Connect with us
Saturday,27-December-2025
تازہ خبریں

سیاست

خواتین کے حقوق، حکومت کا طرزِ عمل اور معاشرے کی ذمہ داریاں

Published

on

مردوں کی طرح عورتوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے آوازیں تو بہت اٹھائی جاتی رہی ہیں اور ساتھ ہی اہل اقتدار کی جانب سے یہ دعوے بھی کئے جاتے رہے ہیں کہ موجودہ اقتدار وحالات میں خواتین بہتر اور اطمینان بخش زندگی گزار رہی ہیں اور متعدد موقعوں پر تعلیمِ نسواں کے حوالے سے بھی بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں ، تحریکیں چلائی جاتی ہیں دعوے اور وعدے بھی کیے جاتے ہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیاواقعی ہمارے معاشرے ہمارے ملک نے خواتین کے حقوق کی بازیابی اور ان کی ہمہ جہت ترقی کے حوالے سے وہ ہدف حاصل کرلیا ہے جس کے خواب ہمارے اکابرین اور آزادی کے مجاہدین نے دیکھے تھے ؟ ، کیا ہم واقعی ایسی تعلیمی فضا قائم کر پائے ہیں جس کی بنیاد پر یہ کہہ سکیں کہ اب تعلیمی اعتبار سے ہمارے ملک کی خواتین بھی کسی دوسرے ملک و معاشرے سے پیچھے نہیں ؟

یہ سوالات اہم ہیں اور اس کے اطمینان بخش جواب بہت کم لوگوں کے پاس ہیں اس حوالے سے بیشتر دعوے اور اعداد و شمار ہمیں کمزور اور کھوکھلے نظر آتے ہیں تاہم مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں اگر ہم بات اقلیتی طبقے کی لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کریں تو منظر نامہ خاصہ مختلف اور افسوس ناک نظر آتا ہے مگر مختلف محاذوں اور تعلیمی میدانوں میں کام کرنے والے سماجی کارکن، اساتذہ اور ماہرین تعلیم کہتے ہیں کہ منظر نامہ بہتری کے لئے تبدیل ہورہاہے اگر اس باب میں سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو حالات صرف اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ بہت مستحکم ہوسکتے ہیں۔
ماہرین تعلیم نے بھی اس پس منظر میں اپنے خیالات و نظریات کا اظہار اکثر بیش اظہار کیا ہے انٹیگرل یونیورسٹی کے بانی و چانسلر پروفیسر سید وسیم اختر کہتے ہیں کہ جب بات تعلیمِ نسواں کی آتی ہے تو ہمیں زیادہ سنجیدگی سے خور و خوص کرنے کی ضرور ہوتی ہے ،لڑکیوں کی نشو و نما اور پرورش بھی اتنی ہی سنجیدگی اور دیانت و متانت سے کی جانی چاہئے جتنی توجہ ہمارے معاشرے کے لوگ لڑکوں کی تعلیم پر دیتے ہیں صرف اتنا ہی نہیں بلکہ لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ اور خصوصی توجہ دینے کی اس لئے بھی ضرورت ہوتی ہے کہ ایک خاتون پر پورے گھر اور پوری نسل کو تربیت دینے کی ذمہداری ہوتی ہے ایک ماں اپنے بچوں کو اگر بہتر تربیت دیتی ہے تو بہتر معاشرہ تشکیل پاتا ہے لہٰذالڑکیوں کی تعلیم کو فوقیت دی جانی چاہیے اور ان کو تمام تر تعلیمی حقوق فراہم کئے جانے چاہئیں، یہاں یہ بات بھی خاصی اہم ہے کہ پروفیسر سید وسیم اختر نے صرف زبانی طور پر لڑکیوں کی تعلیمی بہبود کی حمایت نہیں کی ہے بلکہ عملی طور پر بھی ابتدائی درجات سے اعلیٰ تعلیم کی فراہمی تک ایک ایسا نظم قائم کیا ہے جس کی بنیاد پر ان کے قول عمل میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
انٹرنیشنل اسکول سے انٹیگرل یونیورسٹی کے قیام تک ہر شعبے اور ہر ادارے میں خواتین کو بہتر اور مساوی موقعے فراہم کئے گئے ہیں ، انٹیگرل یونیورسٹی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے والی خواتین بھی یہ اعتراف کرتی ہیں کہ یونیورسٹی کے بانی وچانسلر نے اپنی زندگی کو ہی تعلیم۔ کے لئے وقف کردیا ہے پروفیسر صنوبر میر اور پروفیسر الوینا فاروقی کہتی ہیں کہ اگر اقلیتی طبقے کے ذمہدار ، صاحب ثروت اور با شعور لوگ تعلیمی باب میں ایسی ہی کوششیں کریں جیسی ہمارے عہد کے سرسید یعنی انٹیگرل یونیورسٹی کے بانی و چانسلر نے کی ہیں تو ہر لڑکی تعلیمی زیور سے آراستہ ہوجائے گی ، اس کا مستقبل روشن ہوجائے گا اور وہ عزت و وقار کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرسکے گی۔
ڈاکٹر سمیتا چترویدئ کہتی ہیں کہ چانسلر، اور پروچانسلر کی ایجوکیشنل اپروچ موجودہ عہد کے تقاضوں اور ضرورتوں کے مطابق ہے ، یہاں لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی حصول تعلیم کے میدان میں مکمل آزادی ہے اور اہم بات یہ ئے کہ یہ آزادی سنسکاروں اور آدرشوں کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اکبر الہٰ آبادی نے کہا تھا تعلیم عورتوں ک ضروری تو ہے مگر خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں۔ یہ شعر قدیم زمانے میں بہت با معنی اوراہم بھی تھا اور ساتھ ہی قابل تقلید بھی لیکن جدید دور میں اس کے معنی تبدیل ہوگئے ہیں۔
آج دنیا کے ہر میدان ہر شعبے میں لڑکیاں آگے بڑھ رہی ہیں سپنے آپ کو ثابت کرکے اپنی جگہ متعین کررہی ہیں سلجھے ہوئے ذہنوں کا یہی ماننا ہے کہ اپنی تہذیبی اقدار، سنسکار اور روشن روایتوں کے ساتھ تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنا کوئی گناہ نہیں بلکہ ایک بہترین عمل ہے ، ایسا زندگی کا کون سا شعبہ ہے جہاں لڑکیاں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کررہی ہیں یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ سرکاری سطح پر خواتین کی فلاح و بہبود اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے چلائے جانے والی اسکیموں سے بھی لوگوں کو فیض اٹھانا چائیے اقلیتی طبقے کی خواتین کا ایک بڑا مسئلہ علم کا نہ ہونا اور اس وجہ سے ان تک سرکاری اسکیموں ک فائدہ نہ پہنچنا بھی ہے اگر تشہیری مہموں کے ذریعے لوگوں بالخصوص سماج کے پسماندہ اور غریب لوگوں کو اپنے حقوق کے لئے بیدار کردیا جائے تو تعلیمی حالات کے ساتھ ساتھ معاشی، سماجی اور مجموعی حالات بھی بہتر ہوجائیں گے ۔

سیاست

ممبئی میونسپل کارپوریشن عام انتخابات 2025 – 26 : آج بروز ہفتہ 27 دسمبر 2025 کو ایک ہزار 294 کاغذات نامزدگی کی تقسیم، 35 درخواستیں داخل

Published

on

BMC

ممبئی : ممبئی میونسپل کارپوریشن عام انتخابات 2025 – 26 کے سلسلے میں آج 27 دسمبر 2025 کو 23 ریٹرننگ آفیسر کے دفاتر سے کل 1 ہزار 294 کاغذات نامزدگی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس طرح 35 کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے ہیں۔ ریاستی الیکشن کمیشن، مہاراشٹر کے ذریعہ اعلان کردہ میونسپل کارپوریشن عام انتخابات 2025 – 26 کے شیڈول کے مطابق، امیدواروں میں کاغذات نامزدگی کی تقسیم 23 دسمبر 2025 بروز منگل سے شروع ہو گئی ہے۔ منگل 23 دسمبر 2025 کو کل 4 ہزار 165 کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے تھے۔ بدھ 24 دسمبر 2025 کو 2,844 کاغذات نامزدگی تقسیم کیے گئے, جبکہ جمعہ 26 دسمبر 2025 کو 2,040 کاغذات نامزدگی تقسیم کیے گئے۔ اس کے علاوہ 09 کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے۔

کاغذات نامزدگی کی تقسیم کے چوتھے دن یعنی آج بروز ہفتہ 27 دسمبر 2025 کو 1,294 کاغذات نامزدگی تقسیم کیے گئے۔ اس طرح 35 کاغذات نامزدگی داخل کیے گئے ہیں۔ کاغذات نامزدگی وصول کرنے کی مدت 23 سے 30 دسمبر 2025 تک روزانہ صبح 11 بجے سے شام 5 بجے تک ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

40 سالوں سے رکا ہوا دھاراوی کی تعمیر نو کا منصوبہ بالآخر 2025 میں شروع ہو گیا۔ ریلوے کی 6.5 ایکڑ اراضی کو کیسے تبدیل کیا جائے گا؟

Published

on

Dharavi

ممبئی : دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ پر کام بالآخر 2025 میں شروع ہو گیا ہے۔ اڈانی گروپ اس بڑے پروجیکٹ کی سربراہی کر رہا ہے، جو پچھلے 40 سالوں سے رکا ہوا تھا۔ اس سال، ریلوے کی 6.5 ایکڑ اراضی پر حقیقی کام شروع ہوا، اور آنے والے سالوں میں یہ علاقہ مکمل طور پر تبدیل ہونے کے لیے تیار ہے۔ یہ اہم پیش رفت اس وقت ہوئی جب مہاراشٹر حکومت نے ممبئی میٹروپولیٹن ریجن میں مختلف مقامات پر ایسے رہائشیوں کو پلاٹ فراہم کیے جو سائٹ پر بحالی کے لیے نااہل پائے گئے۔ اس پروجیکٹ کا انتظام اسپیشل پرپز وہیکل (ایس پی وی) کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ یہ کمپنی ریاستی حکومت اور پرائیویٹ پارٹنر کے درمیان پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل کے تحت کام کرتی ہے۔ اس منصوبے کے مطابق، ریاستی حکومت زمین کی مکمل ملکیت کو برقرار رکھے گی، اور ایس پی وی دوبارہ ترقی کے لیے درکار ترقیاتی حقوق کے لیے ایک پریمیم ادا کرے گی۔ اس ڈھانچے کو اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ایک قابل عمل راستے کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے، جسے پہلے انتہائی مشکل سمجھا جاتا تھا۔

دھاراوی علاقے کے چاروں مراحل کا سائنسی سروے تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ اس معلومات کو منظم کرنے کے لیے، دھاراوی کا پہلا ڈیجیٹل ٹوئن لانچ کیا گیا ہے، اور اس کمپیوٹر ماڈل کا استعمال تنازعات کے تیز تر حل، شفاف فیصلہ سازی، اور پیش گوئی کرنے والی حکمرانی کے لیے کیا جائے گا۔ دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ کا بنیادی مقصد تقریباً 10 لاکھ لوگوں کی بحالی اور اگلے سات سالوں میں تقریباً 125,000 مکانات فراہم کرنا ہے۔ اس لیے یہ منصوبہ ملک کے سب سے بڑے شہری تجدید کے منصوبوں میں سے ایک ہوگا۔ ماسٹر پلان ایک پائیدار بستی کے لیے پانی کی فراہمی، فضلہ کے انتظام، توانائی کی کھپت، اور نقل و حمل کے نظام پر خصوصی زور دیتا ہے۔ تاہم یہ منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ ایک پریس ریلیز کے مطابق، 2025 وہ سال ہو گا جب منصوبہ محض منصوبہ بندی سے حقیقی نفاذ کی طرف جائے گا۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

پاکستانی وزیراعظم کی پارٹی کے ایک رہنما نے بھارت کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر بھارت نے بنگلہ دیش پر حملہ کیا تو پاکستان جوابی کارروائی کرے گا۔

Published

on

Pak-&-Bangladesh

اسلام آباد : محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش مکمل طور پر پاکستان کے شکنجے میں آگیا۔ وہی پاکستان جس کے مظالم سے بھارت نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا تھا، اب اس کی حفاظت کا عزم کر رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل-این) کے رہنما کامران سعید عثمانی نے بھارت کو دھمکی دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے بنگلہ دیش پر حملہ کیا تو پاکستان پوری قوت کے ساتھ ڈھاکہ کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہی نہیں، انہوں نے مئی 2025 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والے تنازع کا حوالہ دیتے ہوئے شیخی بگھاری۔

کامران سعید عثمانی نے پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کے جھنڈے کے ساتھ ایک ویڈیو جاری کی ہے۔ ویڈیو میں انہیں بھارت کو دھمکی دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج میں ایک سیاستدان کے طور پر نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی سرزمین، تاریخ، قربانی اور حوصلے کو سلام کرنے والے کے طور پر بات کر رہا ہوں، جب میں نے 2021 میں یہ مہم شروع کی تو کوئی میرے ساتھ نہیں تھا، آج الحمدللہ، بنگلہ دیش اور پاکستان ایک ساتھ کھڑے ہیں، آج میں کوئی سیاسی بیان نہیں دوں گا، میں عثمانی کی بات کروں گا، جو کہتا تھا کہ وہ بنگلہ دیش بننے کی آواز نہیں بنے گا، جس نے سوچا کہ وہ ہم خیال تھے۔ کسی بھی ملک کی کالونی میں بنگلہ دیش کے اندر کسی کی غنڈہ گردی کو قبول نہیں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان نوجوان اٹھتا ہے اور بااثر آواز بنتا ہے تو اسے دبا دیا جاتا ہے، یہ بھارتی سیاست دان عوام کا خون چوسنے کے لیے انہیں کبھی غلامی سے آزاد نہیں کرنا چاہتے، چاہے وہ بنگلہ دیش کو پانی کی سپلائی منقطع کر کے ہو یا فتنے کے نام پر مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر کے ان کے مسلمان نوجوانوں کو اب یہ سازش سمجھ چکے ہیں۔ اب پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہر بچہ عثمان ہادی ہے۔

کامران سعید نے مزید کہا کہ "انہوں نے عثمان ہادی کو شہید کیا، لیکن وہ ان کے نظریے کو شہید نہیں کر سکے، آج بنگلہ دیش کے عوام نے بھارت کی آزادی کو یکسر مسترد کر دیا ہے، میں اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں اور بہنوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، اگر کوئی ملک بنگلہ دیش پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے یا بنگلہ دیش کی خود مختاری پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اب آپ بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو میں بھی کسی کے ساتھ جنگ ​​لڑوں گا۔” نظر بد، پاکستانی عوام، پاکستانی فوج اور ہمارے میزائل آپ سے زیادہ دور نہیں ہیں، ہم آپ کو اسی طرح دکھ دیں گے جیسا کہ ہم نے آپریشن بنیان المرسو کے ذریعے کیا تھا۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com