قومی خبریں
3 ملزمان کو تاحیات قید کی سزا، 3 کو پانچ پانچ سال قید کی سزااورایک بری : کٹھوعہ معاملہ

پنجاب کے ضلع پٹھان کوٹ میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ نے پیر کے روز صوبہ جموں کے ہندو اکثریتی ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گائوں میں سنہ 2018ء کے جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بکروال لڑکی کی وحشیانہ عصمت دری و قتل کیس کے آٹھ میں سے چھ ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین کو تاحیات قید کی سزا جبکہ دیگر تین کو پانچ پانچ سال قید کی سنائی۔
کورٹ نے ساتویں ملزم وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔ آٹھواں ملزم جو کہ نابالغ ہے اور جس نے کمسن بچی پر سب سے زیادہ ظلم ڈھایا تھا، کے خلاف ٹرائل عنقریب جوینائل کورٹ میں شروع ہوسکتی ہے۔
کیس کے ملزمان میں عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام، اس کا بیٹا وشال جنگوترا، سانجی رام کا بھتیجا (نابالغ ملزم)، نابالغ ملزم کا دوست پرویش کمار عرف منو، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج شامل تھے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج پٹھان کوٹ ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے منصوبہ ساز سانجی رام، پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ کو تاحیات قید کی سزا جبکہ جبکہ دیگر تین بشمول ایس پی او سریندر کمار، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی۔ جج موصوف نے سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی کی بناء پر بری کردیا۔
چارج شیٹ میں سانجی رام پر عصمت دری و قتل کی سازش رچانے، وشال، نابالغ ملزم، پرویش اور ایس پی او دیپک کھجوریہ پر عصمت دری و قتل اور ایس پی او سریندر کمار، تحقیقاتی افسران تلک راج و آنند دتا پر جرم میں معاونت اور شواہد مٹانے کے الزامات لگے تھے۔
متاثرہ آٹھ سالہ بچی کے والد کے ذاتی وکیل مبین فاروقی نے عدالت کے احاطے میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملوثین کو سزائیں ملنے سے سچ کی جیت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا: ‘سچ کی جیت ہوئی ہے۔ یہ جیت تمام کمیونٹیز ہندوئوں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کی جیت ہے’۔
ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے نامہ نگاروں کو بتایا: ‘جج صاحب ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے ایک سال تک اس کیس کے سوا کوئی دوسرا کیس ہاتھ میں نہیں لیا۔ اس کے لئے ہم اُن کی سراہنا کرتے ہیں۔ اب سوال ہے کہ ہم نے بحیثیت وکلاء صفائی آج کیا کھویا کیا پایا۔ وشال جنگوترا کی جیت ہوئی ہے۔ وہ کیس میں کہیں بھی ملوث نہیں تھے۔ تین ملزمان سانجی رام، دیپک کھجوریہ اور پرویش کو قتل، اجتماعی عصمت دری، اغوا کاری، سازش اور غیر قانونی حراست سے متعلق دفعات کے تحت سزا سنائی گئی۔ دیگر ملزمان سب انسپکٹر آنند دتا، ہیڈ کانسٹیبل تلک راج اور ایس پی او سریندر کمار کو شواہد مٹانے سے متعلق دفعہ 201 کے تحت سزا سنائی گئی’۔
ملزمان کے ایک اور وکیل انکر شرما نے کہا: ‘ہم فیصلے سے بہت حیران ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ایک برا فیصلہ ہے۔ یہ ایک متعصبانہ فیصلہ ہے۔ ہم اس کو چیلنج کریں گے۔ ہم فیصلے کی کاپی حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عدالوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے’۔
3 جون کو جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے استغاثہ اور وکلاء صفائی کی طرف سے پیش کئے گئے حتمی دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ رکھا تھا اور اسے دس جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
کٹھوعہ معاملہ بعض سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی طرف سے ملزمان کو بچانے کی کوششوں، ‘ہندو ایکتا منچ’ نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا بردار جلوس برآمد کرنے، کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے اور متاثرہ کنبے کے سماجی بائیکاٹ کے سبب عالمی سطح پر خبروں میں رہا۔ بچی کے حق میں درجنوں ممالک میں ریلیاں نکالی گئی تھیں۔
بتادیں کیس کی ‘ان کیمرہ’ اور ‘روزانہ بنیادوں’ پر سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے 10 جون کو سنانے کا امکان ظاہر کیا تھا۔
سپریم کورٹ کے احکامات پر 31 مئی 2018ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ پٹھان کوٹ میں کیس کی ‘ان کیمرہ’ اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اس دوران عدالت میں کیس کی قریب 275 سماعتیں ہوئیں اور 132 افراد عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے۔
کیس کی تحقیقات جموں وکشمیر پولیس کی کرائم برانچ نے کی تھی اور ملزمان کے خلاف چارج شیٹ 9 اپریل 2018ء کو پیش کی تھی۔ کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے تھے جن میں سے استغاثہ کی طرف سے 116 گواہ عدالت میں پیش کئے گئے۔ ایک مخصوص طبقے سے تعلق رکھنے والے چند گواہ عدالت میں اپنے اعترافی بیانات سے مکر بھی گئے۔
ضلع انتظامیہ پٹھان کوٹ نے عدالت کے اردگرد تین دائروں والی سیکورٹی کا بندوبست کیا تھا۔ کسی بھی فرد بشمول نامہ نگاروں کو عدالتی کمرے کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جبکہ ملزمان کو پنجاب پولیس نے بلٹ پروف گاڑی میں عدالت لایا۔
استغاثہ کی طرف سے کیس کی پیروی سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا نے کی جبکہ انہیں متعدد دیگر وکلاء بشمول کے کے پوری، ہربچن سنگھ اور مبین فاروقی (متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل) انہیں اسسٹ کررہے تھے۔ ملزمان کی طرف سے کیس کی پیروی اے کے ساونی، سوباش چندر شرما، ونود مہاجن اور انکر شرما نے کی۔
قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری 2018ء کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔
کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گائوں کے کچھ افراد نے عصمت دری کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔
جرم
منشیات سمگلنگ کا بڑا ریکیٹ بے نقاب… بارہ کروڑ روپے کے 2 کلو 183 گرام ہیروئن برآمد، اس کارروائی میں 5 سمگلروں کو گرفتار کیا گیا۔

سری گنگا نگر : راجستھان میں جاری اسمگلنگ پر پولس انتظامیہ کی گہری نظر ہے۔ اسی سلسلے میں، منگل کو سری گنگا نگر ضلع میں پولیس نے منشیات کی اسمگلنگ کے ایک بڑے ریکیٹ کا پردہ فاش کیا اور ڈرگ مافیا کو سخت جھٹکا دیا۔ پولیس نے امرتسر اور ملوٹ سے اسمگل کی گئی 2 کلو 183 گرام غیر قانونی ہیروئن برآمد کی ہے, جس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت تقریباً 12 کروڑ روپے ہے۔ اس سنسنی خیز کارروائی میں 5 سمگلروں کو گرفتار کیا گیا جن کے قبضے سے 7 پستول (6 گلوک غیر ملکی پستول، 1 زیگانہ پستول)، 13 میگزین، 32 زندہ کارتوس برآمد ہوئے۔ اس کے علاوہ ایک کار اور ایک موٹر سائیکل بھی پولیس نے قبضے میں لے لی۔
ایس پی اور ڈی آئی جی گورو یادو نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ کارروائی ڈسٹرکٹ اسپیشل ٹیم (ڈی ایس ٹی) کی انٹیلی جنس اور فوری کارروائی کا نتیجہ ہے۔ یہ آپریشن آئی پی ایس بی نے کیا تھا۔ یہ آدتیہ اور ڈی ایس ٹی انچارج رام ولاس بشنوئی کی قیادت میں انجام دیا گیا۔ اس مشن میں ڈی ایس ٹی کے اشونی کا رول سب سے اہم تھا، جن کی درست معلومات اور حکمت عملی نے اسمگلروں کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار اسمگلر پنجاب کے امرتسر اور ملوٹ سے ہیروئن لا کر راجستھان میں سپلائی کرتے تھے۔ برآمد ہونے والے غیر ملکی ہتھیاروں سے واضح ہے کہ یہ گینگ صرف منشیات فروشی تک محدود نہیں تھا بلکہ منظم جرائم میں بھی ملوث تھا۔ پولیس اب اس نیٹ ورک کے پیچھے ماسٹر مائنڈ اور دیگر مشتبہ افراد کی تلاش کر رہی ہے۔
یہ کارروائی منشیات کی اسمگلنگ اور غیر قانونی ہتھیاروں کے خلاف سری گنگا نگر پولیس کی زیرو ٹالرنس پالیسی کی عکاسی کرتی ہے۔ ڈی آئی جی گورو یادو نے کہا، ‘ہمارا مقصد منشیات فروشوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ نوجوانوں کو منشیات کی دلدل سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات مستقبل میں بھی جاری رہیں گے۔ پولیس نے اس ریکیٹ کے بین الاقوامی رابطوں اور مقامی نیٹ ورک کا پتہ لگانے کے لیے گرفتار سمگلروں سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔ اس کارروائی سے ضلع کے اسمگلروں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
جرم
مہو میں ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو جعلی شیئر ٹریڈنگ ایپ کے ذریعے 1.26 کروڑ روپے کا دھوکہ، دو ملزمان گرفتار

اندور : مہو میں ایک چونکا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ لالچ کی وجہ سے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو 1.26 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہ فراڈ ایک جعلی شیئر ٹریڈنگ ایپ کے ذریعے ہوا۔ پولیس نے اس معاملے میں دو ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ مرکزی ملزم تاحال مفرور ہے۔ ملزمان نے ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو بھاری کمائی کا لالچ دیا تھا۔ جعلسازوں نے بریگیڈیئر کو جعلی ایپ کے ذریعے سرمایہ کاری پر آمادہ کیا۔ جب بریگیڈیئر نے منافع واپس لینے کی کوشش کی تو اسے فراڈ کا پتہ چلا۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 6.50 لاکھ روپے منجمد اور 3.5 لاکھ روپے نقد برآمد کر لیے۔
سیاست
اویسی پہلگام حملے کے بعد مسلسل پاکستان پر تنقید کر رہے اور حکومت کے ساتھ جھڑپیں بھی کر چکے ہیں۔ اس طرح اسد الدین اویسی ملک کے پیارے بن گئے۔

نئی دہلی : اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے جموں و کشمیر کے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد پاکستان کے خلاف اپنے سخت موقف کے لیے گزشتہ چند دنوں میں حکمراں اور اپوزیشن دونوں جماعتوں کی طرف سے تعریف کی ہے۔ انہوں نے مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ نہ صرف پاکستان، وہ مرکزی حکومت کے ساتھ اس وقت بھی تصادم میں آگئے جب انہیں سیکورٹی کے مسائل پر بات کرنے کے لیے آل پارٹی میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا۔
اویسی کا کہنا ہے کہ انہیں آل پارٹی میٹنگ میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ان سے کہا تھا کہ حکومت صرف ان پارٹیوں کو بلائے گی جن کے کم از کم پانچ ممبران پارلیمنٹ ہوں گے۔ اویسی نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، “یہ بی جے پی یا کسی اور پارٹی کی اندرونی میٹنگ نہیں ہے، یہ تمام پارٹیوں کی میٹنگ ہے، اس کا مقصد دہشت گردی اور دہشت گردوں کو پناہ دینے والے ممالک کے خلاف ایک مضبوط پیغام دینا ہے۔ کسی پارٹی کے پاس 1 ایم پی ہے یا 100، وہ ہندوستانیوں نے منتخب کیا ہے، ایسی صورت حال میں انہیں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے، ہر ایک کا قومی نقطہ نظر ہونا چاہیے۔” انہوں نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ وہ ان جماعتوں کو بلائیں جن کے پاس ایک بھی ایم پی ہے۔ اویسی اے آئی ایم آئی ایم کے واحد ایم پی ہیں۔
پھر کیا ہوا کہ اویسی کے ایکس پوسٹ کے چند گھنٹے بعد انہوں نے بتایا کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے انہیں فون کیا ہے۔ شاہ نے اسے میٹنگ میں آنے کو کہا۔ اویسی نے آل پارٹی میٹنگ میں شرکت کی اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اب 17 مئی کی بات کرتے ہیں۔ اسد الدین اویسی ان سات ہندوستانی وفد میں شامل ہیں جو بیرون ملک جائیں گے۔ دہشت گردی کے ساتھ پاکستان کے روابط کو بے نقاب کریں گے۔ اس کے علاوہ ہم آپریشن سندور کے بعد بھارت کا موقف بھی پیش کریں گے۔ اویسی اپنی پارٹی کے واحد ایم پی ہیں۔ وہ حکومت پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اس بڑے کام میں ہندوستان کی نمائندگی کریں گے۔
اس تبدیلی کی وجہ اویسی کی ہندوستان کا رخ پیش کرنے کی خواہش ہے۔ انہوں نے پاکستانی رہنماؤں کے بیانات کا مناسب جواب دیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ملکی معاملات پر حکومت سے اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن قومی سلامتی کے معاملات میں وہ ملک کے ساتھ ہیں۔ بحران کے وقت ان کے اتحاد کے پیغامات نے ان کے مخالفین کو بھی جیت لیا ہے۔ ان کی کٹر امیج بھی بکھر گئی ہے۔ سیاسی طور پر اویسی تنہا رہے ہیں۔ اے آئی ایم آئی ایم نے حیدرآباد سے باہر توسیع کی کوشش کی ہے۔ لیکن کامیابی نہیں ملی۔ بڑی پارٹیوں نے اے آئی ایم آئی ایم کے ساتھ اتحاد کرنے سے گریز کیا ہے۔ جبکہ اویسی ایک تیز اور ذہین رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بی جے پی نے انہیں ایک بنیاد پرست کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن نے انہیں بی جے پی کی ‘بی ٹیم’ کہا ہے۔
لیکن پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد اویسی نے لوگوں کا دل جیت لیا ہے۔ یہاں تک کہ ان بنیاد پرستوں کو بھی جنہوں نے پہلے ان پر تنقید کی تھی۔ حملے کے فوراً بعد، وہ مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے سیاہ پٹیاں بانٹتے ہوئے دیکھے گئے۔ پہلگام میں دہشت گردوں نے متاثرین سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا اور پھر انہیں گولی مار دی۔ اس واقعہ کے بعد کچھ لوگ اسے ہندو مسلم مسئلہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن اویسی نے ایک مسلم لیڈر کے طور پر ایسی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔
اویسی نے پاکستان کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو بتایا کہ ہندوستانی مسلمانوں نے 1947 میں تقسیم کے دوران یہاں رہنے کا فیصلہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے 1947 میں فیصلہ کیا تھا کہ ہم ہندوستان نہیں چھوڑیں گے، ہم نے (محمد علی) جناح کے پیغام کو مسترد کر دیا تھا، ہندوستان ہماری سرزمین ہے، ہماری سرزمین ہے اور ہماری رہے گی، انشاء اللہ ان لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں جو آپ کو اسلام میں نہیں بتانا چاہتے کہ آپ اسلام کی بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس کی تعلیمات سے محروم۔”
انہوں نے پاکستان کو ایک “ناکام ملک” قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی کارروائیاں اسلام کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا، “یاد رکھیں، اگر آپ کسی ملک میں داخل ہو کر بے گناہ لوگوں کو مارتے ہیں تو کوئی ملک خاموش نہیں رہے گا، چاہے کوئی بھی اقتدار میں ہو۔ جس طرح آپ نے ہمارے ملک پر حملہ کیا، جس طرح لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا گیا اور گولی ماری گئی، آپ کس مذہب کی بات کر رہے ہیں؟ آپ خوارج سے بھی بدتر ہیں (ایک اسلامی فرقہ جسے منحرف سمجھا جاتا ہے) آپ داعش کے حامی ہیں۔” این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اویسی نے کہا کہ وہ کسی سے سرٹیفکیٹ یا تعریف حاصل کرنے کے لیے کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ اس نے کہا، “یہ میرے اندر سے آ رہا ہے، یہ ملک سے محبت ہے جو میرے والدین نے مجھے سکھائی ہے۔ میں کوئی بڑا کام نہیں کر رہا، اگر ہم ایسے وقت میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟ کیا میں خاموش رہوں کیونکہ متاثرین ہندو ہیں، وہ انسان ہیں۔” انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہمارے ملک میں کچھ ہو رہا ہے تو میں ایک رکن پارلیمنٹ، ایک انسان، ایک باپ کی حیثیت سے کیسے خاموش رہ سکتا ہوں۔
-
سیاست7 months ago
اجیت پوار کو بڑا جھٹکا دے سکتے ہیں شرد پوار، انتخابی نشان گھڑی کے استعمال پر پابندی کا مطالبہ، سپریم کورٹ میں 24 اکتوبر کو سماعت
-
ممبئی پریس خصوصی خبر6 years ago
محمدیہ ینگ بوائزہائی اسکول وجونیئرکالج آف سائنس دھولیہ کے پرنسپل پر5000 روپئے کا جرمانہ عائد
-
سیاست5 years ago
ابوعاصم اعظمی کے بیٹے فرحان بھی ادھو ٹھاکرے کے ساتھ جائیں گے ایودھیا، کہا وہ بنائیں گے مندر اور ہم بابری مسجد
-
جرم5 years ago
مالیگاؤں میں زہریلے سدرشن نیوز چینل کے خلاف ایف آئی آر درج
-
جرم5 years ago
شرجیل امام کی حمایت میں نعرے بازی، اُروشی چوڑاوالا پر بغاوت کا مقدمہ درج
-
خصوصی5 years ago
ریاست میں اسکولیں دیوالی کے بعد شروع ہوں گے:وزیر تعلیم ورشا گائیکواڑ
-
جرم4 years ago
بھیونڈی کے مسلم نوجوان کے ناجائز تعلقات کی بھینٹ چڑھنے سے بچ گئی کلمب گاؤں کی بیٹی
-
قومی خبریں6 years ago
عبدالسمیع کوان کی اعلی قومی وبین الاقوامی صحافتی خدمات کے پیش نظر پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا