ممبئی پریس خصوصی خبر
ہلدوانی فساد معاملہ : گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی کے لئے جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد شروع
نئی دہلی (8 جون 2024) : ہلدوانی فساد کو لیکر پولس زیادتی کا شکار20 مسلم نوجوانوں کی ضمانت کی عرضی پر گزشتہ روز اتراکھنڈ ہائی کورٹ (نینی تال) میں سماعت عمل میں آئی جس کے بعد ہائی کورٹ کی دورکنی بینچ نے اسے سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے ریاستی حکومت کو تین ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کا حکم دیا اور معاملہ کی سماعت 4 جولائی تک کے لئے ملتوی کردی، جسٹس منوج کمارتیواری اور جسٹس پنکج پروہت پر مشتمل دورکنی بینچ کے روبرو جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ کی سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن نے مدلل بحث کرتے ہوئے بتایا کہ تفتیشی ایجنسی نے 90 دن کی مدت مکمل ہونے کے بعد بھی عدالت میں چارشیٹ نہیں داخل کی اور ملزمین وان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر عدالت سے مزید 28 دنوں کی مہلت طلب کرلی جو قانونا غلط ہے لہذا کریمنل پروسیجر کورٹ کی دفعہ 167 اور یو اے پی اے قانون کی دفعہ 43 ڈی (2) کے تحت ملزمین کی ڈیفالٹ ضمانت منظور کی جائے، جس پر سرکاری وکیل نے ضمانت کی عرضی پر اعتراض داخل کرنے کے لئے وقت طلب کیا واضح ہوکہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ نتیارامن کرشنن کے ہمراہ ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ نیتن تیواری، ایڈوکیٹ منیش پانڈے، ایڈوکیٹ وجے پانڈے ودیگر پیش ہوئے جبکہ اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جے ایس ورک اور ایڈوکیٹ آر کے جوشی پیش ہوئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 90 دن کی مقررہ مدت گزر جانے کے بعد چارج شیٹ داخل نہ کرنا یہ بتاتا ہے کہ پولس قانون وانصاف کو بالائے طاق رکھ کر جانبدارای کا مظاہرہ کررہی ہے، اس سے زیادہ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملزمین اور ان کے وکلاء کے علم میں لائے بغیر حیلوں بہانوں سے عدالت کے ذریعہ مزید 28 دنوں کی مہلت طلب کرلی گئی، انہوں نے کہا کہ پولس اور تفتیشی اداروں کے تعصب اور جانبداری کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے مسلمانوں سے جڑے زیادہ ترمعاملوں میں تقریبا ہر ریاست کی پولس کا رویہ یکساں ہوتا ہے، قانون کے مطابق 90 دن کے اندر چارج شیٹ داخل کردی جانی چاہئے تاکہ ملزم بنایا گیا شخص اپنی رہائی کے لئے قانونی عمل شروع کرسکے، لیکن یہ کس قدر افسوسناک بات ہے کہ اس ہدایت پر عمل نہیں کیا جاتا، مولانا مدنی نے کہا کہ تفتیشی ایجنسیوں اورپولس کا یہ طرز عمل انسانی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے، کیونکہ اس سے انصاف کے حصول میں تاخیر ہوجاتی ہے، انہوں نے کہا کہ ان گرفتار شدگان میں 7 خواتین بھی شامل ہیں، اور ان سب پر یو اے پی اے قانون کا اطلاق کردیا گیا ہے، ایسے میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اپنے اسکول اور اپنی عبادت گاہ کو بچانے کے لئے احتجاج کرنے والے کیا دہشت گرد ہوسکتے ہیں؟ جب کہ پولس کی بلاجواز فائرنگ سے جو 7 بے گناہ مارے گئے ان کے بارے میں مکمل خاموشی ہے گویا پولس اور حکومت کی نظر میں انسانی زندگیاں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اس معاملہ پر انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کی خاموشی بھی ایک بڑا سوال ہے ہمیں عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے ابھی پچھلے دنوں اترپردیش اے ٹی ایس کی جانب سے متعینہ مدت کے اندر چارج شیٹ نہیں داخل کرنے پر لکھنو ہائی کورٹ نے 11 مسلمانوں کو ضمانت دیدی، اس فیصلہ کی بنیاد پر ہمیں یقین ہے کہ اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے ان ملزمین کو اور ہلدوانی متاثرین کو بھی انصاف ملے گا، انشاء اللہ۔ مولانا مدنی نے ملک کے تمام انصاف پسندوں سے سوال کیا کہ ایک مخصوص فرقہ کے خلاف ظلم واستبداد اور ناانصافی کا یہ خطرناک سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ کیا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر ان کے ساتھ اس طرح کا سوتیلا رویہ اپنا کر ان پر انصاف کے دروازہ بند کر دینے کی کوششیں کیوں کی جاتی ہیں؟ اور ہر بار جمعیۃ علماء ہند کو انصاف کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کیوں ہونا پڑتا ہے؟ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے اس پر سب کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی درمیان جمعیۃ علماء ضلع نینی تال کے ایک وفد نے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی اور قانونی مشیر شاہد ندیم ایڈوکیٹ سے نئی دہلی میں ملاقات کی اور مقدمہ کی تازہ صورتحال کی تفصیل دی، وفد میں مولانا مقیم قاسمی صدر جمعیۃ علماء نینی تال، مولانا محمد قاسم قاسمی سکریٹری، مولانا محمد عاصم قاسمی صدر جمعیۃ علماء ہلدوانی اور مولانا محمد سلمان ندوی سکریٹری شامل تھے، واضح رہے کہ اس معاملہ میں 101 لوگوں کو ملزم بنایا گیا ہے، جن میں 7 خواتین بھی شامل ہیں، جمعیۃ علماء 65 ملزمین کو قانونی امداد فراہم کررہی ہے جبکہ 69 ملزمین کے گھریلو اخراجات بھی گرفتاری سے لیکر اب تک برداشت کررہی ہے، اخراجات میں راشن، بچوں کی فیس، ادویات مکان کا کرایہ وغیرہ شامل ہیں، فساد میں زخمی ہوئے 15 ملزمین کے علاج کا مکمل خرچ بھی مقامی جمعیۃ علماء نے برداشت کیا، ملزمین کی پیروی کے علاوہ ان کے اہل خانہ کی دادرسی بھی مفتی لقمان، مولانا یونس، عبدالحسیب، مولانا فرقان ودیگر صاحبان کررہے ہیں، ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے بتایاکہ ملزم بنائی گئی خواتین سمیت دیگر ملزمین کی ضمانت کی عرضیاں بھی چند روز میں نچلی عدالت میں داخل کردی جائیں گی، اس کے ساتھ نچلی عدالت میں پولس کی گولی سے 7 مسلم نوجوانوں کی ہلاکت پر رپورٹ طلب کرنے کی گزارش کی گئی، جس پر عدالت نے پولس سے رپورٹ طلب کی ہے، اس معاملہ میں پولس انتہائی جانبداری کا مظاہرہ کررہی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے ملزمین کو ضمانت سے محروم رکھنے کے لئے ان کے خلاف یو اے پی اے یعنی دہشت گردی کے قانون کا اطلاق کیا ہے۔
سیاست
مفتی اسمعیل کو غیرت دلاتی اکبرالدین کی تقریر… حیرت انگیز طور پر مفتی اسمعیل کا ایک بھی تعمیری کام نہیں بتا پاۓ اکبرالدین اویسی
مالیگاٶں : مجلس اتحاد المسلمین حیدراباد کے فلور لیڈر اکبرالدین اویسی نے سلام چاچا روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کیا۔ اکبر اویسی صاحب کے جلسے میں روایتی طور پر ہمیشہ کی طرح عوامی ہجوم کا رہنا مفتی اسمعیل کی مقبولیت سے نہیں گردانا جانا چاہیۓ۔ اس جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوٸے اکبرالدین اویسی نے صرف اور صرف حیدرآباد تلنگانہ میں مجلس کی تعلیمی، معاشی، سیاسی کارکردگیوں کو گنوایا اور شاٸید وہ یہ بھول گٸے کہ مالیگاٶں میں بھی گذشتہ پانچ سالوں سے مجلس کا بھی ایم ایل اے ہے۔ یا پھر اکبر الدین اویسی کو جان بوجھ کر مجلس کے حیدرآباد کے کاموں کو بتاکر مالیگاٶں مجلس کے آمدار مفتی اسمعیل کو غیرت دلانے کا کام کررہے تھے۔
ایک گھنٹہ سے زاٸد اپنی تقریر میں اکبرالدین اویسی نے مفتی اسمعیل کے ایک بھی تعمیری کام گنوانے سے قاصر نظر آٸے, جسکا ڈھنڈورا مقامی طور پر ایم ایل اے مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کی طرف سے پیٹا جارہا ہے۔ مالیگاؤں کی عوام نے اکبرالدین اویسی کی تقریر کو مفتی اسمعیل اور انکے حامیوں کے لیۓ آٸینہ دکھانے اور غیرت دلانے سے تعبیر کرتے دکھائی دے رہے ہیں
ممبئی پریس خصوصی خبر
30 سالوں سے جیل میں قید پانچ ملزمین کو چالیس دنوں کی پیرول منظور, جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی
ممبئی 19 / اکتوبر : گذشتہ 30 سالوں سے زائد وعرصے سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے عمر قید کی سزا کاٹ رہے چار ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جئے پور ہائی کورٹ نے گذشتہ کل جاری کیا۔ مل مین کو جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) نے قانونی امداد فراہم کی۔ عمر قید کی سزا کاٹ رہے ابرے رحمت انصاری، اشفاق احمد، محمد آفاق، فضل الرحمن اور ڈاکٹر جلیس انصاری کو جئے پور ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اندر جیت سنگھ اور جسٹس بھون گوئل نے چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیے جانے کا حکم جاری کیا ہے۔ ملزمین اب تک چار مرتبہ پیرول کی سہولت حاصل کرچکے ہیں, لیکن انہیں ہر مرتبہ ہائی کورٹ سے پیرول لینا پڑتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے پیرول ملنے کے باجود ہر سال جیلر ان کی پیرول کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردیتا ہے کہ ملزمین کو سنگین الزامات کے تحت عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔
جئے پور سینٹرل جیلر کی جانب سے پیرول کی درخواست مسترد کیئے جانے کے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء کے توسط سے ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ سوامی اور ایڈوکیٹ ہرشیت شرما کے ذریعہ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی تھی, جس پر کئی سماعتیں ہوئی۔ راجستھان سرکار کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل آف انڈیا آر ڈی رستوگی اور کے معاونین وکلاء نے ملزمین کی پیرول پر ہائی کورٹ کی درخواست کی سخت لفظوں میں مخالفت کی تھی, لیکن ملزمین کے وکلاء کی دلائل کی سماعت کے بعد عدالت نے ملزمین کو چالیس دنوں کے لیے پیرول پر رہا کیئے جانے کا حکم جاری کیا۔
ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین گذشتہ 30 سالوں زائد عرصے سے جیل میں قید ہے اور اس دوران انہیں صرف چار مرتبہ پیرول ملی, جس کی وجہ سے وہ فیملی اور دیگر رشتہ داروں سے مل سکے ہیں, اور انہوں نے پیرول کی سہولت کا کبھی غلط فائدہ نہیں اٹھایا, لہذا انہیں مزید انہیں پیرول پر رہا کیا جائے جسے عدالت نے منظور کرلیا۔
واضح رہے کہ انڈین جیل قانون 1894 کے مطابق ان قیدیوں کو سال میں 30 سے لیکر 90 دنوں تک پیرول پر رہا کیا جاسکتا ہے جو جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں, اور وہ بیماری سے جوجھ رہے ہوں یا ان کی فیملی میں کوئی شدید بیمار ہو، شادی بیاہ میں شرکت کی خاطر، زچکی کے موقع پر، حادثہ میں اگر کسی فیملی ممبر کی موت ہو جائے تو جیل میں قید شخص کو عارضی طور پر جیل سے رہائی دی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے ٹاڈا، پوٹا، مکوکا اور دیگر خصوصی قوانین کے ذمرے میں آنے والے ملزمین کو پیرول پر رہا نہیں کیئے جانے کے تعلق سے جی آر جاری کیا تھا, جس کے بعد سے جیل حکام نے ملزمین کو پیرول پر رہا کیئے جانے کی عرضداشتوں کو مسترد کردیا تھا۔ لیکن جمعیۃ علماء نے حکومت کے جی آر کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا, جس کے بعد سے ملزمین کو راحتیں ملنا شروع ہوئیں۔
بین القوامی
نکسا اور نکبہ کے ملاپ سے بھی بدتر؟ ایک سال اور کوئی امید نہیں
خان گلریز شگوفہ (کلیان)، ممبئی : اسرائیل کو غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اپنی نسل کشی شروع کیے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ حماس اور دیگر فلسطینی گروپوں کے مسلح و اقسام بریگیڈز کے مسلح جنگجوؤں کے حملے کے جواب میں 7 اکتوبر کو غزہ پر اسرائیل کا حملہ شروع ہوا۔ اس حملے کے دوران تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً 240 کو غزہ میں اسیر بنا کر لے جایا گیا۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے ایک شیطانی بمباری کی مہم شروع کی اور 2007 سے غزہ کا محاصرہ پہلے سے زیادہ سخت کر دیا گیا۔ پچھلے ایک سال کے دوران، اسرائیلی حملوں میں غزہ میں رہنے والے کم از کم 41,615 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جو کہ ہر 55 میں سے 1 کے برابر ہے۔ کم از کم 16,756 بچے مارے جا چکے ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تنازعات کے ایک سال میں ریکارڈ کیے گئے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 17,000 سے زیادہ بچے والدین میں سے ایک یا دونوں کو کھو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 – کے بعد کے اہم لمحات
7 اکتوبر 2023 – اسرائیل میں حماس کی کارروائی
7 اکتوبر 2023 – اسرائیل کی جوابی کارروائی
8 اکتوبر 2023 – حزب اللہ لڑائی میں شامل ہوئی
17 اکتوبر 2023 – الاحلی اسپتال غزہ کے الاحلی عرب اسپتال میں ایک زبردست دھماکا – جو بے گھر فلسطینیوں سے بھرا ہوا تھا – تقریبا 500 افراد ہلاک ہوگئے۔
19 نومبر 2023 – حوثیوں کا پہلا حملہ
نومبر 24 سے 1 دسمبر 2023 – عارضی جنگ بندی
29 فروری کو “Flour Massacre” میں غزہ شہر کے نابلسی راؤنڈ اباؤٹ پر انسانی امداد کے انتظار میں قطار میں کھڑے 118 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔
18 مارچ سے 1 اپریل تک الشفاء میڈیکل کمپلیکس کے محاصرے میں 400 افراد کا قتل۔
6 مئی 2024 – رفح پر حملہ.
27 مئی کو رفح کے علاقے المواسی میں ایک پناہ گزین کیمپ میں 45 افراد کا قتل، جسے “خیمہ قتل عام” کہا جاتا ہے۔
· 8 جون کو نصیرات پناہ گزین کیمپ میں 274 فلسطینیوں کا قتل۔
13 جولائی 2024 – المواسی کا قتل عام ·
10 اگست کو غزہ شہر کے التابین اسکول میں 100 سے زیادہ افراد کا قتل۔
17 ستمبر 2024 – لبنان میں موت کا دن، جنگ کو سرکاری طور پر وسیع کرنا.
23 ستمبر کو اسرائیل نے لبنان پر براہ راست حملہ کیا، جنوب میں، مشرق میں وادی بیکا اور بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقے دحیہ میں کم از کم 550 افراد مارے گئے۔
اس کے بعد 27 ستمبر کو حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل حسن نصر اللہ کو دحیہ پر حملے میں قتل کر دیا گیا، یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ اس نے کئی اپارٹمنٹس کی عمارتوں کو لپیٹ میں لے لیا۔
اسرائیل نے مبینہ طور پر 80 بموں کا استعمال کیا جس میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 90 زخمی ہوئے۔ نصراللہ کے قتل کے فوری بعد اسرائیلی مطالبات کے بعد لوگوں کو دحیہ کے بڑے حصے سے نکل جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ لبنان کی حکومت اب کہتی ہے کہ تقریباً 1.2 ملین افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ Lebanon’s Health Ministry کے مطابق، غزہ پر جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک لبنان میں 2,000 افراد مارے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر پچھلے تین ہفتوں میں مارے گئے۔
جنگ کی جھلکیاں :-
41,909 افراد ہلاک
97,303 زخمی
10,000 لوگ ملبے تلے دب گئے
114 ہسپتال اور کلینک غیر فعال کر دیے گئے۔
ہسپتالوں پر اسرائیلی حملوں اور غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں کم از کم 986 طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں جن میں 165 ڈاکٹرز، 260 نرسیں، 184 ہیلتھ ایسوسی ایٹس، 76 فارماسسٹ اور 300 انتظامی اور معاون عملہ شامل ہیں۔ فرنٹ لائن ورکرز میں سے کم از کم 85 سول ڈیفنس ورکرز ہیں۔
7 اجتماعی قبروں سے برآمد ہونے والی 520 لاشیں
1.7 ملین متعدی بیماریوں سے متاثر ہیں
96 فیصد کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے روم کے قانون کے تحت، بین الاقوامی مسلح تصادم میں کسی آبادی کو جان بوجھ کر بھوکا مارنا جنگی جرم ہے۔
700 پانی کے کنویں تباہ ہو گئے
صحافیوں کے لیے سب سے مہلک مقام رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے مطابق 7 اکتوبر سے اب تک 130 سے زیادہ صحافی، تقریباً تمام فلسطینی، مارے جا چکے ہیں۔
غزہ کے میڈیا آفس میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 175 ہے، جو کہ 7 اکتوبر سے ہر ہفتے اوسطاً چار صحافی مارے جاتے ہیں۔
ہزاروں اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔
غزہ کا بیشتر حصہ تباہ
ایک اندازے کے مطابق غزہ پر 75,000 ٹن دھماکہ خیز مواد گرایا گیا ہے اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ 42 ملین ٹن سے زیادہ کے ملبے کو صاف کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں، جو کہ نہ پھٹنے والے بموں سے
بھی بھرا ہوا ہے۔
غزہ کے میڈیا آفس نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملوں سے ہونے والے براہ راست نقصان کا تخمینہ 33 بلین ڈالر لگایا ہے۔
150,000 گھر مکمل طور پر تباہ
123 اسکول اور یونیورسٹیاں مکمل طور پر تباہ
ثقافتی مقامات، مساجد اور گرجا گھروں پر حملے
410 کھلاڑی، کھیلوں کے اہلکار یا کوچ ہلاک
غزہ کے لوگوں کی سب سے زیادہ پیاری یادوں کو نقش کرنے والے نشانات کے کھو جانے سے بہت سے لوگوں کے لیے دوبارہ تعمیر کا تصور ناممکن لگتا ہے۔
جنگ کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اگر اسے آج روک دیا جائے تو بھی غزہ کی تعمیر نو کی لاگت حیران کن ہوگی۔ صرف پہلے آٹھ مہینوں میں، اقوام متحدہ کے ایک ابتدائی جائزے کے مطابق، جنگ نے 39 ملین ٹن ملبہ پیدا کیا، جس میں نہ پھٹنے والے بم، ایسبیسٹوس، دیگر خطرناک مادے اور یہاں تک کہانسانی جسم کے اعضاء.
مئی میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ تباہ شدہ گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے میں 80 سال لگ سکتے ہیں. لیکن غزہ والوں کے لیے، نہ وقت اور نہ ہی پیسہ ان سب چیزوں کی جگہ لے سکتا ہے جو کھو گیا ہے۔ اگر فلسطینیوں کی پچھلی نسلوں کا صدمہ نقل مکانی کا تھا، تو جناب جودہ نے کہا، اب یہ ایک شناخت کے مٹ جانے کا احساس بھی ہے: “کسی جگہ کو تباہ کرنے سے اس کا ایک حصہ تباہ ہو جاتا ہے جو آپ میں ہیں۔
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
جرم4 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی4 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں5 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا
-
سیاست3 months ago
سپریم کورٹ، ہائی کورٹ کے 30 سابق ججوں نے وشو ہندو پریشد کے لیگل سیل کی میٹنگ میں حصہ لیا، میٹنگ میں کاشی متھرا تنازعہ، وقف بل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔