(جنرل (عام
اب ایسا لگتا ہے ملک میں عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں؟ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق قانون سے چھیڑچھاڑ انتہائی خطرناک، انتظامیہ کا مظاہرین کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک : مولانا ارشد مدنی

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے ملک کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی سے غور وخوض کرتے ہوئے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی، امن وقانون کی ابتری اور مسلم اقلیت کے خلاف بدترین امتیازی رویہ پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔ یہ تشویش کا اظہار صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی صدارت میں منعقدہ اجلاس کا کیا گیا۔ دوسری طرف مولانا مدنی نے کہا کہ پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لاقانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں۔
اجلاس میں دعوٰی کیا گیا کہ ملک کے امن و اتحاد اور یکجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے، دعوٰی کیا گیا حکمرانوں کے ذریعہ آئین وقانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کو تار تار کرسکتی ہے، اس موقع پر اجلاس میں اتفاق رائے سے جو تجاویز منظور ہوئیں ان میں سے دو اہم تجاویز میں کہا گیا کہ جناب نبی کریم ﷺ کی شان میں جن لوگوں نے گستاخی کی جرأت کی ہے، ان کی معطلی ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں فوری گرفتار کر کے قانون کے مطابق ایسی سخت سزا دی جانی چاہئے، جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔
دوسری اہم تجویز میں کہا گیا ہے کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم کی کسی بھی کوشش کے انتہائی تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تجویز میں کہا گیا ہے کہ ترمیم یا تبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کیا جانا چاہئے، جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“ سیکشن 4 (2) میں کہا گیا ہے کہ اگر 15/ اگست 1947ء میں موجودکسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کی تبدیلی سے متعلق کوئی مقدمہ، اپیل یا کوئی کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی میں پہلے سے زیر التواء ہے، تو وہ منسوخ ہو جائے گی۔ اور اس طرح کے معاملہ میں کوئی مقدمہ، اپیل یا دیگر کارروائی کسی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی کے سامنے اس کے بعد پیش نہیں ہوگی، اسی لئے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں جو پٹیشن داخل ہے، جمعیۃ علماء ہند اس میں مداخلت کار ہے۔
مجلس عاملہ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ عاملہ کا یہ اجلاس ایک ایسے نازک وقت میں منعقد ہو رہا ہے کہ جب پورے ملک میں بدامنی، افراتفری، فرقہ واریت اور لا قانونیت اپنی انتہا پر ہے، ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے ان کے آئینی وجمہوری اختیارات چھینے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ذریعہ کئے جانے والے پرامن احتجاج کو بھی ملک دشمنی سے تعبیر کر کے قانون کی آڑ میں ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے رسول اقدس ﷺ کی شان میں دانستہ گستاخی کی گئی، اور ان گستاخوں کی گرفتاری کے مطالبہ کو لیکر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی گئیں، گرفتاریاں ہوئیں یہاں تک کہ اس کی پاداش میں بہت سے لوگوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوا دیا گیا، سنگین دفعات کے تحت مقدمات قائم کئے گئے ہیں، یعنی جو کام عدالتوں کا تھا اب وہ حکومتیں کر رہی ہیں۔ اب نہ ملک میں عدالتوں کی ضرورت ہے اور نہ جج درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج ہر ہندوستانی شہری کا جمہوری حق ہے، لیکن موجودہ حکمرانوں کے پاس احتجاج کو دیکھنے کے دو پیمانہ ہیں، مسلم اقلیت احتجاج کرے تو ناقابل معافی جرم؛ لیکن اگر اکثریت کے لوگ احتجاج کریں اور سڑکوں پراتر کر پرتشدد کاروائیاں انجام دیں اور پوری پوری ریل گاڑیاں اور اسٹیشن پھونک ڈالیں تو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے ہلکا لاٹھی چارج بھی نہیں کیا جاتا، انتظامیہ کا مظاہرہ اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان مذہب کی بنیاد پر تفریق افسوسناک ہے۔
انہوں نے دعوٰی کیا کہ فوج میں ٹھیکہ کے نوکری کے خلاف ہونے والا پرتشدد احتجاج اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، احتجاجیوں نے جگہ جگہ ٹرینوں میں آگ لگائی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا، پولس پر پتھر بازی کی تو وہی پولس جو مسلمانوں کے خلاف تمام حدیں توڑ دیتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی اس پرتشدد احتجاج کو لیکر جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان کے خلاف ایسی ہلکی دفعات لگائی گئی ہیں کہ تھانہ سے ہی ان کی ضمانت ہوسکتی ہیں۔ اتر پردیش پولس کا ایک بڑا افسر ان واقعات پر یہ کہتا ہے کہ یہ ہمارے ہی بچے ہیں ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔
مولانا مدنی نے سوال کیا کہ اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے کیا دشمن کے بچے تھے؟ انہوں نے کہاکہ اب اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہ گئی ہے، ایک بھارت شریشٹھ بھارت اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والوں نے قانون کو بھی مذہبی رنگ دیدیا ہے، اکثریت کے لئے قانون الگ ہے، اور اقلیت کے لئے الگ، سوال یہ ہے کہ اب اگر ملک میں پر امن احتجاج کرنا جرم ہے تو جن لوگوں نے پرتشدد احتجاج کیا ان کے گھروں کو ابتک مسمار کیوں نہیں کیا گیا؟ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ گستاخی کرنے والے لیڈروں کی معطلی کا جو خط بی جے پی کے دفتر کی طرف سے لکھا گیا تھا اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ پارٹی ملک کے آئین پر عمل کرتی ہے، اور تمام مذاہب کے تئیں احترام کا جذبہ رکھتی ہے، اگر ایسا ہے تو گستاخی کرنے والے لیڈر اب تک آزاد کیوں ہیں؟ جو لوگ گستاخی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کریں، انہیں سنگین دفعات لگا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، اور جن لوگوں کی دریدہ دہنی کی وجہ سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے وہ اب بھی آزاد ہیں، کیا قانون کے دوہرے استعمال کی اس سے بدترین کوئی دوسری مثال ہوسکتی ہے؟
مولاںا مدنی نے یہ بھی کہا کہ اگنی پتھ اسکیم کے خلاف نوجوانوں کا ملک بھر میں پرتشدد احتجاج حکومت کے لئے ایک انتباہ ہے، اگر ملک کی ترقی کے بارے میں نہیں سوچا گیا، روزگار کے وسائل نہیں پیدا کئے گئے، پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریاں نہیں دی گئیں، تو وہ دن دور نہیں جب ملک کے تمام نوجوان سڑکوں پر ہوں گے۔ انہوں نے آخر میں کہا کہ مذہب کا نشہ پلاکر عوام کو بہت دنوں تک بنیادی مسائل سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا، روٹی کپڑا اور مکان انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جسکو نظر انداز کیا جانا ملک کی فلاح وبہبود کے لئے اچھی علامت نہیں، اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے مذہب اور نفرت کی سیاست ترک کر کے عوام بالخصوص نوجوان نسل کے بہتر مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچے ورنہ وہی سب کچھ یہاں بھی شروع ہو سکتا ہے، جس کا نظارہ پوری دنیا سری لنکا میں کر چکی ہے۔ مولانا مدنی نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا حل کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ بنیادی مسئلہ کا حل یہ ہے کہ ملک میں نفرت اور مذہبی شدت پسندی کا جو طوفان برپا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو نفرت سے بھری شرانگیز بحثیں ہوتی ہیں، اس پر پابندی لگائی جائے اس سلسلہ میں حکومت کو بہت پہلے سے سخت موقف اختیار کرنا چاہئے تھا، لیکن ہمارے تمام تر مطالبوں کے باوجود حکومت نے ایسا نہیں کیا؛ چنانچہ مجبور ہو کر جمعیۃ علماء ہند کو اس کے خلاف عدالت میں پٹیشن داخل کرنی پڑی، اس پٹیشن پر اب تک 13/ سماعتیں ہو چکی ہیں؛ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ اس پر اب تک حتمی بحث نہیں ہوسکی ہے، انہوں نے کہاکہ ملک سے اس وقت تک نفرت کا خاتمہ نہیں ہوسکتا جب تک ان متعصب ٹی وی چینلوں پر ہونے والی یکطرفہ اور جانبدارانہ رپورٹنگ اور بحثوں پر پابندی نہیں لگائی جاتی انہوں نے آخر میں کہا کہ اب پانی سر سے اوپر ہوتا جارہا ہے، اگر اب بھی حکومت نے اس تعلق سے کچھ نہیں کیا تو ملک میں امن واتحاد خطرہ میں پڑ سکتا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند سیاسی جماعتوں، ملک کے دانشوروں، سماجی تنظیمیں اور مختلف شعبہئ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد سے پرزور اپیل کرتی ہے کہ اپنے اثرات کا استعمال کر کے ملک کے بگڑتے ہوئے ماحول کو بچانے کی کوشش کریں، جس نے ملک کی یکجہتی، آئین ودستور اور سلامتی کے شدید خطرات پیدا کر دیئے گے ہیں۔
اجلاس میں جاری ٹرم کے لئے مفتی سید معصوم ثاقب کو ناظم عمومی نامزد کیا گیا، شرکاء میں مولانا عبد العلیم فاروقی لکھنو، جناب گلزار احمد اعظمی سکریٹری قانونی امداد کمیٹی جمعیۃ علماء مہاراشٹر، مفتی غیاث الدین احمدرحمانی، مولانا اشہد رشیدی، مولانا مشتاق احمد عنفر، مولانا عبد الہادی پرتاپ گڑھی، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، فضل الرحمن قاسمی، مولانا عبدالرشید قاسمی، مولانا مفتی محمد اسماعیل قاسمی، مولانا قاری شمس الدین، حاجی سلامت اللہ دہلی، مفتی اشفاق احمد سرائے، مولانا بدر احمد مجیبی، مفتی عبد القیوم منصوری، جناب فضیل احمد ایوبی ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے علاوہ مولانا حلیم اللہ قاسمی، مولانا عبد القیوم قاسمی، مفتی محمد احمد، مفتی محمد راشد، مولانا محمد مسلم قاسمی، جناب شاہد ندیم ایڈوکیٹ، مفتی حبیب اللہ قاسمی راجستھان، مولانا محمد خالد قاسمی اور مولانا مکرم الحسینی بیگوسرائے بطور مدعو خصوصی شریک ہوئے۔
(Tech) ٹیک
ممبئی میٹرو لائن 3 کے مسافر افتتاح کے کئی دنوں بعد زیرو موبائل نیٹ ورک کے ساتھ جدوجہد کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ ممبئی میٹرو لائن 3 (ایکوا لائن) کے آخری مرحلے کے بہت زیادہ پروپیگنڈے کے افتتاح کے چند دن بعد، مسافروں کو نئے کھلنے والے اسٹریچ پر کلیدی زیر زمین اسٹیشنوں میں موبائل نیٹ ورک کنیکٹیویٹی کی کمی کا ایک بڑا چیلنج درپیش ہے۔ میڈیا کے ذریعہ سب سے پہلے رپورٹ ہونے والے اس مسئلے نے روزانہ ہزاروں مسافروں کو خاص طور پر آچاریہ اترے چوک اور کف پریڈ کے درمیان مایوس کر دیا ہے، جہاں صارفین صفر سیلولر سگنل کی اطلاع دیتے ہیں، جس سے کال کرنا، پیغامات بھیجنا، یا ڈیجیٹل یو پی آئی ادائیگیوں کو مکمل کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ افتتاح کے بعد، لائن 3 کی روزانہ سواریوں کی تعداد 1.5 لاکھ سے تجاوز کر گئی، لیکن نیٹ ورک ڈیڈ زون ایک مستقل تشویش بن گیا ہے۔ ممبئی میٹرو ریل کارپوریشن (ایم ایم آر سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر اشونی بھیڈے نے کہا، “ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ بی ایس این ایل کو آن بورڈ کر دیا گیا ہے اور امید ہے کہ جلد ہی کنیکٹیویٹی فراہم کرے گی۔”
بہت سے مسافروں کے لیے، موبائل سگنل کی کمی نے ایک جدید ترین میٹرو کو روزانہ کی جدوجہد میں بدل دیا ہے۔ “میں مکمل طور پر یو پی آئی پر انحصار کرتا ہوں اور نقد رقم نہیں رکھتا تھا۔ مجھے صرف ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے باہر نکل کر اے ٹی ایم تلاش کرنا پڑا،” جنوبی ممبئی میں کام کرنے والے اکاؤنٹنٹ منوج شندے نے کہا۔ “اس دور میں، ممبئی جیسے شہر میں بنیادی موبائل کنیکٹیویٹی نہ ہونا ناقابل قبول ہے۔” چرچ گیٹ سے سوار ہونے والی مسافر وینیتا سنگھ نے بھی ایسی ہی مایوسی کا اظہار کیا۔ “یہ ستم ظریفی ہے کہ ہمیں نقدی کے بغیر جانے کی ترغیب دی جاتی ہے، لیکن نظام ہمیں نقد رقم لے جانے پر مجبور کرتا ہے۔ مجھے ₹500 میں تبدیلی فراہم کرنے کے لیے تیار دکان تلاش کرنے کے لیے سڑک کی سطح تک بھاگنا پڑا،” اس نے کہا۔ پیچیدہ وائی فائی خلا کو پُر کرنے میں ناکام ہے، جبکہ ایم ایم آر سی اس مسئلے کو کم کرنے کے لیے زیر زمین اسٹیشنوں پر مفت وائی فائی فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، مسافروں کا کہنا ہے کہ یہ سروس ناقابل اعتبار ہے۔ بہت سے مسافر رپورٹ کرتے ہیں کہ آلات یا تو وائی فائی کا پتہ لگانے میں ناکام رہتے ہیں یا لازمی یو پی آئی لاگ ان کو مکمل نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ اس عمل کے لیے ہی موبائل نیٹ ورک تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ “مجھے ہمیشہ یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ اسٹیشن میں داخل ہونے سے پہلے میری یو پی آئی ایپ کاکیو آر کوڈ سکینر کھلا ہو۔ بصورت دیگر، مجھے سگنل حاصل کرنے کے لیے بیک اپ پر چڑھنا پڑے گا۔ وائی فائی خراب ہے، اور شرما نے کہا، “آپ کو یو پی آئی نیٹ ورک کی ضرورت ہے، آپ کو ابھی بھی یو پی آئی کی ضرورت ہے۔ باقاعدہ مسافر.
ورلی اور ودھان بھون کے درمیان سفر کرنے والی اکثر مسافر سوہاسینی دیشپانڈے نے صورتحال کو واضح طور پر بیان کیا: “جیسے ہی ٹرین جنوبی ممبئی کے ایک اسٹیشن پر رکتی ہے اور دروازے کھلتے ہیں، لوگ جلدی سے اپنے فون چیک کرنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ جیسے ہی ٹرین دوبارہ چلنا شروع ہوتی ہے، نیٹ ورک غائب ہوجاتا ہے۔” کنیکٹیویٹی کی کمی نے تمام بڑے ٹیلی کام نیٹ ورکس میں بنیادی خدمات کو متاثر کیا ہے، جس سے کالز، موبائل ڈیٹا، اور ڈیجیٹل لین دین روزمرہ کی شہری زندگی کے ضروری عناصر پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، بی ایس این ایل کے صارفین کو نئے کھلنے والے مرحلے میں جلد ہی نیٹ ورک کوریج ملنے کا امکان ہے۔ تاہم، دیگر ٹیلی کام آپریٹرز نے ابھی تک نیٹ ورک اپ گریڈیشن پلان پر ایم ایم آر سی کے ساتھ مکمل تعاون نہیں کیا ہے، یعنی نجی کیریئرز کے صارفین کو مزید انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں معمولی خرابیوں کی توقع ہے، لیکن سرکاری آغاز سے پہلے بنیادی رابطے کو یقینی بنایا جانا چاہیے تھا۔ ایک ماہر نے کہا، “یہ واقعہ زیر زمین ٹرانزٹ سسٹمز میں مضبوط ٹیلی کام انفراسٹرکچر کی اہم ضرورت کو اجاگر کرتا ہے،” انہوں نے مزید کہا کہ قابل اعتماد موبائل کنیکٹیویٹی اب جدید پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک غیر گفت و شنید پہلو ہے۔
(جنرل (عام
تھانے : دیوا شیل روڈ پر پھنسے کبوتر کو بچانے کے دوران فائر مین کی کرنٹ لگنے سے موت، ساتھی شدید زخمی

تھانے : تھانے میں اتوار کی شام کو ایک المناک واقعہ پیش آیا جب دیوا شیل روڈ پر ایک الیکٹرک باکس کے اندر پھنسے کبوتر کو بچانے کی کوشش کے دوران ایک 28 سالہ فائر فائٹر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور دوسرا شدید جھلس گیا۔ مرنے والے کی شناخت فائر مین اتساب پاٹل (28) کے طور پر کی گئی ہے، جب کہ اس کے ساتھی آزاد پاٹل (29) کو شدید چوٹیں آئی ہیں اور وہ فی الحال مقامی شہری اسپتال میں زیر علاج ہے۔ یہ واقعہ شام 5 بجے کے قریب پیش آیا اور اس کی اطلاع تھانے میونسپل کارپوریشن (ٹی ایم سی) کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل نے دی۔ میڈیا کے مطابق آپریشن کا آغاز رہائشیوں کی جانب سے ہائی ٹینشن اوور ہیڈ کیبل باکس میں کبوتر کے پھنسے ہونے کی اطلاع کے بعد کیا گیا۔ پرندہ ایک خطرناک مقام پر پھنس گیا تھا اور حکام کو خدشہ تھا کہ اسے وہاں چھوڑنا نہ صرف اس کی موت کا باعث بن سکتا ہے بلکہ براہ راست بجلی کے کنکشن کی وجہ سے ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ یا ٹرانسفارمر جیسا دھماکہ بھی ہو سکتا ہے۔
ریسکیو کے دوران فائر فائٹرز میں سے ایک غلطی سے ہائی وولٹیج لائیو تار سے رابطے میں آگیا۔ کرنٹ لگنے سے اچانک آگ لگ گئی جس سے اتسب موقع پر ہی بجلی کا کرنٹ لگ گیا اور آزاد جو اس کی مدد کر رہا تھا بری طرح جھلس گیا۔ ساتھی فائر فائٹرز نے انہیں فوری طور پر خطرے کے علاقے سے نکالا اور انہیں قریبی شہری اسپتال پہنچایا۔ ڈاکٹروں نے اتساب کو پہنچنے پر مردہ قرار دے دیا، جب کہ آزاد کے ہاتھ اور سینے پر زخموں کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک ہے۔ ٹی ایم سی کے ترجمان نے اس واقعہ کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔ “کبوتر اوور ہیڈ کیبل کے تار میں پھنس گیا۔ بدقسمتی سے، ایک فائر مین بچاؤ آپریشن کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور دوسرا شدید زخمیوں سے لڑ رہا ہے،” اہلکار نے بتایا، جیسا کہ انڈین ایکسپریس نے نقل کیا ہے۔ حکام نے اس بات کا تعین کرنے کے لیے اندرونی انکوائری شروع کی ہے کہ آیا آپریشن کے دوران معیاری حفاظتی پروٹوکول اور حفاظتی پوشاک مناسب طریقے سے استعمال کیے گئے تھے۔ توقع ہے کہ تھانے میونسپل کارپوریشن انکوائری کے بعد تفصیلی رپورٹ جاری کرے گی۔
(Tech) ٹیک
ہندوستان کی سی پی آئی افراط زر ستمبر میں 8 سال کی کم ترین سطح 1.54 فیصد پر آ گئی۔

نئی دہلی، کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) پر مبنی ہندوستان کی افراط زر کی شرح گزشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے اس سال ستمبر میں 1.54 فیصد کی 8 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی، کیونکہ اس مہینے کے دوران کھانے پینے کی اشیاء اور ایندھن کی قیمتیں سستی ہو گئیں، پیر کو وزارت شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق۔ یہ جون 2017 کے بعد سال بہ سال کی سب سے کم مہنگائی ہے، اور اگست کی مہنگائی کی شرح 2.05 فیصد سے بھی کم ہے۔ اشیائے خوردونوش کی افراط زر مسلسل چوتھے مہینے منفی زون میں جاری رہی اور ستمبر کے دوران -2.28 فیصد ریکارڈ کی گئی، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے۔ “ستمبر کے دوران ہیڈ لائن افراط زر اور خوراک کی افراط زر میں کمی بنیادی طور پر ایک سازگار بنیاد اثر اور سبزیوں، خوردنی تیل، پھل، دالوں، اناج اور انڈوں کی افراط زر میں کمی کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ماہ کے دوران ایندھن بھی سستا ہوا،” سرکاری بیان میں کہا گیا۔ اچھی جنوب مغربی مانسون، خریف کی صحت مند بوائی، ذخائر کی مناسب سطح اور غذائی اجناس کے آرام دہ بفر اسٹاک کے ساتھ مل کر بڑے سازگار بنیادوں کے اثرات کی وجہ سے 2025-26 کے لیے افراط زر کا نقطہ نظر زیادہ سومی ہو گیا ہے۔ جی ایس ٹی کی شرح میں کمی، جو 22 ستمبر کو شروع ہوئی، تمام اشیا کی قیمتوں میں کمی لا رہی ہے جس کے نتیجے میں آنے والے مہینوں میں افراط زر میں مزید کمی آئے گی۔
افراط زر کی شرح میں کمی آر بی آئی کو شرح سود میں کمی اور ترقی کو تیز کرنے کے لیے معیشت میں مزید رقم داخل کر کے نرم کرنسی کی پالیسی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے مزید ہیڈ روم فراہم کرتی ہے۔ آر بی آئی کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے 1 اکتوبر کو مالی سال 2025-26 کے لیے ہندوستان کی افراط زر کی شرح کے لیے اپنی پیشن گوئی کو اگست میں 3.1 فیصد سے گھٹا کر 2.6 فیصد کر دیا، بنیادی طور پر جی ایس ٹی کی شرح میں کٹوتیوں اور خوراک کی سومی قیمتوں کی وجہ سے۔ آر بی آئی کے گورنر سنجے ملہوترا نے کہا، “حال ہی میں لاگو کیا گیا جی ایس ٹی کی شرح کو معقول بنانے سے سی پی آئی کی ٹوکری میں کئی اشیاء کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔ مجموعی طور پر، مہنگائی کا نتیجہ اگست کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ریزولوشن میں متوقع طور پر جی ایس ٹی کی شرحوں میں کمی اور خوراک کی قیمتوں میں نرمی کی وجہ سے پیش کردہ اس سے زیادہ نرم ہونے کا امکان ہے۔” ایم پی سی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے، ملہوترا نے کہا کہ “گذشتہ چند مہینوں میں مجموعی طور پر افراط زر کا نقطہ نظر اور بھی بہتر ہو گیا ہے۔” آر بی آئی کے گورنر نے نشاندہی کی کہ ہیڈ لائن سی پی آئی افراط زر جولائی 2025 میں 1.6 فیصد سال بہ سال کی آٹھ سال کی کم ترین سطح پر آگئی جو اگست میں 2.1 فیصد تک بڑھ گئی – نو ماہ کے بعد اس کا پہلا اضافہ۔ 2025-26 کے دوران اب تک کی مہنگائی کے حالات بنیادی طور پر اکتوبر 2024 کے اپنے عروج سے خوراک کی افراط زر میں تیزی سے گراوٹ کے باعث بنے ہیں۔ ایندھن کے گروپ کے اندر افراط زر جون-اگست کے دوران 2.4-2.7 فیصد کی محدود حد میں چلا گیا۔ اگست میں بنیادی افراط زر بڑی حد تک 4.2 فیصد پر برقرار رہا۔ قیمتی دھاتوں کو چھوڑ کر، بنیادی افراط زر اگست میں 3.0 فیصد پر تھا۔ آر بی آئی کے گورنر نے مزید کہا کہ موجودہ میکرو اکنامک حالات اور آؤٹ لک نے ترقی میں مزید معاونت کے لیے پالیسی کی جگہ کھول دی ہے۔
-
سیاست12 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست6 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم6 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم5 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا