Connect with us
Thursday,17-April-2025
تازہ خبریں

بین الاقوامی خبریں

افغانستان کے 65 فیصد علاقوں پر طالبان کا کنٹرول : یوروپی یونین

Published

on

European Union

یورپی یونین نے کہا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے افغان کی سر زمین پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے ملک کے 65 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

یورپی یونین کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کو بتایا کہ طالبان اب 65 فیصد افغان سرزمین پر قابض ہیں، 11 صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرنے کی دھمکی دے رہی ہیں، اور کابل کو شمال میں موجو قومی افواج کی روایتی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسی کے ساتھ یورپی یونین کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں تقریباً 4 لاکھ افغانی بے گھر ہوئے، اور گزشتہ 10 دنوں کے دوران ایران فرار ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جہاں طالبان کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی سے پریشان حال صدر اشرف غنی نے علاقائی طاقتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کی حکومت کا ساتھ دیں وہیں اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار نے کہا کہ 20 سالوں میں انسانی حقوق کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی تھی وہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خطرے میں پڑ گئی ہے۔

دارالحکومت کابل میں اشرف غنی کے ساتھیوں نے کہا کہ وہ علاقائی ملیشیاؤں سے مدد مانگ رہے ہیں، جن کی مدد سے وہ کئی برسوں سے اپنی حکومت قائم رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں، جبکہ عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ افغانستان کے جمہوری تشخص کا دفاع کریں۔

مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ شمالی قصبے مزار شریف اور کابل کے درمیان مرکزی سڑک پر صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک کے قصبے میں طالبان اپنا کنٹرول مضبوط تر کر رہے ہیں اور سرکاری عمارتوں میں منتقل ہورہے ہیں، اور اس دوران زیادہ تر حکومتی سیکیورٹی فورسز پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہیں۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ایبک میں رہائش کے لیے حالات کے بارے میں پوچھے جانے پر صوبائی ٹیکس آفیسر شیر محمد عباس نے کہا واحد راستہ خود ساختہ نظر بندی یا کابل کی راہ لینا ہے۔ نو افراد کے خاندان کے واحد کفیل شیر محمد عباس نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اب کابل میں بھی کوئی محفوظ آپشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ طالبان ان کے دفتر پہنچے اور کارکنوں کو گھر جانے کو کہا لیکن منگل کو کسی قسم کی لڑائی دیکھی نہ سنی۔ برسوں سے شمالی علاقہ جات ملک کا سب سے پرامن حصہ تصور کیے جاتے تھے لیکن طالبان کی حکمت عملی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ وہ شمال کے ساتھ ساتھ شمال، مغرب اور جنوب میں اہم سرحدی گزرگاہوں پر بھی قبضہ کر کے کابل پر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔

حکومت نے ان دیہی آبادیوں سے اپنی فوج واپس بلالی ہے جن کا دفاع ممکن نہیں اور اس کے بجائے زیادہ آبادی والے علاقوں کے دفاع پر توجہ دی جا رہی ہے۔ امریکہ سرکاری فوج کی حمایت میں فضائی حملے کرتا رہا ہے لیکن پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے پیر کو کہا ہے کہ اپنے ملک کی حفاظت کرنا افغان فوج کا کام ہے، یہ ان کی جدوجہد ہے۔

طالبان اور سرکاری حکام نے تصدیق کی ہے کہ طلابان نے حالیہ دنوں میں شمال، مغرب اور جنوب میں چھ صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

ایک سیکیورٹی عہدیدار نے بتایا کہ صوبہ بغلان کے دارالحکومت پل خمری میں ایبک کے جنوب مشرق میں طالبان نے کابل جانے والی سڑک کے سنگم پر شہر کو بند کر کے سیکیورٹی فورسز کو گھیرے میں لے لیا تھا۔

نیشنل ڈیزاسٹر اتھارٹی کے سربراہ غلام بہاؤالدین جیلانی نے میڈیا کو بتایا کہ 34 میں سے 25 صوبوں میں لڑائی جاری ہے اور 60 ہزار خاندان پچھلے دو ماہ کے دوران بے گھر ہو چکے ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر کابل میں پناہ کے متلاشی ہیں۔

ایران کی سرحد کے قریب مغربی افغانستان کے صوبے فراہ کے دارالحکومت اور سب سے بڑے شہر فراہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ طالبان نے گورنر کی رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں طالبان اور حکومتی فورسز کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔شہریوں نے بتایا کہ طالبان نے شہر کی تمام اہم سرکاری عمارتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ مشیل بیچلیٹ نے کہا کہ جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم کے ارتکاب کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں، جس میں ہتھیار ڈالن یوالے سرکاری فوجیوں کو پھانسی دینے کی انتہائی پریشان کن اطلاعات بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کا ہی خوف بے جا نہیں کہ طالبان کے اقتدار میں آنے سے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران انسانی حقوق سلسلے میں ہونے والی تمام تر پیش رفت رائیگاں چلی جائے گی۔

بین الاقوامی خبریں

فرانس نے اقوام متحدہ کو خط لکھ کر کیا زوردار مطالبہ، یو این ایس سی میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کی حمایت کی

Published

on

UNSC

نیو یارک : روس کے بعد دوست فرانس نے بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کی حمایت کی ہے۔ ایک دن پہلے روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشست کے لیے نئی دہلی کی بولی کی حمایت کی تھی اور اب فرانس نے بھی کہا ہے کہ ہندوستان، جرمنی، برازیل اور جاپان کو یو این ایس سی کی مستقل رکنیت حاصل کرنی چاہیے۔ فرانس کی جانب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو بھیجے گئے ای میل میں فرانس نے کہا کہ ہم برازیل، بھارت، جرمنی اور جاپان کے ساتھ افریقی ممالک کے لیے دو مستقل رکنیت کی نشستوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فرانس نے کہا کہ ہم افریقی ممالک کی مضبوط نمائندگی کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکی اور ایشیائی اور بحرالکاہل کے ممالک سمیت دیگر ممالک کی مضبوط شرکت دیکھنا چاہتے ہیں۔

فرانس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی جانی چاہیے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے ممالک کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہونی چاہیے۔ فرانس نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کے لیے اس کے کم از کم 25 ارکان ہونے چاہئیں اور جغرافیائی محل وقوع کی بنیاد پر ممالک کو اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے اقوام متحدہ کے فیصلے مضبوط اور قابل قبول ہوں گے۔

اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے جرمنی، جاپان، برازیل اور دو افریقی ممالک کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) میں مستقل رکن کے طور پر ہندوستان کی شمولیت کی بھرپور حمایت کی تھی۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس میں عام بحث سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ “جرمنی، جاپان، بھارت اور برازیل کو مستقل رکن ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ دو ایسے ممالک جنہیں افریقہ اس کی نمائندگی کے لیے نامزد کرے گا۔ نو منتخب اراکین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔” اس دوران فرانسیسی صدر نے اقوام متحدہ کے اندر اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ اسے مزید موثر اور نمائندہ بنایا جا سکے۔

آپ کو بتاتے چلیں کہ فرانس، امریکہ، برطانیہ اور روس نے اقوام متحدہ میں ہندوستان کی مستقل رکنیت کی مسلسل حمایت کی ہے لیکن چین کی مخالفت کی وجہ سے ہندوستان کو مستقل رکنیت نہیں مل سکی ہے۔ چین کسی بھی حالت میں ہندوستان کی مستقل رکنیت نہیں چاہتا اور اس میں رکاوٹیں پیدا کرتا رہا ہے۔ گزشتہ سال چلی کے صدر گیبریل بورک فونٹ نے بھی یو این ایس سی میں ہندوستان کی شمولیت کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کے لیے ایک ٹائم لائن کی تجویز پیش کی تاکہ اسے اقوام متحدہ کی 80ویں سالگرہ تک جدید جغرافیائی سیاسی حقائق کے مطابق بنایا جا سکے۔ روس بھی مستقل نشست کے لیے ہندوستان کی خواہش کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ترقی پذیر ممالک کی زیادہ نمائندگی کی ضرورت پر زور دیا۔

Continue Reading

(جنرل (عام

سعودی عرب نے عازمین حج کے لیے پورٹل دوبارہ کھول دیا، ہندوستان کی وزارت برائے اقلیتی امور نے حج گروپ آپریٹرز کو جلد عمل مکمل کرنے کی ہدایت کی

Published

on

Hajj

ریاض : سعودی عرب کی وزارت حج نے 10,000 عازمین حج کے لیے حج (نسک) پورٹل کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ منیٰ (مکہ کے قریب ایک شہر) میں جگہ کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ یہ اطلاع دیتے ہوئے حکومت ہند کی اقلیتی امور کی وزارت نے سی ایچ جی اوز (کمبائنڈ حج گروپ آپریٹرز) سے کہا ہے کہ وہ بغیر کسی تاخیر کے اپنا عمل مکمل کریں۔ حج رواں سال جون کے مہینے میں ہوگا۔ اس کے لیے مئی سے ہی عازمین حج سعودی جانا شروع کر دیں گے۔ 26 سی ایچ جی اوز حج کے عمل کو مکمل کرنے کے لیے سعودی عرب کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ منیٰ میں کیمپ، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ کے لیے ضروری معاہدے مکمل نہیں کر سکے۔ اس پر حکومت ہند نے سعودی وزارت حج سے رابطہ کیا۔ ہندوستانی حکومت کی مداخلت کے بعد سعودی وزارت حج نے پورٹل کو دوبارہ کھولنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

ہندوستان کی اقلیتی امور کی وزارت نے کہا کہ کچھ سی ایچ جی اوز سعودی عرب کی ڈیڈ لائن کو پورا کرنے میں ناکام رہے، جس سے ان کا حج کوٹہ پورا نہیں ہوا۔ اس بقیہ کوٹہ کو پورا کرنے کے لیے سعودی عرب نے اب 10,000 عازمین حج کے لیے پورٹل کو دوبارہ کھول دیا ہے۔ حکومت ہند کی حج پالیسی 2025 کے مطابق، حج کمیٹی آف انڈیا ملک کے لیے مختص حج کے کل کوٹے کا 70% کا انتظام کرتی ہے۔ باقی 30% پرائیویٹ حج گروپ آرگنائزرز کو دیا جاتا ہے۔ وزارت نے کہا کہ سعودی عرب نے 2025 کے لیے ہندوستان کو 1,75,025 (1.75 لاکھ) کا کوٹہ دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے، اقلیتی امور کی وزارت کے سکریٹری چندر شیکھر کمار اور جوائنٹ سکریٹری سی پی ایس بخشی نے ہندوستانی عازمین کے لیے حج کی تیاریوں کا جائزہ لینے کے لیے گزشتہ ہفتے جدہ کا دورہ کیا۔ اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے بھی اس سال جنوری میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے حج 2025 کے لیے دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ اس سال حج 4 جون سے 9 جون 2025 کے درمیان ہوگا تاہم حتمی تاریخ کا انحصار اسلامی کیلنڈر کے آخری مہینے ذوالحج کا چاند نظر آنے پر ہوگا۔

Continue Reading

بین الاقوامی خبریں

حماس اسرائیل کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے گا، غزہ میں جنگ بندی کی تجویز مسترد، نیتن یاہو نے بھی کمر کس لی

Published

on

Netanyahu-orders-army

تل ابیب : اب غزہ جنگ کے جلد ختم ہونے کی امید کم دکھائی دیتی ہے۔ حماس نے جنگ بندی کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں غزہ کے تمام مسلح گروپوں کو ہتھیار ڈالنے کا کہا گیا تھا۔ حماس نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر امن کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالنے اور 18 ماہ سے جاری جنگ کو ختم کرنے کا بھی الزام لگایا۔ حماس کے عہدیدار سامی ابو زہری نے پیر کو کہا کہ ان کا گروپ لوگوں کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے تمام تجاویز پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ لیکن اسرائیل نے جو تازہ ترین تجویز پیش کی ہے اور فلسطینیوں کو قبول کرنے کے لیے کہا ہے وہ ‘ہتھیار ڈالنے’ کے لیے ہے۔ ادھر امریکہ نے بھی اسرائیل کو کروڑوں ڈالر مالیت کے نئے ہتھیار بھیجے ہیں اور اسرائیل بڑی فوجی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔

ابو زہری نے کہا، ‘نیتن یاہو جنگ بندی کے معاہدے میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے ناممکن حالات قائم کر رہے ہیں۔’ انہوں نے کہا کہ اسرائیل اپنی تازہ تجویز میں یہ وعدہ نہیں کر رہا کہ وہ حملے مکمل طور پر روک دے گا۔ اسرائیل صرف یرغمالیوں کی واپسی چاہتا ہے۔ ہم تمام یرغمالیوں کو، مردہ اور زندہ رہا کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن یہ تبھی ہو گا جب جنگ ختم ہو جائے گی اور اسرائیلی افواج غزہ سے نکل جائیں گی۔

حماس کے ترجمان نے کہا کہ ہتھیار ڈالنا تحریک حماس کے لیے کوئی آپشن نہیں ہے اور ہم عوام کی مرضی کو توڑنا قبول نہیں کریں گے۔ حماس ہتھیار نہیں ڈالے گی، ہم ہار نہیں مانیں گے اور حملہ آور قوت کے خلاف دباؤ کے تمام ذرائع استعمال کریں گے۔ اسرائیل کی تازہ ترین تجویز میں 45 دن کے امن کی بات کی گئی ہے۔ اس میں تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل خوراک اور امداد کو غزہ تک پہنچانے کی اجازت دے گا۔ دریں اثناء اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے 250 سے زائد سابق اہلکاروں نے حکومت سے غزہ کی پٹی میں جنگ فوری طور پر ختم کرنے کی اپیل کی۔ اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کان ٹی وی کی خبر کے مطابق سابق اہلکاروں نے حکومت کو ایک خط لکھ کر یہ مطالبہ کیا۔ رپورٹ کے مطابق دستخط کرنے والوں میں موساد کے تین سابق سربراہان – ڈینی یاٹوم، افریم ہیلیوی اور تامیر پارڈو کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں۔

موساد کے سابق ارکان نے کہا: ‘مسلسل لڑائی یرغمالیوں اور ہمارے فوجیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ کسی ایسے معاہدے تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے جس سے اس مصائب کا خاتمہ ہو۔ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جرات مندانہ فیصلہ لے اور ملک کی سلامتی کے لیے ذمہ داری سے کام کرے۔ خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق انہوں نے سینکڑوں فوجی اہلکاروں کی حمایت کا اظہار کیا، چاہے وہ ریزرو میں ہوں یا ریٹائرڈ ہوں، جنہوں نے اسی طرح کے خط پر دستخط کیے تھے۔ خط میں جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں کی واپسی کی اپیل کی گئی۔

Continue Reading
Advertisement

رجحان

WP2Social Auto Publish Powered By : XYZScripts.com