(جنرل (عام
دھولیہ میں تحفظ مساجد کانفرنس نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر

دھولیہ /مہاراشٹر 21/ اکتوبر
ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام کے روز اول سے ہی اسلام اور شعائر اسلام کے تحفظ و بقاء کے لئے مستقل کوشاں رہی ہے،اور اس کے اغراض و مقاصد میں بھی اسلام،شعائر اسلام اور مسلمانوں کے مآثر و معابد کی حفاظت شامل ہے۔اسی اغراض و مقاصد کو بروئے کار لاتے ہوئے جمعیۃعلماء مہاراشٹر اکائی کی دھولیہ یونٹ نے شہر کے اندر جمعیۃعلماء دھولیہ کے صدر الحاج حافظ حفظ الرحمٰن ابن مرحوم مولانا ابو العاص کی صدارت میں عظیم الشان تحفظ مساجد کانفرنس کا انعقاد کیا۔جس میں بلا تفریق مسلک علماء کرام اور نمائندوں نے شرکت کی۔
جمعیۃ علماء (مولاناارشد مدنی) دھولیہ کے زیر اہتمام جامع مسجد مرکز،مولوی گنج دھولیہ کے پہلے منزلہ پر منعقد کی گئی تحفظ مساجد کانفرنس میں تمام ہی مسلک کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔کانفرنس کا آغازجمعیۃعلماء کے نائب صدر مفتی شفیق احمد قاسمی صاحب کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔بعدہ حافظ بلال احمد سراجی نے نعت رسول ﷺ کی خوشبوؤں سے محفل کو معطر فرمایا۔
بعدہ مولانا عابد صاحب قاسمی اور حاجی شوال امین صاحب (نائب صدر جمعیۃعلماء)نے یکے بعد دیگرے تحفظ مساجد کانفرنس کے اغراض و مقاصدکو نہایت جامع اور مؤثر انداز میں بیان فرمایا۔
جمعیۃعلماء کے جنرل سکریٹری الحاج مشتاق صوفی صاحب نے جمعیۃعلماء کی خدمات کو اپنے مخصوص انداز میں شرکاء کے گوش گزار کیا۔
اورنگ آباد وقف بورڈ سے تشریف لائے ہوئے ناسک ڈویژن کے آفیسر جناب فیاض احمد پٹھان صاحب نے مدعو کئے جانے پر اراکین جمعیۃکا شکریہ ادا کیا۔نیز مساجد کے کاغذات کی درستگی اور وقف سے متعلق ٹرسٹیان مساجد کی جانب سے کئے گئے سوالوں کا تشفی بخش جواب دیا۔ساتھ ہی اس بات کا تیقن بھی دلایا کہ اس سلسلہ میں جو بھی دشواریاں پیش ہوں،ان دشواریوں کو دورکیاجائے گا۔
اس عظیم الشان کانفرنس کی نمایاں خصوصیت یہ رہی ہے کہ بلا تفریق مسلک تمام مکتب فکر کے علماء نے اس میں شرکت فرمائی۔اور مساجد کے تحفظ نیز شعائر اسلام کی بقا کے لئے متحد ہوکر قانونی لڑائی لڑنے کا عزم کیا۔
مسلک اہلحدیث کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا عبد الواحد رحمانی صاحب نے اپنے خطاب میں اتحاد و اتفاق پر زور دیا،اور فرمایا کہ ہمارے آپسی اختلافات اپنی جگہ، لیکن جب بات مساجد کے تحفظ کی ہے تو ہم سب کو مل کر پوری قوت کے ساتھ اس کام کو کرنا چاہئے۔
مدرسہ سراج العلوم دھولیہ کے استاد مولانا ہلال احمد قاسمی صاحب نے نہایت موٗثر انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ائمہ و مؤذنین کے مقام و مرتبہ پر پر مغز خطاب فرمایا۔دار العلوم سلطانیہ چشتیہ کے استاد حافظ و قاری جمیل احمد صاحب رضوی نے اپنے مختصر خطاب میں اس کام کو لیکر اٹھنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی،نیز تمام ہی حاضرین سے اس میں معاونت کی اپیل کی۔
اس کانفرنس کے آخری مقرر مہتمم مدرسہ فلاح دارین و الباقیات الصالحات حضرت مفتی محمد قاسم صاحب جیلانی نے امامت اور مؤذن جیسے عظیم منصب پر پابندی وقت سے اپنی خدمات انجام دینے والوں کی قلیل تنخواہوں پر افسوس کا اظہار فرمایا اور متولیان مساجد سے تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے نیزاس سلسلے میں لائحہ عمل تیار کرنے کی درخواست کی۔ساتھ ہی کاغذات کی دررستگی سے متعلق متولیان مساجد کو متنبہ فرمایا۔
اس عظیم الشان تحفظ مساجد کانفرنس میں شہر دھولیہ کے علاوہ اطراف کے تعلقوں سے بھی بڑی تعداد میں ذمہ داران مساجد نے شرکت کی،جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ مساجد کے تحفظ اور ائمہ و مؤذنین کی تنخواہوں کے بارے میں متولیان مساجد فکر مند ہیں،بس انہیں اس سلسلے میں کسی قیادت کی ضرورت ہے۔
الحمدللہ جمعیۃعلماء دھولیہ (مولانا ارشد مدنی) نے اس کام کی قیادت اپنے کاندھوں پر اس عزم محکم کے ساتھ لی ہے کہ اس ضمن میں جتنے قانونی کام ہیں وہ ان شاء اللہ مختلف ماہرین کی نگرانی میں مکمل کئے جائیں گے۔ مفتی محمد قاسم صاحب جیلانی کی دعا اور مولانا شکیل احمد قاسمی کے شکریہ پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
لاڈلی بہنوں کے ساتھ مہایوتی سرکار کا فریب… قسط میں کمی اور لاڈلی بہنوں کی قسطوں میں تخفیف دغابازی : ابو عاصم اعظمی

ممبئی : ممبئی مہاراشٹر سماجوادی پارٹی رہنما ابوعاصم اعظمی نے لاڈلی بہن کی قسط میں تخفیف کو ان سے دھوکہ قرار دیا ہے, انہوں نے کہا کہ الیکشن کی شب میں جس طرح سے ووٹوں کے لئے غیر قانونی طریقے سے نقدی تقسیم کی جاتی ہے۔ ایک ہزار اور دو ہزار روپے ووٹ کے لئے علاقوں میں تقسیم فی کس ووٹ کئے جاتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن سے قبل لاڈلی بہن اسکیم کے تحت خواتین کو لالچ دیا گیا, یہ ایک طرح کی مہایوتی سرکار کی فریب دہی ہے, اور اب مطلب نکال گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔۔ انہوں نے کہا کہ کیا مہایوتی سرکار ان لاڈلی بہنوں کا ووٹ بھی واپس کرے گی, جو ان بہنوں نے انہیں الیکشن میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاڈلی بہن اسکیم کے سبب سرکاری خزانہ پر بوجھ پڑا, سرکاری ملازمین ڈاکٹروں اور دیگر عملہ کی تنخواہیں بھی تاخیر سے دی گئی ہے۔ ایسے میں سرکار نے لاڈلی بہنوں کے ساتھ فریب کیا ہے۔ الیکشن کے بعد قسط میں اضافہ کا اعلان کیا تھا اور ۲۱ سو روپیہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن اب ۱۵ سو روپیہ سے بھی اس میں تخفیف کر کے ۵ سو روپیہ کر دیا گیا ہے۔ سرکار نے دو کروڑ سے زائد خواتین کو لاڈلی بہن اسکیم میں شامل کیا تھا, اب بہانے اور حیلہ سے انہیں نااہل بھی قرار دیا جارہا ہے یہ دھوکہ ہے ان بہنوں کے ساتھ جنہوں نے ووٹ دیا ہے۔
ممبئی پریس خصوصی خبر
نیشنل ہیرالڈ اراضی کے غلط استعمال کے معاملے میں کارروائی کی جانی چاہئے – انیل گلگلی نے وزیر اعلی دیویندر فڈنویس سے مطالبہ کیا

ممبئی : ممبئی – “نیشنل ہیرالڈ” کے دفتر، نہرو لائبریری اور ریسرچ سینٹر کے لیے 1983 میں ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) کو باندرہ (ایسٹ) کے علاقے میں سروے نمبر 341 میں دی گئی سرکاری زمین کا غلط استعمال کیا گیا ہے، گوتم چٹرجی کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے۔ اس پس منظر میں آر ٹی آئی کارکن انل گلگلی نے وزیر اعلی دیویندر فڑنویس کو خط لکھ کر فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زمین پر 83 ہزار مربع فٹ تعمیر کی گئی ہے, جس میں 11 ہزار مربع فٹ تہہ خانے اور 9 ہزار مربع فٹ بالائی منزل کا اضافی استعمال بھی شامل ہے, جو کہ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ قواعد کے مطابق صرف 15 فیصد کمرشل استعمال کی اجازت تھی, لیکن اس کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہاسٹل کے لیے مختص اضافی اراضی بھی قواعد کو نظر انداز کر کے ادارے کو دی گئی۔
2001 میں ریونیو ڈپارٹمنٹ کے ایک متنازعہ حکم کے تحت، لیز پر دی گئی زمین کو براہ راست ملکیت میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور 2.78 کروڑ کا سود معاف کر دیا گیا تھا، جسے کمیٹی نے قواعد کے خلاف قرار دیا ہے اور اس پر نظر ثانی کی سفارش کی ہے۔ انیل گلگلی نے خط کے ذریعے وزیر اعلیٰ سے درج ذیل مطالبات کیے ہیں۔ مذکورہ زمین کو حکومت کو واپس لینے کے لیے قانونی کارروائی شروع کی جائے۔ معاف شدہ سود کی رقم اور اضافی جرمانہ وصول کیا جائے۔ عمارت کی ایک منزل پر پسماندہ طبقے کے طلباء کے لیے ہاسٹل شروع کیا جائے۔ باقی ماندہ زمین پر لائبریری اور ریسرچ سنٹر شروع کرنے کی ہدایات دی جائیں۔ گوتم چٹرجی کی تحقیقاتی رپورٹ کو عام کیا جائے۔ انیل گلگلی نے کہا، ’’اس معاملے میں منصفانہ انصاف کو یقینی بنانا اور سرکاری زمین کا عوامی مفاد میں استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘
(جنرل (عام
وقف قانون میں تبدیلی کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، کپل سبل نے قانون کو مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔

نئی دہلی : وقف ایکٹ میں تبدیلیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل تمام عرضیوں کی سماعت 2 بجے ہوئی۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس سنجے کمار اور جسٹس کے وی۔ وشواناتھن کی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران وقف سے متعلق تمام مقدمات کی سماعت نہیں ہوئی۔ کیس کی سماعت کے دوران کپل سبل نے کہا کہ یہ قانون مذہبی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ بنیادی ضروریات پر بھی تجاوز کرتا ہے۔ سبل نے اس معاملے میں آرٹیکل 26 کا حوالہ دیا۔ اس سے قبل عدالت نے درخواست گزار سے پوچھا تھا کہ آپ کے دلائل کیا ہیں؟ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کپل سبل سے کہا کہ وقت کم ہے۔ اس لیے درخواست کے اہم اور اہم نکات بتائیں۔ سبل نے کہا کہ سنٹرل وقف کونسل 1995 کے مطابق تمام ممبران مسلمان تھے۔ میرے پاس چارٹ ہے۔ چارٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو یا سکھ خیراتی اداروں میں ممبران یا تو ہندو ہیں یا سکھ۔ یہ براہ راست قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق یہ 20 کروڑ عوام کے حقوق پر پارلیمانی تجاوز ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے دوسری شق کو دیکھنے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سابق افسر کے علاوہ صرف دو ارکان مسلمان ہوں گے؟ سبل نے قاعدہ S.9 کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کل 22 ارکان ہوں گے، جن میں سے 10 مسلمان ہوں گے۔ جبکہ جسٹس وشواناتھن کا کہنا ہے کہ جائیداد کو مذہب کے ساتھ نہیں ملانا چاہیے۔ جائیداد کا معاملہ مختلف ہو سکتا ہے۔ صرف جائیداد کا انتظام مذہبی معاملات میں آ سکتا ہے۔ بار بار یہ کہنا درست نہیں کہ یہ ایک ضروری مذہبی عمل ہے۔
سبل نے کہا کہ پہلے کوئی پابندی نہیں تھی۔ کئی وقف املاک پر لوگوں نے قبضہ کر لیا۔ سی جے آئی نے کہا کہ حد بندی ایکٹ کے اپنے فوائد ہیں۔ سبل نے کچھ اور کہا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ مجھے 2 سال کے اندر دعویٰ کرنا ہے۔ بہت سی جائیدادیں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں تو میں ان کا دعویٰ کیسے کروں؟ سی جے آئی کھنہ نے کہا، “آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر آپ حد بندی کی مدت لگاتے ہیں، تو یہ غیر آئینی ہوگا۔” اس کا مطلب ہے، وقت کی حد لگانا غلط نہیں ہے۔ سبل کا کہنا ہے کہ اس قاعدے سے وقف املاک پر قبضہ کرنے والوں کو فائدہ ہوگا۔ وہ اب منفی قبضے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یعنی وہ کہہ سکتے ہیں کہ جائیداد پر عرصہ دراز سے ان کے قبضے میں ہے، لہٰذا اب ان کی ملکیت ہونی چاہیے۔ جسٹس ایم ایم سندریش عدالت میں نہیں تھا۔ لہٰذا عدالت نمبر 8 میں جسٹس ایم۔ جسٹس سندریش اور جسٹس راجیش بندل کی بنچ کے لیے درج مقدمات اب جسٹس راجیش بندل اور جسٹس کے وی کی بنچ کے لیے درج ہوں گے۔ وشواناتھن کی بنچ نے اس کی سماعت کی۔ وقف ایکٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں 73 درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی، کانگریس ایم پی محمد جاوید، آر جے ڈی ایم پی منوج کمار جھا اور ٹی ایم سی ایم پی مہوا موئترا جیسے کئی لوگوں نے عرضی داخل کی ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ دراوڑ منیترا کزگم (ڈی ایم کے) پارٹی، انڈین یونین مسلم لیگ، وائی ایس آر سی پارٹی اور سمستھا کیرالہ جمعیت العلماء نے بھی درخواست دائر کی ہے۔ دہلی کے ایم ایل اے امانت اللہ خان، ایس پی ایم پی ضیاء الرحمان اور بنگلور کی جامع مسجد کے امام بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، TVK کے صدر اور تمل اداکار وجے اور ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس بھی درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔ جبکہ راجستھان، گجرات، ہریانہ، مہاراشٹر، آسام، اتراکھنڈ اور چھتیس گڑھ کی ریاستوں نے اس ایکٹ کی حمایت میں مداخلت کی درخواستیں دائر کی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی ایک کیویٹ داخل کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے حکومت کو آگاہ کیا جائے گا۔
اس معاملے میں مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں کیویٹ پٹیشن بھی داخل کی ہے۔ عرضی میں مرکز نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے میں کوئی حکم دینے سے پہلے مرکزی حکومت کے دلائل بھی سنے۔ مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ عدالت کو بغیر سنے کوئی یکطرفہ حکم جاری نہیں کرنا چاہیے۔ مرکزی حکومت نے کیویٹ پٹیشن میں واضح کیا ہے کہ اسے اس اہم معاملے میں اپنا رخ پیش کرنے کا پورا موقع دیا جانا چاہئے، تاکہ عدالت کے ذریعہ کوئی بھی فیصلہ سناتے وقت مرکز کے دلائل کو بھی شامل کیا جاسکے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ وقف (ترمیمی) بل 2025، جسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے بجٹ اجلاس میں منظور کیا تھا، صدر دروپدی مرمو کی منظوری مل گئی ہے۔ اس سلسلے میں گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کے ساتھ ہی وقف ایکٹ 1995 کا نام بھی تبدیل کر کے یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ (امید) ایکٹ 1995 کر دیا گیا ہے۔
-
سیاست6 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر5 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا