Connect with us
Thursday,28-August-2025
تازہ خبریں

قومی خبریں

جمعیۃعلماء ہند نے مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آج شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنی رٹ پٹیشن داخل کردی

Published

on

(عطاہر رھمان)
جمعیۃعلماء ہند نے مولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آج شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں اپنی رٹ پٹیشن داخل کردی جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کے بنیادی اقدارکے منافی ہے اوراس سے شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اسلئے اس ایکٹ کو کالعدم قراردیاجائے، پٹیشن میں یہ اہم نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ یہ قانون آئین کی دفعہ 14اور 21کے منافی ہے، اس ایکٹ میں غیر قانونی مہاجرکی تعریف میں مذہب کو بنیادبناکر تفریق کی گئی ہے اور اس کا اطلاق صرف مسلمانوں پر کیا گیا ہے جبکہ ہندوسکھ، بدھشٹ، جین، پارسی کو غیر قانونی مہاجر کے دائرہ سے باہر کردیا گیا ہے جو کہ دستورکی دفعہ 14سے متصادم ہے اس کے علاوہ دستورہند کا بنیادی ڈھانچہ سیکولرازم پرمبنی ہے اس ایکٹ میں اصل بنیادکو نقصان پہنچایا گیا ہے، پٹیشن میں اس ایکٹ کے نتیجہ میں آسام میں این آرسی کی فہرست سے باہر ہونے والے ہندوکوشہریت ایکٹ کی دفعہ (6B)کے تحت شہریت کا حق مل جائے گا، جبکہ صرف مسلمانوں کو یہ حق نہیں ملے گا، جو کہ عصبیت اور امیتازپرمبنی ہے، قومی سطح پر ایسی تفریق سے قومی اتحادکا متاثرہونایقینی ہے، ان تمام دلائل کے ساتھ آج جمعیۃعلماء ہندکی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشادحنیف نے ڈاکٹر راجیودھون سے مشورہ کے بعد رٹ پٹیشن داخل کی ہے۔جس کا ڈائری نمبر 45566/2019ہے، واضح رہے کہ اس اہم کیس کی پیروی مشہور ومعروف سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون کریں گے ، پٹیشن داخل ہونے کے بعد اپنے ردعمل کااظہارکرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا شروع سے یہ مانناہے کہ جن ایشوز یا مسائل کا حل سیاسی طورپر نہ نکل سکے اس کے خلاف قانونی جدوجہد کا راستہ اپنایاجائے، بہت سے اہم معاملوں میں جمعیۃعلماء ہند نے ایسا کیا ہے اور متعدداہم معاملوں میں عدلیہ سے انصاف ملا ہے، چنانچہ اسی یقین اور امید کے ساتھ یہ پٹیشن داخل کی گئی ہے کہ عدالت معاملہ کی سنگینی اور پٹیشن میں اٹھائے گئے تمام نکتوں کا باریکی سے جائزہ لیکر اپنا فیصلہ دے گی، انہوں نے کہا کہ اب یہ بے تکی دلیل دی جارہی ہے کہ یہ قانون لوگوں کو شہریت دینے کا ہے شہریت لینے کا نہیں لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے اس قانون کے مضمرات آئندہ چل کر اس ملک کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں. مولانا مدنی نے کہا کہ جب ملک بھرمیں این آرسی نافذ ہوگی تو اس قانون کے مضمرات اپنی بھیانک شکل میں سامنے آئیں گے، اور تب جولوگ کسی وجہ اپنی شہریت ثابت نہیں کرسکیں گے ان کے لئے یہ قانون تباہی وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس قانون کے خلاف پورے ملک میں تحریک شروع ہوگئی ہے اور لوگ مذہب سے بلند ہوکر اس کی مخالفت کررہے ہیں یہاں تک کے آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں حکومت کی تمام تر یقین دہانیوں کے باوجود عوام سڑکوں پر اترکر اس قانون کے خلاف اپنے غم وغصے کا اظہارکررہے ہیں، ملک بھرکی یونیورسیٹیوں اور تعلیمی اداروں کے طلباء بھی متحدہوکر اس کے خلاف آواز بلندکررہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ایک مثبت علامت ہے لیکن قانونی جدوجہد بھی ضروری ہے اور اسی کے مدنظر جمعیۃعلماء ہند نے آج اپنی پٹیشن داخل کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے اس کیس کی پیروی بھی ڈاکٹرراجیودھون کریں گے جو نہ صرف ملک کے ممتاز قانون داں ہیں بلکہ آئین کے ماہر بھی ہیں۔

(جنرل (عام

ہائی کورٹ کے ججوں کی بڑی تعداد کا تبادلہ، سپریم کورٹ کالجیم نے 14 ججوں کے تبادلے کی سفارش کی۔

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : سپریم کورٹ کالجیم نے مختلف ہائی کورٹس کے 14 ججوں کے تبادلے کی سفارش کی ہے۔ اس اقدام میں مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، مدراس، راجستھان، دہلی، الہ آباد، گجرات، کیرالہ، کلکتہ، آندھرا پردیش اور پٹنہ ہائی کورٹس کے جج شامل ہیں۔ کالجیم کی طرف سے جاری بیان کے مطابق 25 اور 26 اگست کو ہونے والی میٹنگوں کے بعد تبادلوں کی سفارش مرکز کو بھیجی گئی ہے۔

اس سفارش کے تحت جسٹس اتل شریدھرن کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ سے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ، جسٹس سنجے اگروال کو چھتیس گڑھ ہائی کورٹ سے الہ آباد سینئر جسٹس، جسٹس جے نشا بانو کو مدراس ہائی کورٹ سے کیرالہ ہائی کورٹ، جسٹس دنیش مہتا کو راجستھان ہائی کورٹ سے دہلی ہائی کورٹ، جسٹس دنیش مہتا کو راجستھان ہائی کورٹ سے دہلی ہائی کورٹ اور جسٹس ہرنیگن کو پنجاب ہائی کورٹ میں تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ راجستھان ہائی کورٹ سے دہلی ہائی کورٹ، جسٹس ارون مونگا (اصل میں پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ سے) دہلی ہائی کورٹ سے راجستھان ہائی کورٹ، جسٹس سنجے کمار سنگھ الہ آباد ہائی کورٹ سے پٹنہ ہائی کورٹ تک۔

جسٹس روہت رنجن اگروال کو الہ آباد ہائی کورٹ سے کلکتہ ہائی کورٹ، جسٹس مانویندر ناتھ رائے (اصل میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ، موجودہ گجرات ہائی کورٹ) کو آندھرا پردیش ہائی کورٹ، جسٹس ڈوناڈی رمیش (اصل میں آندھرا پردیش ہائی کورٹ) کو الہ آباد ہائی کورٹ سے واپس آندھرا پردیش ہائی کورٹ، جسٹس سندیپ نٹور کو گجرات ہائی کورٹ سے واپس آندھرا پردیش ہائی کورٹ، جسٹس سندیپ ناتھ کو گجرات ہائی کورٹ میں تبدیل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ چندر شیکرن سودھا کیرالہ ہائی کورٹ سے دہلی ہائی کورٹ، جسٹس تارا ویتاستا گنجو دہلی ہائی کورٹ سے کرناٹک ہائی کورٹ اور جسٹس سبیندو سمانتا کلکتہ ہائی کورٹ سے آندھرا پردیش ہائی کورٹ۔

Continue Reading

(جنرل (عام

سپریم کورٹ : سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ، یو اے پی اے کے تحت ملزم کو دی گئی ضمانت برقرار رکھی گئی۔

Published

on

supreme-court

نئی دہلی : سپریم کورٹ نے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی اس اپیل کو خارج کر دیا ہے جس میں کرناٹک ہائی کورٹ کے سلیم خان کو ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت درج کیا گیا تھا اور ملزم پر ‘الہند’ تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 20 اگست کو اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘الہند’ تنظیم یو اے پی اے کی فہرست میں ممنوعہ تنظیم نہیں ہے اور کہا کہ اگر کوئی شخص اس تنظیم کے ساتھ میٹنگ کرتا ہے تو اسے یو اے پی اے کے تحت پہلی نظر میں جرم نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

جسٹس وکرم ناتھ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ ملزم سلیم خان کی درخواست ضمانت پر غور کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے نوٹ کیا تھا کہ چارج شیٹ میں لگائے گئے الزامات کا تعلق ‘الہند’ نامی تنظیم سے اس کے روابط سے ہے، جو کہ یو اے پی اے کے شیڈول کے تحت ممنوعہ تنظیم نہیں ہے۔ اس لیے یہ کہنا کوئی بنیادی جرم نہیں بنتا کہ وہ مذکورہ تنظیم کی میٹنگوں میں شرکت کرتا تھا۔” جنوری 2020 میں، سی سی بی پولیس نے 17 ملزمان کے خلاف سداگونٹے پالیا پولیس اسٹیشن، میکو لے آؤٹ سب ڈویژن میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس میں دفعہ 153اے، 121اے، 1221 بی، 1221 بی، 123 بی، 123، 120 آئی بی سی کی 125 اور یو اے پی اے کی دفعہ 13، 18 اور 20 کے تحت کیس کو بعد میں این آئی اے کے حوالے کر دیا گیا جبکہ ہائی کورٹ نے ایک اور ملزم محمد زید کی ضمانت کی درخواست کو مسترد کر دیا، کیونکہ اس پر ڈارک ویب کے ذریعے آئی ایس آئی ایس کے ہینڈلرز کے ساتھ رابطے کا الزام تھا۔

سلیم خان کے معاملے میں، ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ گروپ ‘الہند’ کی میٹنگ میں شرکت کرنا اور اس کا رکن ہونا، جو کہ یو اے پی اے کے شیڈول کے تحت کالعدم تنظیم نہیں ہے، یو اے پی اے کی دفعہ 2(کے) یا 2(ایم) کے تحت جرم نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکم تمام متعلقہ پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد دیا گیا ہے۔ اس طرح سلیم خان کی ضمانت برقرار رہی اور محمد زید کو ضمانت نہیں ملی۔ اس کے ساتھ سپریم کورٹ نے ٹرائل جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ عدالت نے کہا کہ ملزم کو زیادہ دیر تک زیر سماعت قیدی کے طور پر جیل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت مکمل کرنے کے لیے دو سال کی مہلت دی تھی۔

Continue Reading

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com