Connect with us
Saturday,23-August-2025
تازہ خبریں

سیاست

ملاڈ حلقہ اسمبلی کے ایم ایل اے شیخ اسلم کی سیٹ خطرے میں

Published

on

ممبئی ملاڈ حلقہ اسمبلی میں مسلم آبادی ۷۰؍فیصد کے قریب ہے، ۲۰؍سالوں سے کانگریس پارٹی کا رکن اسمبلی منتخب ہوکر ملاڈکی حالات کو سدھارنے میں ناکام رہا ہےہیں،جس میں سے ۱۰؍سال تک اسلم شیخ نے رکن اسمبلی کا خطاب اپنے نام کیا لیکن کام کے معاملہ میں ناکام نظر آئے ہیں اسی وجہ سے عوام میں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔ اس بات کا احساس اسلم شیخ کو ضرور ہوا ہوگا اسی لیے بی جے پی کی طرف رخ کرنے کا من بنایا ہوگا ، حلقہ کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بی جےپی ہر بدعنوان رکن اسمبلی کی بدعنوانی کی فائل کھولنے کی تیاری میں ہے ،اسی لیے جو ایم ایل ایز نے کام نہیں کئے ہیں انہیںعوام سے زیادہ بی جے پی سے ڈر لگنے لگا ہے۔عوام پانچ سال بعد جذباتی ہوکر ووٹ ڈالتی ہے، لیکن سیاسی سطح پر بدنامی کا دھبہ اپنے دامن میں لگانے کے لیے کوئی سیاسی عہدیدار تیار نہیں ہوتا ہے۔بی جے پی میں شمولیت کی خبریں تو اخبارات کی سرخیاں بنی تھی لیکن اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیسو پرساد موریہ رمیش سنگھ ٹھاکور کے دفتر کا افتتاح کرنے کے وقت اس بات کا خلاصہ کیا ہے کہ کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے اسلم سیخ بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے آئے تھے ہم نے انہیں قبول نہیں کیا بلکہ باہر کا راستہ دکھا دیا ہے ان کی جگہ ملاڈ حلقہ اسمبلی سے بی جے پی نے کاندیولی کے رمیش سنگھ ٹھاکور کو ٹکٹ دے دیا ہے۔۷۰؍فیصد مسلم علاقوں میں کام کرکے عوام کا دل جتنے کا سنہری موقع اپنے ہاتھوں سے گنوانے والے اسلم شیخ بڑی غلطیاںکرکے عوام کے درمیان بیزاری کاسبب بن گئے ہیں۔کام کے متعلق بات کی جائے تو مالوانی میں سب سے بڑا مسئلہ ٹریفک کا رہا ہے جسے ۱۰؍سالوں میں حل نہیں کیا گیا ہے۔مالوانی میں مہاڈا نمبر ۱ ؍سے مہاڈا نمبر ۸؍تک ڈیڑھ کلو میٹر کا راستہ ہے ،ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔جرائم کا تناسب بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام میں پریشانی پائی جارہی ہیں۔ ڈرگس کے معاملہ میں پولس پر ایم ایل اے کا دباؤ نہیں بننے کی وجہ سے کھلے عام ڈرگس کی خرید وفروخت ہوتی رہی ہے۔کئی علاقوں میں پانی کی پائپ لائن نہیں ہے،جس کے سبب ساکنان کو بہت دشواریاں برداشت کرنا پڑتا ہے۔جن علاقوں میں کئی دنوں بعد پانی مہیا کرایا جاتا ہے تو ایک گھنٹہ تک خراب پانی نلوں میں آتا ہے، پانی کی نکاسی کا کوئی مثبت منصوبہ بنانے کی کوشش اسلم شیخ نے کیوں نہیں کی؟مدینہ مسجد اور جامع مسجد کے باہر گٹر کا پانی بہتا رہتا ہے، بارش کے علاوہ گرمیوں میں بھی سڑک پر گٹر کا پانی بہتا رہتا ہے جس کی وجہ سے نما زیوں کو تکالیف ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ اسلم شیخ اپنے حامیوں کے ساتھ ناریل پھوڑکر عوام کو خوش فہمی میں مبتلا کردیتے ہیں کہ جلد ہی کام کی شروعات ہوجائے گی لیکن ایک ہی جگہ تین مرتبہ ناریل پھوڑنے کے باوجود کام نہیں کیا جاتا ہے۔ اسلم شیخ کے ایک قریبی شخص نے نام نہ لینے کی شرط پر بتایا کہ بس ڈپو نمبر ۸؍ کے بالمقابل خستہ حال سڑک کی مرمت کرنے کو کہا ،سڑک پر کئی مرتبہ ناریل پھوڑا گیا وہاں ناریل کا جھاڑ اُگ گیا لیکن سڑک کی مرمت نہیں ہوسکی ۔بہت مشکل سے دوسرے لیڈر کو بول چال کرکے سڑک بنائی گئی ،اس طرح کوئی بھی کام مستحکم طریقے سے نہیں کیا گیا جس کے سبب عوام میں شدید ناراضگی پائی جارہی ہے۔ جس طرح بی جے پی نے اسلم شیخ کو باہر کا راستہ بتایا ہے ،اسی طرح حلقہ کی عوام اسلم شیخ کو گھر کا راستہ بتا سکتی ہے۔

بین الاقوامی خبریں

میانمار کی ریاست راکھین میں ایک نئی جنگ شروع… اراکان آرمی کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے چیلنج کا سامنا ہے۔

Published

on

Myanmar

اسلام آباد : میانمار میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) نے صوبہ رخائن میں اراکان آرمی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں اراکان آرمی کے کئی جنگجوؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے بیان کے مطابق یہ حملہ تاونگ پیو لٹ میں ہوا۔ اس دوران اراکان آرمی کے دو کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ 10 اگست کی رات تقریباً 11 بجے شروع ہوا اور تقریباً 50 منٹ تک جاری رہا۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں اراکان آرمی کے کم از کم 5 جنگجو ہلاک اور 12 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران اراکان آرمی کے درجنوں جنگجو موقع سے فرار ہو گئے۔

گونج نیوز کی رپورٹ کے مطابق اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مسلح گروپ میانمار کی مسلم روہنگیا آبادی میں سرگرم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کو پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ سمیت کئی دوسرے دہشت گرد گروپس کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کا عروج میانمار کی سرحد سے متصل ہندوستانی علاقوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اراکان آرمی میانمار کا ایک باغی گروپ ہے جو 2009 میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں بدھ مت کی آبادی کے لیے زیادہ خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ فی الحال، اراکان آرمی میانمار کے راکھین صوبے کے 17 میں سے 15 قصبوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ یہ گروپ پہلے ہی مختلف دھڑوں کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جن میں میانمار آرمی اور دیگر عسکریت پسند گروپس جیسے اے آر ایس اے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اراکان آرمی کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے میانمار میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اس کام کے لیے بنگلہ دیش کے بنیاد پرستوں کو بھی اپنے پیادوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم روہنگیا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی میں شامل ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپوں میں کئی کیمپ لگائے ہیں جن میں انہیں ہتھیار اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

Continue Reading

بزنس

ممبئی اور مہاراشٹر میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو اگلے پانچ سال تک نہیں دینا پڑے گا ٹول ٹیکس، جانیں سب کچھ

Published

on

Atal-Setu..

ممبئی : ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اب انہیں ممبئی میں اٹل سیتو پر اپنی ای وی پر سفر کرتے ہوئے ٹول ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے لیا گیا فیصلہ 22 اگست 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔ نجی اور سرکاری گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں آئیں گی۔ اس فیصلے سے چار پہیہ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرک بسوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اٹل سیٹو سے روزانہ تقریباً 60 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد الیکٹرک گاڑیوں کی ہے۔ حکومت نے 2030 تک ای وی کو ٹول ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹل سیٹو پر ایک کار کا ٹول 250 روپے ہے۔ یہ ٹول دسمبر 2025 سے لاگو ہے۔

ریاستی حکومت نے اپریل 2025 میں ‘مہاراشٹرا الیکٹرک وہیکل پالیسی’ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اٹل سیٹو، ممبئی-پونے ایکسپریس وے اور سمردھی ہائی وے پر برقی چار پہیہ گاڑیوں اور بسوں کو ٹول چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو ریاستی اور قومی شاہراہوں پر 50 فیصد رعایت ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کمشنر وویک بھیمنوار نے کہا کہ اٹل سیٹو پر ٹول معافی کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے۔ اس کا نفاذ جمعہ سے ہو جائے گا جبکہ یہ سہولت دیگر شاہراہوں پر بھی 2 روز میں شروع ہو جائے گی۔

پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکٹرک مال بردار گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گی۔ حکام کے مطابق، یہ چھوٹ سرکاری اور نجی شعبے میں ای وی کو اپنانے کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ یہ نیا اصول اٹل سیتو پر شیواجی نگر اور گاون میں واقع ٹول بوتھوں پر جمعہ سے نافذ ہو جائے گا۔ حکام کو امید ہے کہ اس پالیسی سے ای وی کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا ہوا بیڑا ہے، جو اس اقدام سے براہ راست فائدہ اٹھائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18,400 لائٹ فور وہیلر، 2,500 ہلکی مسافر گاڑیاں، 1,200 بھاری مسافر گاڑیاں اور 300 درمیانے درجے کی مسافر گاڑیاں، کل 22,400 الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اٹل سیٹو سے روزانہ اوسطاً 60,000 گاڑیاں گزرتی ہیں۔

Continue Reading

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com