Connect with us
Monday,09-June-2025
تازہ خبریں

(Lifestyle) طرز زندگی

دلیپ کمارکی پہلی برسی پر اداکار کو یاد کیا گیا

Published

on

Dilip Kumar

فلمی دنیا کے شہنشاہ جذبات مرحوم یوسف خان عرف دلیپ کمار کی پہلی برسی پر اداکار کو ملک بھر میں یاد کیا گیا۔ جبکہ آج بعد نماز عصر مرحوم کے پرستاروں نے شمال مغربی ممبئی کے جوہو قبرستان میں فاتحہ خوانی کی۔ اس موقع پر معروف تاجر اور خاندانی دوست آصف فاروقی نے بھی شرکت کی، اور مطلع کیا کہ پالی ہل پر واقع مرحوم دلیپ کمار کی رہائش گاہ پر ان کی بیوہ اور اداکارہ سائرہ بانو نے نماز ظہر سے مغرب تک قرآن خوانی بھی رکھی، جس میں اہل خانہ، رشتہ داروں اور فلمی دنیا سے وابستہ فن کاروں نے بھی شرکت کی۔

واضح رہے شہنشاہ جذبات جنہیں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار کہا جاتا تھا، گزشتہ سال 7، جولائی کو داعی جل کو لبیک کہا تھا۔ اور ان کی برسی پر ان کے پرستار اور قریبی ان کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ اور خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں۔

معروف اداکار اور خاندانی دوست دھرمیندر نے ہمیشہ سالگرہ پر نیک خواہشات پیش کی، بلکہ ان کے گھر پہنچ جاتے تھے۔ ان کا ہمیشہ کہنا رہا ہے کہ ہم دونوں بھائی ہیں۔ اور صرف الگ الگ ماں کی کھوکھ سے پیدا ہوئے، ورنہ ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جبکہ لتا منگیشکر نے ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔

واضح رہے کہ دلیپ کمار کی آٹو بائیو گرافی میں ان کے بارے میں جتنے افراد نے الگ سے مضامین لکھے ہیں، ان کی اکثریت غیر مسلم شخصیات کی ہے، اور وہ دلیپ صاحب کو فلمی دنیا کا ایک اہم ستون سمجھتے ہیں۔

واضح دلیپ کمار نے آنجہانی لتا منگیشکر کو ہمیشہ اپنی چھوٹی بہن بتایا تھا، اور وہ اکثر راکھی باندھنے پالی ہل پر دلیپ کمار سے ملاقات کے لیے جاتی تھیں، اور ان کی خیریت دریافت کرتی تھیں۔ دلیپ کمار کے ہمیشہ سے ہی سبھی سے تعلقات اچھے رہے، لیکن امیتابھ بچن، جیابچن، مہیش بھٹ، چندر شیکھر، یس چوپڑہ، دھرمیندر، ستارا دیوی، سبھاش گھئی، ڈاکٹر سرکانت گوکھلے، سنیل کپور، رشی کپور، منوج کمار، ہیمالنی، لتا منگیشکر، نندہ، بکل پٹیل، پیارے، ہیرالال، ہریش سالوے، رمیش سپی، وجنتی مالا وغیرہ سے خاندانی تعلقات رہے تھے۔ اس فہرست میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سینٹ کے ممبر اور معروف تاجر آصف فاروقی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے تیس سالہ تعلقات کو پیش کرتے دلیپ صاحب کی بائیو گرافی میں تحریر کیا ہے کہ دلیپ صاحب نہ صرف سیاسی سطح پر بلکہ زندگی کے سفر میں بھی ان کی بھر پور رہنمائی کی تھی۔ انہوں نے ہی مشورہ دیا تھا کہ تعلیم اور سماجی بہبود کے کام سے ابتداء کرو، اسی سے سماج کی ترقی ہوتی ہے۔ صرف نام بلند کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ سب سے بڑا سبق تھا، جو دلیپ کمار سے سیکھا تھا۔

انہوں نے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ جب 1994 میں آنجہانی سنیل دت نے اخلاقی بنیاد پر اپنے پارلیمانی حلقہ انتخاب سے استعفیٰ دینا چاہا تھا، لیکن دلیپ کمار ان کے استعفیٰ کے خلاف تھے۔ ذہنی طور پر سنیل دت پریشان تھے، اور دلیپ کمار سنجے دت کی ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتاری سے پریشان سنیل دت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے نظر آئے، اور انہیں کسی بھی انتہائی قدم سے روکتے رہے تھے۔

آصف فاروقی نے کہاکہ د لیپ کمار کو افسانوی شخصیت اور سپر اسٹار جیسے خطابات اور القاب سے دنیا جانتی ہے، لیکن ان کا خیال ہے کہ وہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے سچے علمبردار تھے، انہیں ایک سچا انسان، عزت دار، جذباتی اور غیر مفاد پرست شخص کہہ سکتے ہیں۔ یہ فخر کی بات ہے کہ ہم دونوں کی تین دہائیوں کی وابستگی تھی۔ اور اس پر فخر کرنا لازمی ہے۔

ان کے مطابق دلیپ کمار کا کہنا ہے کہ دلیپ کمار اور یوسف خان کے درمیان فرق ہے، یوسف خان تو دلیپ کمار سے بہت زیادہ گھبراتا ہے۔ دراصل دلیپ کمار کی حقیقت خدا کو ہی پتہ ہے۔ یوسف خان وہ شخص ہے، جو دنیا کی راہوں سے بے نیاز رہا۔

ہندوستانی فلمی دنیا کے سب سے قدآور فن کار یوسف خان یعنی دلیپ کمار نے اپنی سوانح عمری میں اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ ساتھ لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، اٹل بہاری واجپئی، این سی پی رہنماء شرد پوار اور شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تعلقات کے ساتھ ہی اپنی سیاسی تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں کو ‘نیا کردار نیک مقصد کی تئیں’ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔

دلیپ کمار، گنگا جمنا جیسی ان کی واحد فلم کے فلمساز بھی تھے، اور اہم رول بھی ادا کیا تھا، لیکن ڈکیتی کے موضوع پر بنائی جانے والی فلموں کو اس وقت سنسر بورڈ میں سخت سنسر شپ کا سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن مرکزی وزیر برائے اطلاعات ونشریات ڈاکٹر بی وی کیسکر نے اخلاقیات اور معاشرے میں پھیلتی بدامنی سے نوجوانوں کو روکنے کے مقصد کی بات کرتے تھے، اور وہ بضد رہے، لیکن اس درمیان دلیپ کمار نے وزیراعظم نہرو سے رابطہ کیا، اور ان کی ہدایت پر صرف گنگا جمنا ہی نہیں بلکہ دوسری فلموں کو بھی ایک دن قبل کلئیر کروا دیا گیا۔ جس پر سبھی نے چین کی سانس لی تھی۔

مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کے قدآور لیڈر اور این سی پی رہنماء شرد پوار کیساتھ اپنے رشتوں کو دلیپ کمار نے 1967 سے بتایا تھا، جب وہ ممبئی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور بارامتی ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے گئے تھے۔ دلیپ کمار رقم طراز ہیں کہ شردراو (پوار کو اسی انداز میں پکارتے ہیں) سے نصف صدی پرانے تعلقات ہیں، اور انہوں نے ہی 1980ء میں ممبئی کا شریف مقرر کیا تھا، (ممبئی میں یہ ایک اہم عہدہ ہے) واضح رہے کہ شرد پوار 1978 میں کانگریس سے بغاوت کے بعد مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے۔ اور ریاست میں کافی مقبول و مضبوط ہوئے تھے اور آج بھی قدآور سیاست دان ہیں۔ اور آج بھی ان سے کافی اچھے رشتے ہیں۔

دلیپ کمارنے اپنی آپ بیتی میں اپنے پاکستان دورے کا بھی ذکر کیا ہے اور 1935 میں ممبئی ہجرت کے بعد زندگی میں دو مرتبہ پاکستان گئے، پہلی مرتبہ اپریل 1988 آبائی وطن پشاور کے قصہ خوانی بازار بھی گئے اور کراچی ولاہور بھی اور دوسری بار 1998 میں گئے تھے، دراصل انہیں امتیاز پاکستان دینے کا اعلان کیاگیااور اس درمیان انہوں نے عمران خان کے کنیسر اسپتال کابھی دورہ کیا تھا جو کہ ان کی والدہ کے نام سے منسوب ہے۔

آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے دلیپ کمار کے بارے میں کہاکہ “آپ ایک فن کار ہیں اور فن کار کے لیے کسی بھی طرح کی سیاسی یا جغرافیائی پابندی نہیں ہونا چاہیئے، آپ نے ہمیشہ انسانی حقوق اور انسانیت کی بقا کے لیے کام کیا ہے۔ آپ جیسے فن کاروں کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی رشتہ استوار ہوں گے۔

دلیپ کمار نے راج کپور اینڈ فیملی، سنیل دت، دھرمیندر، منوج کمار، پران، اور دیگر اداکاروں کے ساتھ بہتر اور گھر جیسے تعلقات کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔

آنجہانی شیوسینا سربراہ بال ٹھاکرے کے بارے میں دلیپ صاحب کا کہنا ہے کہ “میرا خیال ہے کہ وہ ضرور ‘ٹائیگر’ کے طور پر مشہور تھے، لیکن شیوسینا سربراہ کومیں ایک ‘شیر ببر’ سمجھتا ہوں، جو کہ اپنی قیادت اور سیاسی قد کے سبب اپنے پرستاروں کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو 1966 کے پہلے سے جانتے تھے، جب شیوسینا بھی نہیں بنی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے پیشے یعنی وہ میرے فن کی اور میں ان کے کارٹون کو پسند اور قدر کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دلیپ کمار کے انتقال پر سابق وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے اور بیٹے ادیتیہ ٹھاکرے نے گھر پہنچ کے تعزیت پیش کی تھی۔”

دلیپ کمار کی اداکاری میں ایک ہمہ جہت فنکار دیکھا جاسکتا ہے، جو کبھی جذباتی بن جاتا ہے تو کبھی سنجیدہ اور روتے روتے آپ کو ہنسانے کا گر بھی جانتا ہو۔

ان کی وجیہہ شخصیت کو دیکھ کر برطانوی اداکار ڈیوڈ لین نے انہیں فلم ’لارنس آف عریبیہ‘ میں ایک رول کی پیشکش کی لیکن دلیپ کمار نے اسے ٹھکرا دیا۔ 1998 میں فلم ‘قلعہ’ میں کام کرنے کے بعد فلمی دنیا سے کنارہ کشی کر لی تھی۔ کئی سال علالت کے بعد امسال 7، جولائی مکو انتقال کر گئے۔ لیکن شہنشاہ جذبات یوسف خان کو فلمی صنعت اور گنگا جمنی تہذیب کے حامی کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔

گزشتہ سال 7 جولائی 2021ء کو بالی وڈ کے شہنشاہ جذبات دلیپ کمار کا انتقال 98، سال کی عمر میں ہوا تھا۔ دلیپ کمار کا اصلی نام محمد یوسف خان تھا۔ وہ ۱۱ دسمبر ۱۹۴۲ء کو پشاور (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) میں پیدا ہوۓ تھے۔ ان کے والد کا نام لالہ غلام سرور اعوان جبکہ والدہ کا نام عائشہ بیگم تھا۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کے قصہ خوانی بازار میں ان کا آبائی مکان آج بھی محفوظ ہے، اور اسے حکومت نے تاریخی ورثہ قرار دیا ہے۔ دلیپ کمار اپنے اہل خانہ کے ساتھ ۱۹۳۵ء میں ممبئی کاروبار کے سلسلے میں منتقل ہوئے۔ اداکاری سے قبل یوسف خان پھلوں کے سوداگر تھے۔ یہ کام وہ والد کے ساتھ کرتے رہے۔ انہوں نے پونے کی ایک فوجی کینٹین میں بھی کام کیا۔ تاہم، چند برسوں بعد ممبئی واپس آگئے۔ کچھ عرصے بعد اس وقت کی معروف اداکارہ دیویکارانی اور ان کے شوہر ہمانشو راۓ کی نظر یوسف خان پر پڑی۔ اس خوبرو نوجوان سے بات چیت کے بعد انہیں فلم میں اداکاری کی پیشکش کی گئی۔ دیویکا رانی نے ہی انہیں یوسف خان کے بجاۓ دلیپ کمار نام اپنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ دلیپ کمار کی بطور اداکار ریلیز ہونے والی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ (1944) تھی۔ یہ فلم کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ تاہم 3 سال بعد 1947ء میں انہوں نے نور جہاں کے ساتھ فلم ’جگنو‘ کی، جو باکس آفس پر کامیاب رہی۔ اس کے بعد فلمی دنیا میں وہ تیزی سے مشہور ہوۓ۔

مشہور فلموں میں آن، دیوداس، آزاد، مغل اعظم، گنگا جمنا، انقلاب، بیراگ، سگینہ، داستان، شکتی، کرما، نیا دور، مسافر، مدھو متی، مزدور، شہید، دنیا، کرانتی، اور سوداگر وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے 1966ء میں اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی تھی۔

(Lifestyle) طرز زندگی

جاوید اختر نے ‘آپریشن سندور’ کے بعد بالی ووڈ کی خاموشی پر سوال اٹھائے، پی ایم مودی کی تعریف کی.. جاوید اختر نے اپنے پڑوسی ملک کو بھی دھو ڈالا

Published

on

javed-akhtar

نئی دہلی : مشہور گیت نگار اور اسکرین رائٹر جاوید اختر اپنی بے باکی کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ اکثر قومی مسائل پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ‘آپریشن سندور’ کے بعد بالی ووڈ کی خاموشی کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ جموں و کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارتی حکومت نے سخت ردعمل دیا، جسے لوگوں نے بہت سراہا ہے۔ لیکن بالی ووڈ کی کئی مشہور شخصیات نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا۔ جاوید اختر نے ‘دی لالان ٹاپ’ کو دیے گئے انٹرویو میں اس پر کھل کر بات کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ بہت سے بڑے اداکار اور پروڈیوسر حکومت کی کوششوں کو کھل کر کیوں نہیں سراہ رہے ہیں، تو انھوں نے کہا: “میں نے اپنی بات رکھی ہے، میں خاموش نہیں رہا۔ کبھی لوگوں کو میری بات پسند آتی ہے، کبھی نہیں، لیکن میں وہی کہتا ہوں جو مجھے صحیح لگتا ہے۔ مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ دوسرے کیا نہیں کہتے؟ بہت سے لوگ سیاسی نہیں ہیں۔”

انہوں نے اپنے ابتدائی دنوں کو مزید یاد کرتے ہوئے کہا کہ جب میں چھوٹا تھا، حالانکہ میں سیاسی طور پر باشعور گھرانے سے آیا تھا، جب میری فلمیں ہٹ ہو رہی تھیں، مجھے سیاست کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا، شاید میں نے اخبار بھی ٹھیک سے نہیں پڑھا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ “کچھ لوگ صرف اپنے کام میں مصروف ہوتے ہیں، اگر وہ کچھ نہیں بول رہے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ کچھ لوگ بولتے ہیں، کچھ پیسے یا شہرت کمانے میں مصروف ہیں۔ ضروری نہیں کہ سب بولیں، یا ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیوں نہیں بولے”۔

جاوید اختر نے ایک حالیہ واقعہ کا ذکر کیا جب ایک بڑے بزنس مین نے ان سے کہا کہ ’’آپ کے فلمی لوگ حب الوطنی پر مبنی فلمیں بناتے ہیں لیکن حقیقی مسائل پر خاموش رہتے ہیں‘‘۔ اس پر جاوید اختر نے جواب دیا، “سب سے پہلے تو لفظ ‘بالی ووڈ’ خود ملک دشمن ہے، آپ ہندوستانی فلم انڈسٹری کو بالی ووڈ کیوں کہتے ہیں؟ اگر دنیا کی کوئی انڈسٹری ہولی وڈ کا مقابلہ کر سکتی ہے تو وہ ہندوستانی سنیما ہے۔ ہماری فلمیں اوسطاً 136 سے 137 ممالک میں ریلیز ہوتی ہیں، ہم نے اسے یورپی وڈ کہہ کر بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔”

آپریشن سندور کے بعد پاکستان میں ایک طبقہ مشہور گیت نگار جاوید اختر کے خلاف سخت تبصرے کرنے میں مصروف ہے۔ چند روز قبل بشریٰ انصاری نے جاوید اختر کے خلاف تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مشہور ہونے کے لیے بولتی رہتی ہیں۔ اس پر جاوید اختر نے کہا کہ میں پاکستانی عوام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا وہ اپنی فوجی حکومت سے خوش ہیں؟ کیا آپ ملاؤں سے خوش ہیں؟ جاوید اختر نے کہا کہ پاکستان میں بنیادی طور پر تین چیزیں غلط ہیں۔ پہلے فوج، دوسرا ملا اور تیسرا خودکش بمبار۔ اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کی گرفتاری کے سوال پر جاوید اختر نے کہا کہ یہ غلط ہے۔ مدھیہ پردیش (وجے شاہ) کے ایک وزیر نے صوفیہ قریشی کے خلاف اتنا برا تبصرہ کیا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور وہ وزارت کے عہدے پر برقرار ہیں۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے، یہاں ہر کسی کو بولنے کا حق ہے۔ پروفیسر علی خان محمود آباد کے ساتھ جو ہوا وہ غلط ہے۔

کیا آپ نے کبھی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے؟ جاوید اختر نے کہا کہ ان کی پی ایم مودی سے ایک بار فون پر بات ہوئی تھی۔ جاوید اختر نے کہا، ‘میں نے ان سے ایک بار فون پر بات کی تھی۔ میں اس سے ذاتی طور پر نہیں ملا۔ راجیہ سبھا سے ریٹائرمنٹ کے دوران آمنے سامنے ملاقات اور مبارکبادوں کا تبادلہ ہوا۔ اسی طرح لتا منگیشکر کی آخری رسومات کے دوران پی ایم مودی سے آمنے سامنے ملاقات ہوئی۔ لیکن ہم نے ایک بار فون پر بات کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پی ایم نے فون پر کیا بات کی، تو انہوں نے کہا کہ میں اس کا انکشاف نہیں کر سکتا۔

Continue Reading

(Lifestyle) طرز زندگی

اداکار اعجاز خان کو ریپ کیس میں ممبئی کی عدالت سے دھچکا، ان کی پیشگی ضمانت کی درخواست مسترد، گرفتاری کا امکان!

Published

on

ijaz khan...

ممبئی : اداکار اعجاز خان کو ریپ کیس میں دھچکا لگا ہے۔ ممبئی کی عدالت نے انہیں پیشگی ضمانت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج (دنڈوشی عدالت) دتا دھوبلے نے اعجاز خان کو یہ کہتے ہوئے راحت دینے سے انکار کر دیا کہ الزامات کی نوعیت اور سنگینی کو دیکھتے ہوئے درخواست گزار سے حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہے۔ استغاثہ نے الزام لگایا کہ اس نے مبینہ طور پر ایک مشہور شخصیت اور رئیلٹی شو پیش کرنے والے کے طور پر اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا تاکہ متاثرہ کا اعتماد حاصل کیا جا سکے۔ متاثرہ خود بھی ایک اداکارہ ہے۔ ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ شادی کے جھوٹے بہانے، مالی مدد اور پیشہ ورانہ مدد کے وعدوں پر، اعجاز خان نے متاثرہ کے ساتھ اس کی واضح اجازت کے بغیر متعدد مواقع پر جسمانی تعلقات بنائے۔

اعجاز خان کے خلاف عصمت دری اور جنسی تعلقات میں دھوکہ دینے سے متعلق تعزیرات ہند کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیشگی ضمانت پر زور دیتے ہوئے، خان کے وکیل نے دلیل دی کہ ان کے موکل کو کیس میں جھوٹا پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اداکار پہلے سے شادی شدہ ہے۔ دونوں بالغ ہیں۔ اس کے اور مقتول کے درمیان رشتہ رضامندی سے تھا۔ دفاع نے عدالت کے سامنے کچھ واٹس ایپ چیٹس اور آڈیو ریکارڈنگ پیش کیں جن میں مبینہ طور پر دکھایا گیا تھا کہ متاثرہ نے مقدمہ واپس لینے کے لیے رقم کا مطالبہ کیا تھا اور یہ جسمانی تعلق رضامندی سے ہوا تھا۔ دوسری جانب استغاثہ کا موقف تھا کہ خان سے ان کے موبائل فون، واٹس ایپ چیٹس اور کال ریکارڈنگ کی تصدیق کے لیے ان سے حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہے۔ دونوں طرف سے دلائل سننے کے بعد عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر میں واقعہ کی مخصوص تاریخوں، مقامات اور حالات کا انکشاف کیا گیا ہے۔ درخواست گزار نے مبینہ طور پر متاثرہ کو نہ صرف شادی کی بلکہ پیشہ ورانہ مدد کے ساتھ ساتھ اس کے خاندان کے لیے مالی مدد کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔

عدالت نے کہا کہ خان کا طبی معائنہ کرانے اور دیگر ڈیجیٹل شواہد اکٹھے کرنے کے لیے ان سے حراست میں پوچھ گچھ ضروری ہے۔ خان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ اگر ضمانت قبل از گرفتاری دی جاتی ہے تو ثبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ یا گواہوں پر اثر انداز ہونے کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے قبل خان کو ان کے ویب شو ‘ہاؤس اریسٹ’ میں مبینہ فحش مواد کے حوالے سے درج مقدمے میں کئی دیگر افراد کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا۔ یہ شو اللو ایپ پر نشر کیا جاتا ہے۔

Continue Reading

(Lifestyle) طرز زندگی

اعجاز خان کی مشکلات میں اضافہ شادی کا جھانسہ دے کر ماڈل کی عصمت دری کیس درج، ہاؤس اریسٹ شو میں بھی ماڈل کو کیا گیا تھا مدعو

Published

on

ijaz khan...

ممبئی : فلم اداکار اعجاز خان کے خلاف ممبئی کے چارکوپ پولیس اسٹیشن میں عصمت دری کا کیس درج کیا گیا ہے۔ اعجاز خان نے 30 سالہ ایک ماڈل اداکارہ کو فلموں اور سیرئیل میں کام دلانے کے بہانے اس کے ساتھ رشتہ قائم کیا اور اس کا جنسی استحصال بھی کیا, جس کے بعد متاثرہ نے پولیس میں اعجاز خان کے خلاف شکایت درج کروائی۔ اعجازخان نے 4 اپریل کو متاثرہ کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ جنسی رشتہ قائم کیا تھا, اس معاملہ میں پولیس نے بی این ایس کی دفعات,69,74,64,64(2) (M) کے تحت کیس درج کیا, اعجاز خان کی متاثرہ سے ملاقات ہاؤس اریسٹ شو میں ہوئی تھی, جس کی وہ میزبانی کر رہا تھا۔ لیکن بعد میں متاثرہ نے ہاؤس اریسٹ شو میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا, اسی وقت اعجاز خان نے متاثرہ کا نمبر لیا اور پھر اس سے گفتگو شروع کر دی۔ 24 مارچ کو اعجاز نے متاثرہ کو فون کیا اور پھر کے بعد ویڈیو کالنگ بھی کی اور کہا کہ مجھے بھگوان پر اعتقاد ہے, اور پھر اس نے شادی کا بھی لالچ دیا۔ متاثرہ نے کہا کہ میری بہن کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد اعجاز خان نے متاثرہ کے ساتھ کاندیولی بھومی پارک میں رشتہ قائم کیا اور یہ اس کی مرضی کے خلاف تھا, اس کے بعد 4 اپریل کو ایس وی روڈ پر بلایا اور پھر وہاں بھی جنسی استحصال کیا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com