Connect with us
Saturday,23-November-2024
تازہ خبریں

جرم

منہ بولی بیٹی نے عاشق کے ساتھ مل کر باپ کا بہیمانہ قتل کیا، عاشق ومعشوق پر قتل کی واردات انجام دینے کا کیس درج کیا گیا

Published

on

جرم کی واردات کتنے بھی شاطر طریقے سے انجام دی جائے، مجرم کوئی نہ کوئی سراغ چھوڑ جاتا ہے، ایسے ہی کرائم برانچ نے قتل کی گُتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہوئی ہے،کرائم برانچ نے ٹیلرنگ شاپ کے لوگو(علامت لفظ) کی مدد سے تفتیش کرتے ہوئے ماہم درگاہ کے عقبی حصہ میں سمندر میں تیرتے ہوئے سفید کالے رنگ کے امریکن سیاح کمپنی کے سوٹ کیس میں ملے لاش کے ٹکڑوں کا معمہ حل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔. اس سنسنی خیز واردات میں 59 سالہ مقتول بینیٹ ریبیلو نامی شخص کی 19 سالہ منہ بولی بیٹی آرادھیا عرف ریا بینیٹ ریبیلو اور اس کے16 سالہ عاشق کو گرفتار کرلیا گیا۔ کرائم برانچ نے بتایا ملزمہ کا دعوٰی ہے کہ اس کا منہ بولا باپ بینیٹ ریبیلو جنسی زیادتی کرتا تھا؟ اس کے علاوہ بینیٹ ریبیلو اس کے پیار میں بھی رخنہ اندازی کر رہا تھا۔ ملزمہ کا اصل نام آرادھیا جتیندر پاٹل ہے۔ بعد میں وہ ریا بینیٹ ریبیلو ہوگئی۔ کرائم برانچ کو ملزمین نے بیان دیا ہے کہ 26 نومبر کو شام کے وقت آرادھیا اور اس کے عاشق نے لاٹھی ڈنڈے سے پیٹ پیٹ کر بینیٹ ریبیلو کو شدید زخمی کردیا۔ دونوں نے چاقو سے حملہ کرکے بینیٹ ریبیلو کا قتل کیا۔ ملزمین نے بینیٹ ریبیلو کے منہ میں مچھر مارنے کی دوا بلیک ہٹ بھی ڈالا تھا۔قتل کی واردات انجام دینے کے بعد کمسن ملزم نے موبائل فون سے لاش کی تصاویر کھینچی۔ ثبوت مٹانے کی غرض سے لاش کو ٹھکانے لگانے کے مقصد سے ملزمین تیز دھار ہتھیاروں سے لاش کے تین ٹکڑے کئے۔ ملزمین لاش کے ٹکڑوں کو بیگ میں بھر کر آٹو رکشہ کے ذریعے ایک ایک کرکے تین دنوں میں میٹھی ندی میں پھینک دیا تھا۔ جس میں سے ایک سوٹ کیس پانی میں بہتے ہوئے ماہم درگاہ کے عقبی حصہ میں پہنچا۔ عیاں رہے 2 دسمبر کو ماہم درگاہ کے عقب میں سمندر میں تیرتے ہوئے سوٹ کیس میں ایک ہاتھ، ایک پیر اور پلاسٹک کی کالی تھیلی میں پرائیویٹ اعضاء کے علاوہ دو عدد شرٹ، ایک پینٹ اور ایک مرون کلر کی سویٹر برآمد ہوا تھا۔ کرائم برانچ نے بتایا برآمد شرٹ کے کالر پر ” المو مینس ویئر ” کا لوگو تھا۔ اس کے بعد کرائم برانچ کرلا ویسٹ بلگرامی روڈ پر واقع المو مینس ویئر نامی دکان پر پہنچی اور دکان کے مالک افروز انصاری سے تفصیلات حاصل کی۔ افروز انصاری نے کرائم برانچ کا تعاون کرتے ہوئے کرائم برانچ کو ١٠٠ عدد رسید بک دیا۔ کرائم برانچ نے بل بک کی باریک بینی کے ساتھ ہر زاویہ سے معائنہ کیا اور دو گاہکوں کی نشاندہی کی۔ نام کے ساتھ بل پر ایک گاہک کا موبائل نمبر لکھا ملا۔ کرائم برانچ ایوب نامی گاہک کے گھر پہنچی۔ جہاں ایوب موجود تھا۔ ایوب کے پاس المو مینس ویئر کے یہاں سے سلائی گئی شرٹ بھی ملی۔ کرائم برانچ کو دیگر رسید میں بینیٹ نام لکھا ہوا ملا اور سوٹ کیس میں برآمد شرٹ کے کلر کا ہوبہو ٹکڑا بل پر ملا۔ کرائم برانچ نے فیس بک پروفائل سرچ کے دوران بینیٹ ریبیلو کے جسم پر موجود مرون کلر کی سویٹر دیکھا۔ پروفائل میں بینیٹ ریبیلو کی فوٹو اور وزیٹنگ کارڈ بھی تھا ۔ پتہ ملتے ہی کرائم برانچ کی ٹیم کالینا، واکولا مسجد کے قریب، دوارکا کنج شاپ نمبر 5 پر خفیہ طریقے سے تفتیش کی۔ کرائم برانچ کو معلوم ہوا کہ گزشتہ آٹھ دس دنوں سے بینیٹ ریبیلو علاقے میں نظر نہیں آیا۔ اس دوران کرائم برانچ کو علم ہوا کہ بینیٹ ریبیلو اپنی منہ بولی بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ پختہ یقین کے بعد کرائم برانچ نے آرادھیا اور اس کے عاشق کو پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا۔ تفتیش کے دوران ملزمین نے اعتراف جرم کر لیا۔ جرم قبول کرتے ہی کرائم برانچ نے دونوں مجرمین کو گرفتار کرلیا۔ مجرمین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 201/302 کے تحت کیس درج کرلیا گیا۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com