خصوصی
اگرسرکار ہی عدالت ہے تو پھر یہ عدالتیں کیوں؟ : مولانا ارشد مدنی
نئی دہلی یکم؍مئی 2022 : جمعیۃ علماء ہند کو ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ہر دکھ کی گھڑی میں مذہب سے اوپر اٹھ کر تمام مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے. گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے کھرگون شہر میں منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں پر جس طرح ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، اور قانونی کاروائی کا نام دیکر جس طرح یکطرفہ طور پر بے بس و مظلوم مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں کو بلڈوزر کے ذریعہ مسمار کیا گیا، اس کی مکمل تفصیل اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آچکی ہے. گھروں اور دکانوں کو اس طرح مسمار کئے جانے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اور آئین و جمہوریت کو بچانے اور قانون و دستور کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر چکی ہے، جس پر 9 مئی کو دوبارہ سماعت متوقع ہے. مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء ہند کے ایک نمائندہ وفد نے ناظم عمومی مفتی معصوم ثاقب کی سربراہی میں حقائق کا پتہ لگانے کے لئے کھرگون کے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا ہے، متاثرین اور دیگر مقامی افراد سے گفتگو کے بعد یہ افسوسناک حقیقت سامنے آئی ہے کہ ابتداء میں رام نومی کے جلوس کے راستہ اور وقت کو لیکر انتظامیہ اور جلوس کے ذمہ داروں کے درمیان اختلاف پیدا ہوا حالانکہ جلوس کے لئے راستہ اور وقت کا تعین کردیا گیا تھا، لیکن اکثریتی فرقہ کے لوگ مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوس نکالنے پر بضد تھے. اس کو لیکر کافی دیر تک انتظامیہ اور جلوس کے ذمہ داران میں نوک جھونک ہوتی رہی، جس کے نتیجہ میں پولس کو لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا. اسی درمیان کسی نے جلوس پر پتھر پھینک دیا. معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ منصوبہ کے تحت ہوا، اس معمولی واقعہ کو بہانا بناکر جلوس میں شامل لوگوں نے مسلم علاقوں پر حملہ کر دیا اور دہلی میں دو سال قبل ہوئے فساد کی طرز پر مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹنااور جلانا شروع کر دیا، ایک شخص ایریز عرف صدام کو بری طرح زدوکوب کر کے مار ڈالا گیا، اور کرفیو نافذ ہونے کے بعد بھی لوٹ مار اور آتش زنی کا سلسلہ جاری رہا. ایک مسجد میں جبرا مورتی بھی رکھ دی گئی. انتظامیہ جب حرکت میں آئی تو اس نے وہی کیا جو ہر فساد کے موقع پر ہوتا رہا ہے. یعنی فساد کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں کے سر مونڈھ دی گئی، اور بے قصور مسلمانوں کی اندھا دھند گرفتاریاں شروع ہوگئیں. کل 185 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد 175 ہے، مسلم محروسین کو تھانوں میں زدوکوب کرنے کی شکایتیں بھی وفد کو ملیں، وفد نے صدام کے لواحقین سے ملاقات کی اور جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے اس کی والدہ کو ایک لاکھ اور بیوہ کو چار لاکھ روپے کا امدادی چیک بھی پیش کیا، یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی کہ جمعیۃ علماء ہند صدام مرحوم کے یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم کے سلسلہ میں ہر ممکن مدد فراہم کرے گی. وفد نے تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا البتہ بعض علاقوں میں موجود کشیدگی کے پیش نظر مقامی افراد نے وفد کو وہاں کا دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا، وفد نے شدت سے محسوس کیا کہ اکثریت علاقوں میں اب بھی خوف و دہشت کا ماحول ہے، تمام عبادت گاہیں مکمل طور پر بند ہیں. مسلمان گھروں پر ہی نماز ادا کر رہے ہیں. شام 5 بجے سے صبح 8 بجے تک کا کرفیو اب بھی جاری ہے. لیکن رمضان کے آخری جمعہ کے روز یہ نظام بدل دیا گیا، انتظامیہ نے دوپہر 12 بجے سے سہ پہر 3 بجے تک کرفیو نافذ کر دیا تاکہ مسلمان جمعہ کی نماز مسجدوں میں ادا نہ کر سکیں، تجاوزات کے نام پر ریاستی حکومت کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے جو کاروائی کی ہے وہ تعصب اور امتیاز کا منہ بولتا ثبوت ہے، انتالیس دکانوں اور مکانوں کو مسمار کیا گیا ہے جن میں دو مسجدوں کے ملحق دکانیں بھی شامل ہیں، یہ تمام دکانیں بغیر نوٹس کے مسمار کر دی گئیں. جن میں 9 دکانیں اور مکانات ایسے ہیں، جن کے پاس مکمل قانونی دستاویزات موجود ہیں. بلا کسی وجہ کے صرف اور صرف تعصب کی بنیاد پر منہدم کر دیا گیا. جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں: (1) امجد خان ولد کلو خان (2) امجد پٹیل ولد رشید پٹیل (3) زاہد علی ولد منیر علی (4) رشید خان ولد رحیم خان (5) عتیق علی ولد مشتاق علی (6) علیم شیخ ولد اقلیم شیخ (7) رفیق بھائی ٹھیکیدار (8) ڈاکٹر مومن (9) سعد اللہ بیگ ولد خلیل اللہ بیگ۔
وفد نے یہاں کے ایس پی سے بھی ملاقات کرکے بے گناہوں کی رہائی اور قصورواروں کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کیا. ایس پی نے وفد کے ارکان کی باتوں کو بغور سنا اور انصاف کی یقین دہانی بھی کرائی ہے. جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا ہے کہ وفد نے دورہ کی جو رپورٹ پیش کی اس کے مطالعہ سے ایک بار پھر یہ افسوسناک سچائی سامنے آگئی کہ کھرگون کا فساد ہوا نہیں بلکہ کرایا گیا ہے. انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہر فساد کے موقع پر پولس یا تو خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہے یا پھر بلوائیوں کی معاونت کرتی ہے. کھرگون میں بھی اس نے یہی کیا. شرپسند عناصر مظلوم اور بے بس لوگوں کی دکانوں اور گھروں کو لوٹتے اور جلاتے رہے، مگر پولس نے کوئی ایکشن نہیں لیا. مولانا مدنی نے کہا کہ پولس اور انتظامیہ کے تعصب اور امتیازی رویہ کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ 185 گرفتاریوں میں مسلمانوں کی تعداد 175 ہے. انہوں نے کہا کہ اس پر ہی بس نہیں کیا گیا، بلکہ مسلمانوں کے گھروں اور دکانوں پر بلڈوزر چلوا کر ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے. یعنی جو کام عدالت کا تھا اسے حکومت نے کر دیا، اگر سرکار ہی عدالت ہے تو پھر یہ عدالتیں کیوں؟ انہوں نے کہا کہ وفد کے اراکین نے ہمیں بتایا کہ خوف و دہشت کا ماحول بدستور قائم ہے کیونکہ مسلمانوں کو ہی مجرم بنا کر پیش کیا جارہا ہے. یہ باور کرانے کی کوشش بھی ہورہی ہے کہ جو کچھ ہوا مسلمان ہی اس کے ذمہ دار ہیں. یہ سوال کوئی نہیں کرتا کہ جب جلوس کا راستہ طے تھا، تو انہوں نے مسلم اکثریتی علاقوں سے جلوس نکالنے کی کوشش کیوں کی، ظاہر ہے کہ شرپسند وہاں فساد برپا کرنا چاہتے تھے اور پولس و انتظامیہ کی نااہلی اور جانبداری سے وہ اپنے ناپاک مقصد میں کامیاب ہوگئے. مولانا مدنی نے کہا کہ پچھلے کچھ عرصہ سے قانون و انصاف کا دوہرا پیمانہ اپنایا جارہا ہے. ایسا لگتا ہے کہ جیسے ملک میں نہ تو اب کوئی قانون رہ گیا ہے یا نہ ہی کوئی حکومت جو ان پر گرفت کرسکے، یہ ملک کے امن و اتحاد کے لئے کوئی اچھی علامت نہیں ہے. ہمیں امید ہے کہ عدالت سیکولرزم کی حفاظت کے لئے مضبوط فیصلہ کریگی، تاکہ ملک امن وامان کے ساتھ چلتا رہے، اور مذہب کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔
فضل الرحمن قاسمی
پریس سیکریٹری جمعیۃ علماء ہند
9891961134
(جنرل (عام
سپریم کورٹ نے گرفتاری کیس میں سونم وانگچک کی رہائی کی درخواست پر سماعت کی، جودھ پور سنٹرل جیل کے ایس پی کو نوٹس جاری

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے موسمیاتی کارکن سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے دائر درخواست پر مرکزی حکومت، مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ اور جودھ پور سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت ان کی نظر بندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گیتانجلی انگمو نے یہ عرضی 2 اکتوبر کو دائر کی تھی۔ درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ وانگچک کی گرفتاری سیاسی وجوہات کی بناء پر کی گئی اور ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی۔ درخواست میں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد حکومت سے جواب طلب کیا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وانگچک کے وکیل سے یہ بھی پوچھا کہ انہوں نے ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا۔ گیتانجلی انگمو کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل نے جواب دیا، "کونسی ہائی کورٹ؟” سبل نے جواب دیا کہ درخواست میں نظر بندی پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نظر بندی کے خلاف ہیں۔ مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وانگچک کی حراست کی وجوہات کی وضاحت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ سونم وانگچک کی اہلیہ گیتانجلی انگمو کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ خاندان کو حراست میں رکھنے کی وجوہات کا انکشاف نہیں کیا گیا ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ نظر بندی کی بنیاد پہلے ہی زیر حراست شخص کو فراہم کر دی گئی ہے، اور وہ اس بات کی جانچ کریں گے کہ آیا اس کی بیوی کو آدھار کارڈ کی کاپی فراہم کی گئی ہے۔
وانگچک کو 26 ستمبر کو لداخ میں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ اس وقت جودھ پور کی جیل میں بند ہیں۔ یہ گرفتاری لداخ کو یونین ٹیریٹری کے طور پر بنانے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں اور تشدد کے بعد ہوئی۔ بعد میں انگمو نے اپنی حراست کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ انگمو نے عدالت کو بتایا کہ قومی سلامتی ایکٹ کی دفعہ 3(2) کے تحت اس کے شوہر کی روک تھام غیر قانونی تھی۔ درخواست کے مطابق، وانگچک کی حراست کا حقیقی طور پر قومی سلامتی یا امن عامہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد ایک قابل احترام ماحولیات اور سماجی مصلح کو خاموش کرنا تھا جو جمہوری اور ماحولیاتی مسائل کی وکالت کرتے ہیں۔
خصوصی
سیکورٹی فورسز نے جموں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن کیا شروع، بیک وقت 20 مقامات پر تلاشی لی، آنے والے مہینوں میں تلاشی مہم کو تیز کرنے کا منصوبہ

نئی دہلی : گھنے جنگلات سے لے کر لائن آف کنٹرول کے ساتھ اونچے پہاڑی علاقوں تک، سیکورٹی فورسز نے منگل کو دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے تقریباً دو درجن مقامات پر بیک وقت بڑے پیمانے پر تلاشی مہم شروع کی۔ تازہ ترین کارروائی ان دہشت گردوں کو نشانہ بناتی ہے جنہوں نے گزشتہ سال جموں صوبے میں کئی حملے کیے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے اور پاکستان میں مقیم دہشت گرد آقاؤں کی ایما پر جموں صوبے میں دہشت پھیلانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
یہ آپریشن جموں و کشمیر پولیس اور سنٹرل آرمڈ پولیس فورسز سمیت کئی سیکورٹی فورسز کی مشترکہ کوششوں کے طور پر کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک وقت آپریشن شروع کیا گیا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ دہشت گرد سرچ پارٹیوں سے فرار ہونے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ آنے والے مہینوں میں سرچ آپریشن مزید تیز کیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سب سے زیادہ 10 تلاشی آپریشن وادی چناب کے کشتواڑ، ڈوڈا اور رامبن اضلاع میں جاری ہیں۔ پیر پنجال کے سرحدی اضلاع راجوری اور پونچھ میں سات مقامات پر تلاشی آپریشن جاری ہے۔ ادھم پور ضلع میں تین مقامات، ریاسی میں دو اور جموں میں ایک جگہ پر بھی آپریشن جاری ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ تلاشی کارروائیاں گرمی کے موسم سے قبل علاقے پر کنٹرول قائم کرنے کی مشق کا حصہ ہیں۔
جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نلین پربھات نے 23 جنوری کو کٹھوعہ، ڈوڈا اور ادھم پور اضلاع کے سہ رخی جنکشن پر واقع بسنت گڑھ کے اسٹریٹجک علاقوں کا دورہ کیا اور ایک جامع آپریشنل جائزہ لیا۔ مہم ایک ہفتے سے بھی کم عرصے بعد شروع ہوئی۔ فارورڈ آپریٹنگ بیس (ایف او بی) پر تعینات اہلکاروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے، ڈی جی پی نے امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے انتھک عزم کو سراہتے ہوئے ان کے مشکل کام کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے اہلکاروں پر زور دیا کہ وہ خطرات سے نمٹنا جاری رکھیں۔ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے پر بھی زور دیا کہ مقامی آبادی کی حفاظت اور بہبود اولین ترجیح رہے۔
عسکریت پسندوں نے 2021 سے راجوری اور پونچھ میں مہلک حملے کرنے کے بعد گزشتہ سال جموں خطے کے چھ دیگر اضلاع میں اپنی سرگرمیاں پھیلا دیں، جن میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 44 افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران سیکورٹی فورسز اور پولیس نے 13 دہشت گردوں کو بھی ہلاک کیا۔ اگرچہ 2024 میں پیر پنجال کے راجوری اور پونچھ اضلاع میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں دہشت گردی کی سرگرمیاں نمایاں طور پر کم ہوئی ہیں، لیکن اپریل سے مئی کے بعد ریاسی، ڈوڈا، کشتواڑ، کٹھوعہ، ادھم پور اور جموں میں ہونے والے واقعات کا سلسلہ سیکورٹی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ ایجنسیاں تشویش کا باعث بن گئی ہیں۔
خصوصی
وقف ترمیمی بل میں پارلیمانی کمیٹی نے کی سفارش، مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں دو سے زیادہ غیر مسلم ممبر ہوسکتے، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی ٹرسٹ قانون سے باہر

نئی دہلی : وقف ترمیمی بل پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ اس میں مرکزی اور ریاستی وقف بورڈ میں غیر مسلم ارکان کی تعداد بڑھانے کی تجویز ہے۔ سفارش میں کہا گیا ہے کہ بورڈز میں کم از کم دو غیر مسلم ممبران ہونے چاہئیں اور یہ تعداد 4 تک جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے ٹرسٹ کو بھی اس قانون کے دائرے سے باہر رکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور اسے حکومت کا من مانی رویہ قرار دیا ہے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے جے پی سی اور اس کے چیئرمین پر حکومت کے کہنے پر کام کرنے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی وقف ایکٹ میں ترمیم کے لیے لائے گئے بل پر غور کر رہی تھی۔ اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں چند اہم تجاویز دی ہیں۔ ان تجاویز میں سب سے بڑی تبدیلی یہ ہے کہ اب وقف بورڈ میں کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ چار غیر مسلم ارکان ہوسکتے ہیں۔ اگر سابق ممبران غیر مسلم ہیں تو وہ اس میں شمار نہیں ہوں گے۔ پہلے بل میں صرف دو غیر مسلم ارکان کی گنجائش تھی۔ اس کے علاوہ دو سابقہ ممبران بھی ہوں گے۔ ان میں ایک مرکزی وزیر وقف اور دوسرا وزارت کا ایڈیشنل/جوائنٹ سکریٹری شامل ہے۔
اس کمیٹی نے شیعہ برادری کے دو فرقوں، داؤدی بوہرہ اور آغا خانی برادریوں کے مطالبات بھی تسلیم کر لیے ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ ان کے ٹرسٹ کو اس قانون کے دائرے سے باہر رکھا جائے۔ ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ رپورٹ میں ایک شق شامل کی جا سکتی ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے باوجود، کسی مسلمان کی جانب سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قائم کردہ ٹرسٹ پر لاگو نہیں ہوگا، چاہے وہ پہلے بنایا گیا ہو۔ یا اس ایکٹ کے شروع ہونے کے بعد۔ ایک اور ذریعہ کے مطابق، غیر مسلم اراکین کی شمولیت سے وقف کا انتظام مزید وسیع البنیاد اور جامع ہو جائے گا۔ کمیٹی نے وقف املاک کے کرایہ داروں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔
کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونے والا ہے جس میں رپورٹ پر بحث اور اسے قبول کیا جائے گا۔ حزب اختلاف کے تقریباً تمام اراکین پارلیمنٹ نے اس رپورٹ سے عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ الگ سے اپنی رائے درج کریں گے۔ ڈی ایم کے ایم پی اے۔ راجہ نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ کمیٹی کے ارکان کو بتایا گیا کہ 655 صفحات پر مشتمل مسودہ رپورٹ پر بدھ کی صبح 10 بجے بحث کی جائے گی۔ رپورٹ ابھی بھیجی گئی ہے۔ ارکان پارلیمنٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسے پڑھیں، تبصرے دیں اور اختلافی نوٹ جمع کرائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اگر حکومت کو جو مرضی کرنا پڑے تو آزاد پارلیمانی کمیٹی کا کیا فائدہ؟
جے پی سی اور اس کے چیئرمین کو حکومت نے اپنے غلط مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔” انہوں نے این ڈی اے کے اتحادیوں کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘نام نہاد سیکولر پارٹیاں ٹی ڈی پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی اس ناانصافی میں حصہ لے رہی ہیں اور خاموشی اختیار کر رہی ہیں۔’ راجہ کہتے ہیں، ‘حکومت اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی طریقے سے حکومت چلا رہی ہے۔’ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمیٹی کا اجلاس محض ایک ‘دھوکہ’ تھا اور رپورٹ پہلے ہی تیار تھی۔ یہ معاملہ وقف بورڈ کے کام کاج اور ساخت سے متعلق ہے۔ وقف بورڈ مسلم کمیونٹی کی مذہبی جائیدادوں کا انتظام کرتا ہے۔ اس بل کے ذریعے حکومت وقف بورڈ کے کام کاج میں تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے حکومت وقف املاک پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ یہ معاملہ مستقبل میں بھی موضوع بحث رہے گا۔
-
سیاست1 سال agoاجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
سیاست6 سال agoابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 سال agoمحمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
جرم5 سال agoمالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 سال agoشرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 سال agoریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 سال agoبھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 سال agoعبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا
