہ غیر انسانی ہے۔ پہلگام کے دیہاتیوں نے فوری طور پر زخمیوں اور ان کے اہل خانہ کی مدد شروع کر دی۔ ایک مقامی نوجوان سید حسین شاہ نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ جب اس نے ان کے ہاتھ سے بندوق چھیننے کی کوشش کی تو اسے گولی مار دی گئی۔ وہ گڑگڑا کر بولا: “یہ لوگ ہمارے مہمان ہیں، انہیں مت مارو۔” لیکن آخرکار اسے اپنی جان گنوانی پڑی۔ سید ہندو نہیں تھا، پھر بھی دہشت گردوں نے اسے قتل کر دیا۔
تمام سیاحوں کا کہنا ہے کہ مقامی لوگوں نے پہلگام اور آس پاس کے علاقوں میں ان کی مدد کی، اس کے باوجود بی جے پی کا ‘آئی ٹی سیل’ اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں لگا ہوا ہے۔ پہلگام میں حملہ صرف سیاحوں پر نہیں، ہم سب پر تھا۔ کشمیری عوام نے انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ “ہم بھی زخمی ہوئے ہیں”— ان جذبات کی قدر کی جانی چاہیے۔ ہماری لڑائی پاکستان اور دہشت گرد گروہوں سے ہے۔ اگر کوئی اس لڑائی میں ہندوستانی مسلمانوں یا کشمیری عوام کو بدنام کر رہا ہے، تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ ملک کے مسائل کا حل نہیں چاہتے بلکہ پلوامہ کی طرح پہلگام کو بھی سیاست کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ اب حکومت کو صرف قومی مفاد میں سوچنا چاہیے۔ ہندو اور مسلمان آپس میں کیا کرنا ہے، یہ خود سمجھ لیں گے۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا