Connect with us
Saturday,23-August-2025
تازہ خبریں

سیاست

صدر کا خطبہ مایوس کن: اپوزیشن

Published

on

کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے صدر رام ناتھ کووند کے خطاب کو مایوس کن بتایا اور کہا کہ اس میں ملک کو درپیش اہم مسائل کو شامل کرنے کی امید تھی لیکن صرف حکومت کی تعریف میں پوری تقریر ختم ہوگئی۔
کانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے پارلیمنٹ ہاوس کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون‘ نیشنل پاپولیشن رجسٹر، شہریت کا قومی رجسٹر کے سلسلے میں ملک بھر میں ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگوں کا ملک کی کئی ریاستوں میں گذشتہ ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے تحریک چل رہی ہے۔ لیکن حکومت نے اس معاملے میں آج تک کسی بھی فریق سے بات نہیں اس کے برخلاف وہ مذہب کی بنیاد پر صف بندی کی سیاست کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی گرتی ہوئی اقتصادی صورت حال، بے روزگاری سمیت تمام امور پر کانگریس سمیت چودہ اپوزیشن جماعتوں نے بابائے قوم کے مجسمہ کے سامنے صبح ساڑھے نو بجے ہاتھوں میں کالی پٹی باندھ کر مظاہرہ کیا۔
مسٹر آزاد نے کہا کہ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ملک کے بہت بڑے حصے میں ناراضگی ہے۔ اس کے خلاف تمام مذاہب‘ ذات اور صوبے کے لوگ شامل ہیں۔ کئی مقامات پر کئی ماہ سے لوگ سڑکوں پر تحریک کررہے ہیں۔ جس میں شیر خوار بچے سے لے کر نوے سال کی بزرگ خواتین شامل ہیں۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں حکمراں جماعت کی طلبہ تنظیموں نے نقاب پوش حملے کو انجام دیا جس کے خلاف ملک بھر کے نوجوانوں میں ناراضگی ہے۔ایک اندازہ کے مطابق جے این یو تشدد کے بعد ملک بھر میں اس کے خلاف کئی ہزار جلوس نکالے گئے۔ شہریت قانون اور جے این یوتشدد کے خلاف نوجوان سڑکوں پر ہیں۔ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مظاہرہ کرنے والے تیس نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اور اس دوران ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس راشٹریہ جنتا دل، سی پی ایم سمیت چودہ اپوزیشن جماعتوں کے اراکین صدر کے خطبہ کے دوران احتجاج کے طور پر اپنی سیٹوں سے ہٹ کر بیٹھے۔ صدر کے خطبہ میں کئی ایسی چیزوں کو شامل کیا گیا جو پانچ یا چار سال پرانی تھی۔ بے روزگاری،غریبی، بے کاری اور مہنگائی پر ان کی تقریر میں کچھ نہیں کہا گیا ہے۔ مجموعی گھریلو پیداوار جس تیزی سے گر رہی ہے، روپیہ تیزی سے گر رہا ہے اس کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔
مسٹر آزاد نے کہا کہ کشمیر کو مرکز کے زیر انتظامہ علاقہ بنانے کے بعد اسے تباہ کیا گیا ہے او رصدر نے اپنی تقریر میں وہاں تیزی سے ترقی کی بات کہہ کر انتہائی بھدا مذاق کیا ہے۔
سی پی ایم کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا کہ ملک بھر میں جس طرح کے حالات ہیں وہ نہایت تشویش ناک ہیں۔ مظاہرہ کرنے والے لوگوں سے بات چیت کے بجائے حکومت تشدد کروارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کل جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کھلے عام پولیس کے سامنے جس طرح گولی چلائی گئی وہ نہایت افسوس ناک ہے۔ حکومت کی اعانت سے تشدد کو فروغ دیا جارہاہے۔ ہندو سینا نے شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والے لوگوں کے خلاف جنگ شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔ ملک کی معیشت کی حالت تشویش ناک ہے۔
آر جے ڈی کی رہنما میسابھارتی نے کہا کہ ملک بھر میں جس طرح کا ماحول ہے اس سے ہر ایک واقف ہے۔ سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ملک بھر میں تمام مذاہب ’ذات او رفرقوں کے لوگ تحریک کررہے ہیں اور حکومت اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے۔

بین الاقوامی خبریں

میانمار کی ریاست راکھین میں ایک نئی جنگ شروع… اراکان آرمی کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے چیلنج کا سامنا ہے۔

Published

on

Myanmar

اسلام آباد : میانمار میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) نے صوبہ رخائن میں اراکان آرمی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں اراکان آرمی کے کئی جنگجوؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے بیان کے مطابق یہ حملہ تاونگ پیو لٹ میں ہوا۔ اس دوران اراکان آرمی کے دو کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ 10 اگست کی رات تقریباً 11 بجے شروع ہوا اور تقریباً 50 منٹ تک جاری رہا۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں اراکان آرمی کے کم از کم 5 جنگجو ہلاک اور 12 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران اراکان آرمی کے درجنوں جنگجو موقع سے فرار ہو گئے۔

گونج نیوز کی رپورٹ کے مطابق اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مسلح گروپ میانمار کی مسلم روہنگیا آبادی میں سرگرم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کو پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ سمیت کئی دوسرے دہشت گرد گروپس کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کا عروج میانمار کی سرحد سے متصل ہندوستانی علاقوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اراکان آرمی میانمار کا ایک باغی گروپ ہے جو 2009 میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں بدھ مت کی آبادی کے لیے زیادہ خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ فی الحال، اراکان آرمی میانمار کے راکھین صوبے کے 17 میں سے 15 قصبوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ یہ گروپ پہلے ہی مختلف دھڑوں کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جن میں میانمار آرمی اور دیگر عسکریت پسند گروپس جیسے اے آر ایس اے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اراکان آرمی کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے میانمار میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اس کام کے لیے بنگلہ دیش کے بنیاد پرستوں کو بھی اپنے پیادوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم روہنگیا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی میں شامل ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپوں میں کئی کیمپ لگائے ہیں جن میں انہیں ہتھیار اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

Continue Reading

بزنس

ممبئی اور مہاراشٹر میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو اگلے پانچ سال تک نہیں دینا پڑے گا ٹول ٹیکس، جانیں سب کچھ

Published

on

Atal-Setu..

ممبئی : ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اب انہیں ممبئی میں اٹل سیتو پر اپنی ای وی پر سفر کرتے ہوئے ٹول ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے لیا گیا فیصلہ 22 اگست 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔ نجی اور سرکاری گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں آئیں گی۔ اس فیصلے سے چار پہیہ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرک بسوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اٹل سیٹو سے روزانہ تقریباً 60 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد الیکٹرک گاڑیوں کی ہے۔ حکومت نے 2030 تک ای وی کو ٹول ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹل سیٹو پر ایک کار کا ٹول 250 روپے ہے۔ یہ ٹول دسمبر 2025 سے لاگو ہے۔

ریاستی حکومت نے اپریل 2025 میں ‘مہاراشٹرا الیکٹرک وہیکل پالیسی’ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اٹل سیٹو، ممبئی-پونے ایکسپریس وے اور سمردھی ہائی وے پر برقی چار پہیہ گاڑیوں اور بسوں کو ٹول چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو ریاستی اور قومی شاہراہوں پر 50 فیصد رعایت ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کمشنر وویک بھیمنوار نے کہا کہ اٹل سیٹو پر ٹول معافی کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے۔ اس کا نفاذ جمعہ سے ہو جائے گا جبکہ یہ سہولت دیگر شاہراہوں پر بھی 2 روز میں شروع ہو جائے گی۔

پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکٹرک مال بردار گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گی۔ حکام کے مطابق، یہ چھوٹ سرکاری اور نجی شعبے میں ای وی کو اپنانے کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ یہ نیا اصول اٹل سیتو پر شیواجی نگر اور گاون میں واقع ٹول بوتھوں پر جمعہ سے نافذ ہو جائے گا۔ حکام کو امید ہے کہ اس پالیسی سے ای وی کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا ہوا بیڑا ہے، جو اس اقدام سے براہ راست فائدہ اٹھائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18,400 لائٹ فور وہیلر، 2,500 ہلکی مسافر گاڑیاں، 1,200 بھاری مسافر گاڑیاں اور 300 درمیانے درجے کی مسافر گاڑیاں، کل 22,400 الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اٹل سیٹو سے روزانہ اوسطاً 60,000 گاڑیاں گزرتی ہیں۔

Continue Reading

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com