Connect with us
Saturday,23-August-2025
تازہ خبریں

سیاست

مہاراشٹر کی سیاست میں بھونچال. دوبارہ بی جے پی اقتدار میں.

Published

on

bjp123

(وفا ناہید)
سیاست میں کب کیا ہوجائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا. سیاست کے بازار میں ہر چیز بک جاتی ہے. اس بازار کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں وفا داریاں, ضمیر, رشتے ناطے یہاں تک کہ ایمان بھی بیچے جاتے ہیں. کچھ ایسا ہی حال این سی پی سربراہ شرد پوار کا ہوا. سیاست کی دنیا میں شردپوار ایک گھاگ سیاستداں کے طور پر جانے جاتے ہیں. شردپوار کی بیٹی سپریہ سولے اور بھتیجہ اجیت دادا پوار بھی سیاست کی نامی گرامی شخصیت ہے . اسمبلی چناؤ 2019 کے نتائج حیرت انگیز طور پر چونکادینے والے تھے کیونکہ 2014 سے سیاسی پٹری پر پوری اکثریت سے دوڑنے والی بی جے پی کی ٹرین کو جھٹکا لگا تھا. اب حالت یہ تھی کہ کسی طرح اپنی اکثریت ثابت کرنے کے لئے بی جے پی کو کسی پارٹی کا تعاون درکار تھا. بی جے پی نے شیوشینا سے تال میل کرنے کی بہتری کوشش کی مگر شیوشینا 50 -50 پر معاملہ طے کرنا چاہتی تھی اور شیوشینا صدر ادھو ٹھاکرے کی کوشش تھی کہ ان کے بیٹے ادتیہ ٹھاکرے کو مہاراشٹر کی باگ ڈور تھمائی جائے. بی جے پی شرائط کی بنیاد پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتی تھی. بی جے پی کا مؤقف تھا کہ وزیراعلیٰ دیویندر فڈنویس ہی ہونگے. اب بی جے پی سے ناامید ہوکر شیوشینا نے راشٹر وادی کے صدر شرد پوار سے بات چیت کی. معاملات طے ہوگئے . کانگریس, این سی پی اور شیوشینا مل کر صرف میٹنگ ہی کرتے رہ گئے. شیوشینا کا مہاراشٹر پر حکومت کرنے کا سپنا سپنا ہی رہ گیا اور این سی پی سربراہ کے بھتیجے اجیت دادا پوار نے جو کہ قانون ساز کے عہدے پر فائز تھے اپنے چاچا , پارٹی اور عوام کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر بی جے پی کی حمایت کردی اور نائب وزیر اعلیٰ بن بیٹھے. اب حال یہ ہے کہ 170 اراکین اسمبلی بی جے پی کے ساتھ ہیں اور بی جے پی اپنی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے. ذرائع سے ملی تازہ اطلاعات کے مطابق بی جے پی لیڈر گریش مہاجن نے میڈیا سے کہا ہے کہ ’’ہم اپنی اکثریت ثابت کریں گے کیونکہ ہمیں 170 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’اجیت پوار نے گورنر کو جو خط دیا ہے اس میں این سی پی اراکین اسمبلی کی حمایت کا دعویٰ دیا گیا ہے اور چونکہ اجیت پوار این سی پی قانون ساز پارٹی کے لیڈر ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سبھی این سی پی اراکین اسمبلی کی حمایت بی جے پی کو مل رہی ہے۔‘‘ اب اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو وہی بات ہوئی کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے.
سنجے راؤت نے مہاراشٹر میں نئے سیاسی ماحول کے پیش نظر ایک پریس کانفرنس کیا جس میں انھوں نے کہا کہ اجیت پوار نے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر شرد پوار، ریاستی عوام اور چھترپتی شیواجی مہاراج کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ سنجے راؤت نے کہا کہ رات تک اجیت پوار میٹنگ میں ہمارے ساتھ تھے اور پھر صبح جا کر وزیر اعلیٰ کا حلف لے لیا، انھوں نے پاپ کیا ہے ۔ سنجے راؤت نے مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری پر بھی انگلی اٹھائی اور کہا کہ میں جانتا ہوں کہ وہ آر ایس ایس سے آئے ہیں اور امید تھی کہ وہ اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑیں گے، لیکن رات کی تاریکی میں جس طرح کے کھیل کو انھوں نے فروغ دیا، وہ ناقابل یقین ہے۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کا حلف لینے کے بعد دیویندر فڈنویس کو مبارکبادیاں ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ پی ایم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے دیویندر فڈنویس کے وزیر اعلیٰ بننے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وہ عوام کے حق میں کام کریں گے۔ پی ایم نریندر مودی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’دیویندر فڈنویس جی اور اجیت پوار جی کو بالترتیب وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لینے پر مبارکباد۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مہاراشٹر کے روشن مستقبل کے لیے لگن سے کام کریں گے۔‘‘ امت شاہ نے بھی فڈنویس کے ساتھ ساتھ این سی پی لیڈر اجیت پوار کو نائب وزیر اعلیٰ بننے پر مبارکباد دی۔
مہاراشٹر کی سیاست نے ایک زبردست کروٹ اس وقت لی جب بی جے پی لیڈر دیویندر فڈنویس نے ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لے لیا۔ این سی پی لیڈر اجیت پوار نے بطور نائب وزیر اعلیٰ حلف لیا۔ اس نئے سیاسی ماحول نے شیوسینا کو زبردست جھٹکا پہنچایا ہے جو جمعہ تک پورے پانچ سال کے لیے اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کا دعویٰ کر رہی تھی۔
ایک طرف این سی پی لیڈر اجیت پوار نے نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ کا حلف لے لیا ہے اور دوسری طرف مہاراشٹر میں ہوئی اس سیاسی اتھل پتھل کے درمیان شرد پوار نے ایک ٹوئٹ کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانے کا فیصلہ ان کا نہیں ہے۔ شرد پوار نے یہ بھی کہا کہ یہ پوری طرح سے اجیت پوار کا فیصلہ ہے اور اس طرح کے فیصلے کی ہم قطعی حمایت نہیں کرتے کیونکہ بی جے پی کی حمایت کا فیصلہ میرا نہیں ہے. ویسے بھی سیاست میں چاچا بھتیجے کی جوڑی زیادہ کامیاب نہیں رہی ہے. شیوشینا کے چیف آنجہانی بال ٹھاکرے بے ہمیشہ اپنے بھتیجے کو اولیت دی مگر جب سیاسی جانشین مقرر کرنا وقت آیا تو بال ٹھاکرے نے اپنے بھتیجے کی جگہ اپنے بیٹے ادھو ٹھاکرے کو منتخب کیا. جس سے دلبرداستہ ہوکر راج ٹھاکرے نے مہاراشٹر نونرمان سینا کی بنیاد ڈالی مگر بھتیجے اجیت پوار نے تو این سی پی میں رہ کر شردپوار کی لنکا میں آگ لگادی . اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا شرد پوار اس آگ سے خود کو اور پارٹی کو بچاپائینگے ؟ یا اجیت پوار کی اس سیاسی بغاوت کی تیز دھار سے پارٹی اندورنی خلفشار کا شکار ہوجائے گی.
تادم تحریر میڈیا ذرائع کے مطابق این سی پی قانون ساز پارٹی کے لیڈر اجیت پوار کو اس عہدہ سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ این سی پی سربراہ شرد پوار اور پارٹی لیڈروں کی ایک میٹنگ کے دوران لیا گیا۔ اجیت پوار پر این سی پی نے الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے پارٹی کو دھوکہ دیتے ہوئے بی جے پی کو حمایت دینے کا اعلان کیا جس سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت بن گئی۔

بین الاقوامی خبریں

میانمار کی ریاست راکھین میں ایک نئی جنگ شروع… اراکان آرمی کو پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروپ کے چیلنج کا سامنا ہے۔

Published

on

Myanmar

اسلام آباد : میانمار میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) نے صوبہ رخائن میں اراکان آرمی پر حملہ کیا۔ اس حملے میں اراکان آرمی کے کئی جنگجوؤں کے مارے جانے کی اطلاع ہے۔ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کے بیان کے مطابق یہ حملہ تاونگ پیو لٹ میں ہوا۔ اس دوران اراکان آرمی کے دو کیمپوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ 10 اگست کی رات تقریباً 11 بجے شروع ہوا اور تقریباً 50 منٹ تک جاری رہا۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس حملے میں اراکان آرمی کے کم از کم 5 جنگجو ہلاک اور 12 سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران اراکان آرمی کے درجنوں جنگجو موقع سے فرار ہو گئے۔

گونج نیوز کی رپورٹ کے مطابق اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مسلح گروپ میانمار کی مسلم روہنگیا آبادی میں سرگرم ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس گروپ کو پاکستانی دہشت گرد گروپ لشکر طیبہ سمیت کئی دوسرے دہشت گرد گروپس کی حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی کا عروج میانمار کی سرحد سے متصل ہندوستانی علاقوں کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔ اراکان آرمی میانمار کا ایک باغی گروپ ہے جو 2009 میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ میانمار کی مغربی ریاست راکھین میں بدھ مت کی آبادی کے لیے زیادہ خود مختاری کو یقینی بنایا جا سکے۔ فی الحال، اراکان آرمی میانمار کے راکھین صوبے کے 17 میں سے 15 قصبوں پر کنٹرول رکھتی ہے۔ یہ گروپ پہلے ہی مختلف دھڑوں کے ساتھ تنازعات میں گھرا ہوا ہے، جن میں میانمار آرمی اور دیگر عسکریت پسند گروپس جیسے اے آر ایس اے شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اراکان آرمی کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔

پاکستان ایک طویل عرصے سے میانمار میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں نے اس کام کے لیے بنگلہ دیش کے بنیاد پرستوں کو بھی اپنے پیادوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے ذریعے وہ بنگلہ دیش میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم روہنگیا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں اور انہیں اراکان روہنگیا سالویشن آرمی میں شامل ہونے پر اکسا رہے ہیں۔ پاکستان نے حال ہی میں بنگلہ دیش کے روہنگیا کیمپوں میں کئی کیمپ لگائے ہیں جن میں انہیں ہتھیار اور دیگر ضروری اشیاء فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

Continue Reading

بزنس

ممبئی اور مہاراشٹر میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کو اگلے پانچ سال تک نہیں دینا پڑے گا ٹول ٹیکس، جانیں سب کچھ

Published

on

Atal-Setu..

ممبئی : ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر حصوں میں الیکٹرک گاڑیوں کے مالکان کے لیے اچھی خبر ہے۔ اب انہیں ممبئی میں اٹل سیتو پر اپنی ای وی پر سفر کرتے ہوئے ٹول ادا نہیں کرنا پڑے گا۔ حکومت کی جانب سے لیا گیا فیصلہ 22 اگست 2025 سے نافذ العمل ہو گا۔ نجی اور سرکاری گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں آئیں گی۔ اس فیصلے سے چار پہیہ گاڑیوں کے ساتھ ساتھ الیکٹرک بسوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق اٹل سیٹو سے روزانہ تقریباً 60 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد الیکٹرک گاڑیوں کی ہے۔ حکومت نے 2030 تک ای وی کو ٹول ٹیکس سے چھوٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اٹل سیٹو پر ایک کار کا ٹول 250 روپے ہے۔ یہ ٹول دسمبر 2025 سے لاگو ہے۔

ریاستی حکومت نے اپریل 2025 میں ‘مہاراشٹرا الیکٹرک وہیکل پالیسی’ کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت اٹل سیٹو، ممبئی-پونے ایکسپریس وے اور سمردھی ہائی وے پر برقی چار پہیہ گاڑیوں اور بسوں کو ٹول چھوٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ کہا گیا تھا کہ الیکٹرک گاڑیوں کو ریاستی اور قومی شاہراہوں پر 50 فیصد رعایت ملے گی۔ ٹرانسپورٹ کمشنر وویک بھیمنوار نے کہا کہ اٹل سیٹو پر ٹول معافی کے لیے سافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے۔ اس کا نفاذ جمعہ سے ہو جائے گا جبکہ یہ سہولت دیگر شاہراہوں پر بھی 2 روز میں شروع ہو جائے گی۔

پالیسی میں واضح کیا گیا ہے کہ الیکٹرک مال بردار گاڑیاں اس کے دائرہ کار میں نہیں آئیں گی۔ حکام کے مطابق، یہ چھوٹ سرکاری اور نجی شعبے میں ای وی کو اپنانے کو فروغ دینے کے لیے ہے۔ یہ نیا اصول اٹل سیتو پر شیواجی نگر اور گاون میں واقع ٹول بوتھوں پر جمعہ سے نافذ ہو جائے گا۔ حکام کو امید ہے کہ اس پالیسی سے ای وی کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایندھن پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔ ممبئی میں الیکٹرک گاڑیوں کا بڑھتا ہوا بیڑا ہے، جو اس اقدام سے براہ راست فائدہ اٹھائے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 18,400 لائٹ فور وہیلر، 2,500 ہلکی مسافر گاڑیاں، 1,200 بھاری مسافر گاڑیاں اور 300 درمیانے درجے کی مسافر گاڑیاں، کل 22,400 الیکٹرک گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں۔ اٹل سیٹو سے روزانہ اوسطاً 60,000 گاڑیاں گزرتی ہیں۔

Continue Reading

سیاست

بھارتیہ جنتا پارٹی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے، پارٹی بہار اسمبلی انتخابات نئی قیادت میں لڑنا چاہتی ہے۔

Published

on

mod-&-ishah

نئی دہلی : بھارتیہ جنتا پارٹی میں نئے قومی صدر کی تلاش کافی عرصے سے جاری ہے۔ لیکن اب بی جے پی کو جلد ہی نیا قومی صدر ملنے کا امکان ہے۔ کیونکہ پارٹی قیادت چاہتی ہے کہ بہار اسمبلی انتخابات نئے قومی صدر کی قیادت میں لڑے جائیں۔ این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق بہار اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان سے قبل بی جے پی کو نیا قومی صدر مل جائے گا۔ قومی صدر کا انتخاب کئی وجوہات کی بنا پر تاخیر کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بات چیت ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس سلسلے میں تنظیم کے 100 سرکردہ لیڈروں سے رائے لی۔ اس میں پارٹی کے سابق سربراہوں، سینئر مرکزی وزراء اور آر ایس ایس-بی جے پی سے وابستہ سینئر لیڈروں سے بھی بی جے پی کے نئے قومی صدر کے نام پر مشاورت کی گئی۔

بی جے پی کے قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی دوسری وجہ نائب صدر کا انتخاب ہے۔ کیونکہ اس وقت بی جے پی کو نائب صدر کے انتخاب کی امید نہیں تھی لیکن جگدیپ دھنکھڑ کے اچانک استعفیٰ دینے سے نائب صدر کے امیدوار کا انتخاب بی جے پی کی ترجیح بن گیا۔ ان دنوں پارٹی اس بات کو یقینی بنانے میں مصروف ہے کہ این ڈی اے اتحاد کے امیدوار کو آل انڈیا اتحاد کے امیدوار سے زیادہ ووٹ ملے۔

قومی صدر کے انتخاب میں تاخیر کی تیسری وجہ گجرات، اتر پردیش اور کرناٹک سمیت کئی ریاستوں میں ریاستی صدور کے انتخابات میں تاخیر ہے۔ پارٹی پہلے ریاستوں میں نئے صدور کا تقرر کرنا چاہتی ہے۔ یہ پارٹی کے آئین کے مطابق ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قومی صدر کے انتخاب سے پہلے اس کی 36 ریاستی اور یونین ٹیریٹری یونٹوں میں سے کم از کم 19 میں سربراہان کا انتخاب ہونا چاہیے۔ منڈل سربراہوں کے انتخاب کے لیے بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اس معاملے میں بی جے پی 40 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو آگے لا کر اگلی نسل کو موقع دینا چاہتی ہے۔ ضلع اور ریاستی صدر کے عہدہ کے لیے امیدوار کا کم از کم دس سال تک بی جے پی کا سرگرم رکن ہونا ضروری ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com