Connect with us
Saturday,05-July-2025
تازہ خبریں

(جنرل (عام

اب ایسا لگتا ہے ملک میں عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں؟ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون سے چھیڑچھاڑ انتہائی خطرناک، انتظامیہ کا مظاہرین کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک : مولانا ارشد مدنی

Published

on

Maulana Arshad Madani

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے ملک کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن وقانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ یہ تشویش کا اظہار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کا کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔

اجلاس میں دعوٰی کیا گیا کہ ملک کے امن و اتحاد اور یکجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، دعوٰی کیا گیا حکمرانوں کے ذریعہ آئین وقانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرسکتی ہے، اس موقع پر اجلاس میں اتفاق رائے سے جو تجاویز منظور ہوئیں ان میں سے دو اہم تجاویز میں کہا گیا کہ جناب نبی کریم ﷺ کی شان میں جن لوگوں نے گستاخی کی جرأت کی ہے، ان کی معطلی ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق ایسی سخت سزا دی جانی چاہئے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔

دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تجویز میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یا تبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہئے، جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“ سیکشن 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ اگر 15/ اگست 1947ء میں موجودکسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ، اپیل یا کوئی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیر التواء ہے، تو وہ منسوخ ہو جائے گی۔ اور اس طرح کے معاملہ میں کوئی مقدمہ، اپیل یا دیگر کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی، اسی لئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل ہے، جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار ہے۔

مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ عاملہ کا یہ اجلاس ایک ایسے نازک وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لا قانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ذریعہ کئے جانے والے پرامن احتجاج کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کر کے قانون کی آڑ میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی شان میں دانستہ گستاخی کی گئی، اور ان گستاخوں کی گرفتاری کے مطالبہ کو لیکر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی گئیں، گرفتاریاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کی پاداش میں بہت سے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا گیا، سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یعنی جو کام عدالتوں کا تھا اب وہ حکومتیں کر رہی ہیں۔ اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اور نہ جج درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے، لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دو پیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم؛ لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پراتر کر پرتشدد کاروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا، انتظامیہ کا مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔

انہوں نے دعوٰی کیا کہ فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی گئی ہیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔ اتر پردیش پولس کا ایک بڑا افسر ان واقعات پر یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے ہی بچے ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔

مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے کیا دشمن کے بچے تھے؟ انہوں نے کہاکہ اب اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے، ایک بھارت شریشٹھ بھارت اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والوں نے قانون کو بھی مذہبی رنگ دیدیا ہے، اکثریت کے لئے قانون الگ ہے، اور اقلیت کے لئے الگ، سوال یہ ہے کہ اب اگر ملک میں پر امن احتجاج کرنا جرم ہے تو جن لوگوں نے پرتشدد احتجاج کیا ان کے گھروں کو ابتک مسمار کیوں نہیں کیا گیا؟ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ گستاخی کرنے والے لیڈروں کی معطلی کا جو خط بی جے پی کے دفتر کی طرف سے لکھا گیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ پارٹی ملک کے آئین پر عمل کرتی ہے، اور تمام مذاہب کے تئیں احترام کا جذبہ رکھتی ہے، اگر ایسا ہے تو گستاخی کرنے والے لیڈر اب تک آزاد کیوں ہیں؟ جو لوگ گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کریں، انہیں سنگین دفعات لگا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، اور جن لوگوں کی دریدہ دہنی کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے وہ اب بھی آزاد ہیں، کیا قانون کے دوہرے استعمال کی اس سے بدترین کوئی دوسری مثال ہوسکتی ہے؟

مولاںا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا ملک بھر میں پرتشدد احتجاج حکومت کے لئے ایک انتباہ ہے، اگر ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچا گیا، روزگار کے وسائل نہیں پیدا کئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں، تو وہ دن دور نہیں جب ملک کے تمام نوجوان سڑکوں پر ہوں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ مذہب کا نشہ پلاکر عوام کو بہت دنوں تک بنیادی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا، روٹی کپڑا اور مکان انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جسکو نظر انداز کیا جانا ملک کی فلاح وبہبود کے لئے اچھی علامت نہیں، اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے مذہب اور نفرت کی سیاست ترک کر کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے ورنہ وہی سب کچھ یہاں بھی شروع ہو سکتا ہے، جس کا نظارہ پوری دنیا سری لنکا میں کر چکی ہے۔ مولانا مدنی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا حل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ملک میں نفرت اور مذہبی شدت پسندی کا جو طوفان برپا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو نفرت سے بھری شرانگیز بحثیں ہوتی ہیں، اس پر پابندی لگائی جائے اس سلسلہ میں حکومت کو بہت پہلے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہئے تھا، لیکن ہمارے تمام تر مطالبوں کے باوجود حکومت نے ایسا نہیں کیا؛ چنانچہ مجبور ہو کر جمعیۃ علماء ہند کو اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن داخل کرنی پڑی، اس پٹیشن پر اب تک 13/ سماعتیں ہو چکی ہیں؛ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ اس پر اب تک حتمی بحث نہیں ہوسکی ہے، انہوں نے کہاکہ ملک سے اس وقت تک نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک ان متعصب ٹی وی چینلوں پر ہونے والی یکطرفہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ اور بحثوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی انہوں نے آخر میں کہا کہ اب پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے، اگر اب بھی حکومت نے اس تعلق سے کچھ نہیں کیا تو ملک میں امن واتحاد خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند سیاسی جماعتوں، ملک کے دانشوروں، سماجی تنظیمیں اور مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ اپنے اثرات کا استعمال کر کے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کی کوشش کریں، جس نے ملک کی یکجہتی، آئین ودستور اور سلامتی کے شدید خطرات پیدا کر دیئے گے ہیں۔

اجلاس میں جاری ٹرم کے لئے مفتی سید معصوم ثاقب کو ناظم عمومی نامزد کیا گیا، شرکاء میں مولانا عبد العلیم فاروقی لکھنو، جناب گلزار احمد اعظمی سکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر، مفتی غیاث الدین احمدرحمانی، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق احمد عنفر، مولانا عبد الہادی پرتاپ گڑھی، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، فضل الرحمن قاسمی، مولانا عبدالرشید قاسمی، مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی، مولانا قاری شمس الدین، حاجی سلامت اللہ دہلی، مفتی اشفاق احمد سرائے، مولانا بدر احمد مجیبی، مفتی عبد القیوم منصوری، جناب فضیل احمد ایوبی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے علاوہ مولانا حلیم اللہ قاسمی، مولانا عبد القیوم قاسمی، مفتی محمد احمد، مفتی محمد راشد، مولانا محمد مسلم قاسمی، جناب شاہد ندیم ایڈوکیٹ، مفتی حبیب اللہ قاسمی راجستھان، مولانا محمد خالد قاسمی اور مولانا مکرم الحسینی بیگوسرائے بطور مدعو خصوصی شریک ہوئے۔

سیاست

ممبئی راج اور ادھو ٹھاکرے اتحاد، مرد کون ہے عورت کون ہے : نتیش رانے کی تنقید

Published

on

Nitesh-Rane

ممبئی مہاراشٹر میں مراٹھی مانس کے لئے راج اور ادھو ٹھاکرے کے اتحاد پر بی جے پی لیڈر اور وزیر نتیش رانے نے ادھو اور راج پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ راج ٹھاکرے نے کہا ہے کہ ہمارے درمیان کے اختلافات ختم ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیر اعلی دیویندر فڑنویس نے انہیں اتحاد پر مجبور کیا, جو کام بال ٹھاکرے نہیں کر پائے وہ فڑنویس نے کیا ہے۔ اس پر نتیش رانے نے کہا کہ مہاوکاس اگھاڑی کے دور میں سپریہ سلے نہ کہا تھا کہ فڑنویس اکیلا تنہا کیا کرلیں گے, یہ اس بات کا جواب ہے انہوں نے کہا کہ جو کام بال ٹھاکرے نہیں کرسکے, وہ فڑنویس نے کیا۔ مزید طنز کرتے ہوئے رانے نے کہا کہ اختلافات ختم ہونے پر جو جملہ راج ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا ہے اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے مرد کون ہے, اور عورت کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادھو ٹھاکرے کے حال چال سے لگتا ہے کہ وہ کیا ہے, لیکن اس پر ادھو ٹھاکرے وضاحت کرے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

وقف ایکٹ : مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ’ رولز کو مطلع کیا، جس کے تحت وقف املاک کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔

Published

on

indian-parliament

نئی دہلی : وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیاں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے ‘یونیفائیڈ وقف مینجمنٹ ایمپاورمنٹ ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ رولز 2025’ کو نوٹیفائی کیا ہے۔ یہ قواعد وقف املاک کے پورٹل اور ڈیٹا بیس سے متعلق ہیں۔ سپریم کورٹ نے وقف ترمیمی ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ نئے قوانین کے مطابق تمام ریاستوں کی وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک مرکزی پورٹل اور ڈیٹا بیس بنایا جائے گا۔ وزارت اقلیتی امور میں محکمہ وقف کے انچارج جوائنٹ سکریٹری اس کی نگرانی کریں گے۔

نئے قواعد کے مطابق وقف املاک کی نگرانی کے لیے ایک پورٹل بنایا جائے گا۔ اس پورٹل کی دیکھ بھال اقلیتی امور کی وزارت کا ایک جوائنٹ سکریٹری کرے گا۔ پورٹل ہر وقف اور اس کی جائیداد کو ایک منفرد نمبر دے گا۔ تمام ریاستوں کو جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر کو نوڈل افسر کے طور پر مقرر کرنا ہوگا۔ انہیں مرکزی حکومت کے ساتھ مل کر ایک سپورٹ یونٹ بنانا ہوگا۔ اس سے وقف اور اس کی جائیدادوں کی رجسٹریشن، اکاؤنٹنگ، آڈٹ اور دیگر کام آسانی سے ہو سکیں گے۔ یہ قواعد 1995 کے ایکٹ کی دفعہ 108B کے تحت بنائے گئے ہیں۔ اس دفعہ کو وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کے مطابق شامل کیا گیا تھا۔ یہ ایکٹ 8 اپریل 2025 سے نافذ العمل ہے۔ قوانین میں بیواؤں، مطلقہ خواتین اور یتیموں کو کفالت الاؤنس فراہم کرنے کے بھی انتظامات ہیں۔

نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ متولی کو اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کے ساتھ پورٹل پر رجسٹر ہونا چاہیے۔ یہ رجسٹریشن ون ٹائم پاس ورڈ (او ٹی پی) کے ذریعے کی جائے گی۔ پورٹل پر رجسٹر ہونے کے بعد ہی متولی وقف کے لیے وقف اپنی جائیداد کی تفصیلات دے سکتا ہے۔ ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ متولی کا مطلب ہے وہ شخص جسے وقف املاک کے انتظام کی دیکھ بھال کے لیے مقرر کیا گیا ہو۔ قواعد کے مطابق کسی جائیداد کو غلط طور پر وقف قرار دینے کی تحقیقات ضلع کلکٹر سے ریفرنس موصول ہونے کے ایک سال کے اندر مکمل کی جانی چاہیے۔ متولی کے لیے پورٹل پر رجسٹر ہونا لازمی ہے، اسے اپنے موبائل نمبر اور ای میل آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے او ٹی پی کے ذریعے تصدیق کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ہی وہ وقف املاک کی تفصیلات دے سکتا ہے۔

Continue Reading

(جنرل (عام

مراٹھی ہندی تنازع پر کشیدگی کے بعد شسیل کوڈیا کی معافی

Published

on

Shasil-Kodia

ممبئی مہاراشٹر مراٹھی اور ہندی تنازع کے تناظر میں متنازع بیان پر شسیل کوڈیا نے معذرت طلب کرلی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے ٹوئٹ کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا, میں مراٹھی زبان کے خلاف نہیں ہوں, میں گزشتہ ۳۰ برسوں سے ممبئی اور مہاراشٹر میں مقیم ہوں, میں راج ٹھاکرے کا مداح ہوں میں راج ٹھاکرے کے ٹویٹ پر مسلسل مثبت تبصرہ کرتا ہوں۔ میں نے جذبات میں ٹویٹ کیا تھا اور مجھ سے غلطی سرزد ہو گئی ہے, یہ تناؤ اور کشیدگی ماحول ختم ہو۔ ہمیں مراٹھی کو قبول کرنے میں سازگار ماحول درکار ہے, میں اس لئے آپ سے التماس ہے کہ مراٹھی کے لئے میری اس خطا کو معاف کرے۔ اس سے قبل شسیل کوڈیا نے مراٹھی سے متعلق متنازع بیان دیا تھا اور مراٹھی زبان بولنے سے انکار کیا تھا, جس پر ایم این ایس کارکنان مشتعل ہو گئے اور شسیل کی کمپنی وی ورک پر تشدد اور سنگباری کی۔ جس کے بعد اب شسیل نے ایکس پر معذرت طلب کر لی ہے, اور اپنے بیان کو افسوس کا اظہار کیا ہے۔ شسیل نے کہا کہ میں مراٹھی زبان کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے ٹویٹ کا غلط مطلب نکالا گیا ہے۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com