Connect with us
Friday,22-November-2024
تازہ خبریں

خصوصی

موجودہ فارمیٹ میں این پی آر منظور نہیں، ریاستی حکومت 2010/11 کے مطابق مردم شماری کا فیصلہ کرے

Published

on

(خیال اثر)
اعلان کے مطابق رضا اکیڈمی کی تحریک پر مالیگاوں شہر میں اپن پی آر کے متعلق متفقہ فیصلہ لینے اور مشترکہ اقدام کے مقصد کے تحت ایک انتہائی اہم میٹنگ کا انعقاد حج ٹریننگ سینٹر میں کیا گیا، الحاج قاری زین العابدین رضوی کی صدارت میں منعقدہ اس میٹنگ میں تمام مسلک سے وابستہ علما اور اہم شخصیات نے شرکت کی، میٹنگ کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا، حمد اور نعت پاک کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پیش کرتے ہوئے رضا اکیڈمی کے رضوی سلیم شہزاد نے این پی آر کے حوالے سے ملکی حالات کا جائزہ پیش کیا اور کہا کہ شہر سمیت ریاست اور ملک بھر کے مسلمان خصوصی طور پر جبکہ عمومی طور پر ہر پچھڑی جات جماعت اور طبقات میں این پی آر کو لے کر تشویش کا ماحول ہے. ایسے حالات میں ہماری چھوٹی سی کوشش ہے کہ کم از کم مالیگاؤں شہر کی سطح پر تمام سیاسی، سماجی، مذہبی اور تعلیمی عمائدین اور سرکردہ افراد ایک رائے ہوجائیں تاکہ عوامی بے چینی کا خاتمہ ہوسکے. آپ نے حاضرین سے گزارش کی کہ این پی آر سے متعلق اختلاف رائے کی صورت میں احترامِ رائے ہم پر لازم ہے.
اس موقع پر سنی جمیعۃ الاسلام کے صدر اور کل جماعتی تنظیم کے ترجمان صوفی غلام رسول قادری نے کہا کہ پورا ملک سراپا احتجاج ہے، این پی آر کا بائیکاٹ پوری طاقت سے ہونا چاہیے، اس طرح کا فیصلہ آج کی اس اہم نشست میں ہونا چاہئے اور اس کا اعلان نماز جمعہ سے قبل شہر کی تمام مساجد سے بھی ہونا چاہیے، موصوف نے کہا کہ یہ وقت بیدار رہنے اور لوگوں کو بیدار کرنے کا ہے، رضا اکیڈمی نے موقع کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے جو قدم اٹھایا، وہ قابل تعریف ہے،
دارالعلوم غوث اعظم کے بانی حافظ ساجد حسین اشرفی نے اپنے خیالات پیش کرتے ہوئے رضا اکیڈمی کے اس بروقت اقدام کی سراہنا کی اور کہا کہ این پی آر کا سامنا کرنے کے لیے ایسے ہی اتحاد کی ضرورت ہے،
مقامی جماعت اسلامی کے امیر عبدالعظیم فلاحی نے اپنی بات رکھتے ہوئے این پی آر کے خلاف منصوبہ بند عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے نئے این پی آر فارمیٹ کی مخالفت کی لیکن یہ بھی کہا کہ کاغذات درست کروانے کی کارروائی ہونا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن محمدی (جمیعت اہل حدیث) نے کہا کہ ملک بھر میں شہریان کی تشویش بجا ہے، این پی آر نے مسلمانوں سمیت تمام طبقات کو مشکلات میں ڈال رکھا ہے، اس لئے اس عنوان پر محلہ وائز ٹیمیں تیار کی جانی چاہیے اور جو کچھ بھی تجویز یہاں منظور ہو اس پر عمل آوری کے لئے گھر گھر بیداری مہم چلانا چاہیے.
جنتادل کے بزرگ لیڈر حنیف صابر نے موجودہ این پی آر کی مخالفت پوری طاقت سے کئے جانے کی حمایت کی اور کہا کہ صوبائی و مرکزی حکومتوں تک اپنے مطالبات پہنچانا چاہیے اور انہیں بتانا چاہیے کہ موجودہ این پی آر کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، رسائٹ ٹو ڈے چینل کے روحِ رواں کاشف سمّن اور حفاظت گروپ کے عارف نوری نے مالیگاؤں میونسپل کمشنر سے ہوئی ملاقات اور این پی آر کے ضمن میں گفتگو کا خلاصہ سامعین کے روبرو پیش کیا، اور واضح کیا کہ مردم شماری اور قومی آبادی کا رجسٹر دو الگ الگ فارمیٹ ہیں. اس لئے ہمیں دونوں فارمیٹ پر گفتگو کرنا چاہئے.
مشہور محقق و ادیب اور این آر سی گائیڈ نامی کتاب کے مصنف ڈاکٹر الیاس وسیم صدیقی نے اس موقع پر اعتدال کا راستہ اختیار کرنے کی رائے پیش کی اور کہا کہ موجودہ این پی آر فارمیٹ کے بائیکاٹ کا اعلان کرنے سے قبل ہمیں حکومتی سطح پر دباؤ بناتے ہوئے کوشش کرنا چاہیے کہ 2010 کے فارمیٹ کے مطابق سروے ہو. اگر اس کوشش میں ہم ناکام ہوتے ہیں تو پھر بائیکاٹ کے متعلق متفقہ طور پر کوئی فیصلہ لیا جا سکتا ہے، جمیعتہ علماء ناسک ضلع کے صدر مولانا عبدالباری قاسمی شیخ الحدیث مدرسہ اسلامیہ نے اس موقع پر اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ اگر متنازعہ کالم حکومت ہٹا دیتی ہے تو پرانے فارمیٹ پر ہمیں پہلے بھی آبجیکشن نہیں تھا اب بھی نہیں ہونا چاہیے.
شہر کے معروف سیاست داں اور صنعت کار الحاج جمیل کرانتی نے کہا کہ اس میٹنگ میں سبھی مسلک سے وابستہ علماء اور ذمہ داران شہر کی موجودگی امید کی ایک روشن کرن ہے، میں رضااکیڈمی کی اس کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیتا ہوں، موصوف نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہو وہ ہم بے خوف ہوکر کریں اور پھر اس پر قائم رہیں، اس موقع پر آپ نے شہر کے اہم سیاسی قائد اور بیباک رہنما ساتھی نہال احمد کو بھی یاد کیا، اور ان کی مضبوط قوت ارادی کی تعریف کی، موصوف نے کہا کہ کسی طرح کی ڈُھل مُل پالیسی نہیں ہونا چاہیے اگر یہاں سے متفقہ طور پر بائیکاٹ کا فیصلہ ہوتو پھر اپنا مطالبہ پورے ہونے تک ہمیں اس پر ڈٹے رہنا چاہیے، پھر چاہے اس کے لیے جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
سنّی کونسل کے حاجی یوسف الیاس نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ این پی آر کو ہلکے میں نہ لیا جائے، یہ این آر سی تک پہنچنے کا چور راستہ ہے، اس لئے مسلمانوں کو اکیلے تحریک نہ چلاتے ہوئے غیر مسلم افراد، ادیباسی، دلت جیسے برادرانِ وطن کو بھی ساتھ لینا چاہیے، ہمارا احتجاج موجودہ این پی آر کے مکمل بائیکاٹ کا ہونا چاہیے اور پوری طاقت اور اتحاد کے ساتھ ہونا چاہیے، موصوف نے کہا کہ جمہوری ملک میں غیر جمہوری قوانین لانے والی مودی حکومت اس وقت بہت دباؤ میں ہے، اگر ہم نے اتحاد و اتفاق کے ساتھ این پی آر کا بائیکاٹ کردیا تو اسے اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہونا پڑے گا، سابق نائب مئیر اور مشہور صنعت کار جمیل سیٹھ زر والا نے اس موقع پر بیباکی سے اپنی رائے رکھتے ہوئے شہر کے سیاسی نمائندگان پر تنقید کی اور کہا کہ اس حساس موضوع پر رضا اکیڈمی نے جو پہل کی وہ قابل مبارکباد ہے، ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ شہر کی مذہبی اور سیاسی قیادت، دانشوران شہر کے ساتھ مل بیٹھ کر اس نازک اور حساس مسئلہ پر متفقہ طور پر کوئی ٹھوس فیصلہ لیتی، اس کے لیے یہ بڑا بہتر موقع تھا، لیکن سیاسی نمائندگان کی غفلت قابلِ افسوس ہے. انہیں سیاست سے ہی فرصت نہیں ہے، اس موقع پر آپ نے علمائے اسلام کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ آزادی کے قائد بھی علماء تھے اور آج این پی آر کے خلاف جو جدوجہد اور کوشش ہو رہی ہے اس کی قیادت بھی علماء ہی کر رہے ہیں. آپ نے کہا کہ اس مسئلہ پر غور و فکر کے بعد اتفاق رائے سے یہاں جو بھی فیصلہ ہو اس پر ہم سب سختی سے عمل کریں.
رضا اکیڈمی کے شکیل احمد سبحانی نے کہا کہ یہ ایک بڑا مشکل فیصلہ تھا، جسے ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہم نے کافی غور وخوص کے بعد کیا، موصوف نے تمام مسلک کے علماء اور دانشورانِ شہر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ این پی آر کے متعلق جو متفقہ فیصلہ یہاں ہوگا، رضا اکیڈمی اس فیصلے کی پرزور تائید وحمایت کرے گی، دارالعلوم محمدیہ کے ذمہ دار قاری طفیل احمد نے قوم و ملت کی بروقت رہنمائی پر رضا اکیڈمی کو مبارکباد دی اور این پی آر کے اضافی کالموں کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر مقررین کی طرح مرحوم بزرگ رہنما ساتھی نہال احمد کو یاد کیا، اور اس نشست میں موجود عمائدینِ شہر کے فیصلوں سے ہر طرح کے اتفاق کا اظہار کیا.
نوجوان صحافی مختار عدیل نے این پی آر سے متعلق اس حساس نشست کی نظامت بھی کی اور زیر غور آنے والے نکات کی وضاحت بھی دورانِ گفتگو کرتے رہے. آپ نے مردم شماری اور قومی آبادی کے رجسٹر کی تاریخی حیثیت پر گفتگو بھی کی.
سابق صدر بلدیہ محترمہ ساجدہ نہال احمد نے صوبائی اور ملکی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے مختلف حوالہ جات سے این پی آر کے مکمل بائیکاٹ کی تجویز رکھی اور کہا کہ وزیر داخلہ ہند کی زبانی یقین دہانیوں پر بالکل بھروسہ نہیں کیا جاسکتا. ان کی نیتوں میں خرابی ہے. اس لئے جب تک حکومتی سطح پر نوٹیفکیشن کی صورت میں کوئی بات سامنے نہیں آ جاتی، اس وقت تک ہمیں اپنے احتجاج کو جاری رکھنا چاہیے، محترمہ ساجدہ نہال احمد صاحبہ نے یہ بھی کہا کہ مردم شماری پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن این پی آر تو مکمل طور پر مشکوک ہے.
ماہر معاشیات پروفیسر عبدالمجید صدیقی نے اس نشست میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ این پی آر کے متعلق اتفاق رائے سے یہاں جو بھی فیصلہ لیا جائے گا میں اور میری تنظیم سی سی آئی اس فیصلے کے ساتھ رہے گی، لیکن کاغذات درستی کے کام کو روکا نہیں جانا چاہیے، آپ نے کہا کہ حکومت مہاراشٹر نے نئے کالموں کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی بنائی ہے تو ہمیں اس کمیٹی سے ملاقات کرکے حکومت تک اپنی بات رکھنا چاہیے اور اپنے مطالبات کو پوری طاقت سے منوانے کی کوشش کرنا چاہیے. آپ نے اپنے ادارہ سی سی آئی کی جانب سے رضا اکیڈمی کے اقدام کی سراہنا کی اور ہر تحریک پر ساتھ دینے کا وعدہ کیا.
مسجد تاج الشریعہ کے خطیب و امام حافظ انیس الرحمن رضوی نے بھی اس بات کی حمایت کی کہ پہلے حکومت پر دباؤ بنانے کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش ہو، ناکامی کی صورت میں عدم تعاؤن اور بائیکاٹ کا اعلان ہو.
کل جماعتی تنظیم اور راشٹریہ مسلم مورچہ کے قومی صدر مولانا عبدالحمید ازہری نے مختلف صوبوں میں جاری بامسیف کی اپنی تحریکی سرگرمیوں کے حوالے سے کہا کہ اس حکومت پر کسی بھی درجے میں بھروسہ نہیں کیا جاسکتا. اس لئے پوری طاقت کے ساتھ پورے ملک کے ادیباسی سماج، او بی سی، دلت اور سیکولر غیر مسلم افراد بھی این آر سی کے مکمل بائیکاٹ کا ذہن بنائے ہوئے ہیں. اس لئے اجتماعیت کا ساتھ لے کر ہمیں اس ناکارہ حکومت کو اس کے ارادوں میں ناکام بنانا چاہئے، اور این پی آر کا مکمل بائیکاٹ کیا جانا چاہیے.
ڈھائی گھنٹے تک مسلسل جاری رہنے والی اس میٹنگ میں 23 شرکاء نے این پی آر کے متعلق اپنی رائے پیش کی، ان تمام آراء کے پیش نظر جو تجویز تیار گئی، اسے ڈاکٹر الیاس صدیقی نے پڑھ کر سنایا،
تجویز :ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ گذشتہ 2010 میں ہوئے این پی آر کے مقابل اس مرتبہ 2020 کے این پی آر فارمیٹ میں جو زائد کالمس بڑھائے گئے ہیں حکومت مہاراشٹر اور مرکزی حکومت ان زائد کالموں کو ختم کرے، یعنی 2010 کے فارمیٹ کے مطابق اگر این پی آر تیار کیا جاتا ہے تو ہم سیاسی، سماجی، مذہبی اور تعلیمی افراد عوام سے گزارش کریں گے کہ پرانے فارمیٹ کے مطابق این پی آر کا استقبال کیا جائے اور حکومتی ملازمین سے مکمل تعاؤن کریں، بصورت دیگر ہم خود کو مجبور پاتے ہیں کہ این پی آر کے تعلق سے عدم تعاؤن Non Co operation کا رویہ اپنائیں. اس تجویز کے پیش ہونے کے بعد صوفی غلام رسول قادری، مولانا عبدالاحد ازہری، حاجی یوسف الیاس، حاجی حنیف صابر اور کل جماعتی تنظیم کی جانب سے یہ کہا گیا کہ مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے حکومت پر دباؤ بنانا چاہیے، جبکہ ڈاکٹر الیاس صدیقی، جمیل سیٹھ زر والے، پروفیسر عبدالمجید صدیقی اور صدر میٹنگ قاری زین العابدین وغیرہ کی رائے یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ مہاراشٹر نے خاص این پی آر کے مسئلے پر وزراء کی 6 رکنی کمیٹی بنائی ہے اس لیے پہلے اس کمیٹی کے اراکین اور وزیر اعلیٰ مہاراشٹر سے ملاقات کرتے ہوئے اپنا مطالبہ پیش کیا جائے، اور اگر مطالبات منظور نہیں ہوتے ہیں تو پھر بائیکاٹ کا اعلان کیا جائے، اس اختلاف رائے کی وجہ سے مذکورہ تجویز منظور نہیں کی جا سکی اور نا ہی تمام حاضرین کی دستخطوں کے ساتھ کوئی متفقہ اعلان جاری کیا جاسکا، لیکن اس بات پر سبھی شرکاء نے اتفاق کیا کہ این پی آر کا موجودہ فارمیٹ ہمیں منظور نہیں، مہاراشٹر حکومت اسے واپس لے، اور 2010 کے فارمیٹ کے مطابق این پی آر کروایا جائے، اسی طرح اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ ریاستی حکومت تک فوری طور پر اپنی گزارشات اور مطالبات کو پہنچایا جانا چاہیے اور ایک بڑے وفد کے ساتھ وزیراعلیٰ مہاراشٹر سے ملاقات کی کوشش بھی کرنا چاہیے، حافظ ساجد حسین اشرفی کی دعا پر خوشگوار ماحول میں اس عزم کے ساتھ اس میٹنگ کا اختتام ہوا کہ این پی آر کے خلاف ہماری یہ مشترکہ جدو جہد جاری رہے گی، عبدالحلیم صدیقی نے اظہار تشکر کیا- شرکا ئے میٹنگ، صوفی غلام رسول قادری (سنی جمیعت الاسلام)، مولانا عبدالباری قاسمی(جمیعةالعلماءضلع ناسک)، میڈم ساجدہ نہال احمد (سابق صدر بلدیہ)، مولانا عبدالحمید ازھری (مسلم پرسنل لاء بورڈ )، حاجی محمدیوسف الیاس (سنی کونسل)، جمیل کرانتی، قاری زین العابدین (سنی جمیعةالعلماء) مولانا عبدالعظیم فلاحی(صدر جماعت اسلامی)، شکیل احمد فیضی(جمیعت اہلحدیث )، حافظ اشفاق احمد محمدی(جمیعت اہلحدیث)، سمیع اللہ انصاری (مسلم لیگ )،جمیل سیٹھ زروالے، پروفیسر عبدالمجید صدیقی، ڈاکٹر الیاس وسیم صدیقی، عبدالحلیم صدیقی (سنیئر صحافی )، حافظ ساجد حسین اشرفی (دارالعلوم غوث اعظم )، محمد حنیف صابر (سیکریڑی ٹی ایم ہائی اسکول )، حافظ انیس الرحمن رضوی ( خطیب و امام مسجد تاج الشریعہ) حافظ احسان رضا ( مسجد مولانا یونس مالیگ )، قاری طفیل احمد محمدی (دارالعلوم محمدیہ)، مختار عدیل (صحافی )، خلیل عباس (صحافی )، محمد عارف نوری (حفاظت گروپ )، محمد کاشف سمن (رسائٹ ٹو ڈے)، عطاء الرحمن نوری ( جرنلسٹ )، حافظ محمد اسماعیل اشرفی، خیال اثر (صحافی) راحیل حنیف (انڈیا اگینس ہیٹ)، ندیم انجم چشتی، رضوان ربانی(ربانی چینل)، عمران راشد، (MAH ,MSO)، خیال انصاری (مدیر خیر اندیش)، سہیل احمد ڈالریا، محمد مصطفی آفندی سر، وسیم احمد رضوی، محمد فاروق فردوسی، محمد سلیم غازیانی(سابق کارپوریٹر)، حاجی ریاض عبداللہ (المدینہ ٹورس)، محمد آصف پارس گروپ، سلمان قاری، وغیرہ کے علاوہ رضا اکیڈمی کے صدیقی سلیم شہزاد، غلام فرید، امتیاز خورشید، حافظ شریف رضوی، الطاف تابانی، حاجی حامد رضوی، ظہیر قریشی، قاسم رضوی وغیرہ بھی اس موقع پر موجود تھے.

خصوصی

پی ایم مودی نے سب کو چھٹھ تہوار کی مبارکباد دی، نتیش کمار نے چھٹھ پوجا سے متعلق رسومات ادا کیں، تیجسوی نے بھی سب کو مبارکباد دی۔

Published

on

Chhath Puja & Modi

نئی دہلی : لوک عقیدے کا عظیم تہوار چھٹھ بہار-جھارکھنڈ سمیت کئی ریاستوں میں منایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو چھٹھ تہوار کی شام کی آرگھیہ کے لیے سب کو نیک خواہشات پیش کیں۔ پی ایم مودی نے ایکس پر پوسٹ میں لکھا، ‘چھٹھ کی سندھیہ ارگھیہ کے مقدس موقع پر آپ سب کو میری نیک خواہشات۔ دعا ہے کہ یہ عظیم تہوار، سادگی، تحمل، عزم اور لگن کی علامت، ہر ایک کی زندگی میں خوشیاں، خوشحالی اور خوش قسمتی لائے۔ جئے چھتی مایا!’ اس سے پہلے، جب 5 نومبر کو چھٹھ تہوار نہائے-کھے کے ساتھ شروع ہوا تھا، پی ایم مودی نے بھی ہم وطنوں کو مبارکباد دی تھی۔

پی ایم مودی نے 5 نومبر کو ایک ٹویٹ میں لکھا، ‘مہاپروا چھٹھ میں آج نہائے-کھے کے مقدس موقع پر تمام ہم وطنوں کو میری نیک خواہشات۔ خاص طور پر تمام روزہ داروں کو میری طرف سے مبارکباد۔ چھٹی مایا کی برکت سے میری تمنا ہے کہ آپ کی تمام رسومات کامیابی سے مکمل ہوں۔ آج چھٹھ کے تہوار میں غروب آفتاب کو ارگھیا چڑھایا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے اس خاص موقع پر عوام کو مبارکباد کا پیغام بھی دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھٹھ کی شام ارگھیہ کے مقدس موقع پر آپ سب کو میری نیک خواہشات۔ دعا ہے کہ یہ عظیم تہوار، سادگی، تحمل، عزم اور لگن کی علامت، ہر ایک کی زندگی میں خوشیاں، خوشحالی اور خوش قسمتی لائے۔ جئے چھتی مایا!

کانگریس پارٹی کے قومی صدر ملکارجن کھرگے، لوک سبھا لیڈر آف اپوزیشن راہول گاندھی اور پارٹی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے ہم وطنوں کو چھٹھ کی مبارکباد دی۔ کانگریس کے قومی صدر ملکارجن کھرگے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘X’ کے ذریعے ہم وطنوں کو چھٹ کی مبارکباد دی۔ انہوں نے لکھا، ‘چھٹ پر سب کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد، سورج دیوتا کی عبادت کا عظیم تہوار، طاقت کا سرچشمہ اور عقیدت، لگن، ایمان، نئی تخلیق کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ہماری عظیم ہندوستانی تہذیب، جو غروب اور چڑھتے سورج کو یکساں عزت اور احترام دیتی ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ فطرت کا احترام ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ فطرت کی عبادت کے لیے وقف یہ مقدس تہوار ہر ایک کی زندگی میں بے پناہ خوشی، خوشی، امن اور ہم آہنگی لائے۔

لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہول گاندھی نے ‘X’ پر لکھا، ‘سورج کی پوجا اور لوک عقیدے کے عظیم تہوار چھٹھ پوجا کے لیے دلی مبارکباد۔ مجھے امید ہے کہ یہ تہوار آپ سب کی زندگیوں میں نئی ​​توانائی اور طاقت ڈالے گا۔ اسی وقت، کانگریس پارٹی کی قومی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے آنجہانی شاردا سنہا کے لوک گیت کے ذریعے لوگوں کو لوک پرو چھٹھ کی مبارکباد دی۔ انہوں نے ‘X’ پر لکھا، ‘دکھوا مٹائی چھٹی مائیا، روے آسرا ہمارا، سب کے پورویلی مانسا، ہمرو سورج لینا پوکر…’ سورج کی پوجا، فطرت کی عبادت اور لوک عقیدے کے عظیم تہوار ‘چھٹھ پوجا’ کے لیے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد۔ چھٹی مایا آپ کی تمام زندگیوں میں خوشیاں، خوشحالی اور امن پھیلائے۔ جئے چھتی مایا۔

آر جے ڈی لیڈر تیجسوی یادو نے چھٹھ تہوار کے موقع پر ہم وطنوں کو مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت مشکل پوجا ہے۔ آج ہم سب ڈوبتے سورج کو ارغیہ پیش کریں گے۔ بڑی تعداد میں لوگ آئے ہیں۔ ہم چھٹی مائیا سے دعا کریں گے کہ امن قائم رہے، بہار ترقی کرتا رہے، ہر ایک کی زندگی میں خوشی اور سکون آئے، بہار اور ملک آگے بڑھے… اب یہ چھٹھ پوجا ملک سے باہر کئی ریاستوں میں منائی جا رہی ہے۔ ان لوگوں کو جو چھٹھ پوجا منا رہے ہیں۔

چار روزہ چھٹھ پوجا، جو کہ لوک عقیدے کی علامت ہے، ملک بھر میں منائی جارہی ہے۔ چھٹھ تہوار کے پہلے دن نہائے کھائے، دوسرے دن کھرنہ اور تیسرے اور چوتھے دن سورج دیوتا کو ارگھیا چڑھایا جاتا ہے۔ تیسرے دن شام کا ارگیہ اور چوتھے دن صبح کا ارگیہ دیا جاتا ہے۔ آج چھٹھ کے تیسرے دن کئی بڑے لیڈروں نے ہم وطنوں کو چھٹھ کی مبارکباد دی۔

Continue Reading

خصوصی

ممبئی نیوز : واشی فلائی اوور پر ٹریلرز کے ٹکرانے کے بعد سائین – پنول ہائی وے پر بڑے پیمانے پر ٹریفک جام

Published

on

By

Accident

ممبئی: سیون-پنویل ہائی وے کے ذریعے پونے کی طرف جانے والے مسافروں کو پیر کے روز ایک آزمائش کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو چار گھنٹے سے زیادہ تک چلنے والی ٹریفک کی جھڑپ میں پھنسا ہوا پایا۔ واشی فلائی اوور پر دو ٹریلر آپس میں ٹکرانے کے بعد بھیڑ بھڑک اٹھی۔

صورتحال سے نمٹنے کے لیے محکمہ ٹریفک نے تیزی سے 30 سے زائد پولیس اہلکاروں کو جمبو کرینوں کے ساتھ متحرک کیا تاکہ گاڑیوں کو ہٹانے اور معمول کی روانی کو بحال کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ جس کے نتیجے میں ٹریفک جام ایک کلومیٹر تک پھیل گیا۔

یہ واقعہ صبح 6 بجے کے قریب پیش آیا جب دو ملٹی ایکسل گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں کیونکہ معروف ٹریلر کا ڈرائیور بروقت بریک نہ لگا سکا۔ واشی ٹریفک کے انچارج سینئر پولیس انسپکٹر ستیش کدم نے وضاحت کی کہ بارش کے موسم نے سڑکوں کو پھسلن بنا دیا ہے۔ سامنے کا ٹریلر، بھاری دھات کے پائپوں کو لے کر، اس کے کلچ کے ساتھ تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جس کے نتیجے میں رفتار کم ہوئی۔ پیچھے آنے والا ٹریلر وقت پر رکنے میں ناکام رہا، جس کے نتیجے میں تصادم ہوا اور اس کے بعد ٹریفک جام ہوگیا۔

خوش قسمتی سے حادثے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ تاہم، مسافروں، بشمول دفتر جانے والے اور طلباء، نے ٹریفک جام کی وجہ سے ہونے والی نمایاں تاخیر پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ چیمبر سے واشی کا سفر کرنے والے طلباء اسکول کے اوقات کے تقریباً ایک گھنٹہ بعد اپنی منزل پر پہنچے۔

سڑک کے پورے حصے کو بلاک کر دیا گیا، جس سے ٹریفک ڈیپارٹمنٹ نے گاڑیوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا۔ دوپہر تک، بھیڑ کم ہوگئی کیونکہ دونوں ٹریلرز کو کامیابی کے ساتھ سڑک سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ٹریفک کی روانی کو آسان بنانے کے لیے فلائی اوور پر ایک لین کھلی رکھی گئی اور گاڑیوں کو پرانے فلائی اوور کو متبادل راستے کے طور پر استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔

Continue Reading

خصوصی

ٹیپوسلطانؒ سرکل راتوں رات مہندم، ٹیپوسلطانؒ سے زیادہ ساورکرکو دی گئی اہمیت

Published

on

By

Tipu Sultan's Circle

انگریزوں سے معافی مانگنے والے ساورکر کے مجسمہ کی تزئین کاری کے نام پر 20 لاکھ روپئے کے فنڈز کو مختص کئے جانے پر مسلمان تذبذب میں مبتلا تھے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے عامداروں نے ساورکر کے نام پر فنڈز کو منظوری نہیں دی، وہیں پہلی بار منتخب ہونے والے مسلم عامدار کی جانب سے 20 لاکھ روپئے کے فنڈ کو ہری جھنڈی ملنے کی مہیش مستری کی ویڈیو نے مسلم ووٹرس کو حیرت میں ڈالا تھا۔

گزشتہ چند ماہ قبل کی بات ہے، ایک چوراہے کا نام ٹیپوسلطانؒ کے نام سے منظوری لینے کی بات پر مسلم لیڈران میں آپس میں کریڈیٹ لینے کی زبانی جنگ شروع تھی، مسلم نگرسیوکوں کی جانب سے میئر اور آیوکت کو نیویدن دیا گیا تھا۔ حالانکہ اجازت اور منظوری نہیں ملی تھی۔ پھر اچانک ماریہ ہال کے پاس ٹیپوسلطانؒ کے نام سے سرکل تعمیر کیا، جس میں مختصراً ٹیپوسلطانؒ کے بارے میں لکھا تھا، شیر کا چہرہ اور دو تلواریں تھی، سب کو منہدم کر دیا گیا۔ اتنی بڑی شخصیت کے مالک کے نام سے منسوب سرکل کو بغیر سرکاری اجازت تعمیر کرنا عقلمندی ہے؟ یا پھر بی جے پی کو ہوا دینے اور فائدہ پہنچانے کے لیے یہ کام کیا گیا تھا؟ بی جے پی کو اچانک مندر کی مورتی توڑے جانے پر ٹیپو سلطانؒ سرکل کی یاد کیوں آئی؟ کئی مہینوں سے بنے سرکل کو مہندم کرنے کے لیے 9 جون کو ہی کیوں چنا گیا؟ پہلے بھی مہندم کیا جاسکتا تھا، اگر غیرقانونی اور بغیر سرکاری اجازت کے سرکل بنا تھا تو بنتے وقت ہی کاروائی ہونا چاہئے تھا، سیاست گرمانے کے لئے مندر کا مدعا آتے ہی ٹیپوسلطانؒ کی یاد اچانک کیسے آگئی؟ برادرانِ وطن کے چند لوگوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ٹیپوسلطانؒ کا مذاق بنایا جا رہا ہے، اسی کے ساتھ مسلمانوں میں ولی کامل کی بےعزتی پر بہت زیادہ افسوس جتایا جارہا ہے۔ بغیر سرکاری اجازت کے سرکل کو کون، کیوں، اور کیسے بنایا تھا؟ دھولیہ ضلع کلکٹر جلج شرما نے ایک مقامی مراٹھی روزنامہ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس نے ٹیپوسلطانؒ سرکل بنایا تھا، اس نے خود توڑ دیا. ضلع کے سب سے زیادہ ذمہ داری والے فرد کا یہ جملہ دانتوں میں انگلی دبانے پر مجبور کرتا ہے.

ٹیپوسلطانؒ جنگ آزادی میں اہم رول ادا کرنے والے ہیرو تھے، ان کا مجسمہ یا سرکل شہر کے قلب میں یعنی پانچ قندیل پر یا پھر بس اسٹیشن پر نہیں بنایا جاسکتا ہے؟ ساورکر کے مجسمہ کو 20 لاکھ کا فنڈ دیا جاسکتا ہے تو ٹیپوسلطانؒ کے مجسمہ یا سرکل کے لیے 40 لاکھ کا فنڈ منظور نہیں کیا جاسکتا؟ بنگلور کے بوٹینیکل گارڈن میں ٹیپوسلطانؒ کا مجسمہ موجود ہے تو مہاراشٹر میں کیوں نہیں؟ ٹھیک ہے مجسمہ بنانا اسلام میں جائز نہیں ہے، لیکن سرکل سے کسی کو کیوں تکلیف ہو سکتی ہے؟ دھولیہ میں ساورکر کے پہلے سے بنے ہوئے مجسمے پر الگ سے 20 لاکھ کا فنڈ دیا جاسکتا ہے، تو ٹیپوسلطانؒ کے لیے کیوں نہیں؟ ٹیپوسلطانؒ کے نام سے ہندو فرقہ پرست پارٹی اور مسلم فرقہ پرست پارٹی دونوں فائدہ اٹھانا چاہتی تھی؟ سیکولر پارٹیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ٹیپوسلطانؒ سرکل بنوایا گیا تھا؟ بہرحال راتوں رات سرکل منہدم کرنے سے ایک طرف بی جے پی کو زبردست فائدہ پہنچا ہے وہیں دوسری جانب ولی کامل حضرت شہید ٹیپوسلطانؒ کی بے حرمتی و بے عزتی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی ناک کٹ گئی ہیں.

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com