Connect with us
Sunday,24-November-2024
تازہ خبریں

جرم

مسلم لڑکے سے عشق, لڑکی کے قتل کا سبب بن گیا !

Published

on

murder

خیال اثر مالیگانوی

ہندوستانی تہذیب و تمدن ایک طویل عرصہ سے سنت کبیر کے دست نگر رہا ہے. کبیرا کھڑا بجار میں مانگے سب کی خیر نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر جیسے دوہوں پر ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب صدیوں سے رواں دواں رہی ہے. بالکل اسی “عشق نہ پچھے جات” کے مصداق پیار محبت، عشق اور نفرت و عداوت کبھی بھی ذات برادری دیکھ کر نہیں کی جاتی. دوستی دشمنی کے درمیان کوئی بھی دیوار پل بھر کا تماشہ ہوتی ہے. کبھی معمولی معمولی باتیں بھی دلوں میں دراڑ ڈال دیتی ہیں، تو کبھی نسل در نسل چلنے والی دشمنیاں لمحوں میں دوست بنا جاتی ہیں. اسی طرح عشق محبت کے درمیان حائل تمام تر فاصلوں کو لمحوں میں محیط کر جاتے ہیں. کسی کا رخ زیبا پتھر دل انسان کو بھی موم بنا دیتا ہے. عشق اور محبت وہ الوہی جذبہ ہے، جو ایک لمحہ میں دلوں کو تسخیر کر جاتا ہے، اور اس ایک لمحے میں نہ تو مذہب حائل ہوتا ہے، نہ ہی امیری غریبی کی دیواریں، عمر کے تمام تر فاصلے بھی اس ایک لمحے کی دسترس میں آ کر تمام بھید بھاؤ مٹا جاتے ہیں. ایسا ہی ایک واقعہ اتر پردیس کے سنت کبیر نگر بستی میں پیش آیا. تفصیلات کے مطابق کیلاش یادو نامی شخص کی جواں سال “رنجنا یادو” نامی بیٹی کو بیلا گھاٹ، شاہ پور گاؤں کے مسلم بس مالک سے محبت ہو گئی تھی، اور اس محبت کے جنون کی انتہا یہ ہوئی کہ دسمبر 2019 میں انجنا نامی یہ لڑکی اپنے محبوب کے ہمراہ فرار ہو گئی تھی، تب رنجنا کے اہل خانہ نے مسلم بس مالک کے خلاف اغواء کا مقدمہ درج کرایا تھا. پولیس کی بے جا سختیوں اور پابندیوں کی وجہ سے چند مہینوں کے بعد محبت کی دیوانی رنجنا واپس لوٹ آئی تھی. واپس لوٹتے ہی رنجنا نے اپنے محبوب کو قانون کی گرفت سے محفوظ رکھنے کے لئے ببانگ دہل بیان دیا تھا کہ وہ بالغ ہے، اور اپنی مرضی سے ہی اپنے محبوب کے ساتھ گئی تھی. واپس لوٹنے کے بعد رنجنا کے والدین نے اس پر بے شمار پابندیاں عائد کر رکھی تھیں. بے جا پابندیوں اور سختیوں کے باوجود رنجنا اکثر اپنے محبوب سے ملنے جایا کرتی تھی. عاشق و معشوق کا یہ ملن ہجر کی منزلوں سے گزر کر وصال کی حدوں تک جا پہنچتا تھا، اور یہی حدیں رنجنا کے اہل خانہ کو کھٹکتی رہتی تھیں. رنجنا کا اپنے محبوب سے ملن اس کے گھر والوں کی بدنامی کا باعث بنتا جا رہا تھا، اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن رنجنا کے والدین نے اپنی ہی بیٹی کے قتل کا منصوبہ بنایا. منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سب سے پہلے انھوں نے اپنے داماد ستیہ پرکاش سے رابطہ قائم کیا. داماد ستیہ پرکاش نے سیتا رام نامی شخص سے بات کی تب اس نے انھیں ورون تیواری پنٹو نامی شخص سے قتل کے اس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے راضی کیا. ورون تیواری پنٹو نے رنجنا کو قتل کے لئے دیڑھ لاکھ روپیے کا مطالبہ کیا. رنجنا کے اہل خانہ نے اسے ایک لاکھ 35 ہزار روپیے ادا کردیئے اور پھر ایک دن یوں ہوا کہ 3 فروری کی رات ورون نامی شخص اپنے ڈرائیور دوست کے ساتھ ٹاٹا میجک میں سوار کیلاش کے گھر جا پہنچا، چونکہ رنجنا کو جان سے مارنے کے لئے اس کے گھر کے سبھی افراد راضی تھے، اسی لئے رنجنا کے بھائی اجیت نے زبردستی اسے ٹاٹا میجک نامی گاڑی میں بے دردی سے ٹھونس دیا، اور یہ گاڑی رنجنا کو لئے روانہ ہو گئی. رنجنا کے والد کیلاش موٹر سائیکل پر ورون کو ساتھ لئے اپنی بیٹی کے پچھے پچھے چل دیئے. رنجنا کو سنت کبیر نگر بستی سے گاڑی میں سبھی لوگ دھن گھاٹا تھانہ علاقہ میں کوچہ روڈ پر ایک سنسان اور ویران مقام پر واقع ایک کمرے میں لے جا کر مقفل کر دیا گیا. خود کو زبردستی لانے اور قید کرنے کو لے کر رنجنا نے جب شور وغل مچایا تو رنجنا کے بھائی اجیت نے اس کے منہ اور ناک کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے بری طرح دبائے رکھا. اس طرح جب رنجنا بے ہوش ہو گئی تو کمرے میں باردان وغیرہ پھیلانے کے بعد بے ہوش رنجنا کو اس پر پٹک دیا گیا، اور انتہائی سفاکانہ طریقہ سے نیم بے ہوش رنجنا کے جوان اور خوب صورت بدن پر پٹرول چھڑکتے ہوئے آگ لگا دی. آگ لگانے کے بعد کیلاش، ورون، سیتا رام تیواری، اجیت پر مشتمل چاروں افراد زندہ جلتی ہوئی رنجنا کو چھوڑ کر فرار ہوگئے. 3 فروری کو رنجنا نذر آتش کی گئی تھی دوسرے دن ہی رنجنا کی مسخ شدہ ادھ جلی لاش پولیس کو دستیاب ہو گئی. پولیس نے جب باریک بینی کے ساتھ معاملہ کی تفتیش شروع کی تو جلد ہی سارا معاملہ عیاں ہوگیا. پولیس نے معاملہ کی سنگینی دیکھتے ہوئے رنجنا کے والد بھائی اور بہنوئی سمیت چاروں ملزمین کو گرفتار کرتے ہوئے عدالت میں پیش کیا، جہاں سے انھیں جیل روانہ کر دیا گیا ہے.

دھن گھٹا علاقہ کے ایک کھیت میں موجود غیر آباد مکان سے جب ایک جوان لڑکی کی ادھ جلی لاش پولیس کو دستیاب ہوئی، تو پولیس نے لاش کی شناخت جیتو پور گاؤں کی ساکن رنجنا یادو کے نام سے کی. پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موت کی وجہ دم گھٹنے سے بتائی گئی تھی، لیکن یہ واضح نہیں ہو پایا تھا کہ رنجنا کی موت گلا گھوٹنے سے ہوئی تھی یا دھویں سے اس کا دم گھٹ گیا تھا. پولیس کی باریک بینی سے تفتیش نے سارا معاملہ سامنے لایا تو مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی کے عشق کا معاملہ کھل کر سامنے آ گیا، اور یہ بھی واضح ہوا کہ ہندو لڑکی کے والدین نے مسلم لڑکے کے عشق میں گرفتار اپنی بیٹی رنجنا کی وجہ سے ہونے والی بدنامیوں سے مجبور ہو کر انھوں نے اپنی ہی جوان بیٹی کو بے دردی سے قتل کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا. خیال رہے کہ پولیس نے واقعے میں استعمال ہونے والے پٹرول کین اور بائک (موٹر سائیکل) برآمد کرلی ہیں۔ جبکہ ملزم ورون تیواری اور ٹاٹا میجک ڈرائیور کی تلاش کی جا رہی ہے۔ آئی جی بستی نے 15 ہزار روپے اور سنت کبیر نگر ایس پی سنتوش کمار سنگھ نے اس حساس واقعے کا انکشاف کرنے والی ٹیم کو 10 ہزار روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

اپنی بیٹی کے مسلم لڑکے کے ساتھ عشق و محبت نے بدنامیوں سے گھرے ایک خاندان کو سماج میں پھیلنے والی بدنامی سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی ہی جوان بیٹی کو بے دردی سے زندہ نذر آتش کر دیا گیا، اگرچہ وہ اپنی بیٹی کے لئے مسلم لڑکے کا ساتھ قبول کر لیتے تو وہ بدنامی چند روزہ ہوتی، اور اس کے بعد ہر کوئی اسے بھول بھی جاتا لیکن اپنی سگٌی بیٹی کو زندہ نذر آتش کرنے کے بعد جیل میں قید رنجنا کے اہل خانہ کی یہ بدترین بدنامی کیا رنگ دکھائے گی. ہوسکتا ہے کہ جب یہ خونی مقدمہ فیصل ہو تو ان ملزمین کے نصیب میں یا تو تمام عمر قید لکھی جائے، یا پھر انھیں پھانسی پر لٹکا دیا جائے. جیل میں قید تمام ملزمین کی دلوں میں قید کے دوران صرف یہی ایک بات گونج رہی ہوگی کہ کاش وہ لوگ کوئی درمیانی راستہ اپناتے ہوئے ایسے رذلیل فعل سے دور رہتے تو آج ان کی رنجنا بھی زندہ ہوتی اور وہ بھی پابند سلاسیل نہ ہوتے.

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

جرم

چھوٹا راجن کی حویلی سے 1 کروڑ اور راجستھان کے ایم ایل اے کے گھر سے 7 کروڑ کی چوری، 200 سے زائد ڈکیتی کے مقدمات درج، بدنام زمانہ منا قریشی گرفتار

Published

on

Arrest

ممبئی : 53 سالہ بدنام زمانہ چور محمد سلیم محمد حبیب قریشی عرف منا قریشی چوری کی 200 سے زائد وارداتوں میں ملوث ہے، جس میں گینگسٹر چھوٹا راجن کے آبائی گھر سے ایک کروڑ روپے اور ایک کے گھر سے ایک کروڑ روپے کی چوری بھی شامل ہے۔ راجستھان کے ایم ایل اے کو بوریولی میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ جرائم کرنے کے لیے منا زیادہ تر امیر اور بااثر لوگوں کے گھروں کو نشانہ بناتا تھا۔ بوریولی میں رہنے والے ایک تاجر کی رہائش گاہ سلور گولڈ بلڈنگ کے فلیٹ سے 29 لاکھ روپے کی قیمتی اشیاء کی چوری کا تازہ معاملہ سامنے آیا ہے۔

پی آئی اندرجیت پاٹل کی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ منا قریشی نے بوریولی چوری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے غریب لوگوں کے گھروں میں کوئی جرم نہیں کیا۔ امیر گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے وہ اپنے ساتھیوں غازی آباد کے 48 سالہ اسرار احمد عبدالسلام قریشی اور وڈالہ کے رہائشی 40 سالہ اکبر علی شیخ عرف بابا کی مدد لیتا تھا۔ اسرار اکبر کی مدد سے چوری کا سامان جیولرز کو فروخت کرتا تھا۔ چونکہ منا قریشی ایک عادی مجرم ہے۔ ان کے خلاف نہ صرف ممبئی بلکہ پونے، تلنگانہ، راجستھان، حیدرآباد میں بھی مقدمات درج ہیں۔

ان کے خلاف ممبئی میں 200 سے زیادہ مقدمات درج ہیں۔ ان میں 2001 میں چھوٹا راجن کی چیمبور رہائش گاہ میں چوری بھی شامل ہے۔ تاہم اس دوران اس کے دوست سنتوش کو چھوٹا راجن کے شوٹروں نے قتل کر دیا، جس کی وجہ سے منا خوفزدہ ہو کر ممبئی چھوڑ کر آندھرا پردیش چلا گیا۔ اس لیے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ حیدرآباد میں رہتا ہے۔ وہاں سے آنے کے بعد وہ ممبئی میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرتا تھا۔ حال ہی میں پوائی پولیس نے ایک معاملے میں منا کی شناخت کی تھی، لیکن وہ پولیس کو چکمہ دے کر فرار ہو گیا تھا۔

لوکیشن ٹریس کرنے کے بعد اسے پکڑا گیا، پولیس کے مطابق منا اور اس کے رشتہ دار بھی چوری اور ڈکیتی میں ملوث ہیں۔ منا کے تین بچے ہیں اس کی بیوی اور بہنوئی کے خلاف بھی چوری کے مقدمات درج ہیں۔ جب وہ بوریولی میں چوری کرنے کے بعد حیدرآباد فرار ہو رہا تھا تو اٹل سیٹو پر اس کا مقام پایا گیا۔ نئی ممبئی پولیس کی مدد سے منا کو ٹریس کرکے پکڑا گیا ہے۔

Continue Reading

جرم

ممبئی کے کرلا میں ایک شخص کو کمیشن کے نام پر لوگوں سے بینک کھاتہ کھول کر سائبر فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا۔

Published

on

cyber-crime

ممبئی : کرلا پولس نے ایک دھوکہ باز کے خلاف دھوکہ دہی کا معاملہ درج کیا ہے، جس نے عام لوگوں کو کمیشن کا لالچ دے کر انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کے لیے دلایا اور پھر سائبر فراڈ کے لیے ان کا استعمال کیا۔ ذرائع کے مطابق کھاتہ داروں کے نام پر 3 سے 5 فیصد کمیشن کا لالچ دے کر اکاؤنٹس کھولے گئے۔ پھر اس کا ویزا ڈیبٹ کارڈ دوسرے ملک میں بیٹھے جعلسازوں کو بھیجا گیا۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ایک نیشنل بینک کے منیجر نے ایک شخص کو بینک اور اے ٹی ایم سینٹر کے گرد منڈلاتے دیکھا۔ منیجر کو شک ہوا کہ ہر دوسرے دن ملزم کو بینک میں اے ٹی ایم کے باہر گھنٹوں بیٹھا دیکھا جاتا ہے۔ منیجر نے اپنے ملازمین سے مشتبہ شخص کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کو کہا۔

جب اس شخص کو کیبن میں بلا کر پوچھ گچھ کی گئی تو اس نے برانچ میں 10 اکاؤنٹس کھولنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ وہ رائے گڑھ ضلع کے کرجت کا رہنے والا ہے۔ اس نے اپنا نام عامر مانیار بتایا۔ دوران تفتیش ملزم نے ابتدائی طور پر کھاتہ داروں کو اپنا رشتہ دار بتایا تاہم تفتیش میں سختی کے بعد تمام راز کھلنے لگے۔ اس کے بعد بینک منیجر نے ملزم کے بارے میں کرلا پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس نے جب اس سے اچھی طرح پوچھ گچھ کی تو اس نے اعتراف کیا کہ ایک ماہ کے اندر اس نے بینک کی اس برانچ میں 35 اکاؤنٹس کھولے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا کہ تمام کھاتہ داروں نے ویزا ڈیبٹ کارڈ لیے ہوئے تھے۔ چونکہ اس کارڈ میں بیرون ملک سے بھی رقم نکالنے کی سہولت موجود ہے، اس لیے فراڈ کے شبہ کی تصدیق ہوگئی۔ کرلا پولس کے سائبر افسر نے بتایا کہ چونکہ وہ انتخابی انتظامات میں مصروف تھے، ملزم کو نوٹس دے کر گھر جانے کی اجازت دی گئی۔ انتخابی نتائج کے بعد ان سے دوبارہ پوچھ گچھ کی جائے گی۔ پولیس اس سائبر فراڈ کے ماسٹر مائنڈ کا پتہ لگائے گی اور یہ پتہ لگائے گی کہ یہ رقم کس ملک سے نکالی جا رہی تھی۔ شبہ ہے کہ اس ریکیٹ میں عامر مانیار کے علاوہ کئی اور لوگ بھی شامل ہیں۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ کے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے، یہ خبر ہندوستان کے بڑے تاجروں کے لیے اچھی نہیں ہے۔

Published

on

Adani-Group

امریکہ کے سیکورٹیز ریگولیٹر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (ایس ای سی) نے اڈانی گروپ پر رشوت ستانی کا الزام لگایا ہے۔ یہ خبر ہندوستان کے بڑے کاروباری گروپوں اور ہندوستانی معیشت کے لیے اچھی نہیں ہے۔ اڈانی گروپ بڑے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایس ای سی کے الزامات درست ہیں یا نہیں یہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ لیکن اس سے ایک بات واضح ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو عالمی سطح پر کاروبار کرنے کے لیے کچھ بڑی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ آج دنیا گلوبلائز ہو چکی ہے۔ سرمایہ، سامان اور ہنر ملکی سرحدوں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احتساب اور شفافیت کی توقعات بھی بڑھ گئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہندوستانی کمپنیوں کو بین الاقوامی معیارات پر پورا اترنا ہوگا۔

ایس ای سی اپنے صرف 1% مقدمات کو غیر ملکی کرپٹ پریکٹس ایکٹ (ایف سی پی اے) کے تحت چلاتا ہے۔ ایسے میں جرمانہ بھی بہت بھاری ہے۔ تاہم، ایس ای سی اپنے 98% مقدمات تصفیہ کے ذریعے طے کرتا ہے۔ جرمانہ عائد ہوتا ہے یا نہیں، جرم قبول کیا جاتا ہے یا نہیں، یہ انفرادی کیس پر منحصر ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اڈانی کے کیس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہندوستانی کاروبار اور سیاست کا حصہ رہی ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن اس لیے ہوتی ہے کہ تاجر اور اہلکار اپنی کمپنیوں اور شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دے کر خود امیر بن جائیں۔ سرکاری اہلکار بھی رشوت لیتے ہیں۔ وہ تاجروں کے کام کو روکنے، تاخیر یا جلدی کرنے کے لیے رشوت لیتے ہیں۔ سیاسی بدعنوانی بھی ہے جو دوسری قسم کی کرپشن کو ختم ہونے سے روکتی ہے۔

بینک منیجر قرضوں کی منظوری کے لیے کمیشن لیتے ہیں۔ پرچیز مینیجرز صرف کمیشن کی بنیاد پر دکانداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ فنڈ مینیجر پر انسائیڈر ٹریڈنگ کا ہمیشہ شبہ رہتا ہے۔ وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بتاتے ہیں کہ ان کا فنڈ کن حصص میں سرمایہ کاری کرنے والا ہے۔ پھر ان کے دوست اور رشتہ دار پہلے ہی وہ حصص یا ان کے مشتق خرید لیتے ہیں۔ اور جب فنڈ ان حصص کو خریدتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ منافع کماتے ہیں۔ جب کوئی کمپنی دوسری کمپنی خریدتی ہے تو بیچی گئی کمپنی کے مالکان خریدار کمپنی کے پروموٹر کے غیر ملکی اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ خریدار کمپنی کو ہی لوٹ لیتے ہیں۔ لالچ اور پکڑے جانے یا سزا پانے کا کم امکان ہی ایسے رویے کو آگے بڑھاتا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہے۔

جب آج کی دولت مند دنیا کے صنعت کار امیر بننے کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے تو سرمایہ اکٹھا کرنا ایک گندا کام تھا۔ اس میں بحری قزاقی، غلاموں کی تجارت، غلاموں کے باغات، کالونیوں کی لوٹ مار، اور عورتوں، بچوں اور مزدوروں کا استحصال شامل تھا۔ ہندوستانی صنعت کار اپنی ترقی کے ابتدائی مراحل میں ہی امیر دنیا میں اپنے ہم منصبوں سے حسد کر سکتے ہیں اور اپنے ہی گندے چھوٹے طریقوں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ سب سے خطرناک کرپشن سیاسی کرپشن ہے۔ زیادہ تر ہندوستانی ‘دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت’ ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن چند لوگ ہی جمہوری مشینری کو چلانے کے لیے پیسے دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس مشینری میں سیاسی جماعتوں کے اخراجات، ملک بھر میں پھیلے ان کے دفاتر، ان کے کارکنان، سفر، تشہیر، ریلیاں وغیرہ شامل ہیں۔ توقع ہے کہ فریقین اپنی مرضی کے مطابق فنڈز اکٹھا کریں گے۔ اور یہی وہ کرتے ہیں۔

جب جی ڈی برلا نے بھی خاموشی سے کانگریس کو فنڈز دیے، تاکہ پارٹی مہاتما کے طور پر موہن داس کرم چند گاندھی کی شبیہ کو برقرار رکھ سکے اور دیگر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔ کوئی سیٹھ جی نہیں چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت یہ جان لے کہ وہ اس پارٹی کو کتنے فنڈز دے رہی ہے جو اس کا تختہ الٹنا چاہتی ہے۔ خاموش، غیر رسمی فنڈنگ ​​کی وہ روایت آزادی کے بعد بھی جاری رہی۔ شروع میں پیسہ صرف سیاست کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

رفتہ رفتہ، اس قسم کی فنڈنگ ​​میں بھتہ خوری، ریاست سے تحفظ کے بدلے رقم کا مطالبہ اور مہنگے سرکاری ٹھیکوں کے ذریعے عوامی خزانے کی لوٹ مار شامل تھی۔ یہ طریقے ذاتی دولت بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست کو فنڈ دینے کے لیے بھی استعمال کیے گئے۔ اس طرح ہماری سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ ​​کا انحصار ملک کی صنعتوں پر ہے۔ پھر کارپوریٹ گورننس کے ساتھ ساتھ اکاؤنٹس اور آڈٹ کی سالمیت کو بھی کمزور کرنا پڑتا ہے، سیاسی مشینری کو فنڈز فراہم کرنے کے لیے بڑی رقم کتابوں سے اتارنی پڑتی ہے۔

لبرلائزیشن کے ابتدائی سالوں میں، کمپنیوں کو سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے دوران کاروباری منافع چھپانے کے بجائے اعلان کرنے کے فوائد کا احساس ہوا۔ اس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹوں میں کمپنیوں کی بہتر تشخیص ہوئی اور پروموٹرز ارب پتیوں کی سیڑھی کے نچلے حصے پر چڑھ گئے۔ ستیم گھوٹالے میں کمپنی نے فرضی منافع ظاہر کیا اور ان پر ٹیکس بھی ادا کیا، تاکہ حصص کی قیمتیں بڑھیں اور انہیں گروی رکھ کر پیسہ بھی اٹھایا جاسکے۔

ستیم نے مارکیٹ سے پروجیکٹوں کی لاگت سے زیادہ رقم لی تھی۔ اس طرح اکٹھا کیا گیا اضافی سرمایہ سیاست دانوں، بیوروکریسی اور دیگر سیکورٹی آلات کو ادائیگیوں کے لیے درکار فنڈز بنانے کے لیے منصوبوں کے نفاذ کے دوران نکالا جاتا ہے۔ غیر ملکی فنڈز حصص خریدنے اور ان کی قیمتوں میں اضافے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں تاکہ حصص بیچ کر مارکیٹ سے لیے گئے قرضوں سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ کاروباری بدعنوانی اور سیاسی بدعنوانی کا باہمی گٹھ جوڑ کچھ عرصے کے لیے ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ یہ ملک کے اندر عام لگ سکتا ہے، لیکن باہر کے لوگوں کو یہ خوفناک لگتا ہے۔

کاروباری کرپشن تمام نظریات کی سیاست کو پروان چڑھاتی ہے۔ صنعت کو اس بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سیاسی مشینری کو فنڈنگ ​​کا متبادل راستہ بنانا ہوگا۔ اس کے لیے 1 ارب ووٹرز سے رضاکارانہ تعاون کی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ رقم بغیر کسی دباؤ کے رضاکارانہ طور پر آنی چاہیے تھی اور اس کے کھلے اکاؤنٹ ہونے چاہئیں۔ اس کے لیے سیاست کو صاف ستھرا ہونا پڑے گا۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو روکا جائے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت ایسے کاموں پر ہونے والے اخراجات کا حساب کتاب نہیں کر سکتی۔ ابھی تو عام ووٹرز کو ووٹ لینے کے لیے بھی پیسے دیے جا رہے ہیں، لوگوں کو پیسے دے کر ریلیوں میں لایا جا رہا ہے۔

صرف وہی شخص جس نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کیا ہو اسے گناہ کے مرتکب پر پہلا پتھر مارنا چاہیے۔ اس کہاوت کو عملی جامہ پہنانے سے ہندوستان جمہوری سیاست کے لیے رہنما بن سکتا ہے۔ اگر ہندوستانی سیاست اس پر عمل کرتی ہے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ہمارا مقصد اس سے بھی زیادہ پاکیزہ ہونا چاہیے – پتھر اٹھانا نہیں، بلکہ گناہ کو روکنا ہے۔ یہ مشکل ہو سکتا ہے، لیکن انتہائی مقدس ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com