Connect with us
Monday,21-July-2025
تازہ خبریں

سیاست

کریٹ سومیا کے دباؤ میں پولس مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر اتارنے میں مصروف، اس کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کا مقدمہ درج کیا جائے گا : ابوعاصم اعظمی

Published

on

loudspeakers-&-m.-high-court

مہاراشٹر : ممبئی سماجوادی پارٹی لیڈر ابوعاصم اعظمی نے یہاں ممبئی کے مراٹھی پترکار سنگھ میں فیڈریشن آف مسجد کی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک دستور اور سنودھان پر چلے گا۔ بمبئی ہائیکورٹ کا فیصلہ تمام مذہبی مقامات اور صوتی آلودگی کے اصولوں کی خلاف وزری پر ہے, لیکن اس کی آڑ میں بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا صرف مسلمانوں کو ہی نشانہ بنانے کے ساتھ مسجدوں سے لاؤڈ اسپیکر اتارنے کا دعوی کر رہے ہیں۔ وہ پولیس پر مسلسل دباؤ بنا رہے ہیں, اس لئے دو فرقوں میں نفرت پیدا کرنے اور ماحول خراب کرنے و مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں اس پر مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے, بصورت دیگر مقدمہ درج کرنے کیلئے کورٹ سے بھی رجوع کیا جائے گا, تاکہ جلد ازجلد اس پر مقدمہ درج ہو۔ ابوعاصم اعظمی نے کہا کہ مقامی لوگوں ہندوؤں کو اذان اور مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر پرکوئی اعتراض نہیں ہے, لیکن کچھ شرپسند عناصر کی شکایت پر کارروائی کی جارہی ہے, صرف ووٹ بینک کے لئے ماحول خراب کیا جارہا ہے۔ مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر کو اتارنے پر نظم و نسق کا خطرہ لاحق ہے۔ اس لئے پولس کو بھی اس پر توجہ دینا چاہئے, کیونکہ ممبئی میں بھی ہندو اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے اور مذہبی منافرت پھیلانے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر میں کس طرح سے مذہبی منافرت پھیلائی جارہی ہے اور فرقہ پرستی عروج پر ہے, اس کی مثال کوکن میں ایک طالب علم نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند نہیں لیکن اس کا گھر زمین بوس کر دیا گیا۔ اگر کوئی چھترپتی مہاراج کی توہین کرتا ہے تو جیمس لینن کو امریکہ سے لانے کی بات آر آر پاٹل نے کی تھی, انہوں نے کہا کہ مسجدوں سے لاؤڈاسپیکر اتارنا غیر قانونی ہے ایک قوم کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھجن کرتن یوپی میں پوری رات بھر جاری رہتا ہے اس پر کارروائی کیوں نہیں کی جاتی ہے, بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کے دباؤ میں مسجد کے لاؤڈاسپیکر اتارنے پر پولس مجبور ہے۔ کریٹ سومیا پر کیس درج کیا جائے, کیونکہ وہ فرقہ پرستی کو فروغ دے کر ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پولس کمشنر سے مطالبہ ہے کہ وہ مسجدوں کا لاؤڈاسپیکر اتارنے کی اجازت نہ دے کیونکہ وہ قانونی دائرے میں لاؤڈاسپیکر کا استعمال کرتے ہیں۔

ایڈوکیٹ خالد نے بتایا کہ مسجدوں کے لاؤڈاسپیکر پرکارروائی جاری ہے۔ بمبئی ہائیکورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا جس میں گائڈ لائن جاری کی گئی تھی۔ ایک نئی پٹیشن ہائیکورٹ میں داخل کی گئی اس میں جاگو نہرو نگر پٹیشن داخل کی تھی اس میں عدالت نے حوالہ دیا ہے کہ ۲۰۱۶ میں جو فیصلہ صادر کیا گیا اس میں گائڈ لائن طے کی گئی تھی۔ اس میں تمام چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے, صوتی آلودگی سے متعلق جو بھی فیصلہ صادر کیا گیا ہے۔ ہائیکورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ مذہبی تقریبات میں تمام صوتی آلودگی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یہ فیصلہ کسی ایک مذہب کے لئے نافذ نہیں کیا گیا یہ فیصلہ میں کورٹ نے عارضی حکم پر نظرثانی کی۔ کورٹ نے جو مشاہدہ کیا ہے لاؤڈاسپیکر کا استعمال سے قبل اسکی اجازت ضروری ہے, اس میں ڈسیبل بھی طے کئے گئے ہیں۔ مسجد نے لاؤڈ اسپیکر کی اجازت طلب کی تو ان کو اجازت ملی ہے, دونوں فیصلہ میں لاؤڈاسپیکر کی ساخت طے نہیں کی گئی ہے۔ باکس ٹائپ کی اجازت دی جارہی ہے, جو ہائیکورٹ کے فیصلہ میں اس کی شمولیت نہیں ہے, اگر مسجد پر تنصیب اسپیکرصوتی آلودگی کی خلاف وزری کرتے ہیں, تو اس پر کارروائی ہو گی, پہلی شکایت پر تنبیہ کرنا چاہیے۔ دوسری مرتبہ نوٹس اور تیسری مرتبہ جرمانہ اور کارروائی کا حق حاصل ہے۔صوتی آلودگی سے متعلق بیداری مہم چلانا بھی ضروری ہے۔ کسی ایک مذہب کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے یہ تمام مذہب پر نافذ العمل ہے۔

ایڈوکیٹ یوسف ابراہانی نے بتایا کہ کریٹ سومیا کی اشتعال انگیزی کے سبب ماحول خراب کرنے کی سازش شروع ہے۔ پولس اب ہر مسجد میں جا کر مسجدوں کے خطیب و امام اور ٹرسٹیوں کو ہراساں کرتی ہے۔ تمام مذہب کے لئے قانون یکساں اور مساوی ہے, لیکن قانون کا استعمال صرف مسلمانوں پر ہی کیوں کیا جارہا ہے, اس معاملہ میں جلد ہی کورٹ سے رجوع کیا جاتا ہے۔ بئیر بار کا لائسنس ۱۲ بجے تک ہے لیکن شب بھر بار جاری رہتا ہے, اس پر پولس کارروائی نہیں کرتا, بلکہ یہاں سے ہفتہ ملتا ہے, اس لئے پولس خاموش ہے اور صرف مسجدوں پر کارروائی کرتی ہے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کی قانونی پیروی کا نتیجہ… بامبے ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ نے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ مقدمہ کا دیا تاریخی فیصلہ

Published

on

Jamiat-&-Court

7/11 ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکے مقدمہ کا آج تاریخی فیصلہ بامبے ہائیکورٹ کی دو رکنی بینچ نے ظاہر کیا۔ عدالت نے خصوصی مکوکا عدالت کی جانب سے پانچ ملزمین احتشام قطب الدین صدیقی، کمال انصاری، فیصل عطاء الرحمن شیخ، آصف بشیر اور نوید حسین کو ملنے والی پھانسی کی سزا کو غیر قانونی قرار دیا، اسی کے ساتھ ساتھ عدالت مکوکا عدالت سے سات ملزمین محمد علی شیخ، سہیل شیخ، ضمیر لطیف الرحمن، ڈاکٹر تنویر، مزمل عطاء الرحمن شیخ، ماجد شفیع، ساجد مرغوب انصاری کو ملنے والی عمر قید کی سزا کو بھی ختم کردیا یعنی کے ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں نچلی عدالت فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا اور اسے ملزمین کے حق میں تبدیل کردیا۔ بامبے ہائی کورٹ دو رکنی خصوصی بینچ جسٹس اے ایس کلور اور جسٹس شیام سی چانڈک نے آج صبج ساڑھے نو بجے فیصلہ ظاہر کیا۔ عدالت نے ملزمین کی جانب سے حاصل کیئے گئے اقبالیہ بیان کو سرے سے خارج کردیا اور اسے غیر قانونی قرار دیا، اسی طرح عدالت نے سرکاری گواہان کی گواہی کو بھی قبول کرنے سے انکار کردیا۔


عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزمین کو فوراً جیل سے رہا کیا جائے اگر وہ کسی اور مقدمہ میں مطلوب نہیں ہیں تو, یعنی کے عدالت نے سال 2006/ سے جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ملزمین کی جیل سے رہائی کا راسطہ صاف کردیا ہے۔ عدالت نے جیل میں انتقال کرنے والے کمال انصاری کو بھی مقدمہ سے بری کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ جس وقت جسٹس کلور مقدمہ کا فیصلہ پڑھ رہے تھے، پھانسی کی سزا پانے والے پانچوں ملزمین بھی بذریعہ آن لائن اسے دیکھ اور سن رہے تھے اور ان کے چہروں پر مایوسی جھلک رہی تھی, لیکن جیسے فیصلہ ان کے حق میں آیا وہ ایکدم سے خوش ہوگئے اور عدالت اور ان کا دفاع کرنے والے وکلاء کا شکریہ ادا کیا۔


سینئر ایڈوکیٹ یوگ موہت چودھری نے عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے فیصلے سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بڑھے گا, نیز قانون کی بالادستی قائم رہے گی۔ انہوں نے ملزمین کے حق میں بحث کرنے کے لئے دفاعی وکلاء کو موقع دینے کے لئے بھی شکریہ ادا کیا۔ یوگ چودھری نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس پورے مقدمہ کا اگر باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ملزمین کے خلاف جھوٹے ثبوت و شواہد اکھٹا کئے گئے تھے, جس کی آج عدالت نے تصدیق کردی۔


ملزمین کے مقدمہ کی جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی پیروی کررہی ہے۔ آج کے فیصلے صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا حلیم اللہ قاسمی نے خیر مقدم کیا اور ملزمین کی رہائی کے لئے دن رات محنت کرنے والے وکلاء کا شکریہ ادا کیا۔


جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی نے ملزمین کے دفاع میں ملک کے نامور کریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کی تھی, جس میں سینئر ایڈوکیٹ ایس ناگا متھو (سبکدوش جسٹس مدراس ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ مرلی دھر (سبکدوش چیف جسٹس اڑیسہ ہائی کورٹ)، سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن (سپریم کورٹ آف انڈیا)، ایڈوکیٹ یوگ موہت چودھری و دیگر شامل ہیں، سینئر وکلاء کی معاونت کرنے کے لئے ایڈوکیٹ عبدالوہاب خان، ایڈوکیٹ شریف، ایڈوکیٹ انصار تنبولی، ایڈوکیٹ گورو بھوانی، ایڈوکیٹ ادتیہ مہتا، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ بلال و دیگر کو ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔


واضح رہے کہ خصوصی مکوکا عدالت کے جج وائی ڈی شندے نے ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچ ملزمین احتشام قطب الدین صدیقی، کمال انصاری، فیصل عطاء الرحمن شیخ، آصف بشیر اور نوید حسین کو پھانسی اور 7/ ملزمین محمد علی شیخ، سہیل شیخ، ضمیر لطیف الرحمن، ڈاکٹر تنویر، مزمل عطاء الرحمن شیخ، ماجد شفیع، ساجد مرغوب انصاری کو عمر قید کی سزا سنائی تھی, جبکہ ایک ملزم عبدالواحد دین محمد کو باعزت بری کر دیا تھا۔

Continue Reading

سیاست

ممبئی ٹرین بم دھماکہ : اے ٹی ایس فیصلہ کے خلاف اپیل کرے گی

Published

on

ATS

ممبئی : مہاراشٹر انسداد دہشت گردی دستہ اے ٹی ایس ممبئی ٹرین بم دھماکہ کیس میں بری ۱۲ مجرمین کے خلاف قانونی ماہرین اور سرکاری وکلا سے صلاح و مشورہ کے بعد اپیل کرے گی, اے ٹی ایس نے یہ واضح کیا ہے کہ اس فیصلہ کا مطالعہ کے بعد ہی اے ٹی ایس مزید قانونی کارروائی پر غور کرے گی۔ نچلی عدالت نے پانچ کو قصوار وار قرار دیتے ہوئے پھانسی کی سزا اور سات کو عمر قید کی سزا سنائی تھی, لیکن عدالت نے دفاعی و سرکاری وکلا کی دلائل سننے کے بعد اس کیس پر اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے نچلی عدالت کے فیصلے کو ہی پلٹ دیا, اس معاملہ میں سرکار کی جانب سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اے ایس جی راجہ ٹھاکرے اور استغاثہ چمالکر نے پیروی کی تھی جولائی ۲۰۲۴ میں ہائیکورٹ نے اپیل داخل کی تھی اور اس پر اپنا فیصلہ سنایا ہے ۲۰۱۵کو نچلی عدالت نے تمام ملزمین کو قصور وار قرار دیا تھا۔ جس کو ہائیکورٹ نے پلٹ دیا ہے اس معاملہ میں فیصلہ کی نقول اور دستاویزات کے مطالعہ کے بعد اے ٹی ایس بھی ہائیکورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کرے گی۔

Continue Reading

ممبئی پریس خصوصی خبر

2006ممبئی ٹرین دھماکہ کیس : بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمان کو بری کردیا، کہا: “استغاثہ مکمل طور پر ناکام رہا”

Published

on

Train Blast

ممبئی، 21 جولائی 2025 — 2006 کے مہلک ممبئی لوکل ٹرین بم دھماکوں کے معاملے میں بمبئی ہائی کورٹ نے ایک بڑا فیصلہ سناتے ہوئے *تمام 12 مجرموں کو بری کر دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ (پراسیکیوشن) ملزمان کے خلاف الزامات کو ثابت کرنے میں “مکمل طور پر ناکام” رہا۔

یہ فیصلہ جسٹس رویتی موہیتے-ڈیئرے اور جسٹس گوری گوڈسے کی دو رکنی بینچ نے سنایا۔ اس سے پہلے 2015 میں ایک خصوصی ایم سی او سی اے (مکوکا) عدالت نے ان میں سے کچھ کو سزائے موت اور باقی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی، جسے اب ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔

پس منظر: ملک کو ہلا دینے والا واقعہ

11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں شام کے مصروف وقت میں سات سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے، جن میں 189 افراد جاں بحق اور 800 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ یہ واقعہ ہندوستان کی تاریخ کے بدترین دہشت گرد حملوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام گرفتار شدہ افراد کا تعلق سیمی (ایس آئی ایم آئی) اور لشکرِ طیبہ (ایل ای ٹی) جیسے ممنوعہ تنظیموں سے ہے، اور انہوں نے پریشر کُکر بموں کے ذریعے ٹرینوں میں دھماکے کیے تھے۔

عدالت کی تنقید

ہائی کورٹ نے مہاراشٹر اے ٹی ایس (اے ٹی ایس) کی جانب سے کی گئی تفتیش کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ زیادہ تر کیس اعترافی بیانات پر مبنی تھا جن کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں کی گئی۔ عدالت نے شواہد کو ناقابلِ بھروسا اور غیر مستقل قرار دیا۔

عدالت نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر ہوئی، اور ملزمان کے بیانات لینے کے دوران قانونی ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی۔ عدالت نے کہا کہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ تفتیش ہی انصاف کی بنیاد ہے۔

انسانی حقوق اور قانونی پہلو

اس فیصلے کے بعد جھوٹے مقدمات، حراستی تشدد اور دہشت گردی سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ انسانی حقوق کے کئی اداروں نے فیصلے کو سراہتے ہوئے تفتیش کاروں کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ریاستی حکومت نے فیصلے پر تشویش ظاہر کی ہے اور ممکنہ طور پر سپریم کورٹ میں اپیل کرنے پر غور کر رہی ہے۔

عدالت کے باہر کا منظر

فیصلے کے بعد عدالت کے باہر بری کیے گئے افراد کے اہلِ خانہ جذبات سے مغلوب ہو گئے۔ کئی افراد نے 17 سال جیل میں گزارے۔ ایک وکیل نے کہا، “انصاف میں دیر ضرور ہوئی، مگر انصاف بالآخر ہوا۔ یہ فیصلہ ثابت کرتا ہے کہ جذبات یا دباؤ کے تحت عدالتی فیصلے لینا خطرناک ہو سکتا ہے۔”

دوسری طرف، متاثرہ خاندانوں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اُن زخموں کو دوبارہ تازہ کر دیتا ہے جو کبھی بھر ہی نہیں سکے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com