Connect with us
Tuesday,14-October-2025

قومی خبریں

جموں میں سبھی پرائیویٹ اورسرکاری اسکول سکیورٹی وجوہات سے اگلی ہدایت تک بند رہیں گے

Published

on

جموں میں ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی ) کی دفعہ 144 کے تحت لگائی گئی پابندیاں منگل کو دوسرے دن بھی جاری ہیں اور یہاں پر سبھی سرکاری اور پرائیویٹ اسکول بند ہیں۔
حکومت کے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے اور ریاست کی تنظیم نو کرکے جموں و کشمیر اور لداخ نام سے مرکز کے زیر انتظام دو ریاستیں بنانے کے فیصلے کے بعد یہاں کافی چوکسی برتی جارہی ہے۔
جموں، کٹھوا، سمبا، پونچھ، ڈوڈا، راجوری اور ادھم پور سمیت مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو حکم جاری کر کے کہا گیا ہے کہ سبھی پرائیویٹ اورسرکاری اسکول سکیورٹی وجوہات سے اگلی ہدایت تک بند رہیں گے۔
جموں کی ڈپٹی کمشنر سشما چوہان نے کہا کہ جموں ضلع میں اگلے حکم تک دفعہ 144 نافذ رہے گی اور پابندیوں کے پیش نٖظر سبھی اسکول اور یونیورسٹیاں بند رہیں گی۔
ایک افسر نے بتایا کہ جموں علاقے کے سبھی اضلاع میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی 40 کمپنیاں تعینات ہیں۔ادھم پور ضلع میں چار، ریاستی ضلع میں ایک، راجوری ضلع میں آٹھ، پونچھ ضلع میں چھ اور ڈوڈا ضلع میں سی آر پی ایف کی 11 کمپنیاں تعینات ہیں۔ ساتھ ہی مختلف حصوں میں فوج کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا،’’جموں علاقے میں موبائل انٹرنیٹ خدمات کو ملتوی کردیا گیا ہے اور احتیاط کے طورپر پورے علاقے میں پابندیاں لگادی گئی ہیں۔
مختلف اسکولوں اور جموں یونیورسٹی کے امتحانات اگلے حکم تک ملوتی کردئے گئے ہیں۔ان امتحانات کی نئی تاریخوں کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوستانی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے کو ہٹانے اور ریاست کو تنظیم نو کرکے مرکز کے زیر انتظام دو ریاستیں جموں وکشمیر اور لداخ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.

سیاست

‘کانگریس پاکستان کے حق میں اور افغانستان کے خلاف’، طالبان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس تنازعہ بھارت میں سیاسی ہنگامہ برپا

Published

on

Afgan,-pak-&-india

نئی دہلی : خواتین صحافیوں کو افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی دہلی میں پریس کانفرنس سے روکے جانے کا معاملہ گرما گرم ہوگیا، سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر شدید حملے شروع کردیئے۔ راشٹریہ لوک دل لیڈر ملوک ناگر نے افغان وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس سے خاتون صحافیوں کو باہر کرنے پر سوال اٹھانے پر کانگریس لیڈر پی چدمبرم پر سخت حملہ کیا ہے۔ ناگر نے الزام لگایا کہ چدمبرم کے سوالات پاکستان کے حامی اور افغانستان اور بلوچستان کے خلاف تھے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس طرح کے سوالات ملک کو دہشت گردانہ حملوں کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔ چدمبرم کا یہ بیان افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر کرنے پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد آیا ہے۔ ملوک ناگر نے پی چدمبرم کے سوالات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ’’وہ جس قسم کے سوالات پوچھ رہے ہیں اس کے بارے میں انہیں سوچنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان وزیر خارجہ نے بھارت کا دورہ کیا اور کچھ درخواستیں کیں، جن پر ان کے مطالبات کے مطابق توجہ دی گئی۔ ناگر نے الزام لگایا کہ “انڈیا الائنس، پی چدمبرم، اور کانگریس کے سینئر لیڈر ایسے سوالات پوچھتے ہیں جو پاکستان کے حق میں اور افغانستان اور بلوچستان یا ہمارے ملک کے خلاف ہیں۔”

انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ کیا وہ ملک کو دہشت گردانہ حملوں کے شعلوں میں جھونکنا چاہتے ہیں جو پاکستان جاری رکھے ہوئے ہے۔ سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے، آر ایل ڈی رہنما نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر، “پاکستان افغانستان اور بلوچستان کے درمیان دونوں طرف سے گوشہ میں رہے گا، اور ہمارا ملک ترقی کرتا رہے گا اور آگے بڑھے گا۔”

پی چدمبرم نے نئی دہلی میں افغانستان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی کی میزبانی میں منعقدہ پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر کیے جانے پر گہرے صدمے اور مایوسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ مرد صحافیوں کو اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے تقریب کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا۔ ایکس پر ایک پوسٹ میں، انہوں نے کہا، “میں حیران ہوں کہ افغانستان کے جناب امیر خان متقی کی پریس کانفرنس سے خواتین صحافیوں کو باہر رکھا گیا، میری ذاتی رائے میں، مرد صحافیوں کو اس وقت واک آؤٹ کر دینا چاہیے تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی خواتین ساتھیوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔” نئی دہلی میں طالبان کے قائم مقام وزیرخارجہ عامر خان متقی کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس پر تنازع کھڑا ہوگیا، جہاں ہندوستانی خواتین صحافیوں کو افغان سفارت خانے میں شرکت سے روک دیا گیا۔ طالبان وزیر 9 اکتوبر سے 16 اکتوبر تک بھارت کے ایک ہفتے کے دورے پر ہیں۔

Continue Reading

سیاست

بہار کے ساتھ ساتھ مہاراشٹر میں بھی انتخابی گہما گہمی ہے۔ میئرز، میونسپل کونسل کے صدور، اور چیئرمینوں کے لیے تحفظات کا اعلان کیا گیا ہے – فہرست دیکھیں۔

Published

on

Maharashtra-Poll

ممبئی : بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی مہاراشٹر میں بڑی انتخابی سرگرمیاں سامنے آئی ہیں۔ ریاستی حکومت نے ریاست کے میونسپل کارپوریشنوں میں میئر، 247 میونسپل کونسل چیئرپرسن اور 147 سٹی چیئرپرسن کے عہدوں کے لیے تحفظات کا اعلان کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے مہاراشٹر حکومت سے کہا ہے کہ وہ 31 جنوری 2026 تک ممبئی بی ایم سی سمیت پوری ریاست میں بلدیاتی انتخابات کرائے ۔ ممبئی اور ریاست کے دیگر تمام بلدیاتی اداروں کے انتخابات 2017 میں ہوئے تھے۔ نتیجتاً ریاست میں بلدیاتی انتخابات آٹھ سال بعد ہوں گے۔ یہ ایک بار پھر حکمراں مہاوتی (عظیم اتحاد) اور مہا وکاس اگھاڑی (عظیم اتحاد) کے درمیان سخت جنگ دیکھ سکتا ہے۔

ریاست میں آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ایک اہم سیاسی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ پیر کو ریاست کی 247 میونسپل کونسلوں اور 147 نگر پنچایتوں کے میئر کے عہدوں کے لیے ریزرویشن کا اعلان کیا گیا۔ ریزرویشن قرعہ اندازی اربن ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے منعقد کی گئی تھی، جس میں کئی اہم شہروں میں میئر کے عہدے خواتین کے لیے محفوظ کیے گئے تھے۔ قرعہ اندازی کی صدارت وزیر مادھوری مشال نے کی۔ اس موقع پر مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔

اس ریزرویشن کے مطابق بہت سے موجودہ اور خواہشمند امیدواروں کو اب اپنے مستقبل کا سیاسی راستہ طے کرنا ہوگا۔ ریزرویشن قرعہ اندازی کے مطابق میئر کے عہدے کے لیے مختلف کیٹگریز کی خواتین کے لیے نشستیں مختص کی گئی ہیں جس سے مقامی سیاست میں خواتین کی شمولیت میں اضافہ ہوگا۔ 67 نگر پریشدوں میں سے 34 سیٹیں او بی سی خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ 33 نگر پریشدوں میں سے 17 سیٹیں درج فہرست ذات کی خواتین کے لیے مخصوص کی گئی ہیں۔ ریاست کی 64 اہم نگر پریشدوں میں میئر کا عہدہ کھلی خواتین کے زمرے کے لیے محفوظ کیا گیا ہے۔ نگر پنچایتوں کے لیے جنرل ویمن ریزرویشن (37 سیٹیں): نگر پنچایتوں میں عام خواتین (کھلی خواتین) کے لیے درج ذیل سیٹیں محفوظ کی گئی ہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن نے کھانسی کے شربت معاملے میں ڈاکٹر کے خلاف کی گئی کارروائی اور دوا بنانے والی کمپنی کو دی گئی کلین چٹ پر سوال اٹھایا۔

Published

on

Cough-Syrup

نئی دہلی : انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) ڈاکٹر پروین سونی کی حمایت میں سامنے آئی ہے، جنہیں مدھیہ پردیش میں کھانسی کے شربت سے کم از کم 16 بچوں کی موت کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر مرکزی وزارت صحت سے بات کرے گی اور ڈاکٹر کی رہائی کا مطالبہ کرے گی۔ آئی ایم اے نے سوال کیا ہے کہ جب علاج طے شدہ پروٹوکول کے مطابق کیا گیا تو صرف ڈاکٹر کو ہی ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے۔ تنظیم نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ حکومت نے دوا بنانے والے کو کلین چٹ کیوں دی، حالانکہ تحقیقات میں شربت میں مہلک کیمیکل ڈائی تھیلین گلائکول (ڈی ای جی) پایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم اے کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کو چھندواڑہ بھیجا گیا ہے تاکہ وہ مقامی عہدیداروں سے ملاقات کرے اور پورے معاملے کی تحقیقات کرے۔

ڈاکٹر سونی کو ہفتے کے روز گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف منشیات اور کاسمیٹکس ایکٹ اور تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ شکایت پارسیا کمیونٹی ہیلتھ سینٹر کے بلاک میڈیکل آفیسر انکت سہلم نے درج کروائی تھی۔ وزیر اعلی موہن یادو کے حکم کے بعد ڈاکٹر سونی کو معطل کر دیا گیا ہے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس نے جن بچوں کو کھانسی کا شربت کولڈریف تجویز کیا ان میں سے زیادہ تر کی موت ہوگئی۔

لیبارٹری کی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ شربت میں 48.6 فیصد ڈائی تھیلین گلائکول (ڈی ای جی) موجود ہے، جو کہ ایک انتہائی زہریلا کیمیکل ہے جو گردے کی خرابی اور موت کا سبب بن سکتا ہے۔ مدھیہ پردیش اور راجستھان میں ہونے والی اموات کے بعد تامل ناڈو، کیرالہ، اتر پردیش، کرناٹک اور تلنگانہ نے اب احتیاطی اقدام کے طور پر کولڈریف سیرپ کی فروخت پر پابندی لگا دی ہے۔ آئی ایم اے نے کہا ہے کہ یہ معاملہ صرف ایک ڈاکٹر کی غلطی نہیں ہے بلکہ ڈرگ کنٹرول سسٹم کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ تنظیم نے مطالبہ کیا ہے کہ شفاف تحقیقات اور اصل ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور نہ صرف ڈاکٹر کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com