Connect with us
Saturday,19-April-2025
تازہ خبریں

ممبئی پریس خصوصی خبر

کہانی اب قلمی کہانی نہیں بلکہ فلم ہے اور اسے سچ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔

Published

on

(زین شمسی) بھگوان گڈوانی نے جب دی سورڈ آف ٹیپو سلطان کے نام سے کتاب لکھی تو ان سے یہ پوچھا گیا کہ آخر آپ کو ٹیپو سلطان پر کتاب لکھنے میں اتنی دلچسپی کیوں پیدا ہو ئی۔ بھگوان گڈوانی نے کہا کہ جب میں بھارت کی تواریخ پر تحقیق کر رہا تھا تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہی وہ جیالا تھا جو میدان جنگ میں شیر کی موت مرا تھا۔اس نے کہا تھا کہ گیڈروں کی سو سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے اور اس کی لاش کے نزدیک تک جانے کی ہمت انگریزوں کی نہیں ہوئی اور جب وہ ڈرتے ڈرتے اس کی لاش تک پہنچے انگریزوں کے سپہ سالار کے منہ سے صرف ایک ہی جملہ نکلا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہوا۔ ایسی کچھ اور باتیں تھیں جس نے بھگوان گڈوانی کو ٹیپو پر کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔ ان کی اس کتاب پر سنجے خان نے دوردرشن پر اسی نام سے سیریل بنایا۔ جو 1990 میں موضوع بحث بنا۔ وہ وقت رامائن اور مہابھارت کا بھی تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ دی سورڈآف ٹیپو سلطان یعنی ٹیپو سلطان کی تلوار کے شروع ہونے سے پہلے سرکاری مینجمنٹ نے نوٹس کے طور پر یہ جملہ چسپاں کر دیا تھا کہ یہ تصوراتی کہانی پر مبنی سیریل ہے ، جس کا تاریخ سے کوئی واسطہ نہیں ، جبکہ رامائن اور مہابھارت کے لئے یہ نوٹس دینا ضروری نہیں سمجھا گیا تھا کہ یہ تو آستھا کا سوال ہے اور مذہبی سیریل ہے۔ گویا آج جب مسلمانوں یعنی مغل اور سلطنت دہلی کے ادوار کوتاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کامیاب پہل ہوئی اور بھاجپا نے ٹیپو سلطان کو ویلن بنا کر پیش کرنے کی مہم شروع کی تو وہ نئی بات نہیں تھی بلکہ اس کے تار ماضی سے جڑے ہوئے تھے۔ جو سچ ہے اسے کلپنایعنی تصوراتی چیز کہا گیا اور جو مذہبی چیزیں ہیں،اسے تاریخی سچائی کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔
فلمی دنیا کا سب سے فلاپ ڈائریکٹر اگنی ہوتری راتوں رات کروڑ پتی بن گیا کیونکہ ان کے صلاح کاروں نے مشورہ دیا کہ کشمیر کے پنڈتوں کے درد کو اجاگر کرتے ہوئے ایک فلم بنائو اور پھر کیا تھا کشمیر فائلس نے راتوں رات کروڑوں روپے کما لئے ، کیونکہ اس کی تشہیر کی ذمہ داری بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم نے اٹھا لی تھی۔ اس فلم کی شاندار کامیابی نے لاکھوں کشمیریوں کی موت کو جھوٹ اور چند کشمیری پنڈتوں کے استحصال کو سچ بنا دیا اور کشمیر کا یہ واقعہ فلم کے ذریعہ تاریخ کا حصہ بن گیا وہیں گجرات نسل کشی پر مبنی بی بی سی ڈاکومنٹری کو جھوٹ کا منبع بنا کر پیش کیا گیا اور بی بی سی پر سرکاری ایجنسیوں کا سایہ منڈلانے لگا۔ عشرت جہاں، احسان جعفری ، بلقیس بانو اور ان جیسے حقیقی کردار رعنا ایوب کے گجرات فائلس میں تصوراتی کردار ٹھہرے جبکہ مایا کودنانی ، بابو بجرنگی ، کاجل گجراتی یہ سب آج کے سیاست کےہیرو قرار دے دئے گئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات سے 40 ہزار لڑکیاں و خواتین لاپتہ ہیں۔ جسے اب تک تلاش نہیں کیا جا سکا ہے، وہ کس حال میں ہیں ، کیا کر رہی ہیں ، اس سے گجرات کو کوئی مطلب بھی نہیں ہے ، فکر اس بات کی ہے کہ کیرالہ اسٹوری میں ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ مطلب یہاں بھی وہی کہ جو تصوراتی چیز ہے وہ حقیقت ہے اور جو حقیقت ہے وہ پردہ میں ہے۔ کیرالہ اسٹوری کا پرچار و پرسار کا ذمہ پرسار بھارتی کے حوالہ نہیں بلکہ بھارت کے پی ایم اور ایچ ایم کے ہی سر ہے۔ یوگی جی نے کشمیر فائلس کے بعد کیرالہ اسٹوری کو بھی ٹیکس فری کر کے سب اندھ بھکتوں کو دکھانے کی ذمہ داری لے لی ہے۔ اب یہ فلم سلمان خان کی فلم کو بھی پچھاڑ رہی ہے اور سائوتھ کی بلاک بسٹر ایشوریہ رائے کی اداکاری سے سجی پی ایس 2کو بھی ٹکر دے رہی ہے۔ گویا تفریح کے سب سے بڑے وسیلے پر بھی نفرت کا ملبہ چڑھا دیا گیا۔
چونکہ مغلوں اور مسلمانوں کی حکومت کے بارے میں جاننا بھارت کے لوگوں کے لئے لازمی نہیں ہے اس لئے این سی ای آر ٹی کی کتابوں میں عہدمغلیہ کو پڑھنے کا کیا جواز بنتاہے اس لئے اسے نصاب سے ہی ہٹا دیا گیا۔ مگر مشکل یہ ہے کہ مغلوں کو ہٹا دینے سے شیواجی اور مہارانا پرتاپ اور رانا سانگا کو کس طرح بہادر اور نڈر ثابت کیا جا سکے گا۔ کے آصف نے فلم مغل اعظم کے ذریعہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کے پیار کی کہانی کی کچھ ایسی فلم سازی کی وہ آج تک کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی فلم بن گئی۔ اس فلم میں اکبر اعظم کے قد کو اتنا بڑا کر دیا کہ اس کا کردار سیکولرازم کی ایک مثال بن گیا۔ مگر اب کیا ہوگا جب اکبر کے بارے میں ہی نئی نسل کو پتہ نہیں ہوگا۔مغل دور کو تاریخ سے ہٹانے سے قبل یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ جس دور کو ہم کتابوں سے ہٹا رہے ہیں اس کے بانی بابر کو ہم ویلن ثابت کر چکے ہیں اور اس کے ذریعہ بھارت کے مسلمانوں کو بابر کی اولاد کا تمغہ تھما چکے ہیں۔ اب تو نئی نسل پوچھے گی ، کون بابر؟ تو اس کے لئے اوٹی ٹی پر ایک سیریل بنایا گیا، جس کا نام رکھا گیا” ّتاج”۔ جس میں بوڑھے ہوچلے نصیر الدین شاہ اہم رول میں ہیں۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ نصیر نے بغیر اسکرپٹ پڑھے کسی سیریل میں کام کیا ہو۔ کیونکہ اس سیریل کے ذریعہ مغل ادوار کو عیش و عشرت کا عہد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اب اسے نصیر الدین شاہ کی کمزوری کہی جائے یا مجبوری مگر پہلی بار نصیر کا اٹھایا گیا یہ قدم حیران کر دینے والا ہے اور ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نصیر نے اس سیریل کو سائن کیسے کر لیا۔
دراصل کیرالہ اسٹوری کے تصوراتی قصہ کو کرناٹک کے سیاسی اسٹوری کا حصہ تسلیم کیا جارہا ہے۔ اڈانی ، پلوامہ اور خواتین پہلوانوں کے جنسی استحصال کے ہنگامے کے دوران کرناٹک میں ووٹنگ کے لئے جو نصب العین بنایا گیا تھا اس میں کیرالہ اسٹوری کے تصوارتی کہانی کا تڑکا لگایا گیا، ورنہ کل ہی کشمیر فائلس کے ڈائریکٹر اگنی ہوتری نے عدالت سے بلا مشروط معافی مانگ لی ہے کہ ہم نے فلم کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا کام کیا۔دراصل آج کی سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ،اور معاشی سچائی دراصل فلموں کی تصوراتی کہانیوں کا احساس کراتی ہے۔ سچائی پر فلم نہیں بن رہی ہے بلکہ فلم کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ممبئی پریس خصوصی خبر

ممبئی ای ڈی دفتر پر کانگریس کا قفل، کانگریس کارکنان کے خلاف کیس درج

Published

on

protest

ممبئی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ای ڈی کے دفتر پر قفل لگاکر احتجاج کرنے پر پولس نے ۱۵ سے ۲۰ کانگریسی کارکنان کے خلاف کیس درج کرلیا ہے۔ ای ڈی کے دفتر پر اس وقت احتجاج کیا گیا جب اس میں تعطیل تھی, اور پہلے سے ہی مقفل دفتر پر کانگریس کارکنان نے قفل لگایا۔ پولس کے مطابق احتجاج کے دوران دفتر بند تھا, لیکن اس معاملہ میں کانگریس کارکنان اور مظاہرین کے خلاف کیس درج کر لیا گیا ہے۔ مظاہرین نے ای ڈ ی دفتر پر احتجاج کے دوران سرکار مخالف نعرہ بازئ بھی کی ہے, اور مظاہرین نے کہا کہ مودی جب جب ڈرتا ہے ای ڈی کو آگے کرتا ہے۔ راہل گاندھی اور سونیا گاندھی کے خلاف نیشنل ہیرالڈ کیس میں تفتیش اور ان کا نام چارج شیٹ میں شامل کرنے پر کانگریسیوں نے احتجاج جاری رکھا ہے۔ اسی نوعیت میں کانگریسیوں نے احتجاج کیا, جس کے بعد کیس درج کر لیا گیا, یہ کیس ایم آر اے مارگ پولس نے درج کیا اور تفتیش جاری ہے۔ اس معاملہ میں کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے, اس کی تصدیق مقامی ڈی سی پی پروین کمار نے کی ہے۔ پولس نے احتجاج کے بعد دفتر کے اطراف سیکورٹی سخت کر دی ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف ایکٹ متعصبانہ قانون، جمہوریت پر حملہ… کورٹ میں لڑائی کے ساتھ جمہوری طریقے سے احتجاج بھی قانون واپسی تک جاری رہے گا : آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ

Published

on

All-India-Muslim-P.-L.-Board

ممبئی : ممبئی وقف ایکٹ اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہے اور اس میں کئی خامیاں ہیں مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لئے تعصب کی بنیاد پر وقف ایکٹ متعارف کروایا گیا ہے, اور یہ جمہوریت کو ختم کرنے والا قانون ہے۔ اس قانون کے خلاف اس وقت احتجاج جاری رہے گا, جب تک یہ واپس نہیں لیا جاتا اس قانون کے مفاذ سے نظم و نسق کا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے, اس قانون کے تحت ریاستی سرکاروں کے اختیارات بھی چھین لئے گئے ہیں, اس قسم کا اظہار خیالات آج یہاں جماعت اسلامی کے سربراہ سعادت اللہ حسینی نے کیا ہے, انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے کہا کہ وقف ایکٹ میں جو قانون نافذ کیا گیا ہے, اس پر جے پی سی میں اعتراض کیا گیا تھا اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس پر عدالت نے عارضی راحت ضرور دی ہے, لیکن اس کی واپسی تک ہم اس پر اپنی قانونی اور جمہوری لڑائی جاری رکھیں گے, یہ ایک متعصبانہ قانون ہے, دیگر مذاہب کے لیے علیحدہ قانون موجود ہے۔ اور دستور ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ اپنے رسم و رواج کے معرفت مذہبی ادارے اور عبادتیں کر سکتے ہیں, یہ حق سے محروم کرنے کی کوشش اس ایکٹ میں کی گئی ہے۔ غریبوں اور دیگر پسماندہ طبقات کی آڑ میں وقف ایکٹ کا اطلاق ایک دھوکہ اور فریب ہے سرکار نے وقف سے متعلق جو بدگمانیاں پیدا کی ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے۔ اگر سرکار وقف ایکٹ کے معرفت غریبوں اور دیگر طبقات کا حق فراہمی کا کام کرنا چاہتی ہے, وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کیوں چھین لیا گیا۔

وقف ایکٹ کی آڑ میں ہندوستانی جمہوریت اور ڈاکٹر باباصاحب امینڈکر کے دستور پرسرکار نے حملہ کیا ہے اور غنڈہ گردی کی جارہی ہے, یہ کہا جارہا ہے کہ یہ قانون تسلیم کرنا ہی ہوگا, یہ قانون صرف مسلمانوں کو ہی متاثر نہیں کرے گا, بلکہ دستور کی روح پر حملہ ہے۔ غریبوں بیواؤں کے اگر وزیر اعظم اتنے ہی ہمدورد ہے تو بلقیس بانو کو انصاف کیوں نہیں دیا۔ گجرات فساد میں احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری مظلومہ انصاف کی متلاشی مظلومہ قبر میں پہنچ گئی, گجرات میں ۱۱ سال میں مسلمانوں پر کیا مظالم کئے گئے, یہ سب جانتے ہیں یہ سرکار مسلمانوں کی آبیاری نہیں بلکہ تباہی چاہتی ہے۔ اپوزیشن نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے لیکن اس کے باوجود اس منظور کیا گیا, ۲۰۱۳ میں وقف قانون متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا, اس قانون کو اس وقت لانے کی کیا ضرورت تھی, جب یہ قانون منظور کیا گیا تو بی جے پی بھی اس کی حامی تھی اس کی مخالفت نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون آرٹیکل ۲۴،۲۵،۱۱ کی صریحا خلاف ورزی ہے جو ہمارے حقوق کی تحفظ کرتا ہے۔

مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری فضل الرحمن مجددی نے کہا کہ اب وقف ایکٹ کے معرفت واقف کو یہ ثابت کرنا ہوگا یہ وہ مسلمان ہے اس میں جے پی سی میں باعمل مسلمان ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ قانون کی خلاف وزری ہے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ پانچ سال مسلمان ہونا شرط ہے, لیکن اب اس میں باعمل اور ثابت کرنا ہوگا کہ آپ مسلمان ہیں اور اسلام پر عمل پیرا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی تنازع کی صورت میں اس زمین کو سرکاری زمین قرار دیا جائے گا۔ وقف ایکٹ اور وقف سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں اور سوشل میڈیا میں ان غلط فہمیوں کو ہوا دیا گیا۔ میڈیا میں بھی یہ پھیلایا گیا کہ وقف کی ملکیت اتنی زیادہ ہے اور الہ آباد ہائیکورٹ کے کیس میں تو یہ کہا گیا کہ اب وقف کے معاملہ ہائیکورٹ کو ہی سپریم کورٹ انصاف کیلئے جانا پڑا ہے۔ یہ سراسر غلط ہے یہ ہائیکورٹ کے باہر لب سڑک ایک مسجد کا تنازع تھا, جس کو کاظمی صاحب نے نمازیوں کے لئے تعمیر کروائی تھی اس طرح سے بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہے۔

مونسہ بشری عابدی نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے جو بھی احتجاج کا اعلان کیا ہے اس میں مسلم خواتین پیش پیش رہے گی۔ مسلم خواتین کو سرکار لالی پاپ نہیں دے سکتی, کیونکہ وہ سرکار کی نیت اور منشیات کو جانتی ہے۔ انہوں کہا کہ بتی گل سے لے کر ہر طرح کے احتجاج میں خواتین شامل ہے اور ہم اس قانون کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا محمود دریا بادی، امن کمیٹی سربراہ فرید شیخ، سمیت دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شریک تھے۔ :

Continue Reading

جرم

ممبئی انسانی اسمگلنگ ریکیٹ کا پردہ فاش مغربی بنگال اور حیدرآباد گرفتاری

Published

on

Crime

ممبئی : ممبئی وڈالاٹی ٹی پولیس نے انسانی اسمگلنگ کے کیس میں حیدر آباد، مغربی بنگال سے بچہ انسانی اسمگلروں کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وڈالا ٹی ٹی پولیس اسٹیشن میں شکایت کنندہ امر دھیرنے 65 سالہ نے خاکروب نے 5 اگست 2024 ء کو اپنے نواسہ کی گمشدہ کی شکایت درج کروائی تھی, اس کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انیل پورنیہ اسما شیخ، شریف شیخ، آشا پوار نے ایک لاکھ 60 ہزار روپے میں بچہ کو فروخت کیا ہے۔ اس کے بعد ملزم انیل پورنیہ،اسما شیخ، شریف شیخ کے خلاف انسانی اسمگلنگ کا کیس درج کر لیا گیا تھا ملزم انیل پورتیہ، اسما شیخ کو ممبئی سے گرفتار کیا گیا, اس میں ملوث ملزمہ آشا پوار بھی ملوث تھی۔ اس کے بعد پولیس نے آشا پوار کی تلاش شروع کر دی اور حیدر آباد سے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس تفتیش میں ملزمین نے بتایا کہ متاثرہ بچہ کو بھونیشور اسٹیشن اڑیسہ میں ریشماں نامی خاتون نے فروخت کیا, اس کی ٹیکنیکل تفتیش کی گئی تو معلوم ہوا کہ ملزمہ یہاں بھونیشور میں دانت کے اسپتال میں زیر ملازمت ہے, اور یہاں ہائی ٹیک اسپتال میں کام کرتی ہے, لیکن بھونیشور میں جب پولیس ٹیم پہنچی تو اس نے یہاں سے ترک ملازمت کر لی تھی, اور پھر معلوم ہوا کہ مطلوب ملزمہ مغربی بنگال میں ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس کی تلاش شروع کر دی اور پولیس نے مغوی بچہ اور دیگر تین بچوں کو برآمد کر لیا۔ اس ایک ساتھ ہی ریشماں سنتوش کمار بنرجی 43 سالہ کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا, اس کے ساتھ ہی تین سال کے بچہ کو عدالت میں حاضر کیا گیا تو بچہ کی تحویل پولیس کو دیدی گئی تمام مرحلہ مکمل کرنے کے بعد پولیس نے بچہ کا میڈیکل کروایا تو اس کے جسم پر زخموں کے نشان پائے گئے۔ ملزمین نے بچہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے اس لئے بچہ پر ظلم و ستم کا کیس بھی درج کیا گیا, یہ کارروائی ممبئی پولیس کمشنر وویک پھنسلکر اور اسپیشل کمشنر دیوین بھارتی ایڈیشنل کمشنر انیل پارسکر اور ڈی سی پی راگسودھا کی ایما پر کی گئی۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com