Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

کرکٹ اسکینڈل کیس، فاروق عبداللہ سے پھر پوچھ گچھ

Published

on

FAROOQ ABDULLAH

انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، جموں وکشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن میں سن 2012 میں سامنے آنے والے کروڑوں روپے مالیت کے اسکینڈل کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں، نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے ایک بار پھر پوچھ گچھ کر رہا ہے۔
سرکاری ذرائع نے بتایا کہ فاروق عبداللہ بدھ کی صبح قریب گیارہ بجے یہاں راجباغ میں واقع انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے دفتر میں حاضر ہوئے جہاں جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن اسکینڈل کیس کے سلسلے میں ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ای ڈی نے فاروق عبداللہ، جو جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہیں، کے نام ایک بار پھر سمن جاری کرتے ہوئے انہیں ایجنسی کے دفتر پر حاضر ہونے کے لئے کہا تھا۔
قبل ازیں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے عہدیداروں نے پیر کے روز فاروق عبداللہ سے کم از کم چھ گھنٹوں تک پوچھ گچھ کی اور پریونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیا۔
فاروق عبداللہ گذشتہ برس جولائی میں چندی گڑھ میں واقع ای ڈی کے دفتر میں حاضر ہوئے تھے جہاں ان سے پوچھ گچھ کی گئی تھی اور ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔
فاروق عبداللہ سے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے پوچھ گچھ ایک ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب جموں و کشمیر کی چھ علاقائی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نے ‘پیپلز الائنس’ کے بینر تلے چار اگست 2019 کی پوزیشن کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے مذاکرات شروع کرانے کے لئے جدوجہد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
نیشنل کانفرنس نے الزام لگایا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف سیاسی طور لڑنے میں ناکامی کے بعد بی جے پی نے اپنی ایجنسیوں کو کام پر لگا دیا ہے۔
فاروق عبداللہ نے پیر کی شام یہاں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے دفتر سے باہر آنے کے بعد نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے سبھی سوالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں تختہ دار پر چڑھانے کے باوجود دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کی بحالی کے اپنے مطالبات سے دستبردار نہیں ہوجائوں گا۔
قابل ذکر ہے کہ کرکٹ اسکینڈل کیس کی تحقیقات مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کررہی ہے۔ اس نے 16 جولائی 2018ء کو کیس میں چارج شیٹ چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) سری نگر کی عدالت میں فائل کی تھی۔ چارج شیٹ میں ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ ، سابق جنرل سکریٹری محمد سلیم خان ، سابق خزانچی احسان احمد مرزا اور جموں وکشمیر بینک منیجر بشیر احمد کے نام شامل کئے گئے تھے۔
سی بی آئی نے چارج شیٹ فاروق عبداللہ کو چھوڑ کر باقی ملزمان کی موجودگی میں دائر کی تھی۔ سی بی آئی نے کیس کے سلسلے میں فاروق عبداللہ کا بیان جنوری 2018 میں ریکارڈ کیا تھا۔
فاروق عبداللہ نے ستمبر 2015 میں کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا: ‘میں خوش ہوں کہ کیس کی تحقیقات شروع کی گئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ سی بی آئی کیس کی تحقیقات کو تیزی سے اپنے اختتام تک لے جائے گی’۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے جموں وکشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کے حوالے سے سامنے آنے والے اسکینڈل کو 3 ستمبر 2015 کو سی بی آئی کے حوالے کر دیا تھا۔ اس سے قبل اس اسکینڈل کی تحقیقات جموں وکشمیر پولیس کی خصوصی تحقیقات ٹیم (ایس آئی ٹی) کررہی تھی۔
یہ اسکینڈل 2002 سے 2011 تک بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کی طرف سے جموں و کشمیر کرکٹ ایسوسی ایشن کو ریاست میں کرکٹ کی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے فراہم کئے گئے 113 کروڑ 67 لاکھ روپے سے متعلق ہے۔ اس رقم میں سے مبینہ طور پر 40 کروڑ روپے کا خرد برد کیا گیا تھا۔ یہ خرد برد اس وقت کیا گیا جب فاروق عبداللہ ریاستی کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔
ایس آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں انکشاف کیا تھا کہ کروڑوں روپے مختلف جعلی بینک کھاتوں میں منتقل کئے گئے تھے۔ اسکینڈل کے سلسلے میں پولیس تھانہ رام منشی باغ میں درج کی گئی پہلی ایف آئی آر میں صرف سابق جنرل سکریٹری محمد سلیم خان اور سابق خزانچی احسان احمد مرزا کو نامزد کیا گیا تھا۔

سیاست

بہار میں ووٹر لسٹوں کی دوبارہ تصدیق کا حکم… ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نے تحقیقات کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی۔

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ یہ درخواست الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کے فیصلے کے خلاف ہے۔ ای سی آئی بہار میں ووٹر لسٹ کی دوبارہ جانچ کا کام کر رہی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ای سی آئی کا یہ حکم درست نہیں ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے لاکھوں لوگ ووٹ ڈالنے سے روک سکتے ہیں، یعنی ان کے نام ووٹر لسٹ سے نکالے جا سکتے ہیں۔ لائیو لا نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘بہار میں ووٹر لسٹوں کی دوبارہ تصدیق کے حکم کے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز نامی تنظیم نے یہ عرضی دائر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ای سی آئی کا یہ حکم صوابدیدی ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روک سکتا ہے۔

اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے بتایا کہ بوتھ لیول آفیسرز (بی ایل او) بہار میں تقریباً 1.5 کروڑ گھروں کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ دورہ جمعہ کو مکمل ہوا۔ 24 جون 2025 تک، بہار میں 7,89,69,844 (تقریباً 7.90 کروڑ) ووٹر ہیں۔ ان میں سے 87 فیصد ووٹرز کو گنتی کے فارم دیے گئے ہیں۔ یہ اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے دوران کیا گیا ہے۔ کچھ گھر بند تھے یا ان میں رہنے والے اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ کچھ لوگ دوسرے شہروں میں گئے تھے، یا کہیں سیر پر گئے ہوئے تھے۔ اس لیے بی ایل او ان گھروں تک نہیں پہنچ سکے۔ بی ایل او اس کام کے دوران تین بار گھروں کا دورہ کریں گے۔ اس لیے یہ تعداد مزید بڑھ سکتی ہے۔

اے این آئی کی رپورٹ کے مطابق مختلف پارٹیوں کے 1,54,977 بوتھ لیول ایجنٹ (بی ایل اے) بھی اس کام میں مدد کر رہے ہیں۔ 2 جولائی تک کے اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی نے 52,689 بی ایل اے کی تقرری کی ہے۔ آر جے ڈی کے پاس 47,504، جے ڈی یو کے پاس 34,669 اور کانگریس کے پاس 16,500 بی ایل اے ہیں۔ اس کے علاوہ راشٹریہ لوک جن شکتی پارٹی کے 1913 بی ایل اے، سی پی آئی (ایم ایل) ایل کے 1271، لوک جن شکتی پارٹی (رام ولاس) کے 1153، سی پی ایم کے 578 اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی کے 270 ہیں۔ بی ایس پی کے پاس 74، این پی پی کے پاس 3 اور عام آدمی پارٹی کے پاس 1 بی ایل اے ہے۔ ہر بی ایل اے ایک دن میں 50 تصدیق شدہ فارم جمع کرا سکتا ہے۔

ووٹر لسٹ کی تصدیق 2 اگست 2025 سے شروع ہوگی۔ ڈرافٹ ووٹر لسٹ کے جاری ہونے کے بعد کوئی بھی پارٹی یا عام شہری 2 اگست 2025 سے ووٹر لسٹ پر دعویٰ یا اعتراض درج کرا سکتا ہے۔ حتمی ووٹر لسٹ 30 ستمبر 2025 کو جاری کی جائے گی۔ اس کے بعد بھی آپ ڈی ایم (ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ آفیسر) اور ضلع مجسٹریٹ آفیسر سے اپیل کر سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ووٹرز کے لیے خوشخبری سنا دی۔ اب ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنا اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ آپ فارم ای سی آئی پورٹل اور ای سی این ای ٹی ایپ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ آپ کو یہ فارم پہلے سے بھرے ہوئے ملیں گے۔ اگر آپ چاہیں تو آپ خود بھرا ہوا فارم ای سی این ای ٹی ایپ پر اپ لوڈ کر سکتے ہیں۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں رہا… بری سفارت کاری، ناکام حکمت عملی، یوم آزادی پر جانیے اس کے زوال کی کہانی

Published

on

America

واشنگٹن : امریکا آج اپنا یوم آزادی منا رہا ہے۔ 4 جولائی 1976 کو امریکہ برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوا اور دنیا کے قدیم ترین جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ آزادی کے بعد امریکہ نے دنیا کو باور کرایا کہ ایک نئی قیادت سامنے آئی ہے، ایک ایسی قوم جو جمہوریت، آزادی اور عالمی قیادت کی اقدار کا پرچم اٹھائے گی۔ لیکن آج، جیسا کہ ہم 2025 میں امریکہ کے لیے اس تاریخی دن پر نظر ڈالتے ہیں، ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے : امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف بیرونی چیلنجز نہیں ہیں، بلکہ اندر سے ابھرنے والے سیاسی اور اسٹریٹجک عدم استحکام بھی اس زوال کی وجہ ہیں۔ امریکہ اب عالمی جغرافیائی سیاست کا واحد کھلاڑی نہیں رہا۔ ٹائم میگزین میں لکھتے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما کے خصوصی مشیر ڈینس راس جو کہ اب واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مشیر بھی ہیں، نے لکھا ہے کہ امریکہ نے ایک بہت مہنگی جنگ کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور اس سے بہت محدود فوائد حاصل کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اس نے دنیا کی قیادت کی۔ سوویت یونین کے انہدام نے جغرافیائی سیاست پر امریکہ کی گرفت کو نمایاں طور پر مضبوط کیا۔ 1990 کی دہائی سے 2000 کی دہائی کے وسط تک، امریکہ نے سفارت کاری، فوجی طاقت، اقتصادی اثر و رسوخ اور تکنیکی قیادت کا استعمال کرتے ہوئے دنیا کو اپنی شرائط پر چلایا۔ لیکن اس عرصے میں کچھ اہم غلط فیصلوں نے آہستہ آہستہ امریکہ کی پوزیشن کو کمزور کرنا شروع کر دیا۔ خاص طور پر 2003 میں عراق کی جنگ میں امریکہ کا داخلہ بہت غلط فیصلہ تھا۔ عراق جنگ میں امریکہ بغیر کسی ٹھوس حکمت عملی کے ایک طویل اور مہنگی جنگ میں الجھ گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا اور ملکی سطح پر بھی قیادت کے تئیں عدم اعتماد بڑھ گیا۔

انہوں نے لکھا کہ روس ابھی تک ہمیں چیلنج نہیں کر رہا تھا لیکن 2007 میں میونخ سیکیورٹی فورم میں ولادیمیر پوٹن نے ایک قطبی دنیا کے خیال کی مذمت کرتے ہوئے اس بات کا اشارہ دیا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونا ہے اور کہا کہ روس اور دیگر لوگ اسے قبول نہیں کر سکتے۔ اس وقت ان کے دعوے نے امریکی بالادستی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کیا۔ لیکن آج حقیقت بالکل مختلف ہے۔ بین الاقوامی سطح پر، ہمیں عالمی حریف کے طور پر چین اور روس کا سامنا ہے، چین کے ساتھ اقتصادی اور فوجی دونوں طرح کا چیلنج ہے۔ علاقائی سطح پر ہمیں ایران اور شمالی کوریا کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ اقتصادی، تکنیکی اور عسکری طور پر اب بھی دنیا کی سب سے مضبوط طاقت ہو سکتا ہے… لیکن ہمیں اب ایک کثیر قطبی دنیا میں کام کرنا چاہیے جس میں ہمیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اور یہ رکاوٹیں بین الاقوامی سے لے کر ملکی سطح تک ہوں گی۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جے ڈی وینس جیسے لیڈروں کی قیادت میں ایک نئی امریکی قوم پرستی ابھری ہے، جس کی کتاب امریکہ کو عالمی رہنما کے طور پر تصور نہیں کرتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کو صرف اپنی قومی ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے، چاہے وہ عالمی اتحاد کو نقصان پہنچائے۔ انہوں نے لکھا کہ “2006 میں میں ایک ایسے امریکہ کے بارے میں لکھ رہا تھا جو عراق میں ہمارے کردار پر بحث کر رہا تھا لیکن پھر بھی بین الاقوامی سطح پر امریکی قیادت پر یقین رکھتا تھا۔ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے دنیا میں ہمارے کردار کی قیمت کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھائے اور اس اتفاق رائے کو ختم کر دیا کہ امریکہ کو قیادت کرنی چاہیے۔”

ڈینس راس کا خیال ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کی اب سب سے بڑی کمزوری اس کے بیان کردہ مقاصد اور ان کے حصول کے لیے وسائل کے درمیان عدم توازن ہے۔ افغانستان سے عجلت میں واپسی ہو، یا شام میں نیم دلانہ مداخلت، یا یوکرائن کے تنازع میں حمایت پر اٹھنے والے سوالات، ہر جگہ یہی نظر آرہا ہے کہ امریکہ نے اپنے مقرر کردہ اہداف کے حصول کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ اگر قیادت میں تبدیلی نہ لائی گئی اور حالات کو درست نہ کیا گیا تو امریکہ کی پالیسی نہ صرف ناکام ہوگی بلکہ اس کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں پر سنگین سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں کی وجہ سے زیادہ تر امریکی شراکت دار دور ہوتے جا رہے ہیں اور ان کا امریکہ پر عدم اعتماد گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک مضبوط روس اور ایک جارح چین کا سامنا ہے اور اگر امریکہ اپنے اتحادیوں کو ناراض کرتا رہا تو وہ ناکام ہو جائے گا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com